سیرابی

534

نصرت یوسف
کھڑکی کے پردے سمیٹتی حبا نے گھر پر جمے گملوں کو سرسری دیکھا اور اس کی آنکھیں یک دم چمک اٹھیں… ایک چھوٹا سا نیبو پتوں میں سر نیہواڑے چھپا تھا۔
’’ارے واہ!‘‘
دوسرے میں چار منی منی سرخ مرچیں چمک رہی تھیں۔ خوشی اس کے رگ و پے میں دوڑ گئی۔
’’تھینک یو اللہ جی!‘‘ اس نے بے اختیار آسمان پر نگاہ ڈالتے بلند آواز سے کہتے سامنے والے گھر پر نگاہ ڈالی۔ چھت سے لٹکتی بیلیں بہت پُر بہار منظر تھیں، کاسنی پھولوں والی بیل اس کھڑکی پر سجی تھی جو ماریہ اور طلال کا کمرہ تھا۔ یہ کھڑکی ہر روز صبح آٹھ بجے کھل کر رات آٹھ بجے بند ہوجاتی۔ گاہے بہ گاہے دونوں ایک دوسرے کو ہاتھ ہلا دیتیں۔
حبا اور ماریہ کون تھیں؟ دونوں کزنز تھیں اور دو بھائیوں کی بہوئیں بن کر ایک خاندان میں آئی تھیں۔ خاندان ایک ہونے سے سسرال ایک جیسی ہونا ضروری نہیں ہوتا، ان کے ہاں بھی ایسا نہیں ہوا۔
حبا کی ساس کا طرزِ زندگی بالکل سادہ، جب کہ ماریہ پُرتکلف اور نک سک ہر وقت برقرار رکھنے والے لوگوں میں گئی۔ ماریہ کو اپنا سسرال حبا سے بہتر لگتا۔ کوئی پوچھے صرف بہتر کیوں، اچھا کیوں نہیں کہتیں، تو بات یہ تھی کہ یہ پُرتکلف انداز جب تک ماریہ کی ناز برداری میں رہا تو اس میں لطف رہا، جب سب کچھ خود اپنانا پڑا تو جنجال لگا۔
گھر والوں کو اگر چار قسم کے ذائقے تین وقت کھانے کی میز پر چنے دیکھنے کی عادت تھی تو خدام ہو یا نہ ہو، گھر کی عورت کی طبیعت سازگار ہو یا نہیں، وقت اور توانائی کی کمی ہو، لیکن پُرتکلف ہر صورت اس گھر کا مذہب تھا۔ دن کے دونوں سروں پر میز پر تازہ پھولوں کا سجا گل دان، عصر کے بعد فرنیچر کی دوبارہ جھاڑ پونچھ ، بعد مغرب لاؤنج میز سے اخبار اسٹور روم میں، بھاپ نکلتی تازہ روٹی، باریک کٹا سلاد، کھانے سے گھنٹہ قبل پھل۔ یہ سب ٹھاٹھ باٹ خادماؤں کے طفیل زندگی شاہانہ رکھتے، لیکن جس دن وہ چھٹی کرجاتیں اُس دن ماریہ کی دل کش مسکراہٹ بدمزاجی میں بدل جاتی، اور پھر شامت اس سرمئی طوطے کی آتی جس کا پنجرہ لاؤنج سے قریب تھا۔
آتے جاتے اس کی اسٹک ہلا دیتی۔ اور پھر وہ زور سے چیختا ’’ماریہ گواوے!!‘‘ ۔
گھر کے اصول اور ضوابط پورے کرنے میں ملازموں کے بغیر اس کا حشر ہوجاتا۔ اس دن اسے کھڑکی کے پار حبا بڑی قسمت والی لگتی، جس کے گھر میں یہ سب لوازمات نہ تھے، حالانکہ وہ بھی اکلوتے بیٹے کی بیوی، دو شادی شدہ اور دو کنواری نندوں سے تعلق کی نزاکتیں نبھا رہی تھی، لیکن طریقہ زندگی سہل تھا۔ سہولت اور آسانی بانٹنا اس گھر کا مزاج تھا۔ سب سے بڑھ کر حبا ان حساس رشتوں کی حساسیت کو سمجھ کر معاملات کرتی تھی۔
حبا کو پھر بھی ان کے درمیان مضبوط جگہ بنانے میں چار سال لگے، تب تک اس کے دو بیٹے دنیا میں آچکے تھے اور دونوں نندوں کی شادیاں ہوگئی تھیں۔ ماریہ کی دو نندیں تھیں، دونوں ہی ملک سے باہر رہتی تھیں، ایک کو رب نے اتنی فراوانی دی تھی کہ وہ سال کے جس ماہ چاہتی دس پندرہ دن کے لیے آجاتی، دل تو ماریہ کا اُس وقت جل کر خاک ہوتا جب نندوئی بھی آجاتے اور پھر ماریہ اور طلال سے ان کا کمرہ لے لیا جاتا۔ بیٹی داماد کو اس کمرے سے ملحق برآمدے سے نظر آتا پہاڑی منظر بہت بھاتا تھا، سو وہ جب تک مہمان ہوتے، ماریہ اور طلال اِدھر اُدھر ٹھکانا بنانے پر مجبور رہتے۔
ان سب دنوں میں حبا کو ماریہ کی کھڑکی مستقل بند ملتی، اور وہ سمجھ جاتی کہ روفی آپا اور عباس بھائی آئے ہوئے ہیں۔ ان کی موجودگی میں بنا تعطل چلنے والا اے سی کسی روزن کا محتاج نہ تھا۔ ٹیرس کا منظر بھی گلاس ڈور سے نظر آجاتا۔ اس میزبانی کے بدلے روفی آپا آتے ہی لفافہ بھائی کو تھمانا نہ بھولتیں۔ غیر ملکی کرنسی سے طلال، ماریہ کی گراں ترین خریداری بلا کھٹکے کراتا، مگر اس بات کی بھنک طلال نے بیوی کو کبھی نہ لگنے دی۔ اس لیے اسے اپنا میاں، روفی آپا کے آنے پر ان کے معیار کے قیام و طعام سے بے حال ہوتا لگتا، لیکن ساس سسر کے دم خم کی بنا پر اس کی چوں کی مجال نہ تھی۔ روفی آپا اور ان کے میاں کھاتے کم تھے لیکن ایک ڈش روسٹڈ گوشت کی ضرور درکار۔ بٹیر ان کی آمد پر ضرور آتی۔ غریب چڑیا سے گوشت تو چھٹانک بھر کا نکلتا لیکن تنوع کے لیے یہ بھی بنتا۔ ماریہ کی فراغت میں خاصی کمی آجاتی اور بچوں کو مما کھڑوس لگنے لگتیں۔
باورچی خانہ اور بازار یہ دونوں ہی زندگی بن جاتے۔ روفی آپا سونے کے زیورات تو ایسے خریدتی تھیں جیسے پودینہ اور ہری مرچیں۔ ماریہ کے طلائی زیورات میں ان کے دیے تحائف بھی تھے۔ انگلی کا چھلّا جس میں مرجان اور زرقند جڑے تھے، ناک کی لونگ جو چار پتی کا پھول تھی۔ روبی کے ساتھ بنی کان کی بالیاں اور وائٹ گولڈ کی چھوٹی چین۔ حبا اس کو ملے ان تحائف کو دیکھ کر چپ سی ہوجاتی۔ اس کی نندوں نے آج تک اسے کوئی ایسا قیمتی تحفہ نہ دیا تھا۔ ماریہ نہ جانے اسے ان تحائف کی تفصیلات سے کیوں آگاہ کرتی تھی۔ شاید وہ حبا کی آنکھوں میں مرعوبیت دیکھنا چاہتی تھی۔ وہ حبا کو جتانا چاہتی تھی کہ باوجود خوب صورتی کے، قسمت اس کی زیادہ اچھی ہے۔
حبا کے چہرے پر جس لمحہ سایہ سا آتا، ماریہ بس اسی وقت خاموش ہوجاتی۔ پورا بچپن ماریہ کی ماں کا بیٹی کو یہ جتاتے گزرا تھا کہ وہ ایک عمومی سی لڑکی ہے۔ خوب صورت ہے اور نہ ذہین۔ نہ جانے کون کمزور آنکھوں والا اس کو پسند کرے گا۔ اور ایک ٹھنڈی آہ کے ساتھ مختلف ٹوٹکے اس پر تھوپنا اس ’’غمگین مووی‘‘ کا آخری سین ہوتا۔
ہاں ایک اور ’’ستم‘‘ بیس سال انہوں نے اپنی بیٹی ماریہ کا دیور کی من موہنی بیٹی حبا سے مقابلہ ہر مقام پر کرکے کیا۔ حبا ماں بیٹی کے دل میں پلنے والے خیالات سے ناواقف، محبت کرنے والی ذہین بچی تھی۔ ماریہ کی ماں نہیں جانتی تھیں کہ قسمت جس نے بنائی ہے وہ بہت بے نیاز ہے، وہ جس کو چاہے راجدھانی دے اور جس کو چاہے کان کنی پر لگادے۔ وہ انسانی کارگزاری کو اپنے ارادوں کے ساتھ نتھی نہیں کرتا، لیکن اسی راستے اپنا حکم نافذ کرنا بھی اس بااختیار ہستی کا ایک طریقہ ہے۔
کچھ راجدھانی پاکر بھی تشنہ رہتے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا ماریہ کی ماں نے اسے ہر کیفیت میں محبت سے جوڑا ہوتا، شکر گزار رہتیں اور سپاس گزاری سکھاتیں تو اس کی زندگی کا سفر آسودگی کا سفر ہوتا۔ یہ کیسی محرومی تھی کہ نعمتیں امنڈتی تھیں لیکن ماریہ طلال کی تشنگی سیرابی میں بدلتی ہی نہ تھی۔ اسے علم ہی نہ تھا کہ دوسروں کی زندگی کے پھول اور پتھر کی تول اپنی ندی کے ٹھنڈے پانی سے بھی شاکی کرجاتی ہے۔

حصہ