محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو جانیں مانیں اور پیروی کریں

609

سید مہرالدین افضل

آپؐ کی نبوت سے پہلے کی زندگی کو دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم جن لوگوں میں پیدا ہوئے، جن میں بچپن گزرا، جن کے ساتھ پل کر جوان ہوئے، جن سے آپؐ کا میل جول رہا، جن سے آپؐ کے معاملات رہے… ابتدا ہی سے عادات میں، اخلاق میں آپؐ ان سب سے مختلف نظر آتے ہیں۔ آپؐ کی صداقت پر ساری قوم گواہی دیتی ہے… آپؐ کے کسی بدترین دشمن نے کبھی آپؐ پر یہ الزام نہیں لگایا کہ آپؐ نے کبھی کسی موقع پر جھوٹ بولا تھا۔ آپؐ کسی سے بدکلامی نہیں کرتے۔ کسی نے آپؐ کی زبان سے کبھی گالی یا کوئی فحش بات نہیں سنی۔ آپؐ لوگوں سے ہر قسم کے معاملات کرتے ہیں، مگر کبھی کسی سے تلخ کلامی اور تُوتُو مَیں مَیں کی نوبت ہی نہیں آتی۔ آپؐ کی زبان میں سختی کے بجائے مٹھاس ہے… اور وہ بھی ایسی کہ جو آپؐ سے ملتا ہے دل دے بیٹھتا ہے۔ آپؐ کسی کا حق نہیں مارتے۔ برسوں کاروبار کرنے کے باوجود کسی کا ایک پیسہ بھی ناجائز طریقے سے نہیں لیتے۔ ساری قوم آپؐ کو امین کہتی ہے… دشمن تک اپنے قیمتی مال آپؐ کے پاس رکھواتے ہیں اور آپؐ اُن کی بھی حفاظت کرتے ہیں۔

ہم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک عظیم تاریخی شخصیت کے طور پر مانتے ہیں… عقیدت رکھتے ہیں… اُن پر مرمٹنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ لیکن آج کے دور میں اُن کی سیرت و کردار کی پیروی کرنے کے لیے تیار نہیں۔ انکار زبان سے نہیں کرتے، لیکن عمل سے اِس کا مکمل اظہار ہوتا ہے۔ اِسی لیے اِس کا علم حاصل کرنے اور اس پر غور و فکر کرنے کی کوشش بھی نہیں کرتے۔ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے’’معجزاتی‘‘ طور پر بہت مختصر مدت میں انسانی زندگی کے دریا کا رخ موڑ دیا… اور اِس طرح وہ جدوجہد جو تمام انسانی ضرورتوں کا لحاظ کرتے ہوئے… اور معاشرتی، قبائلی، سیاسی، معاشی، زمینی حقیقتوں کا مقابلہ کرتے ہوئے کامیاب ہوئی… نگاہوں سے اوجھل ہوجاتی ہے۔ آپؐ کی اِس جدوجہد کو جاننے کا انتہائی محفوظ اور مستند ذریعہ قرآن مجید ہے… اور ہماری خوش قسمتی ہے کہ زیادہ تر آیات اور سورتوں کے بارے میں ہم مستند ذرائع سے یہ جان سکتے ہیں کہ یہ کب اور کس موقع پر نازل ہوئیں، اور اِن پر کس طرح عمل درآمد کیا گیا۔ جب تک قرآن مجید کو اِس طرح پڑھنے اور سمجھنے کا طریقہ عام نہ ہوگا، اُس وقت تک اِس کے ذریعے سے حالاتِ حاضرہ (Current affairs) میں رہنمائی نہیں مل سکتی۔ اور اسلامی تحریک اور اُس کے کارکنوں کے لیے یہ لازم ہے کہ وہ ہر مرحلے اور موقع پر قرآن کریم سے یہ پوچھیں کہ اِس موقع پر کیا ہدایت ہے؟ اور قرآن سے اُن کا تعلق ایسا ہو کہ وہ اُنہیں ہر موقع پر یہ بتائے کہ اِس موقع، اور اِس مرحلے پر یہ آیت اور یہ سورۃ رہنمائی کرے گی۔ سورۃ الانفال سن 2 ہجری میں جنگِ بدر کے بعد نازل ہوئی ہے… اور اِس میں اہلِ کفر کا طرزِ فکر و عمل، منصوبے اور اِقدام و اَنجام… اہلِ اِیمان کے جنگ سے پہلے اور بعد کے مختلف رویّے… سب پر تفصیلی تبصرہ کیا گیا ہے۔ ضرورت اِس بات کی ہے کہ ہم ہر سورہ کو پڑھتے ہوئے اُس وقت کے حالات اور اُس سے پہلے گزرے ہوئے حالات کو پیشِ نظر رکھیں… اِن شا اللہ ہم سورۃ انفال اور سورۃ توبہ کا مطالعہ اِسی طرح کرنے کی کوشش کریں گے، تاکہ یہ جان سکیں کہ بدر اور تبوک سے پہلے دعوت و تحریک کو کون کون سی منزلیں عبور کرنی پڑتی ہیں… اور ’’عشقِ بلاخیز کا قافلۂ سخت جاں‘‘ آج کس منزل اور ’’کس وادی‘‘ میں ہے۔

عذاب یا اتمامِ حُجَّت: ۔

کُفار آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے معجزہ اور عذاب مانگتے تھے۔ آپؐ نے معجزے کے طور پر اپنی زندگی اور قرآن مجید کو پیش کیا… اور عذاب کے مطالبے کو ہنس کر ٹالتے رہے۔ اِس لیے کہ آپؐ عذاب دینے یا دلوانے کے لیے نہیں آئے تھے، بلکہ عذاب سے بچانے اور ڈرانے آئے تھے۔ آپؐ عذاب سے ڈراتے رہے اور اس سے بچنے کی تلقین کرتے رہے۔
سورۃ الانفال میں اُس عذاب کی تفصیل ہے جو قریش کے متکبر سرداروں پر غزوہ بدر میں نازل ہوا۔ یہ عذاب، ویسا عذاب نہ تھا جیسا گزشتہ قوموں پر نازل ہوا کہ پوری قوم ہی صفحۂ ہستی سے مٹا دی گئی… بلکہ اِس عذاب کے ذریعے عرب کی قیادت تبدیل کی گئی۔ اِس سورۃ کا مطالعہ کرنے سے پہلے یہ جان لینا چاہیے کہ یہ عذاب آپؐ کی پندرہ سالہ جدوجہد، اور اِس کے نتیجے میں قائم ہونے والے اتمام حجت کے بعد آیا تھا۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ کوئی شخص یا گروہ دعوت اور اتمام حجت کی تو کوئی کوشش نہ کرے… یا ادھوری، نامکمل اور غیر واضح کوشش کرے… اور بس انسانوں پر عذاب ِ الٰہی بن کر ٹوٹنے کے لیے تیار ہوجائے۔ یا دعوت تو پہنچائے نہیں، عذاب کی دُعا مانگتا رہے۔

دو معجزے:۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مکہ مکرمہ میں صرف دو چیزیں تھیں… ایک آپؐ کی سیرت وکردار، اور دوسرے قرآن مجید۔ آپؐ کی سیرت و کردار کو دیکھنے کے لیے… جس کے نتیجے میں غزوہ بدر میں سرداروں پر عذاب آیا… ہمیں آپؐ کی پوری پچپن سالہ زندگی کو دیکھنا ہوگا، جس میں نبوت سے پہلے کے چالیس سال… مکہ مکرمہ میں تیرہ سال، اور پھر مدینہ منورہ کے تقریباً دو سال۔ سب سے پہلے ذرا اپنی آنکھوں کو بند کرکے تصور کی آنکھوں سے آج سے ساڑھے چودہ سو سال پہلے کی دُنیا پر غور کریں۔ کتنا اندھیرا ہے۔ کیا یہ اندھیرا بجلی نہ ہونے کی وجہ سے ہے؟ نہیں… یہ ظلم، ناانصافی، بددیانتی، بے حیائی، جہالت اور جبر کا اندھیرا ہے۔ تو کیا یہ اندھیرا آج نہیں؟ اگر آپ کہتے ہیں کہ ویسا ہی اندھیرا ہے اور بہت گہرا ہے، تو کیا ہمیں روشنی کا انتظام ویسے ہی نہیں کرنا چاہیے جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا؟

محمد صلی اللہ علیہ وسلم نبوت سے پہلے: ۔

جب ہم آپؐ کی نبوت سے پہلے کی زندگی کو دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم جن لوگوں میں پیدا ہوئے، جن میں بچپن گزرا، جن کے ساتھ پل کر جوان ہوئے، جن سے آپؐ کا میل جول رہا، جن سے آپؐ کے معاملات رہے… ابتدا ہی سے عادات میں، اخلاق میں آپؐ ان سب سے مختلف نظر آتے ہیں۔ آپؐ کی صداقت پر ساری قوم گواہی دیتی ہے… آپؐ کے کسی بدترین دشمن نے کبھی آپؐ پر یہ الزام نہیں لگایا کہ آپؐ نے کبھی کسی موقع پر جھوٹ بولا تھا۔ آپؐ کسی سے بدکلامی نہیں کرتے۔ کسی نے آپؐ کی زبان سے کبھی گالی یا کوئی فحش بات نہیں سنی۔ آپؐ لوگوں سے ہر قسم کے معاملات کرتے ہیں، مگر کبھی کسی سے تلخ کلامی اور تُوتُو مَیں مَیں کی نوبت ہی نہیں آتی۔ آپؐ کی زبان میں سختی کے بجائے مٹھاس ہے… اور وہ بھی ایسی کہ جو آپؐ سے ملتا ہے دل دے بیٹھتا ہے۔ آپؐ کسی کا حق نہیں مارتے۔ برسوں کاروبار کرنے کے باوجود کسی کا ایک پیسہ بھی ناجائز طریقے سے نہیں لیتے۔ ساری قوم آپؐ کو امین کہتی ہے… دشمن تک اپنے قیمتی مال آپؐ کے پاس رکھواتے ہیں اور آپؐ اُن کی بھی حفاظت کرتے ہیں۔

اندھیرا… اور اُجالا:۔

بے حیا لوگوں کے درمیان آپؐ ایسے حیادار ہیں کہ ہوش سنبھالنے کے بعد کسی نے آپؐ کو برہنہ نہیں دیکھا۔ بد اخلاقوں کے درمیان آپؐ ایسے پاکیزہ اخلاق ہیں کہ کسی بدکاری میں مبتلا نہیں ہوتے۔ شراب اور جوئے کو ہاتھ نہیں لگاتے۔ ناشائستہ لوگوں کے درمیان آپؐ ایسے شائستہ ہیں کہ ہر بدتمیزی اور گندگی سے نفرت کرتے ہیں… اور آپؐ کے ہر کام میں پاکیزگی اور سُتھرائی پائی جاتی ہے۔ سنگ دلوں کے درمیان آپؐ ایسے نرم دل ہیں کہ ہر ایک کے دکھ درد میں شریک ہوتے ہیں۔ یتیموں اور بیواؤں کی مدد کرتے ہیں۔ مسافروں کی میزبانی کرتے ہیں۔ کسی کو آپؐ سے دکھ نہیں پہنچتا… اور آپؐ دوسروں کی خاطر دکھ اٹھاتے ہیں۔ وحشیوں کے درمیان آپؐ ایسے صلح پسند ہیں کہ اپنی قوم میں فساد اور خون ریزی کی گرم بازاری دیکھ کر آپؐ کو اذیت پہنچتی ہے۔ اپنے قبیلے کی لڑائیوں سے دامن بچاتے ہیں اور مصالحت کی کوششوں میں پیش پیش رہتے ہیں۔ بت پرستوں کے درمیان آپؐ ایسے سلیم الفطرت ہیں کہ زمین و آسمان میں کوئی چیز آپؐ کو پوجنے کے لائق نظر نہیں آتی۔کسی مخلوق کے آگے آپؐ کا سر نہیں جھکتا۔ بتوں کے چڑھاوے کا کھانا بھی آپؐ قبول نہیں کرتے۔ آپؐ کا دل خود بہ خود شرک اور مخلوق پرستی سے نفرت کرتا ہے۔ اس ماحول میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایسے ممتاز نظر آتے ہیں جیسے اندھیری رات میں روشن چراغ… جیسے پتھروں میں چمکتا ہیرا… جیسے خشک صحرا میں کھِلا پھول۔ وحی کے نور نے اِس چراغ کو سورج… اور ہیرے کو روشنی کا پہاڑ بنادیا۔ اور جن لوگوں نے اِس روشنی کو قبول کیا وہ ستاروں کی طرح چمکنے لگے… لیکن جو لوگ روشنی کو پسند نہ کرتے تھے انہوں نے آنکھیں بند کرلیں۔ وحی کی بارش ِرحمت نے ایک پھول سے صحرا میں گلشن بنادیا… لیکن جو لوگ اِس رحمت کو قبول نہ کرنے والے تھے وہ کانٹے دار جھاڑیوں کی شکل میں نمودار ہوئے۔

تلاش ِ راہِ حق:۔

تقریباً چالیس سال تک ایسی پاک صاف، شریفانہ زندگی بسر کرنے کے بعد… آپؐ کی زندگی میں ایک انقلاب شروع ہوتا ہے۔ آپؐ اس اندھیرے سے گھبرا اُٹھتے ہیں جو آپؐ کے ہر طرف پھیلا ہوا تھا۔ آپؐ جہالت، بداخلاقی، بدکرداری، بدنظمی، ظلم، شرک اور بت پرستی کے اِس ہول ناک سمندر سے نکل جانا چاہتے ہیں جو آپؐ کو گھیرے ہوئے تھا۔ اِس ماحول میں آپؐ کو کوئی چیز بھی اپنی طبیعت، ذوق اور مزاج کے مطابق نظر نہیں آتی۔ آپؐ سب سے الگ ہوکر آبادی سے دور پہاڑوں کی صحبت میں جاجاکر بیٹھنے لگتے ہیں… تنہائی اور سکون کے عالم میں کئی کئی دن گزار دیتے ہیں… روزے رکھ کر اپنی روح اور اپنے دل و دماغ کو اور زیادہ پاک صاف کرتے ہیں۔ سوچتے ہیں، غوروفکر کرتے ہیں، کوئی ایسی روشنی ڈھونڈتے ہیں جس سے اِس اندھیرے کو دور کردیں… ایسی طاقت حاصل کرنا چاہتے ہیں جس سے اِس بگڑی ہوئی دُنیا کو توڑ پھوڑ کر پھر سے سنواردیں۔ (جاری ہے)
اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ ہم سب کو اپنے دین کا صحیح فہم بخشے، اور اُس فہم کے مطابق دین کے سارے تقاضے، اور مطالبے پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
وآخر دعوانا ان لحمد للہ رب العالمین۔

حصہ