کراچی کا کچرا اور عوام کی بے بسی

751

ڈاکٹر راحت جبین
پچھلے دنوں بقرہ عید کے تیسرے دن جب ہم کراچی میں داخل ہوئے تو ایک ناخوشگوار بدبو نے ہمارا استقبال کیا۔جگہ جگہ کچرے اور قربانی کے جانوروں کی آلائشوں کے ڈھیر نظر آئے۔ اس تعفن زدہ ماحول میں سانس لینا بھی دشوار ہو رہاتھا۔ حالیہ طوفانی بارشوں نے شروع شروع میں کراچی کے عوام کے لیے ایک خوبصورت ماحول پیدا کیا۔ مگر پھر یہی بارشیں رحمت کم اور زحمت زیادہ بننے لگیں اور پورے کراچی میں سیلاب کا سماں پیدا ہوگیا۔اس دوران سب سے افسوسناک بات یہ رہی کہ ، کے الیکٹرک کی نا اہلی، کام چوری اور ساتھ ہی لوگوں کی اپنی لاپروائی کی وجہ سے کئی لوگ اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ بارشوں کے بعد کراچی کی حالت ِزار ہی بدل گئی۔روشنیوں کے شہر کراچی میں پہلے صرف لیاری سوتیلے پن کی وجہ سے کچرے کا ڈھیر بنا ہوتاتھا مگر اب تو پورے کا پورا کراچی ایک کچرا خانہ بن چکا ہے۔رہی سہی کسر قربانی کے جانوروں کی آلائشوں نے پوری کردی ہے،جس کی وجہ سے نہ صرف کچرا زیادہ ہوا ہے بلکہ تعفن کی وجہ سے پورا کراچی ناخوشگوار بد بو کی لپیٹ میں ہے۔ تقریباً پچھلے ایک ماہ سے یہی صورتِ حال ہے اور کوئی بھی ادارہ کچرا صاف کرنے کی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں۔یہ صورتِ حال روز بروز مخدوش سے مخدوش تر ہو تی جارہی ہے کیونکہ روزانہ کی بنیاد پر دس ہزار ٹن کچرے کا اضافہ بھی ہو رہا ہے۔ بلکہ اب تو انٹرنیشنل میڈیا میں بھی کراچی کے کچرے کے چرچے ہونے لگے ہیں۔
اس سے فضائی آلودگی میں بھی روز بروز اضافہ ہورہا ہے، جس کی وجہ سے نہ صرف شہریوں کو سانس لینے میں مشکل پیش آرہی ہے بلکہ اہلِ کراچی مختلف امراض میں مبتلا ہو رہے ہیں جن میں سردست جلد کی بیماریاں ، جگر کی بیماریاں ، دست اور پیٹ کے امراض شامل ہیں۔ اگر کچرا جلا بھی دیا جائے تو آلودگی میں مزید اضافہ ہونے کا خدشہ ہے۔
ہماری حکومت حسب ِمعمول بجائے اپنی ذمہ داری نبھانے کے انتقام کی سیاست میں لگی ہوئی ہے۔ پہلے تو یہ تعین ہی نہیں ہوپا رہا تھا کہ اصل میں یہ کس کا کام ہے۔اب جب اس بات کا تعین ہو گیا کہ یہ کام میئر کراچی کا ہے، کچرے کا ٹھیکہ لینے والی چینی کمپنیاں ،بلدیہ اور میونسپل کمیٹی اس کے زیر نگرانی ہیں تو بجٹ کا رونا رویا گیا۔پھر جب مصطفی کمال جس کے دور میں بلاشبہ کراچی کا نقشہ ہی بدل چکا تھا، اس نے دعویٰ کیا کہ میں نوّے دن میں یہ سب صاف کرسکتا ہوں تو میئر وسیم اختر نے عوامی دبائو سے مجبور ہوکر مصطفی کمال کو تین ماہ کے لیے یہ ذمے داری سونپ دی، مگر پھر رات کو شاید انہوںنے انیل کپور کی فلم ’’نائیک‘‘ دیکھی اور صبح اٹھتے ہی 24 گھنٹے پورے ہونے سے پہلے مصطفی کمال کی تعیناتی کے احکامات واپس لے لیے۔
اس یوٹرن کے پسِ پردہ کیا عوامل ہیں یہ تو واضح نہیں ہے، مگر قیاس آرائیاں یہ بتا رہی ہیں کہ مصطفی کمال کی جانب سے فائنانس کا ریکارڈ منگوایا گیا جس میں خاصی بے قاعدگیاں پائی گئیں، جس کی وجہ سے سب کے پھنسنے کا خطرہ تھا۔ اس کے علاوہ تمام اہلکاروں کی لسٹ منگوائی گئی، جن میں زیادہ تعداد گھوسٹ ملازمین کی تھی۔ مزید برآں شاید بہت سے راز افشا ہونے کے ڈر کی وجہ سے وسیم صاحب کو یہ بات ناگوار گزری ہو اور انہوں نے یہ آرڈر معطل کروا کر کراچی کو اس کی حالتِ زار پر چھوڑ دیا کہ لوگ مرتے ہیں تو مریں، ان کا کام تو صرف اورصرف اپنی جیبیں بھرنا اور بیرونِ ملک اثاثے بنانا ہے۔ لوگوں کے گھر توڑنے والے، لوگوں کو بے روزگار کرنے والے کراچی کو اس کی اصل حالت میں لانے کا دعویٰ کررہے تھے۔ اب جب حقیقی معنوں میں ان سب کی ضرورت ہے تو وہ غائب ہیں اور کراچی لاوارث ہوگیا ہے۔
خدارا اپنی سیاست کو چمکانے کے لیے لوگوں کی زندگیوں سے مت کھیلیں۔ ہوش کے ناخن لیں۔ کل کو خدا کی عدالت میں بھی جوابدہ ہونا ہے، کیونکہ یہ صرف گندگی کے ڈھیر نہیں ہیں بلکہ آلودگی کا منبع ہیں، اور انسانی جانوں کے لیے کینسر، جلد، گردوں، پھیپھڑوں اور جگر کی خطرناک اور جان لیوا بیماریاں ہیں۔

حصہ