میری جمعیت

255

عائشہ فہیم
تم میری دور ِ جوانی کی محبت ہو ۔۔!وہ محبت جو تکمیلِ مدت کے بعد بھی اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ دل میں زندہ رہتی ہے۔جس کی مہک پورے وجود کو معطر رکھتی ہے، جس کی یاد سرور دیتی ہے،جس سے کشیدہ کیا ہوا عرق زندگی میں مٹھاس بھر دیتا ہے ، جو زندگی میں کسی بہار کی سی مانند رہی، جس کے دامن میں موجود لوگ انمول ہیں۔خوبصورت دل رکھتے ہیں ، محبت کی چاشنی بکھیرتے ہیں ،زندگی کا حسن ایسے ہی لوگوں سے قائم ہے!
تمھیں پتہ ہے میری الماری میں، میری کتابوں کے اوراق میں ، کسی دراز میں پرانے رکھے کسی صفحے میں ،میری ڈائیریوں میں جگہ جگہ تمھارے رنگ بکھرے ہیں۔تم زندگی کے کینوس پہ رنگ بکھیرنے ہی تو آئی تھی۔
اور تم نے کتنے ہی لوگوں کی زندگیوں میں خوبصورت رنگ بکھیرے ہیں۔اللہ کا رنگ ،اس کی مخلوق سے محبت کا رنگ ،بامقصد اندگی کے کئی رنگ۔۔۔۔اور یقین کرو!نفسا نفسی کے اس دور میں یہ رنگ دنیا کی تصویر کو خوبصورت بناتے ہیں، رہنے کے قابل، محبت کرنے کے قابل ۔۔!
میں اس حساب سے خوش قسمت رہی کہ عمری میں ہی اپنے دامن میں سمیٹ لیا ۔زندگی کے کتنے ہی کٹھن مراحل اللہ کے اذن سے تمھاری رفاقت میں سہل ہو گے تھے ۔
تم نے جوانی کی ڈور تھامے رکھی، تمھارے دم سے کتنی حسین محفلوں کا حصہ بننا نصیب ہوا۔ جن کیــ ــــــــ ’ اصل‘ بہت پاکیزہ بھی تھی ۔ اور وژنری کتنے رت جگے تم نت بامقصد کردیئے۔ تم نے ہی تو بڑے خواب بننا سکھائے تھے ۔

حصہ