ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم۔۔۔۔!۔

445

پمز اسپتال اسلام آباد کی معروف ماہر امراضِ سینہ و شوگر سُپر لیڈی، مثالی مسیحا، گولڈ میڈلسٹ ڈاکٹر کوثر ریحانہ کی وفات پر خصوصی تحریر

فوزیہ عباس

زندگی میں ہم بے شمار لوگوں سے ملتے ہیں مگر ان میں سے کوئی کوئی ہی ایسا ہوتا ہے کہ جس سے مل کر زندگی سے عشق ہوجائے، یا جس سے بار بار ملنے کو جی چاہے اور حیاتِ مستعار کے معنی و مقصد سمجھ میں آنے لگیں۔ لوگ بچھڑتے بھی ہیں کہ یہی قانونِ قدرت و دستورِ زمانہ ہے، جو دنیا میں آجائے اُسے واپس بھی جانا ہے، مگر کچھ کے جُدا ہونے کی خبر بھی نہیں ہوتی، اور کسی کی جدائی عظیم قومی المیے اور بڑے نقصان سے کم نہیں ہوتی۔ وہ کچھ اس ادا سے بچھڑتا ہے کہ سارا شہر ہی دکھی، اداس اور ویران لگنے لگتا ہے۔ وہ بھی ایسے ہی کم یاب لوگوں میں سے تھیں… بہت خاص، بہت قیمتی۔ تین سال قبل جب ملی تھیں تو زندگی ایک بار پھر سے مسکرانے لگی تھی، ان سے بار بار ملنا اور ڈھیر ساری باتیں کرنا اچھا لگتا تھا۔ وہ ’’ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا‘‘ کی مجسم تفسیر تھیں۔
خوش اخلاق ، خوش گفتار، خوش لباس و خوش اطوار، سادہ و باوقار، ذہانت سے چمکتی آنکھوں، بے ریا معصوم چہرے اور ہونٹوں پر ہر دم مہربان مسکراہٹ سجائے، دردمند دل اور نہایت دلکش شخصیت کی حامل، پاکستان میں طب کے اُفق کا اک دمکتا ستارہ، جسے ابھی اور آگے جانا، بہت سا کام کرنا، بہت سا عروج و کمال حاصل کرنا تھا۔ میڈیکل اسپیشلسٹ، گولڈ میڈلسٹ، ماہر امراضِ سینہ و شوگر ڈاکٹر کوثر ریحانہ… بلاشبہ زندگی، صحت اور شفا وہ طبیبِ اعلیٰ ہی عطا کرتا ہے، مگر وسیلہ کچھ چُنے ہوئے خوش نصیب ڈاکٹر بنتے ہیں۔ وہ بھی سیکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں مریضوں کے لیے زندگی، صحت اور شفا کی اُمید تھیں۔ لوگ دور دور سے آتے اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے شفا پاتے تھے۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ مریض کی آدھی بیماری محض ان سے مل کر ہی دور ہوجاتی تھی علاج تو بعد میں شروع ہوتا تھا۔
مجھے آج بھی 12 جنوری 2016ء کی وہ یخ بستہ صبح پوری جزیات کے ساتھ یاد آرہی ہے جب میں پمز اسپتال اسلام آباد میں پہلی بار ان سے ملی تھی، اور 30 اپریل 2019ء کی وہ رات بھی جب ان کے کلینک میں مقررہ تاریخ سے ہفتہ بھر قبل ہی چلی گئی تھی۔ اُسی دن انہوں نے مجھے اپنی مخصوص دھیمی مسکراہٹ کے ساتھ اپنی بیماری سے آگاہ کیا کہ مجھے کینسر تشخیص ہوا ہے، آج کل کیموتھراپی کے سیشن چل رہے ہیں۔ اور اس سے قبل اپنی جس میجر سرجری کا ایک بار سرسری ذکر کیا تھا اس کی تفصیل بھی بتائی۔ بھلا ایسی لرزا دینے والی روح فرسا خبر سناتے ہوئے مسکراتا کون ہے؟ مگر وہ ایسی ہی تھیں، جبکہ میں یہ سب جان کر کچھ دیر کے لیے سکتے میں آگئی تھی، مگر ان کے چہرے یا رویّے سے کسی اضطراب، مایوسی، خوف یا کمزوری کا تاثر ہرگز نہیں مل رہا تھا۔ اُس دن میں نے ان کی شخصیت کا ایک اور خوبصورت نیا پہلو دیکھا کہ وہ اندر سے جتنی پُرسکون اور مطمئن ہیں اتنی ہی مضبوط اور حوصلہ مند بھی ہیں۔ اور یہ سکون، اطمینان، مضبوطی اور حوصلہ انہیں اپنے رب کی ذات پر کامل یقین نے عطا کیا تھا۔ اُس دن ہم دونوں ہی نہیں جانتی تھیں کہ یہ ہماری آخری ملاقات ہے۔ وہ تو بہت پُراُمید تھیں مگر کاتبِ تقدیر نے کچھ اور ہی لکھ رکھا تھا۔
جب میں نے کہا ’’ریحانہ جی! آپ تو بہت Active اور Healthy Life Style کی عادی رہی ہیں، پھر یہ سب؟‘‘ تو مسکرا کر بولیں ’’اللہ نے جنت اور دوزخ بھی تو بھرنی ہیں کہ نہیں‘‘۔ اور میں بس انہیں دیکھ کر رہ گئی۔
25 جولائی 2019ء کی شام میں نے اُن کے کلینک فون کیا تو استقبالیہ سے مسٹر عمران نے بتایا کہ میڈم کی تو دو ہفتے قبل وفات ہوگئی ہے۔ کیا…؟ بغیر کچھ کہے فون بند کردیا۔ خاصی دیر کے بعد حواس بحال کرکے کانپتے ہاتھوں، کرلاتے دل اور برستی آنکھوں کے ساتھ ان کے نمبر پر کال کی تو ان کے بھائی نے خبر کی تصدیق کے ساتھ تفصیل سے آگاہ کیا کہ 14 جولائی 2019ء بروز اتوار وہ سعید روح، وہ نفسِ مطمئنہ محض 53 سال 6 ماہ کی عمر اور کیریئر کے عروج پر اپنے رحمن و رحیم رب کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے فرشتۂ اجل کے ساتھ خالقِ حقیقی سے ملنے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ابدی زندگی کی تسکین، راحتیں اور نعمتیں پانے، اس کی جنت میں آباد ہونے چلی گئی ہیں۔ ’’اناللہ وانا الیہ راجعون‘‘۔
30 جولائی 2019ء کی شام جب میں اُن کے کلینک گئی تو یہ دیکھ کر میرے آنسو نہیں تھمے کہ انتظار گاہ کی تمام کرسیاں اور راستے مریضوں سے بھرے ہوتے تھے۔ لوگ استقبالیہ پر اور اکثر باہر سیڑھیوں پر بھی اپنی باری کے انتظار میں کھڑے ہوتے تھے، لیکن آج وہاں سوائے ویرانی اور اداسی کے کوئی نہیں تھا۔ سب کرسیاں خالی پڑی تھیں۔ ان کا کمرہ اور کمرے کی ہر چیز ویسی ہی تھی، بس وہ نہیں تھیں تو لگ رہا تھا کچھ بھی نہیں ہے۔ بے شک وہ جسے چاہے عزت، مقام و مرتبہ عطاکرتا ہے اور اُسے ہی عطا کرتا ہے جو اس کا اہل ہوتا ہے، اور وہ تو اس بہت عطا کرنے والے، عزتیں دینے والے رحیم و کریم رب کی بہت خاص چُنی ہوئی بندی تھیں جس پر اللہ کا خصوصی فضل و کرم تھا، اور وہ بھی ہر لمحہ اس کی یاد میں رہا کرتی تھیں۔ میں نے اکثر انہیں کلینک میں کمرہ بند کرکے پردے گرا کر مغرب کی نماز ادا کرتے دیکھا تھا۔ وہ سحر خیز تھیں، اکثر میرے میسنجر کا جواب صبح چار یا پانچ بجے آتا۔ میں پوچھتی ’’ریحانہ جی آپ سوتی کس وقت ہیں؟‘‘ رات کو اکثر11، 12 بجے تک کلینک میں رہتی ہیں، صبح 4 بجے مجھے Reply کررہی ہوتی ہیں۔ مسکرا کر کہتی ’’بس اتنا ہی سوتی ہوں‘‘۔
شاید انہیں اندازہ تھا کہ اس تھوڑے سے وقت میں انہیں بہت سا کام کرنا ہے۔ اور سُپر لیڈی، بے مثال مسیحا نے کیا بھی۔
وہ اپنے مریضوں سے بہت لگائو رکھتی تھیں۔ ہر کسی کے ساتھ بلاتخصیص بڑا پیارا رشتہ بنالیتیں، اور پھر اسے سحر کے پُرکیف پاکیزہ لمحات میں اپنے رب کے ساتھ راز و نیاز کرتے ہوئے بھولتی تھیں نہ حرمِ کعبہ میں طواف یا عمرہ کرتے ہوئے، یا رمضان کی بابرکت ساعتوں میں حرمِ نبویؐ میں اعتکاف کے دوران میں…
ڈاکٹر صاحبہ اپنے تمام اسٹوڈنٹس اور جونیئر ڈاکٹروں کے لیے بھی صرف اُستاد نہیں تھیں بلکہ ایک ماں کی طرح تھیں، جبھی تو آج وہ سب خود کو بہت تنہا محسوس کررہے ہیں، تڑپ رہے ہیں، کیونکہ وہ جانتے ہیںکہ ملکوں ملکوں ڈھونڈنے پر بھی اب انہیں ایسی قابل استاد اور شفیق روحانی ماں کہیں نہیں ملے گی۔ کتنوں کے کیریئر اور خواب ان کی ذات سے جڑے تھے جو شاید اب کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہوپائیں گے، یا کم از کم ویسے نہیں ہوسکیں گے جیسے انہوں نے سوچا تھا۔ پمز اسپتال میں 2014ء سے 2016ء تک ان کی زیر تربیت رہنے والی ڈاکٹر گل افشاں نے جو آج کل کراچی کے ایک معروف اسپتال میں فرائض انجام دے رہی ہیں، ریحانہ جی کے ساتھ گزارے دنوں کو یاد کرتے ہوئے بتایا: ’’ بحیثیت استاد میڈم اپنے سب اسٹوڈنٹس کو بہت اچھے طریقے سے اپنے ساتھ لے کر چلتیں، انہیں گائیڈ کرتیں۔ میڈم کو پڑھانے کا بہت شوق تھا، وہ ہمیں بھی جدید ریسرچ، طب کے نئے رجحانات اور طریقوں کو جاننے، سیکھنے اور ان پر عمل کرنے، مریض کی بہتری کے لیے بولڈ اسٹیپ لینے کی تلقین کرتیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہر مریض کو آئیڈیل ٹریٹمنٹ ملنا/ دینا اُس کا حق اور ڈاکٹر کا فرض ہوتا ہے جس میں کوتاہی کبھی نہ کریں۔
بحیثیت ڈاکٹر مریضوں کے ساتھ اُن کا رویہ بے انتہا ہمدردانہ، ذمہ دارانہ اور دوستانہ ہوتا تھا۔ اکثر وہ مریضوں کے بہت زیادہ رش سے اُلجھ جاتی تھیں، کیونکہ وہ ہر مریض کو پوری طرح توجہ سے دیکھتیں، کوالٹی ٹائم دیتیں، ضرورت مند/ مستحق مریضوں کے لیے انہوں نے دوائوں خصوصاً زندگی بچانے والی دوائوں اور ان ہیلرز وغیرہ کا اسٹاک ہر وقت اپنے پاس رکھا ہوا تھا۔ وہ کامیاب علاج کے لیے مرض کی درست تشخیص پر زور دیتی تھیں۔
بحیثیت انسان ہم نے انہیں ہمیشہ بظاہر بڑا پُرسکون، مطمئن اور بے نیاز دیکھا۔ وہ خود کو ایک خول میں بند رکھتیں، ذاتی زندگی پر زیادہ بات نہ کرتی تھیں۔ وہ ہر قسم کے منفی رویوں، زیادتیوں اور حق تلفیوں کے باوجود اپنے پیشے کے تقدس اور انسانیت کے بھرم کو قائم رکھے ہوئے تھیں، اور اس سب کی وجہ اُن کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنا مضبوط تعلق تھا۔ حسد، بخل، پیشہ ورانہ رقابت وغیرہ جیسی باتوں سے ان کا دل بالکل پاک تھا۔‘‘
پمز اسپتال میں 4 سال تک ان کے زیر تربیت رہنے والے ڈاکٹر شکیل احمد جو آج کل اسسٹنٹ پروفیسر کی حیثیت سے شہر کے ایک معروف ٹیچنگ اسپتال میں فرائض کی انجام دہی میں مصروف ہیں اور کلینک میں میڈم کے مریضوں کو بھی دیکھ رہے ہیں، کہتے ہیں:
’’میں میڈم کی تین منفرد خصوصیات کا ذکر کرنا چاہوں گا جو عموماً ڈاکٹروں میں نہیں ہوتیں یا بہت کم ہوتی ہیں: بحیثیت استاد انہوں نے بے شمار اسٹوڈنٹس کو تیار کیا اور اپنا علم، تجربہ و مہارت کھلے دل سے ان میں منتقل کرنے کی کوشش کی جو میرے خیال میں بہت بڑی خوبی ہے، کیونکہ عموماً سینئرز ایسا نہیں کرتے، مگر میڈم بڑی خوشی سے اسٹوڈنٹس کو گائیڈ کرتی تھیں۔
بحیثیت ڈاکٹر انہوں نے مریضوں کے لیے خصوصاً نادار و مستحق مریضوں کے لیے بہت کام کیا جو بے چارے سوائے دعائوں کے انہیں کچھ بھی نہیں دے سکتے تھے۔ آپ ان کی ہر طرح کی مدد کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہتیں، چاہے اپنی جیب سے بھی خرچ کرنا پڑے۔ آپ ان کے لیے فنڈز ارینج کرتیں، یہاں تک کہ کسی سُستی/ کوتاہی پر ہمیں بھی ڈانٹتیں کہ ہم ان مریضوں کے لیے توجہ سے کام کیوں نہیں کرتے۔
بحیثیت انسان میڈم اسلامی ذہن اور مذہبی رجحان کی مالک تھیں۔ ہم نے انہیں ہمیشہ باپردہ مستور لباس میں دیکھا، میرے نزدیک یہ بھی میڈم کی بہت بڑی اور منفرد خوبی تھی جو عموماً کم ہی خواتین میں ہوتی ہے۔ وہ پردے کو بہت پروموٹ کرتیں اور ہر معاملے میں دینی تعلیمات پر عمل کرنے کی تلقین کرتی تھیں۔‘‘
ریحانہ جی کی کزن ڈاکٹر عظمیٰ جو آج کل فورسز کے ایک اسپتال میں ذمہ داری انجام دے رہی ہیں، کہتی ہیں: ’’میں تقریباً 9 سال سے ان کے ساتھ تھی۔ میڈم نہ صرف میری ٹیچر رہی ہیں بلکہ میں نے 4 سال کی ٹریننگ اور 4 سال کی OPD بھی ان ہی کے ساتھ کی، اور میڈم کی عدم موجودگی میں ان کے کلینک کے مریض بھی میں ہی دیکھتی تھی۔
بحیثیت استاد وہ اپنے اسٹوڈنٹس کو بالکل اپنے بچوں کی طرح لیتیں اور ایک ماں ہی کی طرح ان کی رہنمائی کرتی تھیں، ہمیشہ تلقین کرتیں کہ پیسے کے پیچھے مت جانا، مریض کی بہتری اور بحالی کو اہمیت اور فوقیت دینا، نصیب میں ہوگا تو پیسہ بھی مل جائے گا، لالچ کبھی نہ کرنا۔
بحیثیت ڈاکٹر مریض کے ساتھ بہت گہرا تعلق بنالیتی تھیں۔ کہتی تھیں اس طرح علاج میں مدد اور مریض کو ذہنی تسکین ملتی ہے۔ ذاتی طور پر نادار و مستحق مریضوں کی خاموشی سے دوائوں کے ساتھ، مالی یا جیسی بھی ممکن ہو، مدد کردیا کرتی تھیں۔ انہیں دکھاوا کسی چیز میں بھی پسند نہیں تھا۔ ہمیں کہتیں پہلے سکون سے مریض کی مکمل ہسٹری لو اور مرض کی تشخیص کے بعد علاج شروع کرو، یہ نہیں کہ ڈھیر ساری دوائیں ایک ساتھ مریض کو پکڑادو کہ کوئی تو کام کرے گی۔ اسی طرح ذاتی اُلجھنوں اور پریشانیوں کی وجہ سے مریض کو نظرانداز کرنے کو بڑی زیادتی تصور کرتی تھیں۔ کہتی تھیں ایک ڈاکٹر کو اپنی ذات سے بالاتر ہوکر مریضوں کے لیے کام کرنا چاہیے۔ بحیثیت انسان بھی میں الفاظ میں بیان نہیں کرسکتی۔ وہ ایک مثالی خاتون تھیں۔ ہر انسان کی طرح ان کی زندگی میں بھی بہت سے نشیب و فراز اور مسائل آئے، مگر انہوں نے بڑی ہمت و حوصلے کے ساتھ وقت گزارا۔ خود کو ایک مضبوط خول میں بند رکھتیں، ذاتی زندگی اور معاملات پر بات کرنا بالکل پسند نہیں کرتی تھیں۔ یہاں تک کہ سال بھر قبل جب ان کی بیماری تشخیص ہوئی تو اتنی بڑی بات بھی انہوں نے فیملی سمیت سب سے چھپائی۔ پہلی کیموتھراپی کے بعد مجھے بتایا اور ساتھ ہی کسی سے بھی ذکر کرنے سے منع کردیا، بولیں: کوئی پریشانی کی بات نہیں ہے، علاج ہورہا ہے، ان شاء اللہ ٹھیک ہوجائوں گی۔ پھر دو کیمو کے بعد انہوں نے گھر والوں سے ذکر کیا۔ وہ بہت مضبوط اور حوصلہ مند خاتون تھیں اور اپنی صحت کے بارے میں پُرامید بھی تھیں۔ رمضان میں مجھے کلینک کرنے کو کہا کہ میں کیمو کی وجہ سے بہت کمزوری محسوس کرتی ہوں، تم مریض دیکھ لو، رمضان کے بعد میں خود جانا شروع کردوں گی۔ مگر… بیماری نے انہیں اس کی مہلت ہی نہ دی اور دنوں میں سب کچھ ختم ہوگیا۔‘‘
20 سال تک ڈاکٹر صاحبہ کے ساتھ رہنے والے ان کے پی اے مسٹر عمران نے دُکھ سے بوجھل انداز میں بتایا کہ باجی کی جتنی بھی تعریف کروں، کم ہے۔ وہ بحیثیت استاد، ڈاکٹر، انسان اپنے پرائے سب کے ساتھ بہت اچھی تھیں۔ بہت خوبیوں والی، اعلیٰ اخلاق و کردار اور عادات کی مالک تھیں۔ میری باجی ہم سب کے دُکھ سُکھ، خوشی غمی میں کھلے دل سے شریک ہوتیں، سب کے کام آتیں۔ بڑے دل اور ظرف والی تھیں۔ وہ میرا تو بالکل بچوں کی طرح خیال کرتیں، میری شادی پر ہر طرح سے مدد کی، پھر بچوں کی پیدائش پر بھی تعاون کیا۔ گھر آتیں تو میری بیوی اور اماں کے ساتھ بیٹھ کر باتیں کرتیں، بچوں سے مل کر خوش ہوتیں، کھانے کا وقت ہوتا تو پوچھتا: باجی کھانا کھائیں گی؟ مگر دال پکی ہے۔ فوراً کہتیں: دال کھاتے مجھے کیا ہوتا ہے! ضرور کھائوں گی۔ ہمارے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتیں۔ کوئی دیکھ کر کہہ نہیں سکتا تھا کہ اتنی بڑی ڈاکٹر ہیں۔ ان کے مزاج میں سادگی، اخلاص اور پیار تھا۔ غرور و تکبر سے بالکل پاک تھیں۔ ہاں غصہ بھی بہت اعلیٰ کرتی تھیں کہ تم لوگ دھیان سے کام کیوں نہیں کرتے۔ ہمیں بھی ان کی ڈانٹ بُری نہیں لگتی تھی، کیونکہ غلطی ہماری ہوتی تھی۔ پھر اس غصے میں بھی پیار اور ہماری ہی بھلائی ہوتی تھی۔
اکثر لوگ کہتے تھے تمہاری میڈم بہت سخت مزاج اور روڈ ہیں۔ وہ روڈ نہیں تھیں، اصول پسند تھیں۔ اصولوں پر سمجھوتا کرنا، اصولوں کے خلاف جانا، جھوٹ بولنا، شارٹ کٹ اختیار کرنا سخت ناپسند کرتی تھیں۔ ہمیں بھی بہت کہتی تھیں اپنا کام دل لگا کر پوری ایمان داری کے ساتھ کرو۔ سچ تو یہ ہے کہ ان کی موت کے ساتھ ہی ایک زریں باب بند ہوگیا ہے، سیکھنے سکھانے، پڑھنے پڑھانے کا سلسلہ رُک گیا ہے۔ یہ بہت بڑا نقصان ہے جونیئر ڈاکٹرز کا، ان کے اسٹوڈنٹس کا، ان کے مریضوں کا، ہم سب کا… اور سب سے بڑھ کر اس ملک کا۔
باجی نے 5 مئی 2019ء کو یہاں کلینک پر آخری OPD کی، اور جاتے ہوئے بولیں: عمران اب رمضان میں مَیں نہیں آئوں گی، عید کے بعد ہی آئوں گی۔ تو سب نے ہنس کے کہا: ٹھیک ہے باجی ہمیں پتا ہے آپ رمضان میں نہیں آتیں۔ رمضان ہمیشہ وہ یا تو گھر پر گزارتیں یا عمرے کے لیے چلی جاتیں۔ عید پر میں ان سے ملنے ان کے گھر گیا تو دیکھ کر حیران رہ گیا، وہ بستر پر تکیے لگا کر بیٹھی تھیں، بہت کمزور اور تکلیف میں تھیں۔ میں نے کہا ’’باجی علاج کے لیے باہر چلی جائیں، سب جاتے ہیں، پیسوں کی کمی تھوڑی ہے‘‘۔ تو آہستہ سے بولیں ’’بس بیٹا اب باہر نہیں، کہیں اور ہی جانا ہے‘‘۔
کچھ دیر بعد ان کی تکلیف کا احساس کرکے میں نے جانے کی اجازت مانگی تو بولیں ’’بیٹھو، باتیں کرو‘‘۔ پھر سویاں منگوا کر اصرار کے ساتھ کھانے کو کہا۔ باجی نے آخری دنوں میں بہت زیادہ تکلیف اور اذیت دیکھی ہے، ایسا لگتا تھا جیسے کچھ کہنا چاہتی ہیں مگر کہہ نہیں پارہیں۔ انہوں نے ہمیشہ ہم سب کے لیے بہت کچھ کیا مگر افسوس ہم اُن کے لیے کچھ نہیں کرسکے۔ وہ جو اللہ کے حکم سے جاں بہ لب مریضوں کو بھی بچالیتی تھیں، خود بیماری نے انہیں تھوڑی سی مہلت بھی نہ دی۔ شاید اچھے لوگوں کو اللہ پاک بھی زیادہ دیر خود سے دور نہیں رکھنا چاہتا۔‘‘
اور حقیقت بھی یہی ہے عمران بھائی کہ ایسے پیارے لوگ ہمیں کسی نعمت کی طرح ہی ملتے ہیں، اور جانے اَن جانے میں ہونے والی اپنی نعمت کی ناقدری اللہ پاک کو پسند نہیں آتی تو وہ ہمیں اس سے محروم کردیتا ہے۔ مگر وہ ہمارے دلوں اور دعائوں میں ہمیشہ رہیں گی۔
میری اربابِ اختیار و ذمہ داران اور اسپتال انتظامیہ سے درخواست ہے کہ وہ ڈاکٹر صاحبہ کی 26 سالہ بے لوث خدمات کے صلے میں ان کو صدارتی تمغا برائے حسنِ کارکردگی عطا کریں، یا اسپتال میں ان کے شعبے کو ان کے نام سے موسوم کردیں، یا کم از کم وہاں ان کے نام کی تختی ہی لگادیں، تاکہ ان کا نام اور کام ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوجائے کہ زندہ قومیں اپنے محسنوں کو یوں ہی خراجِ تحسین پیش کرتی ہیں۔

آسماں ان کی لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہ نورستہ اس در کی دربانی کرے

آمین

حصہ