حجاب

744

عارفہ آفتاب
۔’’حجاب‘‘ ایک خوب صورت لفظ، اچھوتا احساس، ایک مضبوط حصار، شعارِ خاتونِ مسلم۔
اسلام سے پہلے اس انوکھے تصور سے دنیا واقف نہ تھی۔ اسلام نے عورت کو حجاب کا محفوظ اور مضبوط حصار بخشا۔ اس تصورِ حجاب میں جو احساس اور پیار عورت کے لیے چھپا ہے وہ عطیہ الٰہی ہے۔
اعتماد بخشتا ہوا،
ہر چیلنج کو مسکرا کر دیکھتا ہوا،
عورت کو ہر میدان میں کارگزاری دکھانے کا موقع دیتا ہوا،
ایک آسودہ احساس۔
حجاب سے متعلق میری بھی کہانی ہے، میں بھی انہی مشکلات سے گزری جن کا ابتدا میں ہر پردہ کرنے والی عورت کو سامنا کرنا پڑتا ہے۔
۔’’یہ کیا طریقہ ہے؟‘‘۔
۔’’ہمارے ہاں ایسا نہیں ہوتا…‘‘۔
’’پردے میں پڑھنے یونیورسٹی کیسے جائوگی؟‘‘ وغیرہ وغیرہ
تقریباً 36 سال قبل جب میں نے حجاب شروع کیا، انٹر کا پہلا سال تھا، خاندان میں چونکہ کوئی پردہ نہ کرتا تھا اس لیے مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ کُل پاکستان اجتماعِ کارکنان کے لیے ہم لاہور گئے، چونکہ میرا سارا ننھیال اور ددھیال وہیں آباد تھا اس لیے اُن سے ملنا بھی پروگرام میں شامل تھا۔ تو وہاں سب نے میرے حجاب پر بہت اعتراض کیا بلکہ منع بھی کیا حجاب کرنے سے۔ مجھے خاصی دشواری پیش آئی کہ ابھی تو سمجھ نہ تھی کہ مقابلہ کیسے کیا جائے، بس خاموشی کو اپنا ہتھیار بنایا اور کیا وہی جو کرنا چاہتی تھی۔ رشتے دار ناراض ہوئے، میں نے پروا نہ کی، حتیٰ کہ بعض نے تو یہاں تک کہا کہ ہمارے شہر میں ایسا پردہ بری عورتیں کرتی ہیں، پھر بھی ہم ٹس سے مس نہ ہوئے۔ خیریت گزری اور ہم واپس آگئے۔
اپنی تعلیمی زندگی کے آخری سال میں جب ہم لاہور گئے تو ہمارے رشتے داروں کی بیٹیاں جو ہمارے کردار اور تعلیمی ریکارڈ سے متاثر تھیں، پردہ شروع کر چکی تھیں۔ یہ اللہ کا کرم اور احسان ہے کہ جو بخشا اُس نے بخشا۔
میرے رب نے کہا ’’اے نبیؐ اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہلِ ایمان کی عورتوں سے کہہ دیجیے کہ اپنے اوپر چادروں کے پلو ڈال لیا کریں۔ یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور ستائی نہ جائیں۔ اللہ غفور و رحیم ہے۔‘‘ (سورۃ الاحزاب۔ 59)۔
الحمدللہ اب تو خاندان کی ساری لڑکیاں حجاب کرتی ہیں۔

حصہ