بندریا شہزادی

465

میں جب جب بندریا کے متعلق اسی قسم کی کوئی بات سوچتا ہوں تووہ میرے سارے حواس پر اس طرح چھاجاتی ہے جیسی اگر میری کوئی بیٹی ہوتی تو وہ میرے حواس پر چھا جاتی۔
سب دولھا تیار ہوکر بیٹھے ہوئے تھے۔ پورے ملک میں شادیانے بج رہے تھے۔ شہزادوں کی آج شادیاں تھیں۔ ایک جانب بے شک ہر گھر میں خوشی پھیلی ہوئی تھی تو دوسری جانب پورے ملک میں ہر آنکھ اشکبار بھی تھی اس لئے کہ ملک کے ایک ایک فرد کو یہ احساس ہو چلا تھا کہ اب مہربان بادشاہت کہ دن کم ہی رہ گئے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بادشاہ کی زندگی تک تو اس سے تخت و تاج کوئی نہیں چھین سکتا تھا لیکن بادشاہ کی وفات کے بعد وزیر اعظم کا بیٹا ہی ملک کا بادشاہ بنے کا البتہ اگر عین شادی کے وقت قاضی کے پوچھنے پر بندریا نے اللہ کی رضا سے انکار میں سر ہلادیا تو پھر بادشاہت بچ سکتی ہے اس لئے پورے ملک کے عوام و خواص محل کے گرد جمع ہوگئے تھے کہ دیکھیں اب کیا ہوتا ہے۔ ملک کے قوانین کے مطابق قاضی کو یہ حق حاصل تھا کہ وہ دلہنوں سے بھی اجازت خود طلب کر سکتا تھا چنانچہ اس نے ایک ایک کرکے سب سے اجازت طلب کی تو وہ آخری امید بھی دم توڑ گئی کیونکہ جب بندریا سے قاضی نے بہت بلند آواز میں پوچھا کہ وہ ایک انسان کے ساتھ شادی کرنے پر تیار ہے تو اس نے بالکل انسانوں کے سے انداز میں شرماکے ہاں میں تین بار سر ہلادیا اور خوشی سے نکلتے آنسوؤں کو بالکل انسانوں کے سے انداز میں اپنے ہاتھ میں پکڑے رومال سے صاف کرنے لگی۔ سارا مجموعہ یہ منظر دیکھ کر حیران ہو گیا۔
اب آخری فیصلہ پھر شہزادے کہ پاس آگیا لیکن شہزادہ باوجود ہزار کوشش کسی طرح بھی انکار میں نہ تو سر ہلا سکا اور نہ ہی منہ سے انکار کر سکا۔ اس طرح سب کی شادیاں ہو گئیں۔
شادی سے کہیں پہلے تینوں شہزادوں کیلئے الگ الگ محل بنادیئے گئے تھے۔ سب دلہنوں کو ان کے اپنے اپنے محل کے حجلہ عروسی میں پہنچا دیا گیا تھا۔ سب اپنے اپنے والدین سے ملنے کے بعد اپنے اپنے محلوں کی جانب روانہ ہوگئے تھے۔
سب سے چھوٹا شہزادہ بھی نہایت بوجھل قدموں سے چلتا ہوا اپنے محل کے اس کمرے میں داخل ہوا جس میں بندریا کو بٹھا دیا گیا تھا۔ اسے اتنا تو معلوم تھا کہ وہ ایک بندریا ہی ہے لیکن اس سارے دورانیہ میں وہ ایک نہایت تربیت یافتہ بندریا ہی اسے لگی تھی اس لئے اس نے اپنا ذہن بنالیا تھا کہ اور کچھ نہیں تو وہ اس کے ساتھ کسی نہ کسی طرح زندگی گزار ہی لے گا۔ اپنے خاندان کی بادشاہت کو برقرار رکھے گا اور کسی بہت ہی نیک انسان کی اولاد کو اپنا وزیر اعظم بنائے گا تاکہ اس کے ملک کی رعایا کو کسی قسم کے دکھ کے دن نہ دیکھنے پڑیں۔ جب وہ کمرے میں داخل ہوا تو بندریا پیٹھ موڑ کر بیٹھی ہوئی تھی۔ بندریا نے پیٹھ موڑے ہی موڑے ہاتھ کے اشارے سے اسے دروازہ بند کرنے کا کہا۔ جب وہ کمرے میں داخل ہوا تھا تو اس نے کمرے کا دروازہ کھلا ہی چھوڑدیا تھا۔ اسے کمرہ بند کرنا ایک فضول سا ہی کام لگا تھا۔ بندریا کا اشارہ سمجھ کر وہ بہت ہی حیران ہوا لیکن وہ کمرہ بند کرنے سے انکار نہ کر سکا۔ اس نے پلٹ کر کمرہ بند کیا تو بندریا سیدھی ہوکر بیٹھ گئی۔ اس کا سارا جسم اور چہرہ دبیز چادر سے ڈھکا ہوا تھا۔ بندریا کے اس انداز پر شہزادہ بہت ہی ششدر رہ گیا اور بڑھ کر اس نے گھونگھٹ کی طرح لٹکی ہوئی دبیز چادر کو ہٹایا تو مارے حیرت کے اپنی سیج سے اچھل کر کھڑا ہو گیا۔ کہاں کا بندر اور کہاں کی بندریا۔ وہاں تو جنت کی حوروں سے بھی حسین ایک لڑکی بیٹھی ہوئی تھی جس کی غزال جیسی آنکھیں شرم و حیا سے جھکی ہوئی تھیں اور چہرے پر حیا کی سرخی چھائی ہوئی تھی۔
وہ گھبرا کر کمرے سے باہر بھاگنے کیلئے اٹھا کہ شاید وہ کسی غلط کمرے میں بھیج دیا گیا ہے تو ایک نہایت نرم و گزاز ہاتھ نے اس کا کندھا پکڑ لیا۔ رک جاؤ شہزادے یہ میں ہی ہوں۔ حسین و نرم و گداز ہاتھ اور پھر کانوں میں رس گھول دینے والی آواز نے اس کی حالت غیر کرکے رکھ دی۔ خوف کی ایک سرد لہر اس کے پورے جسم میں دوڑ گئی اور اس نے بصد مشکل لرزتی ہوئی آواز میں پوچھا کہ “تم کون ہو”۔ وہ اسے کوئی جنوں کی مخلوق سمجھ بیٹھا تھا جو پہلے بندریا کی صورت میں اس کے اور اس کے باپ کے ہوش و حواس پر سوار ہوئی اور اب انسانوں کا سا روپ دھار کر اس کے سامنے موجود ہے اور کچھ نہیں معلوم کہ مستقبل میں اس کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔
آواز آئی کہ شہزادے ڈرو نہیں۔ میں نے تمہاری کیفیت سے اندازہ لگا لیا ہے کہ تم مجھے کوئی “جنی” خیال کر رہے ہو اس لئے خوف زدہ ہوگئے ہو۔ تم میرے پاس بیٹھو، میں تم جیسی ہی ایک انسان ہوں۔ تم میرے پاس بیٹھو گے تو میں اپنی کہانی تم کو سناؤں گی۔
یہ اس کی آواز کا جادو تھا یا معلوم نہیں کیا، شہزادے کا سارا ڈر اور خوف جاتا رہا۔ وہ اس کے پاس بیٹھ گیا لیکن اس کا حسن ایسا تھا کہ نظر بھرکر وہ اسے دیکھ نہیں سکتا تھا۔ اس نے کہا کہ میں فلاں ملک کے بادشاہ کی بیٹی ہوں۔ جب اس نے ملک کا نام بتایا تو وہ چونک پڑا کیونکہ اس کے اپنے ملک سے ہزاروں میل دور ایک بہت رحم دل بادشاہ تھا اور اس کی رعایا اس سے بہت خوش رہتی تھی۔ بندریا شہزادی کی بات اسے یوں بھی سچ لگی کہ اسے اس بات کی خبر تھی کہ اس ملک کے بادشاہ کی بیٹی کے حسن کی شہرت کا چرچہ ہر زبان پر تھا اور پھر یہ افسوسناک خبر بھی سننے میں آئی تھی کہ شہزادی کو کچھ نامعلوم لوگوں نے اغوا بھی کر لیا ہے۔ شہزادی کے اغوا کے بعد وہاں کے بادشاہ کی حالت بہت خراب رہنے لگی ہے اور اسی ڈھونڈ کر لانے والوں کیلئے بہت بھاری انعامات کا اعلان کیا جاچکا ہے۔
شہزادے نے کہا کہ تمہاری بات مجھے سچ ہی لگتی ہے لیکن کسی انسان کا بندر بن جانا اور پھر جب چاہے انسانی روپ میں آجانے والی بات سمجھ سے باہر ہے۔
شہزادی نے کہا کہ دراصل مجھے انسانوں نے نہیں ایک جن نے میرے حسن کی وجہ سے اغوا کیا ہے ہوا ہے۔ پھر اس نے اس جن کے اس جزیرے کے بارے میں بتایا کہ وہ کہاں واقع ہے اور ساتھ ہی ایک غار کی نشاندہی کی کہ اس غار میں ایک پنجرہ ہے اور اس پنجرے میں ایک طوطا ہے اور اس طوطے میں اس جن کی جان ہے۔ اگر کوئی وہاں پہنچنے میں کامیاب ہوجائے اور کسی طرح طوطے کی گردن مروڑ کر اسے ماردے تو جن مرجائے گا۔ اگر جن مرجائے گا تو میں جادو کے اثر سے آزاد ہو جاؤں گی اور ہمیشہ ہمیشہ کیلئے انسان بن جاؤں گی۔
شہزادی نے پوچھا کہ جب اس نے تم کو اغوا کر لیا تھا اور جزیرے میں بند کر دیا تھا تو پھر تم وہاں سے ہزاروں میل دور میرے ملک کے جنگل میں کیسے پہنچیں اور بندریا کیسے بنیں۔
شہزادی نے کہا کہ مجھے یقین تھا کہ میری کہانی سن کر تم مجھ سے یہ سوال ضرور کروگے۔ انسانوں کی طرح جنوں میں بھی کچھ کمزوریاں ہوتی ہیں۔ کیونکہ میں نے اپنی گرفتاری کے بعد کسی شدید رد عمل کا اظہار نہیں کیا تھا بلکہ حالات کا مقابلہ کرنے کیلئے اپنے ذہن کو تیار کر لیا تھا اور یہ طے کر لیا تھا کہ جب تک عزت یا جان تک بات نہیں پہنچے گی میں کسی معاملے میں بھی کسی شدید رد عمل کا اظہار نہیں کرونگی۔ میں حقیقتاً بہت خوف زدہ تھی لیکن اس خوف کا اظہار میں نے ہونے ہی نہیں دیا۔ میں جاننا چاہتی تھی کہ جن مجھ سے کیا چاہتا ہے اس لئے خاموشی سے جائزہ لیتی رہی۔ میرے اس طرح ہتھیار ڈال دینے کی وجہ سے جن میری جانب سے کسی حد تک مطمئن ہو گیا۔ وہاں چند گھنٹوں میں ہی مجھے یہ احساس بھی ہوا کہ جن کے دیکھنے، سننے یا سونگھنے کی حس ہر وقت ایک جیسی نہیں ہوتی بلکہ جب وہ کسی مشن پر ہوتا ہے تو وہ میلوں دور کی آہٹیں سن لیتے ہیں، میلوں فاصلے تک نہ صرف دیکھ لیا کرتے ہیں بلکہ وہ جس کو پہچاننا چاہیں پہچان لیتے ہیں اور جس کی بو سونگھنا چاہیں سونگھ لیتے ہیں۔ سونگھنے کی اسی صلاحیت کی وجہ سے انھیں سات پردو میں چھپا ہوا انسان بھی نظر آجاتا ہے۔ یہ سب باتیں جان لینے کی وجہ سے مجھے اس کے کئی راز معلوم ہوگئے جو وہ اپنے جن دوستوں سے کیا کرتا تھا۔ اسی میں مجھے پتا چلا کہ اس کے جن دوستوں میں سے ایک دوست اس سے دشمنی بھی رکھتا ہے۔ (جاری ہے)

حصہ