۔’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘۔ جمعیت الفلاح کا یکجہتی کشمیر مشاعرہ

394

نظر فاطمی
پاکستان کے قدیم ترین اسلامی‘ فلاحی‘ ادبی ادارے جمعیت الفلاح نے ہر اہم موقع کی مناسبت سے اپنے سامعین کے لیے پروگرام ترتیب دے کر ان کی اور وطنِ عزیز کی آگاہی میں معاونت فراہم کی ہے۔
پچھلے دنوں پاکستان کی شہ رگ کشمیر کے تناظر میں جمعیت الفلاح کی ادبی کمیٹی فلاح مجلس ادب کے تحت کشمیر پر خطاب اور مشاعرے کا اہتمام کیا گیا جس میں کشمیر پر جوش و جذبے کے ساتھ ولولہ انگیز نظمیں اور قطعات پیش کیے گئے اور شعرائے اکرام نے کلام پیش کرکے سامعین سے بھرپور داد وصول کی۔
جمعیت الفلاح کے جوائنٹ سیکرٹری شہزاد مظہر نے اقبال یوسف کو تلاوتِ کلام ربانی کی دعوت دی جنہوں نے ترجمے اور مختصر تفسیر کے ساتھ آیاتِ کلام الٰہی پیش کیں۔ نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے معروف شاعر اکرم راضی نے گلہائے عقیدت پیش فرمائے۔
کشمیر پر کلیدی خطاب میں جمعیت کی امہ کمیٹی کے سربراہ سعید احمد صدیقی نے کشمیر کی جدوجہد آزادی کی تاریخ اور برصغیر خصوصاً پاکستان ار انڈیا پر پڑنے والے اثرات کا جائزہ لیا اور کشمیر پاکستان کے لیے ناگزیر ہونے پر روشنی ڈالتے ہوئے خطے میں پائیدار امن کے لیے کشمیریوں کے آزادانہ استصواب رائے پر زور دیا اور امید ظاہر کی کہ وہ وقت دور نہیں جب جموں و کشمیر پاکستان کا حصہ ہوں گے۔ اس سیر حاصل گفتگو کے بعد فلاح مجلس ادب کے چیئرمین جہانگیر مغل خان نے کشمیر کاز کے لیے شرکت کرنے والے شعرا اور شرکا کو خوش آمدید کہا اور دعا کی کہ اللہ رب الکریم ان کی مساعی اور دلی جذبات کو قبول فرمائے۔
اس عظیم الشان مشاعرے کے لیے شہزاد مظہر نے احقر نظر فاطمی کو میزبانی کی دعوت دی۔ میزبانِ مشاعرہ ن صدر مشاعرہ‘ شاعرِ کشمیر اعجاز رحمانی‘ مہمان خصوصی معروف ماہر تعلیم اور ممتاز شاعر پروفیسر عنایت علی خان ٹونکی‘ جمعیت الفلاح کے صدر قیصر خان‘ سابق رکن سندھ اسمبلی یونس بارائی اور چیف ایڈیٹر روزنامہ جسارت اطہر ہاشمی کو خصوصی نشستوں پر تشریف لانے کی دعوت دی۔
۔’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ کے موضوع پر اس فقید المثال مشاعرے میں اپنے دلی جذبات کا اظہار کرنے کے لیے جن شعرائے کرام نے سامعین کو اپنے کلام سے نوازا ان میں اعجاز رحمانی‘ پروفیسر عنایت علی خان ٹونکی‘ سرور جاوید‘ سید فیاض علی فیاض‘ ظفر محمد خان ظفر‘ اختر سعیدی‘ اجمل سراج‘ عبدالمجید محور‘ حامد علی سید‘ نجیب ایوبی‘ نورالدین نور‘ احمد سعید خان‘ نعیم الدین نعیم‘ الحاج نجمی‘ اکرم راضی‘ کاشف ہاشمی‘ گل انور میمن‘ شہود ہاشمی‘ جمیل ادیب سید‘ صدیق راز ایڈووکیٹ‘ عاشق شوکی‘ علی کوثر‘ چاند علی چاند‘ طالب رشید‘ عبدالوہاب‘ قاسمی سحر‘ محمدجریر اسعد اور میزبان مشاعرہ نظر فاطمی شامل تھے۔
مشاعرے میں پیش کیے گئے اشعار قارئین کے لیے پیش خدمت ہیں۔ صدر مشاعرہ اعجاز رحمانی کا پرجوش انداز ایک ہی اصرار تھا:۔

تلوار چاہیے نہ ہمیں تیر چاہیے
کشمیر چاہیے ‘ ہمیں کشمیر چاہیے
کشمیر میں بہا ہے جو نوجواں لہو
اس بات پر تو نعرۂ تکبیر چاہیے

مہمان خصوصی پروفیسر عنایت علی خان ٹونکی کشمیریوں کو یوں خراج عقیدت پیش کرتے نظر آئے:۔

اس آگ میں گرنے والوں کے کہتے ہیں براہیمی تیور
کشمیر کے جنت بننے میں ممکن ہی نہیں تاخیر بہت
ارے راہ روانِ راہِ وفا ہم تم سے بہت شرمندہ ہیں
تم جان سے اپنی کھیل گئے اور ہم سے ہوئی تاخیر بہت

جناب سرور جاوید نے پاکستان اور کشمیر کے تعلقات اور وہاں ہونے والے ہندو مظالم پر قطعات پیش کرکے سامعین سے داد پائی۔ ان اشعار میں عالمی طاقتوں اور مسلمانوں پر زور دای گیا کہ یہ جدوجہد ہر حال میں اپنے انجام کو پہنچنی چاہیے کیوں کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔
جناب ظفر محمد خان ظفر نے کشمیری جوانوں کو سلامِ عقیدت کچھ اس انداز سے پیش کیا:۔

بھارتی افواج کے آگے جو تھے سینہ سپر
اُن بہادر نوجوانوں کے مزاروںکو سلام

جناب سید فیاض علی فیاض وادی کشمیر پر ہونے والے مظالم کی داستان رقم کر رہے تھے:۔

بوئے گل ہے رنگ میں تنویر ہے
یہ ہماری وادیٔ کشمیر ہے
پہلے اُڑتی تھیں یہاں پر تتلیاں
آج کل یہ ظلم کی تصویر ہے

اختر سعیدی پرجوش لہجے میں کشمیریوں کی حمایت اور ان کی جدوجہد آزادی پر خراج تحسین پیش کر رہے تھے اور ان پر ہونے والے مظالم کی تصویر کھینچتے نظر آئے۔
اجمل سراج مسلم حکومتوں کی کشمیریوں پر ہونے والے ظلم کے خلاف آواز نہ اٹھانے پر افسردہ نظر آئے:۔

مسلم حکومتیں نہیں کشمیریوں کے ساتھ
کشمیریوں کے ساتھ مسلمان قوم ہے

عبدالمجید محور سامعین کے لبوں پر نعرۂ تکبیر بلند کر رہے تھے:۔

خوں میں ڈوبی وادی کشمیر ہے؎
بالقیں یہ ظلم کی تصویر ہے
فیصلہ کن ہاتھ میں شمشیر ہے
سب کے لب پر نعرۂ تکبیر ہے

حامد علی سید خواب میں بھی کشمیر جنت نظیر کی سیر کرتے نظر آئے:۔

بعد مدت کے یہ تصویر نظر آئی مجھے
خواب میں وادیٔ کشمیر نظر آئی مجھے

نجیب ایوبی اپنے پرجوش الفاظ میں جہاد کی دعوت دے رہے تھے:۔

راستہ اسلام کا ہے بس جہاد
راستہ ہے راستہ کشمیر کا
الجہاد و الجہاد و الجہاد
بچہ بچہ بول اٹھا کشمیر کا

احمد سعید خان ظلم و جبر پر اقوام عالم کو ہوش میں لا رہے تھے:۔

جبر پیہم ہو رہا ہے یہ بھی تو تحریر ہو
کچھ تو اے اقوامِ عالم ظلم کی تشہیر ہو
وادیٔ کشمیر کے باسی کو آزادی ملے
ٹوٹ جائیں سب قفس ایسی کوئی تدبیر ہو

نعیم الدین نعیم شہدائے کشمیر کی پکار پر حق کے علمبرداروں کو پکار رہے تھے:۔

اٹھو حق کے علمبردارو! باطل نے للکارا ہے
شہدائے کشمیر کے خوں نے تم کو آج پکارا ہے

الحاج نجمی جوش ولولے کے ساتھ کشمیر میں جاری ظلم و ستم روکنے میں پیش پیش تھے:۔

گرتا ہے جہاں روز لہو پیر و جواں کا
ان کوچۂ و بازار کی باتیں نہ کرو یار
دم ہے اٹھو کشمیر کی تقدیر بدل دو
نجمی میاں بے کار کی باتیں نہ کرو یار

گل انور میمن ماضی کے غازیانِ ہند کی طرح آج بھی غزنوی اور ایاز کو ڈھونڈ رہے تھے:۔

خزائیں جن کے نظاروں پہ محو حیرت تھیں
اجڑ گئی ہے وہ جنت بھری بہاروں میں
اٹھے گا کب کوئی غزنی سا شہسوار آخر
مچا دے کھلبلی گیتا کے پاسداروں میں

اکرم راضی خوب صورت الفاظ کے ساتھ اپنے دلی جذبات کا اظہار کر رہے تھے:۔

تاریخ کا دھارا ہے‘ کشمیر ہمارا ہے
یہ جان سے پیارا ہے‘ کشمیر ہمارا ہے

کاشف ہاشمی بھارتی ظلم و ستم پر کشمیریوں کی دہائی بیان کر رہے تھے:۔

مٹانے آ گئے ہم کو خدارا ہوش میں آؤ
خدارا ہوش میں آئو بچا لو گر بچا پاؤ

شہود ہاشمی نے اپنے اشعار میں شہید ہونے والے جوانوں اور بزرگوں کو خراج عقیدت پیش کیا اور ان کی جدوجہد کے رنگ لانے کی نوید سنائی۔

صدیق راز ایڈووکیٹ اقوام متحدہ اور او آئی سی پر برس رہے تھے:۔

بھارت کی ظلمتوں سے کشمیر جل رہا ہے
دشمن جو ہے ہمارا ہر چال چل رہا ہے
اقوام کا ادارہ کیا کام کر رہا ہے
او آئی سی ہمارا کیا کام کر رہا ہے

عاشق شوکی‘ ضمیر پر تازیانے لگا رہے تھے:۔

خطۂ پاک خطۂ کشمیر ایک ہو جائیں بہ رب تقدیر
سر بریدہ ہے خطۂ کشمیر سو گئے سارے صاحبان ضمیر

علی کوثر وادی کشمیر پر ہونے والے ظلم و ستم کی تشہیر کر رہے تھے:۔

جور و جفا و ظلم و ستم شیوۂ ہنود
ظالم ترے دیار کا اب بھی فقیر ہے

چاند علی چاند کشمیر جنت نظر پر ہر پاکستانی کا حق جتا رہے تھے:۔

کشمیر ہی دنیا میں جنت کا نظارہ ہے
کشمیر کے لوگوں پر کب ظلم گوارہ ہے
یہ چاند ہمیں اب تو بھارت بتانا ہے
کشمیر ہمارا تھا‘ کشمیر ہمارا ہے

طالب رشید خوب صورت ترنم کے ساتھ کشمیر پر نظم پڑ رہے تھے:۔

جس کو کہتے ہیں جنت وہ کشمیر ہے
جو لہو سے لکھی ہے وہ تحریر ہے

عبدالوہاب قاسمی سحر وادیٔ کشمیر کے لہو رنگ قرطاس پر کھینچ رہے تھے:۔

ایک ممتا کا لہو رنگ سراپا دیکھا
ایک بچی بڑی دل گیر نظر آئی

محمد جریر اسعد کشمیر پر ڈھائے گئے مظالم پر نوحہ کناں تھے:۔

اہلِ وادی پر جو ممکن تھی قیامت ہو چکی
اب سحر لانے کو کوئی پاسباں مقصود ہے

احقر نظر فاطمی نے ترنم کے ساتھ بہ بانگ دہل کشمیر کو برصغیر کے نور سے تعبیر کیا:۔

حسن و جمال کا ترے عالم اسیر ہے
اے وادیٔ کشمیر تو جنت نظیر ہے
یہ بات کہہ رہا ہوں ببانگ دہل نظر
پُر نور تیرے دَم سے یہ برصغیر ہے

اس عظیم الشان مشاعرے کے انعقاد پر جمعیت الفلاح کے صدر قیصر خان نے اپنے مختصر اور جامع خطاب میں کشمیریوں کی جہد آزادی اور پاکستان سے الحاق پر روشنی ڈالی اور امید ظاہر کی کہ ان شاء اللہ وہ وقت دور نہیں جب کشمیر بنے گا پاکستان۔ اس کے ساتھ ہی شعرائے کرام کے پرجوش کلام پر خراج تحسین پیش کیا اور شرکائے مشاعرہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے آئندہ بھی اسی طرح بھرپور آمد کی یاددہانی کرائی۔
سابق رکن سندھ اسمبلی یونس بارائی نے دعا کراتے ہوئے کشمیریوں کی استقامت اور جدوجہد آزادی میں بے مثال قربانیوں کو اللہ کریم کے حضور قبولیت کی استدعا فرمائی اور اس طرح فقیدالمثال مشاعرے کا اختتام جمعت الفلاح کے عشائیہ کام دہن پر ہوا۔

حصہ