استحکامِ پاکستان

485

قرۃ العین ظہیر
پاکستان اسلام کے نام پر بنا۔ یہ وطنِ عزیز اس لیے حاصل کیا گیا تھا کہ مدینے کی پہلی اسلامی ریاست کے بعد اس کرۂ ارض پر دوسری اسلامی ریاست ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ ہوگی، جس کا دستور قرآن و سنت اور عملاً قرآن کا نافذ ہونا تھا۔ یہی وہ وطنِ عزیز ہے جہاں سے قرآن کے نور کو پوری دنیا تک پھیلنا تھا، جہاں اقامتِ صلوٰۃ کے ساتھ ایتائے زکوٰۃ کا نظام رائج ہونا تھا کہ مسلمانوں کی اپنی تاریخ کے مطابق لوگ زکوٰۃ لیے لیے پھرتے اور کوئی لینے والا نہ ہوتا، جہاں حوّا کی بیٹی حیا کا پیکر ہوتی، جہاں امتِ مسلمہ کی نسل انٹرنیٹ اور کیبل کے منفی استعمال کی نذر نہ ہوتی بلکہ امتِ مسلمہ کا سرمایہ بنتی، اور اب اس کا استحکام اسلام کے نفاذ کے بغیر ممکن نہیں۔
یہ ملک اللہ کی خاص نصرت اور فیضانِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عطا ہوا تھا، لیکن ہم اللہ کے دین سے غداری کے مرتکب ہونے کی وجہ سے معتوب ہوئے، اور ہمارے اس طرزعمل کا نتیجہ سیاسی، معاشی اور معاشرتی عدم استحکام کی صورت میں ظاہر ہورہا ہے۔ اب ملک میں دوبارہ استحکام اسی صورت میں آسکتا ہے جب ہم اللہ اور رسولؐ کے وفادار بن جائیں۔ اللہ اور اس کے رسولؐ سے بے وفائی کے مرتکب ہوکر آدھا ملک کھو چکے ہیں اور باقی آدھا بھی عدم استحکام کا شکار ہے۔
سیاسی عدم استحکام سے ایک بار پھر1971ء جیسے حالات پیدا ہوچکے ہیں۔ ملک معاشی طور پر دیوالیہ اور قرض کے بوجھ سے بدحال ہوچکا ہے، جس کی وجہ سے عالمی قوتوں نے ہمیں معاشی شکنجے میں جکڑ دیا اور ہماری آزادی، خودمختاری اور قومی عزت و آبرو دائو پر لگ چکی ہے۔ یہ اسلام ہی تھا جس نے بنگالیوں کو ایک ہزار میل دور پشاور کے پٹھانوں سے ملا دیا۔ نسل، رنگ، کلچر اور قومیت کی بنیاد پر مغربی بنگال کے لوگ مشرقی بنگال کے لوگوں کے زیادہ قریب تھے۔ اسلام نے تمام تعصبات کو مٹاکر ہمیں ایک قوم بنایا تھا۔ پاکستان کو بہت سارے اندرونی اور بیرونی چیلنجز کا سامنا ہے۔ ہمیں نظریاتی بحثوں میں الجھنے کے بجائے بانی ٔ پاکستان اور مصور ِپاکستان کے کردار اور سیرت کو دیکھنا چاہیے۔ پاکستان27 رمضان المبارک کو معرضِ وجود میں آیا تھا، اس لیے پاکستان کا خاص تعلق اسلام، قرآن اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے۔
فطرت اور تاریخ کا تقاضا تھا کہ دین کے غلبے کے لیے ایک ریاست ہو اور اسلام کا نمونہ جدید دور میں سامنے آئے۔ لیکن آج ہم اپنی دینی ذمے داریاں اپنی اپنی کرسیوں پر بیٹھ کر پوری نہ کرنے کی وجہ سے عدم استحکام کا شکار ہیں۔ 72 برس قبل ہم مسلمان تو تھے مگر مختلف نسلی، لسانی اور مسلکی فرقوں میں بٹے ہوئے تھے۔ تب ہمیں اس ملک نے جوڑ کر ایک قوم بنایا۔ آج ہمیں اس ملک کے لیے جڑنے کی ضرورت ہے۔ دینِ اسلام کا تقاضا ہے کہ اس کا غلبہ ہو، اللہ کا بھی حکم ہے کہ پورے کے پورے دین میں داخل ہوجائو۔ آج ہمارے عدم استحکام کی وجہ یہی ہے کہ ہم دین کے کچھ حصوں پر عمل کے قائل ہیں اور اس کے زیادہ تر حصوں کو ریاست اور اجتماعی معاملات سے دور رکھنا چاہتے ہیں۔ موجودہ حالات میں بھارت پاکستان کو جنگ کی دھمکی دے رہا ہے، مقبوضہ کشمیر کو ہڑپ کرنے کے بعد آزاد کشمیر پر قبضے کے منصوبے بنارہا ہے۔ پاکستان کی افواج کو چوکنا رہنا ہوگا۔ یہ سمجھنا غلط ہوگا کہ ایٹمی قوت ہونے کی وجہ سے پاکستان ناقابلِ تسخیر ہے۔
سوویت یونین جب شکست و ریخت سے دوچار ہوا تھا تو وہ دنیا کی دوسری بڑی ایٹمی قوت تھا۔ اگرچہ ہمیں اپنی سیکورٹی کے پورے انتظامات کرنے چاہئیں، لیکن یاد رہے جب تک ہمیں اللہ کی مدد و نصرت حاصل نہ ہوگی ہم اسلام اور پاکستان دشمن قوتوں کا مقابلہ نہیں کرسکیں گے۔ پاک سرزمین کے دفاع کی بھرپور تیاری کے ساتھ ساتھ کرنے کا اصل کام یہ ہے کہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے وفاداری کا ثبوت دیں۔ اسلامی نظام کے بغیر ’’استحکام پاکستان‘‘ کا خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہوگا۔

حصہ