طلاق کی وجوہات

635

افروز عنایت
ویسے تو آج ہم جس ’’ڈگر‘‘ پر آکھڑے ہوئے ہیں وہاں کئی برائیاں پھن پھیلائے ہمیں ڈس رہی ہیں۔ لمحۂ فکریہ یہ ہے کہ ان برائیوں کی وجوہات سے ’’باخبر‘‘ ہونے کے باوجود ہم ’’بے خبر‘‘ ہیں۔ نفس کی غلامی اور تسکین کے لیے چشم پوشی سے کام لے رہے ہیں۔ آج ان سطور کے ذریعے میں جس ’’معاشرتی برائی‘‘ کو زیر تحریر لارہی ہوں وہ کوئی نئی نہیں ہے، لیکن افسوس ناک صورتِ حال یہ ہے کہ دن بدن اس میں اضافہ ہورہا ہے جس کی لپیٹ میں پورا خاندان آجاتا ہے، یہ برائی ہے ’’طلاق‘‘…
طلاق اللہ تبارک تعالیٰ کے نزدیک جائز مگر ناپسندیدہ عمل ہے۔ اس ایک جملے پر غور کریں تو ہمیں خودبخود جواب مل جاتا ہے کہ جائز کیوں، اور ناپسندیدہ ہونے کی کیا وجوہات ہیں۔ اللہ تبارک تعالیٰ کے ہر حکم کے پیچھے حکمت و مصلحت پوشیدہ ہے۔ چند دہائیوں پیچھے کی طرف نگاہ دوڑائیں تو یہ ’’برائی‘‘ شاذونادر ہی نظر آتی تھی۔ اگر آس پاس کوئی ایسا واقعہ سننے میں یا دیکھنے میں آتا تو کئی دن تک دلوں پر اس کا اثر رہتا، اور اپنے تو اپنے، پڑوسی بھی افسوس و ملال کرتے۔ لیکن آج صورتِ حال یکسر بدل گئی ہے۔ ایک تو یہ کہ یہ برائی معاشرے میں سرائیت کرگئی ہے کہ چند لمحے افسوس، پھر یہ کہا جاتا ہے کہ ہاں یار کوئی مسئلہ ہوگا، گھٹ گھٹ کر مرنے سے بہتر ہے کہ جان چھُوٹی۔ یہ صورتِ حال لمحۂ فکریہ ہے۔ ہمارے معاشرے میں پھیلی اس برائی کے پیچھے کون سی وجوہات کارفرما ہیں، ان پر نظر ڈالنے کے لیے چند حقیقی واقعات کا سہارا لے رہی ہوں۔
٭…٭…٭
جھوٹ و فریب:
نادیہ اور زوہیب کی شادی کا بندھن دو پوش علاقوں کے خوش حال گھرانوں کا بندھن تھا۔ نادیہ نے ایک انتہائی پڑھے لکھے اور خوش حال گھرانے میں آنکھ کھولی۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ وہ سونے کا چمچہ منہ میں لے کر پیدا ہوئی۔ بڑا صاف ستھرا خاندان تھا۔ ماں باپ دونوں، اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے۔ نادیہ نے ابھی اپنی تعلیم بھی مکمل نہیں کی تھی کہ زوہیب کا رشتہ آگیا۔ زوہیب کے بارے میں بتایا گیا کہ وہ نہ صرف اعلیٰ تعلیم یافتہ بلکہ بہت بڑے بزنس مین کا اکلوتا بیٹا ہے۔ پوش علاقے میں 1000 گز پر پھیلی خوبصورت کوٹھی اس کی خوشحالی کی ضمانت تھی۔ معروف خاندان تھا، بظاہر ایسی کوئی وجہ نہ تھی کہ رشتہ ٹھکرایا جائے، لہٰذا دونوں کو ازدواجی بندھن میں باندھ دیا گیا۔ لیکن کچھ ہی عرصے میں قلعی کھل گئی۔ زوہیب نہ تو اعلیٰ تعلیم یافتہ تھا، نہ مالی طور پر مستحکم۔ اس کا کوئی روزگار نہ تھا۔ باپ کا ’’کمزور‘‘ سا کاروبار تھا جس پر وہ توکل کررہا تھا۔ نادیہ کو جب معلوم ہوا تو اس کا دل بڑا ملول ہوگیا۔ اس نے اپنے شوہر کو اِس بھنور سے نکالنے کے لیے ہاتھ پائوں مارے، لیکن سب بے کار گیا۔ بیٹے کی پیدائش کے بعد حالات مزید خراب ہوگئے۔ وہ بہانے بہانے سے والدین سے رقم لے کر اپنی اور بیٹے کی ضرورتیں پوری کرنے لگی۔ اس نے اپنی تعلیم مکمل کرنے اور ملازمت کا ارادہ کیا۔ یہاں بھی اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ زوہیب اُس کے ہر معاملے میں نہ صرف روڑے اٹکانے لگا بلکہ اسے ذہنی تشدد کا بھی نشانہ بنانے لگا۔ مجبوراً نادیہ نے تمام حالات والدین کے گوش گزار کیے۔ والدین نے پہلے تو اس بندھن کو قائم رکھنے کے لیے خاصی تگ و دو کی، زوہیب کے والدین سے بھی صلاح مشورہ کیا، لیکن کوئی مثبت نتیجہ سامنے نہ آیا۔ اس طرح یہ بندھن ٹوٹ گیا۔
اس واقعے سے ظاہر ہے کہ طلاق کی وجہ جھوٹ، فریب اور لڑکے کا لڑکی پر تشدد ہے۔
٭…٭…٭
لالچ و حسد:
ثانیہ ہمیشہ دوسروں کی حرص کرتی۔ آس پاس دوست و اقارب کے پاس جو نعمتیں دیکھتی اُس کا دل چاہتا یہ سب کچھ وہ بھی کسی طرح حاصل کرلے۔ اتفاقاً اس کی ہم جماعت، پڑوسن اور سہیلی شاہدہ کی شادی اور ثانیہ کی شادی ایک ہی ہفتے میں طے پائیں۔ شادی کے بعد ثانیہ کو جب پتا چلا کہ اس کی دوست شاہدہ کی شادی ایک امیر کبیر خوبرو نوجوان سے ہوئی ہے جو ایک بڑے عالیشان مکان میں رہائش پذیر ہے تو وہ دنگ رہ گئی۔ وہ دونوں بچپن کی سہیلیاں تھیں، دونوں کے گھریلو اور معاشی حالات اور تعلیم بھی یکساں تھی۔ اگرچہ ثانیہ کا شوہر بھی غریب نہ تھا، وہ ایک پڑھا لکھا اور محنتی نوجوان تھا جس کی والدہ اور بہن نہ صرف محنت کش بلکہ نیک سیرت تھیں۔ تین کمروں کے ایک اپارٹمنٹ میں رہائش تھی۔ اگر دیکھا جائے تو ثانیہ کے اپنے والدین کے معاشی حالات سے قدرے بہتر حالات اس کے سسرال کے تھے، لیکن وہ اپنی دوست شاہدہ سے حسد کرنے لگی۔ اسی ناشکری، حسد اور لالچ نے اس کا گھر تباہ کردیا۔ آخر وہ طلاق کا پروانہ لے کر والدین کے گھر آگئی۔ نچلے متوسط طبقے کی اس لڑکی کو آگے چل کر جن تکلیف دہ حالات کا سامنا کرنا پڑا اس کا تذکرہ یہاں غیر ضروری ہے۔ اس واقعے میں حسد، حرص، لالچ وغیرہ جیسی خصلتیں ثانیہ کی طلاق کا سبب بنیں۔
٭…٭…٭
غصہ:
راشد محنتی اور درگزر کرنے والا شخص تھا، جبکہ سکینہ تیز مزاج، غصیلی اور چڑچڑی طبیعت کی مالک تھی۔ راشد صبح کا گیا رات گئے آفس سے لوٹتا تو سکینہ شکایتوں کے دفتر کھول دیتی۔ کبھی بچوں کی شکایت، کبھی سسرالیوں کی، کبھی آس پڑوس کی۔ وہ ہاں ہوں کرتا رہتا۔ ایک دن آفس سے آیا تو مہمان گھر میں تھے۔ باورچی خانے میں کھڑی سکینہ جھنجھلائی ہوئی سسرالی مہمانوں کے لیے کھانا بنا رہی تھی، شوہر کو دیکھ کر آپے سے باہر ہوگئی۔ راشد نے اسے ٹھنڈا کرنے اور تحمل سے کام لینے کی تلقین کی، لیکن اس کی آواز اونچی ہوتی گئی جو مہمانوں کے کانوں میں بھی پہنچی۔ مہمان بہانہ کرکے وہاں سے رخصت ہوگئے۔ راشد انسان تھا فرشتہ نہیں، آخر غصے میں آگیا اور وہ کچھ ہوگیا جو ایسی صورتِ حال میں ہوجاتا ہے۔
ازدواجی بندھن کو قائم رکھنے کے لیے افہام و تفہیم، درگزر، برداشت اور تحمل کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان خوبیوں کے فقدان کی وجہ سے یہ واقعہ ظہور پذیر ہوا۔
٭…٭…٭
بعض اوقات زوجین کے عزیز و اقارب کی دخل اندازی بھی طلاق کا سبب بن جاتی ہے۔ میں نے اپنے آس پاس چند ایسی طلاقیں دیکھیں جن کی وجہ لڑکی یا لڑکے کے رشتے داروں کی دخل اندازی بنی۔ پچھلے دنوں ایک بچی کی طلاق ہوئی جس کا تذکرہ میں نے اپنے کالم میں بھی کیا تھا۔ لڑکے کی بہنوں نے بھائی کو اتنا مجبور کیا کہ زوجین میں طلاق ہوگئی۔ اسی طرح ثانیہ اور راشد کے گھریلو حالات بھی ثانیہ کی ماں بہنوں کی دخل اندازی اور ثانیہ کو بدظن کرنے کی وجہ سے سنگین ترین نہج پر پہنچ گئے۔ اتفاقاً ثانیہ کی ایک دوست نے اسے خبردار کیا اور طلاق کے بعد کے سنگین نتائج بتائے تو اسے ہوش آگیا اور یہ رشتہ ٹوٹنے سے بچ گیا۔
٭…٭…٭
ان چند واقعات کی روشنی میں ہم اخذ کرسکتے ہیں کہ آج کل طلاق کے پیچھے کیا وجوہات کارفرما ہیں۔ بچیوں کی تعلیم و تربیت میں اس بات کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے کہ وہ اپنے سسرال کے ماحول اور حالات کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنے کی کوشش کریں۔ اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے وہ ذہن میں جو محل تعمیر کرکے سسرال پہنچتی ہیں وہاں کسی بھی سمجھوتے کی گنجائش نہیں ہوتی۔ اگر ماں باپ کسی مجبوری کے تحت کسی کے ساتھ بندھن باندھ بھی دیتے ہیں تو یا تو تمام زندگی لڑائی جھگڑوں کی نذر ہوجاتی ہے یا نوبت طلاق تک پہنچ جاتی ہے۔ مثلاً ایک بچی جو متوسط طبقے سے تعلق رکھتی تھی جب اُس نے انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی تو اس کی شادی اپنے جیسے متوسط طبقے کے نوجوان سے ہوگئی۔ لڑکی نے سوچا کہ شادی کے بعد کسی فرم یا کمپنی میں ملازمت کرکے خوب کمائوں گی، لیکن لڑکے والوں کو یہ سب پسند نہ تھا کہ ان کی بہو تمام دن گھر سے باہر سر کھپاتی رہے، لہٰذا انہوں نے اسے کسی تعلیمی ادارے میں ملازمت کرنے کو کہا۔ اس نے شوہر اور سسرال والوں کے کہنے پر اسکول میں ملازمت تو کرلی لیکن روز گھر میں لڑائی جھگڑے ہونے لگے۔ لڑکی کا کہنا یہ تھا کہ میری تعلیم کو ضائع کیا جارہا ہے۔ چند ماہ بعد اس نے اسکول کی ملازمت کو خیرباد کہا اور ایک کمپنی میں ملازمت شروع کی۔ صبح آٹھ بجے کی گھر سے نکلی رات آٹھ بجے گھر پہنچتی۔ شوہر نے لاکھ سمجھانے کی کوشش کی، لیکن اس نے شوہر کو ’’ٹکا‘‘ سا جواب دے دیا کہ وہ کسی طرح سمجھوتہ نہیں کرے گی، اسے ہر حال میں اپنے مطلوبہ شعبے میں ہی ملازمت کرنی ہے۔ لہٰذا طلاق کا پروانہ لے کر گھر پہنچ گئی۔ اس سلسلے میں ایک اور بچی سے بات ہوئی جو اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اعلیٰ عہدے پر فائز تھی، اس نے کہا: شادی کے بعد میں نے محسوس کیا یہ ملازمت میرے گھریلو حالات پر اثرانداز ہوگی، میں اپنا گھر تباہ کرنا نہیں چاہتی تھی لہٰذا ملازمت کو خیرباد کہنا پڑا۔ اس طرح اُس کا گھر ٹوٹنے سے بچ گیا۔ ان واقعات کی روشنی میں واضح ہے کہ کن وجوہات کے سبب گھر ٹوٹتے ہیں۔ لہٰذا افہام و تفہیم، صبر و شکر اور سمجھوتے اور اخلاص سے کام لینا ضروری ہے۔ نہ صرف لڑکے اور لڑکی بلکہ زوجین کے عزیز و اقارب کو بھی دوراندیشی کا مظاہرہ کرنا لازم ہے۔ کسی کے ازدواجی مسائل میں غیر ضروری لوگوں کی دخل اندازی معاملات کو گمبھیر بنادیتی ہے۔ سوچ سمجھ کر، سمجھ دار لوگوں سے گھریلو مسائل کو ڈسکس کرنا چاہیے، نہ کہ ہر ایرے غیرے، غیر سنجیدہ لوگوں سے۔ یہ رشتے شیشے سے بھی زیادہ نازک ہوتے ہیں، خصوصاً والدین کو نہ صرف بچوں کی خاص تربیت کرنی چاہیے کہ بندھن قائم رہے بلکہ کوشش کرنی چاہیے کہ دخل اندازی نہ کریں۔ ایک خاتون نے بتایا کہ میری بہو بہت اچھی ہے لیکن اُس کی ماں کا بار بار ہمارے گھر میں جھانکنا اور بیٹی اور داماد کے معاملے میں دخل اندازی کرنا کسی بڑے خطرے کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔
آخر میں اس جملے سے اِس کالم کا اختتام کروں گی کہ طلاق اسلامی رو سے بدترین اور قابلِ نفرت ہے، لہٰذا سوائے ’’شرعی عذر‘‘ کے اس سے بچنے کی کوشش کریں۔
nn

حصہ