دل بیدار فاروقی

387

ام محمد عبداللہ

وہ قوی تھے۔ بہادر اور جنگ جو تھے۔ علم والے تھے کہ اس وقت پڑھے لکھوں میں شمار تھا جب قبیلہ قریش کے صرف 17 لوگ پڑھنا لکھنا جانتے تھے۔ وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل پر تلے بیٹھے تھے مگر قرآن حکیم کی اثر آفرینی تھی کہ بارگاہ نبوت میں قبول اسلام کے لیے گردن جھکائے آئے تھے۔ ان کا قبول اسلام تھا کہ مسلمانوں کے لیے خوشی کا باعث تھا۔ وہ خوفناک دشمن سے شدید حامی بن کر ابھر آئے تھے۔ وہ ابو حفص کی کنیت رکھنے والے، فاروق کا لقب پانے والے، دوسرے خلیفہ راشد حضرت عمررضی اللہ عنہ تھے۔
ان کا دور خلافت بھی خود انہی کی طرح اپنی مثال آپ تھا۔ 2251030 مربع میل کے فاتح مفلس بڑھیا کی داستان غم پر اشک ندامت بہاتے اناج کی بوری خود اٹھا لائے تھے۔ بھرے مجمع میں لمبی قمیص ایک سوالیہ نشان بن گئی تھی مگر وہ کڑے احتساب سے گزرتے سرخرو ٹھہرے تھے۔ صرف یہ ہی نہیں ان کے دور خلافت میں آزادی و انصاف کی اک نئی تاریخ رقم ہو رہی تھی۔ وہ گرج رہے تھے، ’’یہ سب انسان جب ماں کے پیٹ سے جنم لیتے ہیں تو بالکل آزاد ہوتے ہیں تم نے انہیں کب سے غلام سمجھ لیا ہے۔‘‘ گورنر کا مجرم بیٹا کٹہرے میں لاجواب کھڑا کوڑوں کی سزا پانے کو تھر تھر کانپ رہا تھا۔ بات صرف آزادی و انصاف کی بھی نہ تھی وہ تو دیانت و مساوات کے بھی اعلی معیار دنیا کو روشناس کروا رہے تھے۔ مدینہ سے بیت المقدس کو جاتے راستے گواہ ہیں کہ بجز فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے یہ حوصلہ کسی میں نہ تھا کہ آقا چل دیے پیدل سواری پہ غلام آیا۔
وہ جہاں مجسم عجز و انکسار تھے وہاں صاحب تدبر و تدبیر بھی تھے۔ ان کے قائم کردہ قواعد حکومت آج بھی عالم میں قابل تقلید ہیں۔ وہ کوفہ، بصرہ، شام، مصر اور موصل جیسے خوبصورت اور کشادہ شہر بسانے والے تھے۔ سن ہجری اور سکوں کا اجرا، مجلس شوری کا قیام اور شوری نظام کا آغاز انہوں نے ہی فرمایا۔ باقاعدہ فوجی نظام، فوجی قوانین، فوجی دفاتر، فوج کی بیرکیں اور چھاونیوں کا قیام، پولیس کے محکمے، جیل خانہ جات اور قید خانوں کا قیام، محکمہ قضا اور شہر میں قاضیوں کے تقرر کا عمل، سرکاری دفاتر، خزانے اور بیت المال کی بنیاد، مساجد میں اماموں اور موذنوں کا تقرر، نہروں کی کھدائی اور زرعی نظام کی بنیاد و اصلاحات، دارالامان، دیوان خانوں، مہمان خانوں، چوکیوں اور سرائوں کا قیام ان ہی کے دم قدم سے عمل میں آیا۔ شہروں میں کشادہ سڑکوں کا جال، مکہ و مدینہ میں بہترین سفری سہولتیں، مردم شماری اور پیمائش کے نظام کا اجرا ان ہی کی فہم و فراست کا نتیجہ تھا۔ مسجد نبوی اور مسجد الحرام کی توسیع و تعمیر، تروایح کی سنت، مقام ابراہیم کی مجودہ جگہ، مساجد میں چراغ جلانے کی روایت، نماز جنازہ میں چار تکبیریں، شراب پینے پر 80 درے، غیر مسلموں کا عرب سے اخراج، گھوڑوں پر زکوۃ، غریبوں اور بیوائوں کے لیے وظائف، عدلیہ کا بہترین فوری اورشفاف نظام دنیائے عالم کو تحفہ عہد فاروقی رضی اللہ عنہ ہیں۔
اسلامی سلطنت کو وسعت دینے والے اور بہت سی اصلاحات کرنے والے فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کو مخاطب کر کے میرے آقا خاتم النبین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا تھا، ’’قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ و قدرت میں میری جان ہے، شیطان جب تجھے کسی راستے پر چلتا ہوا ملتا ہے تو شیطان وہ راستہ چھوڑ کر دوسرا راستہ اختیار کر لیتا ہے، کہ جس راستے پر تو چلتا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم)۔ شیطان کو رستہ بدلنے پر مجبور کرنے والے امیر المومنین کی تمنا بھی انہی کی طرح حیران کر دینے والی تھی۔ وہ بارگاہ الہی میں درخواست پیش کیا کرتے کہ ’’اے اللہ! مجھے اپنے راستے میں شہادت عطا فرما اور اپنے رسول کے شہر، مدینہ میں موت دے۔‘‘ (بخاری)۔ ان کی درخواست قبول ہوئی اور 27 ذی الحجہ کو نماز فجر کی امامت کے دوران ایک پارسی غلام ابو لولو نے ان پر قاتلانہ حملہ کیا۔ یکم محرم کو زخموں کی تاب نہ لا کر وہ رحلت فرما گئے۔ انہیں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پہلو میں دفن ہونے کی سعادت حاصل ہوئی۔
آج صدیوں بعد بھی ان کا پڑھایا ہوا، عمل کر کے دکھایا ہوا صداقت، شجاعت اور دیانت کا سبق ایک باز گشت کی مانند فضائوں میں گونج رہا ہے۔ ہے کوئی ہم میں ایسا جو اس گونج پر لبیک کہے۔ مالک ارض و سماوات کی اس کائنات ارضی پر ان کی مانند خلافت کا حق دار ٹھہرے۔

نیو ورلڈ اآڈر اور پاکستان
فائزہ فرید

2020ء امریکا میں صدارتی انتخابات کا سال ہے، پھر سے صدر بننے کے لیے ٹرمپ کی کوششیں تیز ہوچکی ہیں۔ افغانستان سے امریکی فوجیوں کا انخلا بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی سمجھا جا رہا تھا۔ ٹرمپ کی کوشش یہی تھی کہ جلد از جلد امریکی فوجیوں کا انخلا شروع کیا جائے کیونکہ امریکی عوام اب ٹریلئنز ڈالر خرچ کرنے اور سینکڑوں فوجی جوانوں کی ہلاکت کے بعد اس جنگ کو خیر آباد کہنا چاہتے ہیں۔ پچھلی صدارتی مہم کے دوران ٹرمپ نے امریکی عوام کو یہ لارا بھی لگایا تھا۔ دوسرے الفاظ میں پوری دنیا کا ماما بننے کے چکر میں امریکی عوام کافی کچھ گنوا کر اب اس فرض سے دستبردار ہونا چاہتے ہیں مگر طالبان امریکا کی شرائط پہ راضی نہیں اور امریکا کو طالبان کی شرائط پہ راضی ہونے نہیں دیا جا رہا۔ صدر ٹرمپ نے دعویٰ کیا ہے کہ طالبان سے مذاکرات کا فیصلہ بھی ان کا ذاتی فیصلہ تھا اور اب مذاکرات کو ختم کرنا بھی انہی کا فیصلہ ہے اور ایسا کیوں نہ ہو جبکہ ٹرمپ کو اقتدار کے سنگھاسن تک پہنچانے والے پینٹاگون اور دوسرے اہم اداروں میں بیٹھے یہودی تھنک ٹینک کی بھی تو یہی منشا ہے۔
ایک بات روز روشن کی طرح اب ہم پر عیاں ہونی چاہیے کہ 2020 اسرائیل اور یہودیوں کے طرف سے نیو ورلڈ آرڈر کا سال ڈکلیئر کیا گیا ہے اور اس نیو ورلڈ آرڈر کے لاگو ہونے سے پہلے اسرائیل افغانستان سے امریکا کو نکلنے کی اجازت کبھی نہیں دے گا۔اسی طرح امریکی قومی سلامتی کے تمام ادارے جو بلاواسطہ یا بالواسطہ یہودیوں(اسرائیل) کے زیر کنٹرول ہیں وہ بھی ٹرمپ کو ایسا کچھ کرنے کے لیے مدد فراہم نہیں کریں گے۔ اس وقت اسرائیل کا سارا زور خلیجی ممالک کو اپنا مطیع بنانے کا ہے اور ان کو دجال کا راستہ صاف کرنے کے لیے ہر صورت گریٹر اسرائیل کا منصوبہ مکمل کرنا ہے۔
ایسے میں اپاہج خلیجی ممالک کی مدد کو اگر کوئی پہنچ سکتا ہے تو وہ وہی مشرقی اسلامی ملک ہے جو کہ پہلی اور واحد اسلامی ایٹمی قوت بھی ہے۔ کیا پھر کشمیر کا مسئلہ حل ہو جائے گا؟ امریکا ہزیمت اٹھا کر واپس چلا جائے گا اور افغانستان پر گڈ طالبان کی حکومت ہو جائے گی تو ایسا ہرگز نہیں ہوگا۔ امریکا افغانستان اس وقت تک نہیں چھوڑے گا جب تک اسرائیل کو پاکستان کی طرف سے رتی برابر بھی خطرہ ہے۔ اس وقت مجھے سابق آئی ایس آئی چیف جنرل حمید گل کی بات یاد آ رہی ہے کہ یہ دہشتگردی کے خلاف جنگ تو صرف اور صرف ڈرامہ ہے۔ اصل مقصد تو پاکستان کی تباہی ہے بلکہ جنرل صاحب کے الفاظ کچھ اس طرح ہوتے تھے۔’ ’امریکا کا بہانہ طالبان، ٹھکانہ افغانستان اور نشانہ پاکستان ہے‘‘۔ جو آج اس دنیا کے طول و ارض میں ہو رہا ہے اس میں کہیں نا کہیں یہودیوں اور اسرائیل کا ہاتھ ضرور ہے۔
یہود اس وقت قیامت کی چاپ سن رہے ہیں۔ وہ دن میں 3 بار اپنے دجال مسیح کو پکارتے ہیں اور اس کے استقبال کی تیاریاں کر رہے ہیں بہت جلد وہ جبل الزیتون پہ موجود سنہری عمارت کو توڑ کر ہیکل سلیمانی کی تلاش کا کام وسیع کرنے والے ہیں ایسے میں انھیں اپنے راستے میں آنے والی ہر مزاحمت کو کچلنا ہے۔ اس کے لیے چاہے انھیں کوئی تیسری عالمی جنگ ہی کیوں نا کرانا پڑے۔ایک اہم اطلاع کے مطابق 10 اگست 2019ء کو ہیکل سلیمانی کی تلاش کے حوالے سے ایک اہم نشانی ظہور پذیر ہوئی ہے۔
یہود کے عقیدے کے مطابق قیامت اس وقت واقع ہونے والی ہو گی جب بیت المقدس میں دیوار گریہ کے پاس لومڑوں کا حملہ ہو گا۔ اس علاقے میں پہلے کبھی لومڑ نہیں دیکھے گئے مگر 2019ء کے اگست کی 10 تاریخ کو یہودیوں کے اہم دن کے موقع پر وہاں لومڑ دیکھے گئے ہیں جس کے نتیجے میں اب یہودیوں کی تیاریاں زیادہ تیز ہو گئی ہیں ایسے میں امریکی صدر یہ اعلان کرتا ہے کہ ’’طالبان کے ساتھ مذاکرات میرے خیال میں بالکل ختم ہو چکے ہیں‘‘۔ ساری دنیا کے ایوانوں میں اس اعلان کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ امریکا افغانستان میں اپنا قیام معاہدے کے خلاف بڑھا رہا ہے۔پاکستان کی افواج اور حکومت کو کشمیر میں بد ترین مظالم میں الجھا دیا گیا۔
ہماری اکانومی جیسا کہ میں پہلے لکھ چکی ہوں اب صرف ستر ڈھانپنے جتنی ہی باقی ہے۔ امریکا، چین سمیت ہر ملک کے ہم مقروض ہیں اسی لیے شاید چاہ کر بھی کسی ملک کی مدد نہ کرسکیں گے۔ دنیا کے طول و ارض میں مسلمانوں کا خون بہایا جا رہا ہے۔ افغان طالبان کو خفیہ ملاقاتوں کی دعوت دے کر پھر مذاکرات کے ختم ہونے کا اعلان کیا جارہا ہے۔ عالمی برداری کشمیر میں جاری ہندوستانی مظالم کے خلاف گونگے کا سا احتجاج کر رہی ہے مگر39 روز سے کرفیو جاری ہے۔ ایسے میں بین الاقوامی تنظیمیں آپکو مزید ایک ڈالر بھی قرض دینے پہ راضی نہیں اور حال یہ ہے کہ ہمیں قرضوں کی ادائیگی کے لیے مزید قرضے لینے پڑ رہے ہیں۔ یہ تمام حالات ہمیں سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔ اس لیے سوچیے گا ضرور۔
nn

امن کی متلاشی
انیلہ افضال

امریکی صدر مسٹر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر افغان مجاہدین کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کو منسوخ کردیا ہے۔ اس کی وجہ امریکی صدارتی دفتر نے یہ بتائی ہے کہ مجاہدین نے کابل میں ہونے والے بم دھماکے کی ذمہ داری قبول کر کے اپنی پوزیشن کمزور کر لی ہے۔ یاد رہے کہ مقررہ تاریخ سے پہلے کابل میں ہونے والے بم دھماکے میں ایک امریکی فوجی سمیت متعدد افراد جان کی بازی ہار گئے تھے۔ امریکا نے اپنے عظیم فوجی کی ہلاکت کو مذاکرات کی منسوخی کی وجہ بنایا ہے جو کہ یقیناً ایک بھونڈی سی وجہ ہے۔ طالبان کی یہ دیدہ دلیری امریکی اسٹیبلشمنٹ کو ایک آنکھ نہیں بھائی اور انہوں نے ایسے لوگوں کے ساتھ کسی قسم کے مذاکرات کرنے سے قطعاً انکار کر دیا ہے جو اپنی شرائط کو منوانے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ بظاہر تو ایسا لگتا ہے کہ افغان طالبان جو اپنے آپ کو مجاہدین کہتے ہیں وہ کسی بھی طرح سے افغان مسلے کو حل کرنا نہیں چاہتے۔ کیوں کہ اگر ایسا نہ ہوتا تو مذاکرات سے فوراً پہلے دارالحکومت میں اس قسم کی دہشت گردی نہ کی جاتی۔ اس قسم کے واقعات کا ہونا اور پھر اس کی ذمہ داری کو ڈنکے کی چوٹ پر قبول کرنا دراصل اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ افغانستان میں امریکی افواج کی موجودگی کس قدر ضروری ہے۔ لیکن یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ امریکی افواج جہاں بھی گئی ہیں انہوں نے صرف انارکی ہی پیدا کی ہے۔افغان صدر اشرف غنی اپنے اتحادیوں کے ساتھ ہیں اور ان کی امن کو کوششوں کو سراہتے ہیں۔ اور وہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کے تعاون سے ملک میں مکمل اور پائیدار امن کے خواہاں ہیں۔ جبکہ دوسری جانب افغان مجاہدین کے ترجمان مجاہد ذبیح اللہ کے مطابق طالبان ملک میں امن قائم کرنے کے لیے مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کو غالباً اب بھی تیار ہیں۔ صدر ٹرمپ نے امن مذاکرات کو منسوخ کر کے شاید غلطی کی ہے۔ جبکہ افغان مجاہدین کی جانب سے امن مذاکرات کے لیے دروازے کھلے ہیں۔ امن مذاکرات کو منسوخ کرنے سے امریکہ کو پہلے سے زیادہ نقصان اٹھانے کے لیے تیار رہنا پڑے گا۔ یہ بات بھی کوئی ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ امریکہ کی جانب سے امن مذاکرات کی دعوت حصوصی مندوب زلمے خلیل زاد نے دی تھی لیکن مجاہدین نے اسے قطر امن معاہدے پر دستخط تک معطل کر دیا تھا۔
پاکستان نے ہمیشہ امن کوششوں کو سراہا ہے۔ پاکستان گزشتہ کئی سالوں سے دھشتگردی کے خلاف جنگ میں مصروف ہے اور وہ بطور ایک امن پسند ملک کے کسی بھی طرح دہشت گردانہ کارروائیوں کا ساتھ نہیں دے سکتا۔ افغان امریکہ امن مذاکرات کا یوں اچانک منسوخ کردیا جانا پاکستان کے لیے بھی تشویش کا باعث ہے۔ پاکستان دونوں فریقین کی جانب سے برداشت اور تحمل کا مظاہرہ چاہتا ہے۔ کیونکہ اتنے سالوں کے تجربات کے بعد یہ تو طے ہے کہ افغان مسئلے کا حل صرف اور صرف مذاکرات کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
خطے میں پاکستان کی پوزیشن کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ جس طرح سے پاکستان نے گزشتہ کئی سالوں سے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑی ہے اس کا اعتراف پوری دنیا کرتی ہے۔ ہمت اور حوصلے کے ساتھ ساتھ بے شمار قربانیاں بھی پاک افواج کے بورڈ پر ہیں۔ان تمام تر تجربات سے ہم نے یہی سبق سیکھا ہے کہ خطے میں مستقل اور پائیدار امن کے واحد راستہ مذاکرات کی میز پر ہی ممکن ہے جبکہ طاقت کے استعمال سے امن قائم کرنا ممکن نہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ جس طرح افغانستان کئی دہائیوں سے اپنے بقا کی جنگ لڑ رہا ہے اسی طرح کشمیر بھی گزشتہ بہتر سالوں سے اپنے حقوق کی جنگ لڑی رہا ہے۔ ایک عظیم سپاہی سمیت کئی دوسرے لوگوں کی اموات نے امریکی صدر کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور انہوں نے افغان امن مذاکرات کو منسوخ کر دیا ہے جبکہ ستر سالوں سے قربانیاں دے رہی کشمیری قوم کی جانیں، مال اور عصمتیں کسی گنتی میں نہیں آتیں۔ اگرچہ اس بات سے انکار نہیں کہ صدر ٹرمپ نے مسلح کشمیر پر ثالثی کی واضح پیشکش کی ہے مگر عملی طور پر تو درکنار ، اخلاقی طور پر بھی کشمیریوں کے لیے کوئی بیان نہیں دیا۔ کیا ایک امریکی فوجی کی جان لاکھوں کشمیریوں کی جانوں اور عصمتوں سے بڑھ کر ہے۔
افغانستان، پاکستان اور کشمیر تینوں ہی امن چاہتے ہیں۔ پھر چاہے یہ امن اپنے ہی ملک میں جنگ لڑ کر حاصل ہو، یا طالبان یا مجاہدین کی جنگ ہو یا پھر کشمیریوں کی بے شمار جانی قربانیاں ہوں یا خواتین کی عصمت کی قربانیاں، ان سب کی چاہت ، ان سب کا مقصد امن کاقیام ہے تاکہ آنے والی نسلوں کو ایک پر امن معاشرتی دیا جا سکے۔ ان تمام قربانیوں اور اُن قربانیوں کے مقاصد کو سامنے رکھتے ہوئے وزیراعظم پاکستان کو امریکا کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے ہر ممکن قدم اٹھانا ہو گا اور امریکا کو امن کے قیام میں کردار ادا کرنا ہی ہو گا۔

حصہ