کراچی یا کچراچی

448

ڈاکٹر زرینہ
کسی شہر کو اس کی خوش نما بلڈنگوں‘ کشادہ سڑکوں اور صاف ستھرے ماحول کی وجہ سے ہی نمبر دیے جاتے ہیں۔ کبھی ہمارا شہر کراچی بھی ان شہروں میں شمار ہوتا تھا جس کو بڑا شہر ہونے کے علاوہ رونق والا بھی مانا جاتا تھا۔ اس کو ’’روشنیوں کا شہر‘‘ بھی کہا جاتا تھا۔
ہم اپنے شہر کی تعریف سن کر بہت خوش ہوتے تھے لیکن اب ہائے افسوس صد افسوس اس شہر کے کسی حصے میں ضرورت سے ایک اچھوٹا سا رائونڈ ہی لگایا جائے تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ یہ کراچی وہ کراچی ہی نہیں یہ تو ’’کچراچی‘‘ ہے۔ ہر طرف کچروں کے ڈھیر‘ بعض پلوں کے نیچے تو کچرے کا پہاڑ کھڑا ہے۔ چھوٹی گلی‘ بڑی سڑک کوئی بھی ایسی جگہ نہیں جہاں کچرا سجا ہوا نہ ہو۔ اسی وجہ سے تو بعض جگہ ایسا تعفن اور بدبو ہے کہ سانس لینا مشکل۔ اگر ٹریفک پھنسا ہوا ہو اور آپ کسی ایسی جگہ ہوں جہاں کچرا سڑ رہا ہو اور بدبو نکلنے کا کوئی راستہ نہ ہو تو سوائے استغفراللہ پڑھنے کے کوئی اور چارہ نہیں۔
یہ بات بھی بالکل سچ ہے کہ کراچی سب کا ہے اور کراچی کا کوئی نہیں۔ کراچی کے تمام ’’ذمہ داروں‘‘ کو جمع کرلیں کیا سٹی‘ کیا وفاق‘ کیا صوبہ اور ہاں شہریوں کو بھی ان ذمہ داروں کی لائن میں ضرور لگائیں۔ سب ایک دوسرے پر الزام تھونپنے اور ذمہ داری ڈالنے میں ایک سے بڑھ کر ایک ہوں گے۔
اتنا زیادہ کچرا دیکھ کر تو گمان ہوتا ہے کہ شایدکراچی کبھی صاف نہ ہو پائے‘ اتنا منوں ٹنوں کچرا کس طرح اٹھ سکتا ہے؟ بالکل ناممکن نظر آتا ہے کیوں کہ کبھی اتفاق ہی سے کوئی گاڑی کچرا اٹھاتی نظر آتی ہے جب کہ اتنے بڑے شہر کے لیے تو ہزاروں گاڑیاں ہونی چاہیے۔ ایک ذمہ دار حکومت کہتی ہے کہ ہمارے پاس فنڈز نہیں‘ ہم کام کیسے کریں‘ دوسری پارٹی کہتی ہے کہ ورکر نہیں‘ بھلا ہو کرپشن کا۔ یہ کرپشن تو ہماری اسلامی جمہوریہ پاکستان کا بہت پہلے سے کلچر اور پسندیدہ طرز ہے کام لینے والوں کا بھی اور کام کرانے والوں کا بھی۔ کرپشن‘ سستی‘ غیر ذمہ داری اور پارٹی بازی کے ساتھ عوام کی کچرا بازی بھی پوری طرح شامل ہے۔ انہوں نے اپنے گھر کا کچرا اٹھایا اور جہاں تک آرام سے ہاتھ جاسکتا ہو صرف اتنا کہ اپنا گھر متاثر نہ ہوتا ہو‘ وہاں بہت آرام سے بلاجھجک پھینک دیا چاہے وہ کسی اور کا گھر ہو‘ گلی ہو‘ سڑک ہو‘ نالہ ہو یا کچھ اور چلتی گاڑی سے فالتو اشیا سڑک پر پھینک دینا تو کوئی بات ہی نہیں ہے۔ عوام اس مقولہ پر عمل کرتے ہیں کہ آپ بھلے تو جگہ بھلا‘ اپنی فکر کرلی یہی کافی ہے۔
باہر کے ممالک جیسا نظام آنے میں تو میرا خیال ہے سو سال بھی کم ہیں۔ جہاں ٹیکس کے پیسوں سے ہر گھر کو دو‘ دو ڈرم دیے جاتے ہیں ایک عام کچرے کا اور ایک اسپیشل کچرا (شیشے وغیرہ) ڈالنے کے لیے اور ہفتے میں دو دن گاڑی آکر ان کو باہر سے ہی خال کرکے دوبارہ رکھ جاتی ہے۔
فی الحال ایسے خواب دیکھنا تو ہمارے لیے بالکل حماقت ہے لیکن ہمارے یہاں بھی گھریلو کچرے کے لیے قریب قریب جگہ جگہ ڈرم رکھے جاسکتے ہیں۔ امید ہے کہ اس سہولت سے عوام ضرور فائدہ اٹھائیں گے کیوں کہ عوام کچھ نہ کچھ صفائی پسند کرتے ہیں لیکن اس سے زیادہ ضروری ہے کہ ان ڈرموں کا کچرا جلدی جلدی اٹھوا لیا جائے۔
ہم مسلمان ہیں اور ہمارے دین میں تو صفائی نصف ایمان ہے۔ یا اللہ ہماری حکومت اور ہمارے عوام کو اتنی ہدایت دے کہ ہم ایمان داری اور ذمہ داری سے اپنا کام کریں۔ ہمیں اتنے مالی وسائل اور ذرائع دے کہ ہمیں اپنا کام کرنا آسان ہو جائے۔

۔’’کراچی‘‘ جو ایک شہر تھا عالمِ انتخاب میں
ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے

اللہ کراچی کو پھر سے صاف ستھرا اور روشنیوں کا شہر بنادے‘ آمین۔

حصہ