میری محسن کتاب

690

سید ابواالاعلیٰ مودودیؒ
’’جاہلیت کے زمانہ میں میں نے بہت کچھ پڑھا ہے۔ قدیم و جدید فلسفہ، سائنس، معاشیات، سیاسیات وغیرہ پر اچھی خاصی ایک لائبریری دماغ میں اُتار چکا ہوں۔ مگر جب آنکھ کھول کر قرآن کو پڑھا تو بخدا یوں محسوس ہوا کہ جو کچھ پڑھا تھا سب ہیچ تھا، علم کی جڑ اب ہاتھ آئی ہے۔ کانٹ، ہیگل، نٹشے، مارکس اور دنیا کے تمام بڑے بڑے مفکرین اب مجھے بچے نظر آتے ہیں۔ بے چاروں پر ترس آتا ہے کہ ساری عمر جن گتھیوں کو سلجھانے میں اُلجھتے رہے اور جن مسائل پر بڑی بڑی کتابیں تصنیف کر ڈالیں پھر بھی حل نہ کرسکے۔ ان کو اس کتاب نے ایک ایک دو دو فقروں میں حل کرکے رکھ دیا ہے۔ میری اصلی محسن بس یہی کتاب ہے اس نے مجھے بدل کر رکھ دیا ہے۔ حیوان سے انسان بنادیا۔ تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے آئی، ایسا چراغ میرے ہاتھ میں دے دیا کہ زندگی کے جس معاملے کی طرف نظر ڈالتا ہوں حقیقت اس طرح برملا دکھائی دیتی ہے کہ گویا اس پر پردہ نہیں ہے، انگریزی میں اس کنجی کو ماسٹر کی (شاہ کلید) کہتے ہیں جس سے ہر قفل کھل جائے۔ سو میرے لیے یہ قرآن ’’شاہ کلید‘‘ ہے۔ مسائل حیات کے جس قفل پر اسے لگاتا ہوں کھل جاتا ہے جس خدا نے یہ کتاب بخشی ہے اس کا شکر ادا کرنے سے میری زبان عاجز ہے۔
حوالہ: ہفت روزہ آئین ( تفہیم القرآن نمبر)۔
٭…٭

نظام تعلیم کی اہمیت

سید ابواالاعلیٰ مودودیؒ
تعلیم ان تمام معلومات اور تجربات کو جو ایک نسل کو پچھلی نسلوں سے پہنچی ہیں اور جو اسے خود اپنی زندگی میں حاصل ہوتی ہیں، زیادہ سے زیادہ بہتر طریقے سے آئندہ نسل تک منتقل کرے تاکہ وہ انسانی تہذیب و تمدن کو اور زیادہ آگے بڑھانے کے قابل ہوسکے لیکن صرف اتنی تعریف سے بات پوری طرح واضح نہیں ہوتی جب تک کہ ساتھ ساتھ یہ امر ملحوظ نہ رکھا جائے کہ تمام نوع انسانی میں انسانی روایات اور معلومات ایک ہی نوعیت کی نہیں بلکہ مختلف تہذیبوں کے پیرئووں نے ان معلومات و تجربات کو اپنے اپنے طرز فکر کے مطابق مرتب و منظم کیا ہے۔ ان سے کچھ خاص نتائج نکالے ہیں اور ان نتائج کے مطابق ہی اس تہذیب کی صورت گری ہوئی ہے جس کی وہ پیری کرتے ہیں۔ یہ بات تعلیم کے مقصد میں از خود شامل ہے کہ ایک قوم اپنی آئندہ نسلوں کے لیے اپنے دور تک کی تمام معلومات اور تجربات اس طرح مرتب کرے کہ جس سے اس کی آئندہ نسلیں اس کی تہذیب سے واقف، اس کی قائل اور پیرو بن کر اٹھیں اور آئندہ انہی خطوط پر ترقی کریں جو اس کی تہذیب سے مطابقت رکھتی ہوں۔ جو قوم یہ کام نہیں کرتی وہ خودکشی کا ارتکاب کرتی ہے۔ آئندہ نسلوں کی تربیت کے لیے ضروری ہے کہ اساتذہ سیرت و اخلاق اور اعلیٰ قابلیت کے حامل ہوں۔ یاد رکھیے فاسد العقیدہ اور فاسد الاخلاق استاد اپنے شاگردوں کو ہرگز وہ ذہنی، اخلاقی اور عملی تربیت نہیں دے سکتے جس کی ہمیں نئے دور کے لیے ضرورت ہے۔ تعلیم اگر بگڑے ہوئے لوگوں کے ہاتھوں میں ہو تو وہ آئندہ نسل کا ستیاناس کردے گی۔ اس لیے اگر ہم اپنی قومی زندگی کو خرابیوںسے پاک کرنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے ہمیں اپنے اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے ماحول کی تطہیر سے اس کا آغاز کرنا ہوگا۔
حوالہ: ماہنامہ سیارہ ،لاہور

حصہ