بھٹکے ہوئے آہو کو‘ پھر سوے حرم لے چل

590

مجھے کبھی اپنے ہیروز کے قدوقامت کی پیمایش کے لیے غیروں کے حوالے اچھے نہیں لگتے‘ لیکن کیا کروں مجھے آج کی شرمندہ اور اپنے وجود سے برگشتہ قوم کے سامنے ایک حوالہ رکھنا پڑ رہا ہے۔ گذشتہ ۱۰ سالوں میں مذاہب کی تاریخ اور ان کے عروج و زوال پر جس خاتون کی کتب نے سب سے زیادہ تاثر چھوڑا ہے‘ اور جسے آج کے دور میں سب سے زیادہ غیرمتعصب محقّقہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے وہ کیرن آرمسٹرانگ (Karen Armstrong) ‘ ایک برطانوی کیتھولک راہبہ ہے۔ میں اس کی دو کتابوں Battle for God (خدا کے لیے جنگ) اور Islam: A Short History (اسلام‘ ایک مختصر تاریخ)کا ذکر کرنا چاہوں گا۔
کیرن آرمسٹرانگ ان دونوں کتابوں میں تاریخ کے اس موڑ پر آتی ہے‘ جب مذاہب چلے ہوئے کارتوس بنتے جا رہے تھے اور دنیا سیکولرزم کی گرویدہ اور طلب گار ہوتی جا رہی تھی‘ تو اس سارے طوفان کے مقابلے میں قلم کی صرف ایک آواز اور تحریک کی صرف ایک ہی صورت اُسے نظر آتی ہے اور وہ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی ذات ہے۔
وہ مولانا مودودیؒ کی‘ اس ’شر‘ کے مقابلے میں ’خیر‘کے ’جواب دعویٰ‘ کی تحریک کو یوں سمیٹتی ہے:
مودودی جنھوں نے ۱۹۳۹ء میں اپنا تصور وضع کرتے ہوئے کہا کہ جس طرح محمد ]صلی اللہ علیہ وسلم[ نے اسلام سے پہلے کی ’’جاہلیت‘‘ یعنی جہالت اور وحشت سے جنگ کی تھی ‘ بالکل اسی طرح دنیا بھر کے مسلمانوں کو تمام میسرذرائع سے مغرب کی جدید ’’جاہلیت‘‘ کی مزاحمت کرنا ہے۔مودودی کو یقین تھا کہ سچے مسلمان دنیا سے الگ رہ کر اور سیاست کو دوسروں پر چھوڑ نہیں سکتے۔
یہ مصنفہ‘ مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ کو سیکولرزم کے مقابلے میں اسلام اور الٰہیات کا پہلا منظم سپہ سالار گردانتے ہوئے لکھتی ہے:
حقیقت میں مودودی کسی بھی جدید فرد کی طرح آزادی کے گرویدہ تھے اور آزادی عطا کرنے والی ایک اسلامی الٰہیات پیش کر رہے تھے۔ ان کا استدلال تھا کہ خدا مطلق حاکم ہے‘ اس لیے کوئی انسان دوسرے انسان کی اطاعت پر مجبور نہیں۔ رضاے الٰہی کے مطابق حکومت نہ کرنے والا حاکم اپنی رعایا کو اطاعت پر مجبور نہیں کرسکتا۔ ایسی صورت میں انقلاب صرف ایک حق نہیں‘ بلکہ فرض ہو جاتا ہے۔
شاید ہی کسی نے مولانا مودودیؒ کے اس علمی خزانے سے اتنا مدلل نتیجہ اخذ کیا ہو‘ جتنا اس مصنفہ نے کیا۔ بقول کیرن آرمسٹرانگ: ’’مودودی نے ایک آفاقی جہاد کامطالبہ کیا۔ ان سے پہلے‘ غرناطہ کی تباہی کے بعد سے اب تک کسی مسلمان مفکر نے ایسا دعویٰ نہیں کیا تھا‘‘۔
بقول مصنفہ: ’’یہ آفاقی جہاد کا مطالبہ ‘عدیم النظیر تھا‘ جب کہ حالات بھی مایوس کن تھے۔ عالمِ اسلام میں محمد عبدہ اور حسن البنا پُرامن انداز سے اپنی کوشش کے باوجود مصر کے آمر کے ہاتھوں مغلوب ہوچکے تھے۔ ایسے میں ۱۹۵۱ء میں مولانا مودودی کی حریت فکر اور انقلابی جدوجہد والی تحریریں مصر میں شائع ہونا شروع ہوئیں اور ۱۹۵۴ء میں اخوان المسلمون کی ایک عظیم شخصیت ۱۵ سال کے لیے جیل چلی گئی‘ جہاں اُسے ان تحریروں سے شناسائی حاصل ہوئی اور اُس کی نظروں کے سامنے مغربی دنیا کا ایک ایسا چہرہ اور سیکولر کلچر کی ایک ایسی تصویر آئی جو تقدس اور اخلاقی اہمیت سے خالی اور دہشت سے بھرپور ہے‘‘۔ وہ مولانا مودودی کی تحریروں سے متاثر ہوکر لکھی گئی سید قطب کی اس تحریر کو موجودہ اسلامی تحریک احیا اور سیکولرزم کی کریہہ صورت سے جنگ کا حرفِ آغاز گردانتی ہے۔سید قطب کی یہ تحریر اُس علمی خزانے کے موتیوں سے بھرپور ہے جو مولانا مودودی کی تنقیحات ‘ پردہ‘سود اور تفہیمات جیسے مدلل اور تحقیق سے پُرعلمی سمندر میں مدفون ہیں۔

حصہ