حیا کی طرح گھرداری بھی عورت کا زیور ہے

1204

افروز عنایت
پچھلی چند دہائیوں سے خواتین کے چند بے باکانہ جملے کانوں تک پہنچ رہے ہیں، مثلاً ’’میرا جسم میری مرضی‘‘، ’’کیا شادی کرنا لازمی ہے‘‘، اور اب ایک نئی بات سننے میں آرہی ہے کہ ’’میں شوہر کے لیے روٹی کیوں پکائوں؟‘‘ اس سے پہلے اسلام کا سہارا لے کر یہ شوشا چھوڑا گیا کہ ’’ساس سسر کی خدمت کرنا فرض نہیں‘‘…
ہمارے نام نہاد جدید خیالات کے حامل لوگ ایسی خواتین کو ’’سراہ‘‘ رہے ہیں۔ریاض شہر میں ایک بے پردہ عورت ’’مغربی طرز‘‘ کے بیہودہ لباس میں سرِعام گھوم رہی تھی، اُس کی اس ’’دلیری‘‘ کو داد دی جا رہی ہے کہ ’’کیا جرأت مندانہ قدم اٹھایا ہے‘‘۔ (استغفراللہ)
ایسی تمام خواتین اور اُن کے ہمنوا ذرا غور کریں کہ بحیثیت ایک مسلمان ہمارا یہ طرزِعمل صحیح ہے یا غلط؟ اور یہ طرزِعمل ہمیں کس گمراہی کے گڑھے کی طرف دھکیل رہا ہے۔ شوہر اور ساس سسر کی خدمت، شادی، حجاب… یہ سب انہیں بوسیدہ، بے کار اور پابندیاں لگ رہے ہیں۔ بہت عرصہ پہلے مولانا مودودیؒ کی کتاب ’’پردہ‘‘ پڑھنے کا اتفاق ہوا تھا جس میں انہوں نے مغرب کی معاشرتی تباہی و بے حیائی کو ’’عورت کی آزادی‘‘ سے منسلک کیا تھا۔ کیا یہ وہی ’’آزادی‘‘ کے آثار نہیں ہیں جس نے مغرب کو گمراہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے؟ آج ہمارے یہاں بھی اس ’’آزادی‘‘ اور لبرل خیالات کے حامل ذہنوں نے اس برائی و تباہی کا بیج بو دیا ہے۔ آج کی عورت کی آواز کہ میں شوہر کے برابر ’’پڑھی لکھی اور کمائو‘‘ ہوں پھر کیوں اس کے لیے روٹی بنائوں؟ آئیے ذرا اسلام کی ان اعلیٰ مرتبہ خواتین کی زندگی پر نظر ڈالیں جن کے پائوں کی خاک کے برابر بھی ہم نہیں ہیں… وہ کس طرح محنت و مشقت کرتی تھیں۔
اماں خدیجہؓ جو عرب کی اعلیٰ حسب و نسب خاتون، طاہرہ، مالدار، تاجر، بڑی معتبر شخصیت کی حامل تھیں، آپؐ کے عقدِ مبارک میں آئیں تو ایک ’’بیوی‘‘ بن کر خدمت کی، برے حالات میں دلجوئی کی، اپنا مال و اسباب اللہ کی راہ میں خرچ کردیا۔ میں مکہ مکرمہ میں ہوٹل کے کمرے سے غارِ حرا کا منظر دیکھ رہی تھی، ذہن کے دریچے کھلتے گئے۔ اب میں ان محترم خاتون کو جن کی عمر اُس وقت تقریباً پچپن سال تھی، پہاڑ پر پانی کا مشکیزہ لے کر چڑھتے دیکھ رہی تھی۔ آج کی عورت جو کہتی ہے کہ شوہر کے لیے روٹی کیوں پکائے، یا گھر بیٹھ کر گھرداری کیوں انجام دے، ان سردارانِ جنت کی ماں سے سبق سیکھے۔
صحابیات نے تو گھرداری کے علاوہ گھر کے باہر کے کام بھی انجام دیے۔ اکثر صحابہ کرامؓ جہاد میں شرکت کی غرض سے گھر سے باہر رہتے تھے، ان کی غیر موجودگی میں یہ معتبر خواتین تمام کام سرانجام دیتی تھیں۔
اسماءؓ بنتِ ابوبکرؓ جو اسلام کے ابتدائی دور میں مسلمان ہوگئیں، ہجرت کے بعد نہایت تنگ دستی اور مشقت کی زندگی گزاری۔ بخاری میں حضرت اسماءؓ کا طرزِ زندگی خود ان کی زبان سے نقل فرمایا گیا ہے، وہ فرماتی ہیں کہ ’’جب میرا نکاح زبیرؓ سے ہوا تو ان کے پاس نہ مال تھا نہ جائداد، نہ کوئی خادم کام کرنے والا اور نہ کوئی اور چیز، صرف ایک اونٹ پانی لاد کر لانے والا اور ایک گھوڑا… میں اونٹ کے لیے گھاس وغیرہ لاتی اور کھجور کی گٹھلیاں کوٹ کر دانے کے طور پر اسے کھلاتی، خود ہی پانی بھر کر لاتی۔ اگر پانی کا ڈول پھٹ جاتا تو خود ہی سیتی اور خود ہی گھوڑے کی ساری خدمت انجام دیتی۔ گھر کا سارا کاروبار بھی انجام دیتی تھی (گھرداری)، البتہ روٹی مجھے اچھی طرح پکانی نہیں آتی تھی تو میں آٹا گوندھ کر اپنے پڑوس کی انصار عورتوں کے یہاں لے جاتی، وہ بڑی مخلص عورتیں تھیں، میری روٹی پکا دیتی تھیں۔ آپؐ نے مدینہ پہنچنے پر حضرت زبیرؓ کو ایک زمین جاگیر کے طور پر دے دی جو دو میل کے فاصلے پر تھی، میں وہاں سے کھجور کی گٹھلیاں سر پر لاد کر لایا کرتی تھی، ایک دن اسی طرح آرہی تھی کہ راستے میں آپؐ مل گئے، انصار کی ایک جماعت آپؐ کے ساتھ تھی، آپؐ اونٹ پر سوار تھے، آپؐ نے مجھے دیکھ کر اونٹ ٹھیرایا اور اس کو بیٹھنے کا اشارہ کیا تاکہ میں اس پر سوار ہوجائوں، مجھے مردوں کے ساتھ جاتے ہوئے شرم آئی اور خیال آیا کہ حضرت زبیرؓ بہت غیرت مند ہیں، ان کو ناگوار نہ گزرے۔ آپؐ میرے انداز سے سمجھ گئے۔ گھر آکر میں نے تمام واقعہ حضرت زبیرؓ کو سنایا، حضرت زبیرؓ نے فرمایا کہ خدا کی قسم تمہارا گٹھلیاں سر پر رکھ کر لانا میرے لیے اس سے بہت زیادہ گراں ہے (کیوں کہ حضرت زبیرؓ کا زیادہ وقت ’’جہاد‘‘ میں اور دین کے دوسرے امور میں گزرتا تھا)۔ بعد میں بابا (حضرت ابوبکرؓ) نے ایک خادم اس کام کے لیے عنایت فرمایا۔‘‘ سبحان اللہ، دینِ اسلام کی یہ مایہ ناز دختران تھیں جو صاحبِ حیثیت گھرانوں سے تعلق رکھتی تھیں، لیکن شادی کے بعد گھر کے ہر چھوٹے بڑے کام کو کرتے ہوئے عار محسوس نہیں کرتی تھیں۔
اگلی تصویر اسلام کی مایۂ ناز معتبر دختر حضرت فاطمہؓ زہرہ کی ہے جنہیں آپؐ کی سب سے چھوٹی اور چہیتی بیٹی ہونے کا شرف حاصل ہے، جنہیں آپؐ کا عکس بھی کہا جاتا ہے۔ مکہ مکرمہ کی دولت مند تاجر خاتون حضرت خدیجہؓ کی یہ لاڈلی بیٹی جب حضرت علیؓ کی زوجیت میں آئیں تو آپؓ کی عمرِ مبارک صرف پندرہ سال اور پانچ ماں تھی، گھر کے کسمپرسی کے حالات کے ساتھ ساتھ گھریلو ذمہ داریوں کا بوجھ اس دخترِ رسولؐ نے سہا۔ چکی پر جب آپؓ گیہوں پیستیں تو ہاتھوں میں گٹے پڑ جاتے، اپنے ہاتھوں سے آٹا پیس کر روٹی بناتیں اور گھر والے کھاتے۔ گھر کا ہر چھوٹا بڑا کام اپنے ہاتھوں سے کرتیں۔ دن بھر کے کاموں اور بچوں کی دیکھ بھال سے تھک جاتیں۔ ایک دن حضرت علیؓ نے کہا کہ اے فاطمہؓ تمہارے بابا کے پاس مالِ غنیمت میں کنیزیں آئی ہیں تم جاکر ایک لے آئو۔ آپؓ جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں پہنچیں تو چہیتی بیٹی کی فرمائش پر محترم باپ کا ردِعمل دیکھیں (سبحان اللہ)، ہم قربان جائیں ان مبارک ہستیوں پر… بابا جان نے اپنی لاڈلی عزیز ترین بیٹی سے کہا کہ میں تمہیں اس سے اچھی چیز نہ دوں… اور پھر آپؐ نے حضرت فاطمہؓ سردارانِ جنت کی والدہ محترمہ کو ’’تسبیح فاطمہ‘‘ عطا فرمائی… (سبحان اللہ) میں جب ان دخترانِ اسلام کی مقدس ہستیوں کے واقعات سنتی اور پڑھتی ہوں تو آنکھیں نم ہوجاتی ہیں۔ آج ہمیں رب العزت کی بے شمار نعمتیں حاصل ہیں، گھر بیٹھے ہر چیز میسر ہے، لیکن افسوس کا مقام ہے کہ گھر داری کے امور کو انجام دینا ہم اپنے لیے ذلت سمجھتے ہیں۔ نام نہاد آزادیٔ نسواں کے علَم برداروں نے آج ان خواتین کے اس قول و عمل کو جرأت مندانہ اقدام کہا اور سراہا ہے اور حوصلہ افزائی کی ہے۔
اسلام کی نظر میں پسندیدہ بیوی وہی ہے جو گھر کے کام کاج میں مصروف رہتی ہو، جس کے چہرے سے محنت کی تھکان بھی ظاہر ہو، جیسا کہ آپؐ نے فرما ’’میں اور ملگجے چہرے والی عورت (یعنی جس کے چہرے پر گردوغبار ہو) قیامت والے دن اس طرح ہوں گے (آپؐ نے شہادت کی اور بیچ کی انگلی کو ملاتے ہوئے بتایا)۔ (آدابِ زندگی)
ایک انگریز مصنف نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ’’اسلامی تعلیمات عورت کو گھر کی زندگی میں مصروف اور محنت کش دیکھنا چاہتی ہیں، لیکن جب یہی عورت گھر کی آرائش اور تعیش میں پڑجاتی ہے تو پھر وہ بیماریوں میں مبتلا ہوجاتی ہے۔ میری اسلامی تعلیمات کی روشنی میں یہ رائے ہے کہ عورتوں کو گھر کی محنت اور مشقت کرنی چاہیے۔‘‘
لہٰذا ان سطور کے توسط سے میں خواتین، خاص طور پر بچیوں سے یہ کہوں گی کہ شادی کے بعد گھریلو کام کاج کو اپنے لیے باعثِ ذلت اور عار نہ سمجھیں، دلچسپی اور خوشی سے کام انجام دیں۔ آپ کی گھرداری میں دلچسپی نہ صرف آپ کو تسکین بخشے گی اور صحت مند رکھی گی بلکہ آپ کے گھر والے آپ کو قدر و عزت کی نگاہ سے دیکھیں گے۔ ایک بچی نیی جو نہایت اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اعلیٰ عہدے پر فائز ہے، بتایا کہ شادی کے ایک ہفتے کے بعد جب میں کچن میں شوہر کے لیے صبح کا ناشتا بنانے لگی (جبکہ اس کے گھر میں باورچی بھی موجود ہے) تو وہ حیران رہ گیا اور کہنے لگا کہ تم واقعی ایک مکمل عورت ہو۔‘‘ شوہر کے اس ایک تعریفی جملے سے اندازہ لگائیں کہ مرد کے دل میں ایسی عورت کی قدر و منزلت بڑھ جاتی ہے۔ شوہر کے تعریفی جملے سے عورت کو تقویت پہنچتی ہے، اس طرح ایک خوبصورت رشتہ بھی استوار ہوتا ہے اور گھریلو ماحول میں حسن پیدا ہوتا ہے۔ اس سطور کو تحریر کرتے ہوئے اماں کا ایک جملہ یاد آتا ہے جو دعا کے طور پر ہم بہنوں کو کہتی تھیں کہ ’’ہمیشہ کچن کی مالکن رہو‘‘۔ اُس وقت تو ہم ہنسی مذاق میں اس جملے کو اڑا دیتے تھے، مگر آج اس جملے کی اہمیت سمجھ میں آتی ہے کہ ایک عورت کے لیے خصوصاً شادی شدہ کے لیے ’’کچن‘‘ کی کیا اہمیت ہے۔ کسی کے دل پر راج کرنے کے لیے بہترین راستہ یہی ہے۔ اب یہ مائوں کا کام ہے کہ بیٹیوں کو یہ احساس دلائیں کہ شادی کے بعد گھر کا کچن سنبھالنا عورت کے لیے اعزاز ہے، نہ کہ ذلت… آج نہ صرف امیر گھرانوں بلکہ متوسط طبقوں میں بھی گھر کا جھاڑو پوچا وغیرہ نوکروں کے ہاتھ میں ہوتا ہے، صرف کچن اور گھر کی دیکھ بھال اور گھر والوں کا خیال رکھنا… یہ کام کرکے وہ گھر والوں کے دل موہ لیتی ہیں۔

حصہ