میرا بیٹا

557

سیدہ عنبرین عالم
۔’’ابا! آپ تو مجھ سے بات ہی نہ کیا کریں، ہر وقت الٹی سیدھی باتیں… میری برداشت ختم ہوگئی ہے۔‘‘ فہیم زور سے چلّایا۔ ابا چپ ہوگئے، پھر سے اخبار پڑھنے لگے۔ فہیم جاکر کھانا پکانے لگا۔ کل اس کا ٹیسٹ تھا، اسے ٹیسٹ کی بھی فکر تھی۔
فہیم ہر وقت غصے ہی میں رہتا تھا۔ وہ بدتمیز نہیں تھا، بس اپنے حالات سے تنگ تھا۔ معین صاحب اب 75 سال کے ہوچکے تھے، اپنے وقت میں فراست کی مثال سمجھے جاتے تھے، مگر اب اکثر کم عقلی کی بات کرجاتے تھے جس پر فہیم سلگ اٹھتا تھا۔ معین صاحب گیارہ بہنوں کے اکلوتے بھائی تھے، وہ بھی سب سے بڑے۔ ان کے والد آخری بہن کے پیدا ہونے کے تین سال بعد انتقال کرگئے اور معین صاحب پر ساری ذمے داری آن پڑی۔ بہنیں بیاہتے بیاہتے پچاس سال کے ہوگئے پھر جاکر بہنوں کو اُن کی شادی کا خیال آیا اور ایک نہایت غریب گھرانے کی خوب صورت لڑکی سے شادی کردی۔ خوب دھوم دھام سے شادی ہوئی، ولیمے میں انواع و اقسام کے پکوان تیار کیے گئے۔ معین صاحب فضول خرچی سے منع ہی کرتے رہ گئے، مگر بہنوں کے پاس ایک ہی جواب تھا کہ ہمارا ایک ہی تو بھائی ہے۔ مگر شادی دو سال بھی نہ چل سکی۔
گل بہار نے جو گنجا، بوڑھا شوہر دیکھا، اُس کے سپنے وہیں ٹوٹ گئے، اسی وقت ٹھان لی کہ اس شخص کے پیچھے زندگی برباد نہیں کرنی۔ خوب صورت ایسی کہ سب ایک جھلک دیکھنے کو بے تاب۔ حالانکہ معین صاحب سخت پردہ کراتے تھے، مگر عورتیں تک اس کے ملکوتی حسن سے دنگ تھیں اور ہر گھر میں چرچے تھے۔ بہنوں نے اپنی طرف سے تو نیکی کی کہ بھائی کے لیے پری لاکر دے دی، مگر ایک پل کو نہ سوچا کہ اس لڑکی کے دل پر کیا قیامت گزرے گی۔ بہرحال گل بہار نے اپنے رویّے سے کبھی ظاہر نہ ہونے دیا کہ وہ اس شادی سے خوش نہیں۔ گیارہ کی گیارہ بہنیں اپنے بال بچوں سمیت ہر اتوار کو آدھمکتیں، تقریباً 50 لوگوں کا کھانا ہر اتوار کو پکا پکاکر بے چاری کی حالت خراب ہوجاتی، پھر ساری نندیں مل کر گھر کی ہر ہر چیز میں دخل دیتیں، ہر بات میں نقص نکالتیں۔ گل بہار کے سامنے معین صاحب کو کہتیں کہ اس پر نظر رکھیے گا۔ کبھی جو گل بہار نے ایک لفظ بھی کہہ دیا تو پورے کا پورا ٹبر اُس پر ٹوٹ پڑتا اور معین صاحب چپ کرکے بیوی کی درگت بنتے دیکھتے۔
آخرکار فہیم پیدا ہوا۔ گل بہار کو احساس ہوچکا تھا کہ اس کی حیثیت ہمیشہ زرخرید غلام کی رہے گی، معین صاحب کبھی اپنی بہنوں کے سحر سے باہر نہیں نکل سکتے، گھر کے ہر معاملے میں کنجوسی تھی، حتیٰ کہ فہیم بھی سرکاری اسپتال میں پیدا ہوا۔ ابھی تک ولیمے کا ہی قرض نہ اترا تھا۔ مگر بہنوں کی سالگرہوں پر، اُن کے بچوں کی تقریبات پر، عید تہوار پر بڑھ چڑھ کر تحفے دیے جاتے، دعوتیں ہوتیں، اور خود کسی بہن کے گھر جاتے تو کہتے بہن کے گھر کا پانی بھی حرام ہے۔ گل بہار نے تو منہ دھونا، کنگھی کرنا تک چھوڑ دیا تھا، اس کے باوجود معین صاحب کی بہنیں اٹھتے بیٹھتے یہی کہتیں کہ بیوی کے پیچھے بہنوں کو نہ بھول جانا۔ بہرحال ایک سبزی والا جو روز معین صاحب کے گھر پر سبزی دیتا تھا، گل بہار کا اترا رنگ، باسی روپ دیکھ کر کڑھتا تھا۔ پرانا تھا، سب حالات سمجھتا تھا۔ ایک دن جب گل بہار نے اُس پر خودکشی کا ارادہ ظاہر کیا تو اُس نے کہا: بیٹی میرے سال چل۔ وہ لے گیا اور اپنے 22 سال کے بیٹے سے نکاح پڑھوا دیا۔ مولوی کو بتایا تک نہیں کہ لڑکی پہلے سے شادی شدہ ہے۔ جب گل بہار نے اعتراض کیا تو کہا: بیٹی وہ اللہ کی نظر میں شادی تھی ہی نہیں، وہ تو مجبوری کا سودا تھا۔ پھر بھی خلع کا کیس دائر کیا۔ جب تک خلع مل نہیں گیا، بیٹے کو گائوں بھیج دیا اور گل بہار کو اپنے گھر میں رکھا۔ خلع کے بعد دھوم دھام سے شادی ہوئی۔ گل بہار کو وہ عزت اور مقام ملا کہ وہ اپنے ایک سال کے ننھے بیٹے کو بھی بھول گئی، جہنم سے نکلنے پر اللہ کا شکر ادا کیا۔
معین صاحب کو بہت بڑا جھٹکا لگا، آئندہ کے لیے شادی سے انکار کردیا۔ بہنوں نے بھائی میں ہی خامیاں نکالیں کہ پتا نہیں کیا کردیا جو بیوی چھوڑ گئی۔ معین صاحب نوکری پر جاتے اور فہیم کبھی اِس پھپھوکے گھر، کبھی اُس پھپھو کے گھر۔ دن رات ماں کی طرح غلامی بھی کرتا اور ماں کے نام کے طعنے بھی سنتا۔ اس کا یہ حال تھا کہ جیسے ہی کوئی پھپھو کہتی کہ تیری ماں تو گھر سے چلی گئی تھی، اس پر دورہ پڑ جاتا۔ مزاج بھی روز بہ روز تلخ ہوتا جارہا تھا۔ معین صاحب کو خیال آیا کہ ان بہنوں کی وجہ سے بیوی سے ہاتھ دھوئے، کہیں بیٹا بھی ہاتھ سے نہ چلا جائے۔ گھر بیچا، سب کے حصے دیے، ریٹائر بھی ہوگئے تھے، بنا کسی سے کچھ کہے سنے اپنے دس سال کے فہیم کو لے کر ایک غریب بستی میں ایک کمرے کا کرائے کا گھر لے کر رہنے لگے۔ ہر بہن سے، ہر رشتے دار سے تعلق توڑ لیا۔
گھر کے اپنے حصے کے پیسے اور گریجویٹی کے پیسے ایک قابلِ اعتماد دوست کو کاروبار کے لیے دیے، وہ منافع کی رقم دیتا اور پنشن بھی آجاتی، گزارا چل رہا تھا۔ فہیم کا علاج بہت مہنگا تھا جس کی وجہ سے تنگی تھی۔ ہر ہفتے ہی دورہ پڑتا۔ غصہ تو ایسا تھا کہ کہیں کسی نے کچھ کہہ دیا تو مرنے مارنے پر تل جاتا۔ پڑھائی چل رہی تھی، بہت اچھے نتائج آتے، مگر ذہنی کیفیت کی وجہ سے کچھ سال ضائع ہوگئے۔ ستم یہ ہوا کہ معین صاحب نے بنا لکھت پڑھت دوست کو پیسے دیے تھے، وہ اچھے دل کا تھا، منافع سے دگنی چوگنی رقم دے دیتا تھا، اب جو اس دوست کا انتقال ہوا تو اس کے بیٹے مانے ہی نہیں کہ معین صاحب کی کوئی رقم لگی ہوئی ہے۔ رقم بھی ڈوبی، آمدنی کا ذریعہ بھی ختم۔ معین صاحب کو ایسا صدمہ ہوا کہ کسی کام کے لائق نہ رہے، بستر سے ہی لگ گئے۔ ساری ذمہ داری فہیم پر آگئی۔ گھر کا سودا سلف، کھانا پکانا، صفائی، خود ڈاکٹروں کے پاس بھاگنا، معین صاحب کو ڈاکٹروں کے پاس لے لے کر پھرنا، پھر پڑھائی۔ ٹیوشن بھی پڑھاتا تھا اور رات میں ایک کال سینٹر میں بھی کام کرتا تھا، پھر بھی آدھی آمدنی گھر کے کرائے، بلوں اور سواریوں کے کرائے میں ختم، اور آدھی دوا علاج میں۔ ہاتھ تنگ ہی رہتا اور فہیم گرم ہی رہتا۔
آج جو ابا کو مرغی کا سوپ بنا کر دیا تو ابا نے کہہ دیا کہ یہ سوپ تو گٹر میں بہا دینے کے لائق ہے۔ فہیم کی جان ہی جل گئی۔ اب جیسے تیسے وہ کھانا پکاتا تھا، پھر ابا کے لیے کبھی سوپ، کبھی میٹھا وغیرہ بھی بنادیتا تھا۔ کہیں سے سیکھا تو تھا نہیں، اور پھر وقت کی کمی… جو بھی بن جاتا، بس کھانا ہوتا۔ مگر معین صاحب خامیاں نکالنا نہ بھولتے، بلکہ ہر آئے گئے سے بھی شکایت کرتے۔ بوڑھے ہوگئے تھے، اپنے اکلوتے بیٹے کے جذبات سے زیادہ ذائقوں کو اہمیت دے بیٹھتے۔ پھر بات بے بات اپنی ایک ایک بہن کو یاد کرتے رہتے تھے۔ فہیم کا یہ حال کہ کسی پھپھو کا نام بھی لے لو تو اُس کے سر سے پائوں تک آگ لگ جاتی۔ باپ بیٹے میں ہر وقت ہی جنگ رہتی۔ پھر کمرہ بھی ایک، رات بھر نوکری کرکے فہیم دوچار گھنٹے سونا چاہتا تو معین صاحب وقت گزاری کے لیے کسی نہ کسی دوست کو فون ملا لیتے اور زور زور سے باتیں شروع کردیتے۔ فہیم فون بند کرنے کو کہتا تو کہتے: ابھی تم سورہے ہو، پھر دھڑادھڑ گھر کے کاموں میں لگ جائو گے، پھر ٹیوشن پڑھانے نکل جائو گے، میں کس سے باتیں کروں؟ گھر پر ہوتے ہو تو بھی پڑھائی لے کر بیٹھ جاتے ہو، مجھ سے بات ہی نہیں کرتے۔ فہیم نے ان کا فون لے کر الماری کے اوپر رکھ دیا۔ اب جب گھر سے باہر ہوتا تو ہی انہیں فون دیتا تاکہ رابطہ رہے، اس کے علاوہ وہ بات کر ہی نہیں سکتے تھے۔ معین صاحب کو فہیم سے اس لیے چڑ تھی کہ اس کی وجہ سے ان کی بہنیں چھوٹ گئیں۔
ایک روز فہیم اپنے ابا کو لے کر ایک ڈاکٹر کے پاس گیا۔ سانس کے مریض تھے، جب لفٹ سے اوپر کی منزل پر جانے لگے تو دیکھا کہ لفٹ آپریٹر کے دونوں ہاتھ نہیں ہیں، معین صاحب وہیل چیئر پر براجمان تھے، انہوں نے پوچھا ’’ارے میاں ! ہاتھ کیسے کٹ گئے؟ سعودی عرب میں دو مرتبہ چوری کی تھی کیا…؟‘‘
فہیم کا خون خشک ہوگیا۔ ’’سوری، سوری بھیا! ابا بوڑھے ہو گئے ہیں، معاف کردو۔‘‘ فہیم نے جلدی سے لفٹ آپریٹر سے معافی مانگی اور مطلوبہ فلور سے پہلے ہی وہیل چیئر لے کر باہر نکل گیا۔
۔’’ہاں ہاں کہہ دو کہ باپ پاگل ہو گیا ہے، بکواس کر رہا ہے، تم بیچ میں بولتے کیوں ہو جب میں کسی سے بات کرتا ہوں؟ تم میرے باپ ہو یا میں تمہارا باپ ہوں؟‘‘ معین صاحب زور زور سے فہیم کو ڈانٹنے لگے۔ فہیم ان کی وہیل چیئر لے کر دوسری لفٹ میں داخل ہو گیا۔ ’’ہاں بھئی تمہارے ہاتھ ہیں کہ نہیں ہیں؟‘‘ معین صاحب دوسرے لفٹ آپریٹر سے بولے۔ ’’بیٹا! اچھی بات ہے کہ تم چوری نہیں کرتے، ورنہ تمہارے ہاتھ بھی جاتے۔‘‘ لفٹ آپریٹر ہکابکا معین صاحب کو دیکھتا کا دیکھتا رہ گیا۔
ایک دن معین صاحب نے فہیم کو بہت تنگ کیا، مسلسل ڈانٹتے رہے۔ فہیم کو چکر آنے لگے، مستقل ذہنی دبائو اس کی جان کے لیے بہت خطرناک تھا، لہٰذا اس نے فیصلہ کیا کہ صبح نوکری سے واپس آکر مسجد میں جاکر سوئے گا، گھر نہیں جائے گا۔ صبح سات بجے جاکر سویا تو ظہر تک سویا رہا، بڑے دنوں بعد سکون کی نیند آئی تھی۔ اٹھا تو دل بے تاب تھا کہ کھانا نہیں پکایا، ابا کیا کھائیں گے! مگر دل اس قدر افسردہ تھا کہ آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ ماں تو تھی نہیں، اور باپ اسے اپنے تمام مسائل کی جڑ سمجھتا تھا۔ بھائی، بہن بھی نہیں کہ دل ہلکا کرلے۔ اپنی طرف سے وہ باپ کی خدمت میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا تھا، مگر باپ کی زہریلی زبان اسے مارے ڈال رہی تھی۔
نماز ختم ہوگئی، سب چلے گئے۔ فہیم بیٹھا ہوا تھا، پرانا نمازی تھا، امام صاحب کے سامنے ہی بچے سے بڑا ہوا تھا۔ امام صاحب آکر بیٹھے، دل کا سارا دکھ بیان کردیا۔ ’’بیٹا! اللہ نے تمہیں بڑی آزمائش میں ڈالا ہے، جو تمہارے والد کا رویہ ہے وہ ان کی تربیت کا نتیجہ ہے، اسی وجہ سے ان کی تمام بہنیں اور تمہارے ابا ایک ہی جتنے بدمزاج ہیں۔ بات یہ ہے کہ وہ اب 75 سال کے ہوچکے ہیں، نہ ان کی عادتیں بدلی جا سکتی ہیں، نہ انہیں تنہا چھوڑا جا سکتا ہے، اس کا واحد حل یہی ہے کہ تم ان کی باتوں کو دل پر لینا چھوڑ دو، جو کہتے ہیں کہنے دو، تم جواب نہ دو، بہرحال وہ تمہارے والد ہیں، عزت کا مقام ہے ان کے لیے، تم بدزبانی کرو گے یا خدمت میں کوتاہی کرو گے تو گناہ گار ہوگے۔‘‘ امام صاحب نے سمجھایا۔
۔’’یعنی ماں باپ کے لیے جائز ہے کہ وہ بچوں کی محبت کا ناجائز فائدہ اٹھائیں، ان کا دل توڑیں، انہیں ذلیل کریں، ان کا کھانا پینا، سونا جاگنا حرام کردیں؟ ہر گناہ صرف بچوں کے لیے ہی ہے؟‘‘ فہیم تڑپ کر بولا۔
۔’’نہیں بیٹا! ایسے نہیں کہتے۔ میرا رب رحمن و رحیم ہے، وہ ناجائز بوجھ کسی پر نہیں ڈالتا، وہ اپنے تمام بندوں سے پیار کرتا ہے، میرے رب نے جو اصول بنائے ہیں وہ انسانوں کی بہتری کے لیے ہی ہیں۔ بڑھاپے میں ماں باپ کا عقل سے گزری ہوئی یا سخت باتیں کرنا معمول کی بات ہے، ان سے ایسے ہی درگزر کرو جیسے تمہارے بچپن میں وہ تمہاری احمقانہ باتوں پر ہنس دیا کرتے تھے۔ یہ تو قرآن میں لکھا ہوا ہے کہ جن کی عمر زیادہ ہوجاتی ہے وہ خلقت میں پلٹا دیے جاتے ہیں، یعنی دوبارہ بچے بن جاتے ہیں، پھر وہ اپنے بچوں کے لیے امتحان بن جاتے ہیں۔ تم اپنے ابا کے لیے نہیں بلکہ اپنے رب کی رضا کے لیے برداشت کرو۔‘‘ امام صاحب نے کہا۔
فہیم نے اثبات میں سر ہلایا۔ ’’امام صاحب! کل ابا کے لیے سوٹ کا کپڑا لایا تھا، انہوں نے دیکھا بھی نہیں اور چیخنا چلّانا شروع کردیا کہ تم گھٹیا کپڑا لائے ہوگے، مجھ پر تم خرچ کرنا نہیں چاہتے۔ مجھے غم یہ ہے کہ پہلے وہ دیکھ تو لیتے۔ بھنگی سے جھگڑا، سبزی والے سے جھگڑا، محلے والوں سے جھگڑا۔ کئی بار ان کی خدمت کے لیے لڑکا بھی رکھا، اتنا تنگ کرتے ہیں کہ ہر لڑکا چار دن میں چھوڑ کر بھاگ جاتا ہے، بہت پریشان ہوں میں۔‘‘ اس نے بتایا۔
امام صاحب مسکرانے لگے۔ ’’بیٹا! ایک بات بتائوں، جہاد کا حکم قرآن میں دیا گیا، تو صرف جہاد پر ثواب نہیں ہے، ہر قدم پر ثواب ہے، پسینے کے ہر قطرے پر ثواب ہے۔ اسی طرح جب اللہ نے ماں باپ کی خدمت کا حکم دیا تو صرف خدمت پر ثواب نہیں ہے، بلکہ ان کی ہر زیادتی برداشت کرنے پر بھی ثواب ہے۔ ان کی پہنچائی ہوئی تکلیف پر جو تمہارے آنسو بہیں، ان پر بھی ثواب ہے۔ میرا رب بڑا منصف ہے۔‘‘ انہوں نے کہا۔
۔’’مگر میں خود بیمار ہوں، اوپر سے شدید محنت، اور دیکھیے گھر کا سکون بھی نصیب نہیں۔‘‘ فہیم نے کہا۔
۔’’بے شک بیٹا! تم اجر پر اجر کما رہے ہو، بڑا بلند مقام ہوگا ان شاء اللہ تمہارا میرے رب کے ہاں، مگر دیکھو تو سہی کہ ایک تو تمہارے ابا کو وراثت میں بدمزاجی ملی، پھر چھوٹی سی عمر میں وہ ذمہ داریوں میں گھر گئے، شادی ہوئی تو گھر نہ بسا، بچہ ہوا تو وہ بھی بیمار، اب پھر عمر کا تقاضا۔ صبر کرو اور کوئی حل نہیں۔‘‘ امام صاحب نے فرمایا۔
۔’’شکریہ امام صاحب! اللہ آپ کو مزید علم اور ہدایت نصیب فرمائے۔‘‘ فہیم نے کہا اور اٹھ کر گھر چلا گیا۔
فہیم کو معلوم تھا کہ معین صاحب کی جان بہنوں میں یوں اٹکی ہے جیسے جن کی جان طوطے میں، لہٰذا ایک روز دوست سے گاڑی لی اور ابا کو لے کر چل پڑا کہ ان کو ایک بار ان کی ساری بہنوں سے ملوا دوں۔ ایک رشتے دار سے سب کے پتے معلوم کیے، کیوں کہ 15 سال سے رابطہ نہ تھا۔ ابا بڑے خوش تھے۔ نیا سوٹ پہنا، پہلی بہن کے ہاں پہنچے تو وہ بڑے تپاک سے ملیں، ڈرائنگ روم میں بٹھایا، باتیں کیں، پھر کہنے لگیں ’’اس فہیم پر نظر رکھیے گا…‘‘ معین صاحب کے سینے پر جیسے چھری چل گئی، فوراً اٹھ گئے۔ دوسری بہن کے ہاں پہنچے، انہوں نے تو بریانی بھی کھلائی، کھیر بھی پیش کی، بھائی سے مل کر روئیں دھوئیں، پھر فہیم سے کہنے لگیں ’’بیٹا! کبھی پتا بھی کیا کہ تمہاری ماں کہاں چلی گئی تھی، اور اب کہاں ہے؟‘‘ معین صاحب نے خوب کھری کھری سنائیں اور کبھی نہ ملنے کی قسم کھائی۔ تیسری بہن کے ہاں بڑے بوجھل دل سے پہنچے۔ انہوں نے فہیم کی ماں کے متعلق تو کوئی بات نہ کی، مگر طعنہ دیا کہ اتنے عرصے بعد آئے تو بھانجے بھانجیوں کے ہاتھ دو، دو ہزار تو رکھتے۔ معین صاحب نے کہا کہ کبھی پتا نہ کیا کہ بوڑھا بھائی اپنے بیمار بیٹے کے ساتھ کیسے گزارا کررہا ہے، طعنہ دینے کھڑی ہوگئیں… بہرحال باقی بہنوں سے ملنے کا ارادہ موقوف کیا اور گھر چل پڑے۔
فہیم ابا کے لیے سیب لے کر آیا تھا، وہ خود کوئی پھل نہ کھاتا تھا، صرف ابا کو دیتا تھا۔ وہ آنے والے طوفان کے لیے تیار تھا۔ ابا کو سیب کاٹ کر دیے تو ابا نے خاموشی سے کھا لیے۔ وہ حیران۔ ’’ابا آپ نے چپ چاپ سیب کیسے کھا لیے؟ نہ سیب کی کوالٹی پر ہنگامہ کیا، نہ سیب کاٹنے کے انداز پر اعتراض کیا۔‘‘ اس نے کہا۔
ابا کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ ’’کیوں کہ مجھے معلوم ہے کہ پوری دنیا میں صرف میرا بیٹا ہی ہے جو اتنی محبت سے مجھے سیب کاٹ کر دیتا ہے، ایسی محبت کروڑوں اربوں دے کر بھی میں نہیں خرید سکتا‘‘ انہوں نے کہا، اور فہیم کو گلے سے لگا لیا۔ دونوں دیر تک روتے رہے، اور اس کے بعد فہیم اور اس کے ابا میں کبھی لڑائی نہیں ہوئی، یہاں تک کہ فہیم نے ذہنی امراض کی دوائیاں کھانا بھی بند کردیں۔
ماں باپ اور اولاد کا رشتہ ایسا ہے کہ لاکھ تلخ حقیقتوں کے باوجود محبت ماند نہیں پڑتی اور ساتھ بھی نہیں چھوٹتا۔ اور جب ساتھ ٹوٹ ہی نہیں سکتا تو کیوں ناں اس ساتھ کو خوش گوار بنا لیا جائے۔ بچوں کی اچھی تربیت کے لیے کبھی کبھار سختی کرنا ماں باپ کا حق ہے، مگر یہ نہ ہو کہ یہ روک ٹوک اتنی زیادہ اور بے سبب ہو کہ اپنے بچے متنفر ہی ہوجائیں۔ میرے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے کہ ہر چیز میں میانہ روی اختیار کرو، نہ ہی اتنا لاڈ ہو کہ بچے کو بگاڑ کر رکھ دے، نہ اتنی اہانت کہ بچے کا دل ہی ٹوٹ جائے۔ میرا اللہ ہم سب کو ایسی آزمائشوں سے محفوظ رکھے جن کا بوجھ اٹھانے کی ہم میں سکت نہیں۔

حصہ