بزم نگار ادب کے تحت عادل شاہجہاں پوری کے لیے تعزتی اجلاس

715

ڈاکٹر نثار احمد نثار
گزشتہ ہفتے بزم نگارِ ادب پاکستان کے تحت عادل شاہ جہاں پوری کے لیے تعزیتی اجلاس اور مشاعرے کا اہتمام کیا گیا یہ پروگرام صفدر رازی کی رہائش گاہ پر منعقد ہوا جس میں فیروز ناطق صدر تھے‘ اختر سعیدی اور عبدالمجید محور مہمانان خصوصی اور سراج الدین سراج مہمان اعزازی تھے۔ نظر فاطمی نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ واحد رازی نے نعت رسول پیش کی۔ اس پروگرام کے پہلے حصے میں عادل شاہ جہاں پوری کے فن اور شخصیت پر گفتگو ہوئی۔ عادل شاہ جہاں پوری کے بیٹے عمران علی نے کہا کہ ان کے والد نیک انسان تھے انہوں نے تمام عمر محنت مزدوری کی اور ہماری تعلیم و تربیت کی ان کے انتقال سے ہم بہت غمگین ہیں‘ ہم نگارِ ادب کے ممنون و شکر گزار ہیں کہ اس تنظیم نے ان کے والد کے لیے پروگرام آرگنائز کیا۔ سخاوت علی نادر نے کہا کہ عادل شاہ جہاں پوری ایک سینئر شاعر ہونے کے ساتھ افسانہ نگار بھی تھے انہوں نے شاعری کی تمام اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کی لیکن وہ قطعات کہنے کے ماہر تھے ان کے پاس پانچ ہزار قطعات موجود ہیں جب کہ بے شمار غزلیں‘ نظمیں‘ نعتیں اور سلام بھی انہوں نے لکھے وہ ایک افسانہ نگار کی حیثیت سے بھی اپنی شناخت رکھتے تھے‘ وہ PR کے آدمی نہیں تھے۔ گوشہ نشینی کی زندگی گزارتے تھے۔ وہ سماجی خدمات کے حوالے سے بھی ایک منفرد مقام رکھتے تھے‘ وہ کئی سماجی اداروں سے وابستہ رہے اور تمام عمر خدمتِ خلق خدا میں مصروف رہے۔ اختر سعیدی نے کہا کہ عام طور پر ادبی ادارے نامور شاعروں اور ادیبوں کے انتقال پر نہ صرف تعزیتی بیانات جاری کرتے ہیں بلکہ ان کے لیے تعزیتی اجلاس کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے تاکہ ان کے اہل خانہ کی نظر میں معتبر ٹھیریں۔ عادل شاہ جہاں پوری ایک گمنام شاعر تھے‘ سخاوت علی نادر نے نگارِ ادب پاکستان کی جانب سے ان کی یاد میں مشاعرے کا اہتمام کرکے نہ صرف حقِ رفاقت ادا کیا بلکہ یہ بھی ثابت کردیا کہ ہماری نگاہ میں تمام لکھنے والے اہم اور معتبر ہیں‘ میں اس جذبۂ ادب پروری پر سخاوت علی نادر کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔
عادل شاہ جہاں پوری سے میری پہلی ملاقات 1990ء میں مجلس سماجی کارکنان کے ایک مشاعرے میں ہوئی تھی اس وقت وہ استاد عارف رئیس اکبر آبادی کے حلقے میں شامل تھے‘ مجھے یہ نہیں معلوم کہ وہ ان کے شاگرد تھے یا نہیں‘ لیکن میں نے عادل شاہ جہاں پوری کو ہمیشہ ان کے ساتھ دیکھا۔ اس زمانے میں وہ بہت فعال تھے‘ مضافاتی بستیوں میںمنعقد ہونے والے مشاعروں میں ان کی شرکت ضروری تھی۔ عارف اکبر آبادی کے انتقال کے بعد ان کے حلقے کے لوگ اِدھر اُدھر ہو گئے۔ ایسا لگا کہ عادل شاہ جہاں پوری بھی پس منظر میں چلے گئے۔ کئی برس تک وہ گوشۂ گمنائی میں رہے۔ غالباً 2014ء کی بات ہے سید وجیہ الحسن عابدی نے معروف خطاط‘ مصور اور شاعر انور انصاری کے اعزاز میں اپنی رہائش گاہ پر محفل مشاعرہ کا اہتمام کیا۔ عرصۂ دراز کے بعد وہاں عادل شاہ جہاں پوری سے ملاقات ہوئی‘ مجھے دیر تک گلے لگائے رکھا۔ پھر کہنے لگے کہ تمہیں دیکھ کر تمہارے والد جوہر سعیدی صاحب کی یاد آجاتی ہے جن کی صدارت میں‘ میں نے لاتعداد مشاعرے پڑھے۔ مشاعرہ شروع ہونے میں کچھ دیر تھی‘ ہم دونوں پرانی یادیں تازہ کرنے میں مصروف ہو گئے۔ میں نے کہا کہ کیا مشاعروں میں آنا ترک کر دیا ہے‘ شاہ فیصل کالونی کے مشاعروں میں بھی آپ کا نام نظر نہیں آتا۔ کہنے لگے کہ پرانے لوگ ایک ایک کرکے رخصت ہو رہے ہیں‘ نئے لوگوں کو کیا معلوم کہ عادل شاہ جہاں پوری کون ہے؟ انہوں نے بڑے دکھ کے ساتھ کہا کہ مشاعروں سے میں دور نہیں ہوا‘ مجھے مشاعروں سے دور کر دیا گیا ہے اس لیے گوشہ نشینی اختیار کرلی ہے۔ آج بھی اس نیت سے آیا ہوں کہ پرانے ساتھیوں سے ملاقات ہو جائے گی۔ تقریباً بیس برس بعد تمہیں دیکھ کر انتہائی مسرت ہو رہی ہے۔ اس مشاعرے کے بعد پھر کئی برس کے لیے غائب ہوگئے۔ دو سال پہلے کی بات ہے کہ وہ نگارِادب پاکستان کے ایک مشاعرے میں نظر آئے‘ اسی والہانہ انداز سے ملے‘ کہنے لگے کہ یہ سخاوت علی نادر کا کمال ہے کہ انہوں نے مجھے گوشہ نشینی سے باہر نکالا‘ یہ لے آتے ہیں تو آجاتا ہوں۔ پھر تواتر سے نگارِ ادب کے مشاعروں میں ان سے ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ ایک مرتبہ پھر وہ کراچی کے ادبی منظر نامے کا حصہ ہوگئے تھے جس کا تمام کریڈٹ سخاوت علی نادر کو جاتا ہے۔ صدر مشاعرہ نے کہاکہ اب اچھے اشعار سننے کو نہیں مل رہے بلکہ ہم تقدیم و تاخیر کے مسائل میں الجھ گئے ہیں جس کی وجہ سے ادب کی ترقی کا کام سست پڑ گیا ہے البتہ جو لوگ اردو زبان و ادب کے لیے میدانِ عمل میں موجود ہیں وہ قابل ستائش ہیں‘ ہمیںچاہیے کہ ہم ان کے ہاتھ مضبوط کریں کراچی کی ادبی انجمنوں میں بزمِ نگار ادب پاکستان بہت مقبول ہو رہی ہے یہ تواتر کے ساتھ پروگرام کرا رہے ہیں آج کے مشاعرے میں جس شخصیت پر گفتگو ہوئی وہ منکسرالمزاج انسان تھے‘ ان کی شاعری کتابی شکل میں آئے تو زیادہ لوگوں تک پہنچ جائے گی‘ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے‘ اس مشاعرے میں صاحب صدر‘ مہمانان خصوصی‘ مہمانان اعزازی اور ناظم مشاعرہ کے علاوہ جن شعرا نے کلام سنایا ان میں نثار احمد نثار‘ نسیم شیخ‘ سخاوت علی نادر‘ یاسر سعید صدیقی‘ واحد رازی‘ شائق شہاب‘ چاند علی چاند‘ عاشق شوکی‘ علی کوثر اور خضر علی شامل تھے۔ اس موقع پر بزمِ نگار ادب کی جانب سے عادل شاہ جہاں پوری کے لیے ایک شیلڈ ان کے بیٹے کو دی گئی جب کہ چاند علی چاند کو ایک کپ پیش کیا گیا۔ اختتام تقریب پر حلیم پیش کیا گیا۔

آزاد خیال ادبی فورم کا مذاکرہ اور مشاعرہ

آزاد خیال ادبی فورم کے تحت ہر ماہ دو پروگرام ترتیب دیے جاتے ہیں پروگرام کے پہلے حصے میں کسی بھی اہم ادبی موضوع پر مذاکرہ ہوتا ہے اس کے بعد شعری نشست ہوتی ہے‘ یکم اکتوبر کو کے ایم سی آفیسرز کلب کشمیر روڈ کے سبزہ زار پر ’’ترقی پسند ادب کیا ہے؟‘‘ کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے سرور جاوید نے کہا کہ ترقی پسندی کا مطلب یہ ہے کہ آپ فرسودہ روایات کو توڑ دیں ان کی نشان دہی کرتے ہوئے جدید سوچ رائج کریں کیوں کہ یہ دورِ حاضر کا تقاضا ہے۔ ہندوستان میں ترقی پسند تحریک کی آمد سے قبل پریم چند اور جوش ملیح آبادی ترقی پسند تھے ان کے یہاں فرسودہ مضامین کے بجائے زمینی حقائق نظر آتے ہیں۔ ترقی پسندوں نے کہا کہ آپ عوام کے مسائل لکھیں آپ ظالم اور مظلوم میں تفریق کریں۔ گل و بلبل کی داستانیں مت لکھیں۔ لوگوں کو صحیح راستہ دکھانے کا کام قلم کاروں کی ذمہ داری میں شامل ہے نیز قلم کاروں کو یہ بھی علم ہونا چاہیے کہ آپ کس کے لیے لکھ رہے ہیں۔ سوسائٹی کو بین الاقوامی ادب سے جوڑنا بھی قلم کاروں کا کام ہے یعنی وہ دوسرے معاشروں کے روّیوں کو سامنے لائیں۔ ترقی پسند تحریک نے آزادیٔ فکر پر زور دیا اس نے کہا ہمیں غلامانہ ذہنیت سے نکلنا ہے اس وقت ہندوستان پر انگریزوں کی حکومت تھی لہٰذا لوگوں میں باغی خیالات پیدا ہوئے۔ اسٹیبلشمنٹ نے اس تحریک کو دبانے کے لیے مابعد جدیدت کا نظر پیش کیا۔ یہ ترقی پسند تحریک کے خلاف پہلا وار تا۔ 1953 میں ترقی پسند تحریک پر حکومت پاکستان کی طرف سے پابندی لگائی گئی اس کے سرکردہ لوگوں پر مقدمات بنا کر پابند سلاسل کیا گیا۔ وڈیرے‘ زمیندار‘ نوابین کی جگہ سیاست دان زیادہ فعال ہو گئے انہوں نے عوام کی خدمت کم کی اور ظلم زیادہ ڈھایا۔ ترقی پسند تحریک نے کہا کہ قلم کار اپنی آواز کو بالواسطہ طور پر عوام تک پہنچائیں۔افسانوں‘ کہانیوں اور اشعار میں استعاروں‘ کنایوں کے ذریعے لوگوںکو حقیقت سے آشنا کریں۔ ادب وہی ہوتا ہے جو مزاحمت پیدا کرتا ہے مزاحمتی ادب بھی ترقی پسند تحریک کی دین ہے ایک سوال کے جواب میںسرور جاوید نے کہا کہ ترقی پسند تحریک کے پہلے اجلاس کی صدارت پریم چند نے کی تھی آزاد خیال ادبی فورم کے مذاکرے اور شعری نشست کے صدر اختر سعیدی تھے جب کہ انوار احمد علوی مہمان خصوصی تھے۔ صاحبِ صدر نے کہا کہ ترقی پسند تحریک نے ہمیں نئے نئے مضامین دیے اور خاص طور پر نظم لکھنے کے رجحانات کو فروغ دیا۔ مہمان خصوصی نے کہا کہ آج کے مشاعرے میں بہت اچھی شاعری سامنے آئی ہے اس کا سہرا سرور جاوید کو جاتا ہے کہ جن کی محبت میںآج ہم سب یہاں جمع ہیں۔ اس پروگرام کے دوسرے دور میں اختر سعیدی‘ سرور جاوید‘ شمس الغنی‘ احمد سعید فیض آبادی‘ سیف الرحمن سیفی‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار‘ وجاہت باقی‘ چمن زیدی‘ حامد علی سید‘ عبدالمجید محور‘ دلاور علی آذر‘ احمدجہانگیر‘ سلمان ثروت‘ آزاد حسین آزاد‘ عمر برناوی‘ یاور رضا‘ افضل ہزاروی‘ عرف شیخ‘ تنویر سخن‘ نورالدین نور‘ یوسف چشتی‘ زاہد علی سید‘ محسن مقصود‘ تاج علی رانا ‘ عباس ممتاز‘ شجاع الزم اں خان‘ کاش کاظمی اور یوسف اسماعیل نے اپنا کلام نذر سامعین کیا۔

محمد نسیم الدین خان کی نصف زندگی ادب کی خدمت میں گزری‘ پروفیسر سحر انصاری

آرٹس کونسل کراچی کی ادبی کمیٹی کے زیر اہتمام ریڈیو پاکستان کی معروف شخصیت محمد نسیم الدین خان کی ریڈیائی تحریروں پر مشتمل کتاب ’’ادب پارے‘‘ کی تقریب رونمائی سے اظہار خیال کرتے ہوئے صدر محفل پروفیسر سحر انصاری نے کہا کہ محمد نسیم الدین خان بہت منظم اور مرتب شخصیت ہیں‘ انہوں نے ریڈیو پاکستان سے وابستگی کے دوران بڑے ادبی و تاریخی پروگرام کیے جو ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ طویل تحریر لکھنے کے بجائے مختصر لکھنا بڑا مشکل کام ہے‘ یہ کام انہوں نے بڑی خوش اسلوبی سے کیا جو ادب پارے کی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے۔ مہمان خصوصی تاجدار عادل نے کہا کہ ان کی خدمات کو اب بھی اداروں کو لینا چاہیے‘ انہیں مختلف درس گاہوں میں لیکچر دینے چاہئیں تاکہ نئی نسل کو ماضی کے تجربات منتقل ہو سکیں۔ انہوں نے اپنی نصف زندگی ادب کی خدمت میں گزاری ہے۔ پروفیسر اوج کمال نے کہا کہ ادب پارے طالب علموں کے لیے ایک نصابی کتاب کا درجہ رکھتی ہے ان کے پروگرام ’’ایک تھا ریڈیو پاکستان‘‘ زویہ اظہار‘ حسن تکلم‘ رونق بزم‘ رنگ سخن‘ بچوں کی دنیا اور یہ بچہ کس کا ہے بڑے مقبول رہے۔ زیب اذکار حسین نے کہا کہ ان کے ہاں نہ صرف تحقیقی اور تنقیدی بصیرت ہے بلکہ ایک تخلیقی ویژن بھی ہے۔ ڈاکٹر عنبرین حسیب عنبر نے کہاکہ ان کی کتاب پڑھنے والے کا تجسس بیدرا کرتی ہے۔ یہ عوامی زبان اور عوامی لہجے میں لکھی گئی ہے۔ صاحبِ کتاب نے بتایا کہ ان کی نصف زندگی ادب کی خدمت میں گزری ہے وہ اپنی آپ۔ بیتی میں ریڈیو پاکستان لمحہ بہ لمحہ جلد قارئین کے ہاتھوں میں ہوگی۔ انہوں نے آرٹس کونسل کے صدر محمد احمد شاہ اور ادب کمیٹی کا بھی شکریہ ادا کیا جس نے ان کے لیے با وقار تقریب کا انعقاد کیا۔ تقریب کی ابتدا حافظ نعمان طاہر نے حمد و نعت سے کی اور سماع باندھ دیا جب کہ معروف شاعر شکیل وحید‘ آصف علی آصف نے بھی اظہار خیال کیا۔ دریں اثنا کاروان ادب کے سیکرٹری عبدالصمد تاجی‘ معروف براڈ کاسٹر یاور مہدی‘ ندیم ہاشمی اور علمی ادبی حلقوں کی دیگر شخصیات نے ادب پارے کی اشاعت پر انہیں دلی مبارک باد دی۔ شہر کے موسمی حالات کے باوجود بڑی تعداد میں اربابِ ذوق نے شرکت کی جو مصنف سے محبت کی دلیل ہے۔

غزل

خالد معین

یہ التزام رخِ یار سے بھی ظاہر ہے
شگفتگی دمِ گفتار سے بھی ظاہر ہے
پسِ قیام جو جھلکتی تھی سات رنگوں میں
وہ خوش روی رم و رفتار سے بھی ظاہر ہے
جمود توڑنے نکلا ہے پھر کوئی یوسف
یہ بات گرمیِ بازار سے بھی ظاہر ہے
زوالِ مسندِ اہلِ کمال کا اک رُخ
غرورِ جبہّ و دستار سے بھی ظاہر ہے
وہ مجھ سے جیت کے بھی خود سے شرم سار رہا
سو میری فتح‘ میری ہار سے بھی ظاہر ہے

حصہ