شریک مطالعہ: “اسکندر مرزا کی یادداشتیں”۔

664

نعیم الرحمن
(دوسرا اور آخری حصہ)
یہ ایک حیرت ناک انکشاف ہے۔ قانون کی باریکیوں کو سمجھنے والے قائداعظم نے ایک ڈپٹی کمشنر سے ایسا وعدہ کیوں لیا؟ برطانوی وزیراعظم ایٹلی نے دارالعوام میں ہندوستان سے جون 1948ء تک برطانوی راج ختم کرنے کا اعلان کردیا۔ اس صورتِ حال میں فروری 1947ء میں مجھے فون پر ملاقات کے لیے گھر طلب کیا۔ وہ کسی بھی پیچیدہ مسئلے سے بڑی ذہانت کے ساتھ نمٹ سکتے تھے۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ انہیں ڈر ہے کہ اُس وقت تک وہ پاکستان حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتے جب تک کوئی سنگین قسم کا ہنگامہ نہ کھڑا کیا جائے، اور ایسا کرنے کے لیے بہترین جگہ صوبہ سرحد ہے جہاں قبائلیوں کے ذریعے یہ کام کرایا جاسکتا ہے۔ وہ چاہتے تھے کہ مذاکرات ناکام ہونے کی صورت میں مَیں اپنی ملازمت سے مستعفی ہوجاؤں اور قبائلی علاقے میں جاکر جہاد شروع کردوں۔ تمام تر تحفظات کے باوجود میں قائداعظم کے منصوبے پر عمل کرنے کے لیے تیار تھا، میں اپنے اوپر کسی ایسے آدمی کا ٹھپہ نہیں لگوانا چاہتا تھا جو عمل کے وقت خاموش کھڑا رہے۔ تھوڑے اخراجات کے بعد میں تیراہ اور مہمند قبائل میں کچھ ہنگامے کرا سکتا تھا۔ اس سلسلے میں رقم کا تخمینہ ایک کروڑ روپے تھا جو میں نے انہیں بتادیا۔ جناح صاحب کو ان تمام ضروریات کا پہلے سے اندازہ تھا۔ پیسے تیار تھے۔ کہانی یہ تھی کہ خان آف قلات سے میری ملاقات طے تھی اور رقم نواب بھوپال نے فراہم کی تھی۔ مجھے اُسی روز خط مل گیا اور ابتدائی سرگرمیوں کے لیے بیس ہزار روپے میری صوابدید پر تھے۔ قائداعظم نے مجھے یہ بھی یقین دہانی کرائی کہ اگر مجھے کچھ ہوا تومیرے خاندان کی پوری طرح دیکھ بھال کی جائے گی۔ میں نے کام شروع کردیا۔ لیکن مئی کے اوائل میں قائداعظم نے مجھے بتایا کہ پاکستان بننا منظور ہوگیا ہے، لہٰذا یہ منصوبہ ترک کردیا گیا ہے۔‘‘
ایسے بہت سے انکشافات ’’اسکندر مرزا کی یادداشتیں‘‘ میں موجود ہیں۔ آزادی کے بعد ایک مرتبہ جب اسکندر مرزا کی ملاقات گورنر جنرل قائداعظم سے ہوئی تو وہ بتاتے ہیں کہ ’’گفتگو کے دوران میں نے ان سے کہا کہ مسلم لیگیوں کے بارے میں ہمیں سوچنا چاہیے، کیوں کہ کچھ بھی ہو انہوں نے پاکستان بنایا ہے۔ جناح صاحب نے فوراً جواب دیا: کون کہتا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ نے بنایا ہے؟ پاکستان اپنے اسٹینو گرافرکے ساتھ میں نے بنایا ہے۔‘‘۔
یہ اعلان ہوچکا تھا کہ برطانیہ 15 اگست 1947ء کو اقتدار چھوڑ دے گا۔ بطور جوائنٹ سیکریٹری حصوں کی تقسیم کے سلسلے میں پاکستان کے مفادات کی نگرانی اسکندر مرزا کو سونپی گئی۔ فیروزپور میں ضروری اسلحہ جات پر توجہ مرکوز کرنے کے لیے انہوں نے اپنے اختیارات استعمال کیے۔ اُس وقت یقین تھا کہ فیروزپور پاکستان کے پاس آئے گا، کیوں کہ یہ پنجاب کی اس تقسیم کے کام میں، جو ریڈ کلف کمیشن کے ذمے تھی، مسلم اکثریت کے ضلعوں میں آتا تھا۔ لیکن ریڈ کلف ایوارڈ میں فیروز پور بھارت کو دے دیا گیا۔
اسکندر مرزا کے مطابق دونوں جانب آبادیوں کی وسیع پیمانے پر ہجرت کا قائداعظم کو اندازہ نہیں تھا۔ شمال مغربی سرحدی صوبے سے ہندوئوں کا انخلا نہ ہندو چاہتے تھے، نہ ہی پٹھانوں کی اکثریت اس کی خواہاں تھی۔ اس کا باعث صرف سرحد کے کشمیری وزیراعلیٰ عبدالقیوم خان تھے۔ صوبہ سندھ میں کوئی بدامنی نہ تھی اور مسلمان اور ہندوؤں کے برادرانہ تعلقات تھے، لیکن کانگریسی رہنما اچاریہ کرپلانی کے دورے کے بعد یہاں سے بھی بڑے پیمانے پر آبادی کا انخلا شروع ہوگیا۔
ستمبر کے پہلے ہفتے تک وزارتِ دفاع نے کراچی اور راولپنڈی میں کام شروع کردیا تھا۔ ایک دن وزارتِ خارجہ میں اسکندر مرزا کو طلب کیا گیا، جہاں وزیراعظم لیاقت علی خان، نائب وزیر خارجہ اور سیکریٹری وزارتِ خارجہ ایک خاص اجلاس میں تھے جس میں کسی کو جانے کی اجازت نہ تھی۔ وزیراعظم نے مجھ سے کہا ’’کرنل اسکندر مرزا! جونا گڑھ نے پاکستان میں شامل ہونے کا فیصلہ کرلیا ہے اور حکومت نے یہ الحاق منظور کرلیا ہے، نواب جونا گڑھ نے فوجی امداد مانگی ہے جو انہیں فوری طور پر بھیجی جانی ہے۔ میں حیران و پریشان ہوکر رہ گیا اور مجھے اپنے اوپر قابو رکھنا پڑا کہ کہیں میں پھٹ نہ پڑوں۔ میں نے بڑی عزت کے ساتھ اُن کے گوش گزار کیا کہ عملی طور پر ہم اس حالت میں نہیں ہیں۔ جوناگڑھ سے مواصلاتی سلسلہ صرف سمندر کے ذریعے قائم تھا اور اُس وقت بحریہ کا ایک یونٹ فریگیٹ گورداواڑی استعمال کے قابل تھا، باقی بیڑہ بمبئی کی بھارتی بندرگاہ پر زیرِ مرمت تھا۔ میں نے انہیں خبردار کیا کہ اگر خارجہ پالیسی دفاعی تیاریوں سے الگ چلنے کی کوشش کرے گی تو ہم ایک بڑی تباہی کو دعوت دیں گے۔‘‘ ۔
اُن کے لیے یہ درخواست اس لیے بھی باعثِ حیرت تھی کہ وزیراعظم لیاقت علی خان کے پاس دفاع اور خارجہ دونوں قلم دان تھے۔ ہمارے رہنما پالیسی طے کرتے ہوئے جغرافیہ اور دوسری تفصیلات میں کوئی دل چسپی نہیں لیتے۔ بہرحال کوئی فوج جوناگڑھ نہ بھیجی جا سکی کیوں کہ یہ ممکن ہی نہیں تھا۔
کشمیر، جو آج بھی پاکستان اور بھارت کے درمیان سب سے بڑا تنازع ہے، اُس کے بارے میں ان یادداشتوں میں ایک حیرت انگیز انکشاف کرتے ہوئے اسکندر مرزا لکھتے ہیں: ’’جوناگڑھ میں ناکامی کے بعد سردار پٹیل، جو اُس وقت بھارتی حکومت میں مردِ آہن کا درجہ رکھتے تھے اور ریاستوں کے ادغام کے انچارج تھے، کا ایک پیغامبر کراچی آیا۔ پٹیل نے اپنے پیغام میں کہا تھا کہ اگر ہم حیدرآباد سے دست بردار ہوجائیں تو ہم کشمیر لے سکتے ہیں۔ یہ ایک بڑی منصفانہ پیشکش تھی۔ لیکن حکومت نے اسے قبول نہیں کیا۔ 1949ء کی جنگ بندی سے قبل جنرل گریسی ایک منصوبہ لے کر میرے پاس آئے، جس میں اکھنورکی سرحد پر مجتمع کرنے کے لیے پاکستان کی اسٹرائیکنگ فورس قائم کرنے کی تجویز تھی تاکہ پونچھ میں نقل و حرکت کرنے والی بھارتی فوجوں کی مواصلاتی لائن منقطع کی جاسکے، اس طرح ہم اکھنور پر قبضہ بھی کرلیتے اور بھارت کے چھ ڈویژن فوج کو محصور بھی کرلیتے۔ ان کے پاس ایک منصوبہ یہ بھی تھا جس کے ذریعے ہمارے پاس اتنی فوجیں ہوتیں جو لاہور اور سیالکوٹ کی سرحدوں کی حفاظت بھی کرسکتی تھیں۔ اُن دنوں بھارتی فوج اتنی طاقتور نہ تھی۔ اگر حکومت ہمیں حملہ کرنے کی اجازت دے دیتی تو میں بلاشبہ کہہ سکتا ہوں کہ ہم اکھنور پر قبضہ کرکے بھارت کی پانچ ڈویژنوں کا صفایا کرسکتے تھے۔‘‘۔
اسکندر مرزا یہ بھی کہتے ہیں کہ ’’میں اگرچہ وزیر اعظم کی حیثیت سے لیاقت علی خان کا معترف ہوں اور اُن کی عزت کرتاہوں کہ وہ بے غرض اور محب وطن تھے لیکن ایک سلسلے میں مجھے اُن پرکچھ شک سا رہا کہ پاکستان کو اسلامی جمہوریہ قرار دینے کا مطالبہ کرنے والوں کو خوش کرنے کے لیے انہوں نے قراردادِ مقاصد پیش کی تھی (جو یہاں سے شروع ہوئی تھی ’ہر گاہ کہ پوری کائنات پر اقتدارِ اعلیٰ صرف اللہ کی ذات کوہی حاصل ہے) اس قرارداد سے میری رائے میں پاکستان کو بہت نقصان پہنچا۔ یہ قرارداد ملاّؤں کے لیے ایک تحفہ تھی جس نے مذہبی جنون کو ہوا دی، میں نے جب قائدِ ملت سے پوچھا کہ انہوں نے یہ قرارداد پیش کرنا کیوں ضروری سمجھا؟ ان کا جواب سن کر میں حیران رہ گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کے لیے انہیں اس کی ضرورت تھی۔‘‘۔
اسکندر مرزا کا کہنا ہے کہ 1958ء میں ان پر فوج کی طرف سے مارشل لا کے اعلان کا کوئی دباؤ نہ تھا۔ فرمان جو میری اپنی تحریر میں تھا کسی کی مدد کے بغیر میں نے خود تیار کیا تھا۔ حیرت انگیزطور پر ان کا تحریر کردہ یہ اعلامیہ اگلے ہر مارشل کا بھی کم و بیش یہی رہا۔ آئین منسوخ، مرکزی اور صوبائی حکومتیں برطرف کر دی گئیں۔ تمام سیاسی جماعتوں پر پابندی عائد ہوئی۔ تاہم انہوں نے مارشل لا کے تمام اختیارات جنرل ایوب خان کو سونپ دیے۔ لیکن جنرل ایوب کو اسکندر مرزا کا 8 نومبر تک مارشل لا اٹھانے کا اعلان پسند نہیں آیا۔ اسکندر مرزا کی یہ بات درست ثابت ہوئی کہ پاکستان کو سب سے زیادہ خطرہ مذہبی تعصب سے ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وزارتِ دفاع کے ساتھ ہی ان کا کیریئر ختم ہوجاتا تو وہ زیادہ خوش قسمت ہوتے۔ لیکن قسمت میں کچھ اور لکھا تھا۔ وہ آخری گورنر جنرل اور پہلے صدر بنے، جب کہ سیاست دان ملک کی خدمت کے بجائے ذاتی مفادات پر کام کررہے تھے۔ اگر میں صدر رہنا چاہتا تو خاموش بیٹھ جاتا اور کچھ نہ کرتا۔
اسسٹنٹ کمشنر کے معمولی عہدے سے ترقی کرکے گورنر جنرل اور پاکستان کی پہلی صدارت اسکندر مرزا کا مقدر ٹھیری۔ ان کے بیس سال پرانے دوست ایوب خان نے بیس دن بعد ان کا تختہ الٹ دیا تو انہوں نے اس شکست کو خاموشی سے تسلیم کرلیا۔ کبھی پاکستانی سیاست میں واپسی کی کوشش نہیں کی، نہ کسی بحث میں الجھے۔ وہ بہت ہی مختلف اور با اصول انسان تھے۔ طویل سرکاری ملازمت میں انہوں نے کوئی جائداد نہیں بنائی بلکہ بھارت میں جو جائداد چھوڑ کر آئے تھے، اُس کا کلیم تک داخل نہ کیا، جب بطور صدرِ مملکت انہیں اور دوسرے ممتاز افراد کو، جو زمین غلام محمد بیراج کے پاس ملی تھی، وہ واپس کردی، اس میں سے دو سو ایکڑ ایوب خان اور باقی جنرل موسیٰ نے لے لی۔ لندن میں وہ سخت عسرت کی زندگی بسر کرتے رہے۔ انہیں دو پنشنیں ملنا چاہیے تھیں۔ ایک سرکاری ملازم کی اور ایک صدرِ مملکت کی۔ مگر انہیں ڈھائی سو پونڈ کی ایک پینشن ملتی تھی۔ اُن کی بیٹی نے ایوب خان سے اس بارے میں بات کرنا چاہی تو انہوں نے منع کر دیا۔ کبھی اس مسئلے کو نہیں اٹھایا۔
’’اسکندر مرزا کی یادداشتیں‘‘ ایک چشم کشا اور عبرت انگیز آپ بیتی ہے جس میں سیاہ و سفید کے مالک شخص کا خاتمہ تنہائی میں اس طرح ہوا کہ آخری وقت میں صرف اُن کا کتا ساتھ تھا۔ کاش ہم اس سے کچھ سبق لے سکیں۔

غزلیں

کامران نفیس

دلوں کے درمیاں کیا فاصلہ نہیں رہا تھا
نہیں جناب رہا تھا، کہیں کہیں رہا تھا
بجھا تھا دل تو نہ سمجھو کہ بجھ گیا تھا یہ دل
یہ بجھتے بجھتے بھی کچھ دیر آتشیں رہا تھا
کہیں ملا تھا سرِ راہ وہ اچانک ہی
پھر اس کے بعد تو وہ جاں کے بھی قریں رہا تھا
نہیں تھی ہم سے گریزاں خوشی مگر پھر بھی
تمھارا ساتھ رہا تب ہمیں یقیں رہا تھا
عجیب تھا وہ تعلق نگاہ و حیرت کا
وہ دل میں ٹھیرا تھا میں آئنہ نشیں رہا تھا
برسنے آیا تھا بادل ہماری بستی پر
برس کے دیر تلک خود ہی شرمگیں رہا تھا
وہ ایک راز جو دل میں چھپا رکھا تھا نفیسؔ
جہاں چھپا کے رکھا تھا وہ بس وہیں رہا تھا

اسداقبال

ایک چاہت تھی ضروری رہ گئی
دو دلوں کے بیچ دوری رہ گئی
بات آدھی ہو گئی تھی ہاں مگر
بات جو کرنی تھی پوری رہ گئی
جسم کو میں نے سنوارا بھی تو کیا
روح تو پھر بھی ادھوری رہ گئی
یہ ہے ممکن میرا دم لے کر رہے
چار دن کی ہے جو دوری رہ گئی
ان کو شکوہ ہے اسدؔ اس بات پر
ہم سے اُن کی جی حضوری رہ گئی

گل افشاں

مجھ پہ جو اُس کا حق ہے ادا کیوں نہیں ہوا
میرے کیے سے اس کا بھلا کیوں نہیں ہوا
ظالم کی بات سن لی ہماری نہیں سنی
اطلاقِ عدلِ جرم و سزا کیوں نہیں ہوا
دورانِ ہجر مجھ سے عبادت نہ ہو سکی
دستِ سوال دستِ دعا کیوں نہیں ہوا
آتی ہے تیرے ساتھ ہی دنیا بھی دھیان میں
تیرا خیال ہوش ربا کیوں نہیں ہوا
تعبیر بن کے کیوں رہا افشاںؔ وہ میرے ساتھ
وہ خواب تھا تو خواب نما کیوں نہیں ہوا

حصہ