ماریہ کی بلی

796

عشرت زاہد
ہفتے کے دن ضیاء چاچو کے گھر سب کی دعوت تھی۔ سب لوگ تیار ہو کر شام میں ہی ان کے گھر پہنچ گئے تھے۔ وہاں جانے کے لیے بچے بہت خوش ہوتے تھے۔ان کے چہرے کھل جاتے۔۔ کیوں کہ وہاں عمر اور عائشہ سے ملاقات ہوتی تھی۔ پھر یہ لوگ مل کر خوب کھیلتے، ہلہ گلہ مچاتے۔۔۔۔ خوب مزے کرتے۔
وہاں جاکر سارے بڑے ے مل کر ڈرائنگ روم میں بیٹھ گئے۔
عائشہ نے عبدالرحمان کے کان میں آہستہ سے کہا، لیکن وہ ماریہ نے بھی سن لیا تھا۔ ” ایک چیز دکھاؤں؟؟ ہمارے بلی نے بہت خوبصورت سے چار بچے دیے ہیں لیکن وہاں پر بہت آہستہ سے چلنا۔ بچے سو رہے ہوتے ہیں نا؟ بلی کو ڈسٹرب نہیں کرنا۔ ٹھیک ہے؟”
” اور ہاں بلی کے سامنے بچوں کو ہاتھ بھی نہیں لگانا۔ اگر ایسی کوشش کی تو بلی پنجہ مار دیتی ہے” عمر نے ان کو سمجھایا۔”پچھلی مرتبہ ماریہ نے دم سے پکڑ کر اٹھایا تھا تب بلی نے کیسے پنجہ مارا تھا؟؟ انجکشن لگانا پڑا تھا تھا۔ یاد ہے نا، ماریہ کیسے روئی تھی؟
ہاں ہاں اچھی طرح یاد ہے۔ جب ناخن لگا تھا تب بھی روئی تھی اور انجکش لگا تھا تب بھی بھاں بھاں کرکے روئی تھی۔” عبدالرحمان ہنستے ہوئے کہہ رہا تھا۔۔ اور ماریہ بس موہنہ باور کر رہ گئی۔ “چلو نا، اب دکھاؤ کہاں ہیں بلی اور اس کے بچے!”
سب مل کر پیچھے والی سیڑھیوں کے پاس آئے۔ اور آہستہ آہستہ چلتے ہوئے اس کے نیچے رکھی ہوئی ٹوکری کے قریب پہنچے۔ اس میں کپڑا بچھا ہوا تھا۔ اس کے اوپر مانو بلی اپنے بچوں کو لیکر مزے سے بیٹھی ہوئی تھی۔
مانو بلی خود سفید اور بھورے رنگ کی تھی اور اس کے دو بچے بالکل سفید تھے۔ اور دو بچے لائٹ لائٹ براؤن تھے۔ اتنے خوبصورت، جیسے چھوٹے چھوٹے روئی کے گالے۔۔
ان کے آنکھیں ابھی نہیں کھلی تھیں۔ ماریہ تو ان کو ہاتھ لگانے کے لیے کے لیے مچل گئی تھی۔ سب نے مل کر بہت مشکل سے روکا تھا۔
عمر اور عائشہ سے تو بلی مانوس تھی لیکن ان دونوں سے نہیں تھی۔ اور اجنبی لوگوں سے بلی اپنے بچوں کو بچاتی ہے۔
بچے کافی دیر وہیں رہے۔ اس دوران عمر نے بلی کو دودھ لا کر دیا، جو اس نے منٹوں میں چٹ کر لیا۔ پھر جب اس نے دیکھا کہ عبدالرحمان اور ماریہ آرام سے بیٹھ کر دیکھ رہے ہیں، تو وہ سمجھ گء کہ ان سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔پھر وہ سکون سے سو گء۔ اس کے بچے بھی کبھی کبھی ہلکا سا میاوں کرتے پھر سو جاتے۔
“چلو بچوں ، کھانا لگ گیا ہے۔ سب لوگ اچھی طرح سے باتھ دھو کر آ جاو” چچی جان نے آکر کہا، تب کہیں جا کر بچے بڑی مشکل سے وہاں سے ہٹے تھے۔
ضیا چاچو کے گھر، زمین پر ڈری اور دسترخوان بچھا خر کھانا کھایا جاتا تھا۔ بچوں نے اچھی طرح ہاتھ دھوئے اور دری پر آ کر بیٹھ گئے کھانے کے دوران بھی بس مانو ولی اور اس کے بچوں کا ہی ذکر تھا۔
کھانے کے بعد ماریہ نے دادی جان کے گلے میں باہیں ڈال کر لاڈ سے کہا، “دادی جان میرا دل چاہ رہا ہے کہ ایک بلی کا بچہ گھر لے چلیں۔ بھائی آپ ماما سے پوچھ لینا کیا میں لے چلو عمر بھائی نے مجھے کہا ہے کہ ایک بچہ لے لو لو لیکن پہلے ٹائم نہیں ہے دادی جان سے اجازت لے لینا۔ دادی جان، آپ بتائیں نہ دادی جان ہم بلی کے بچے کو ساتھ لے چلیں۔؟”
“پہلے آپ یہ بتائیے کہ کیا آپ کو پتا ہے بلی کے بچے کو کیا کہتے ہیں؟ بلی کے بچے کو بلونگڑا کہتے ہیں ٹھیک ہے؟”
” دادی جان ،ہم اسکو ڈبہ میں بستر بچھا کر رکھینگے۔میں اسکا بہت اچھی طرح خیال رکھونگی”
“میری بچی، دیکھو بلی پالنا اتنا آسان نہیں ہوتا۔ ان کی صفاء کا بہت خیال رکھنا پڑتا ہے۔
پھر سردی گرمی سے بھی ان کو بچانا پڑتا ہے۔ ویکسین بھی لگانی پڑتی ہے۔ ایسے بہت سے کام کرنیہوتیہیں۔ کیوں عمر؟ اپ اور عائشہ بھی مانو بلی کا بہت خیال رکھتے ہو نا؟”
“جی دادی جان میں دو تین ہفتے بعد ان کو نہلاتا ہوں۔ یہ لوگ نہآنے سے بہت بچتی ہیں مگر ان کے بڑے بال ہونے کی وجہ سے جلد ہی گندے ہوجاتے ہیں۔ ان کو صاف کرنا پڑتا ہے۔ ایک بات تو آپ بتانا بھول گئں۔۔”
“وہ کیا؟”
عمر اور عائشہ ہنسنے لگے تھے۔ سب سوالیہ نظروں سے انکی طرف دیکھ رہے تھے۔لیکن اس کا جواب چچی جان نے دیا۔
“پتہ ہے،ان کو پوٹی ٹرین بھی کرنا پڑتا ہے۔ وہ اس طرح کے ایک ٹب میں مٹی رکھ کر شروع میں ان کو وہاں لے جانا پڑتا ہے۔ جس سے ان کو پتہ چلتا ہے کہ ان کی پوٹی کرنے کی جگہ یہ ہے۔ ورنہ تو وہ سارے گھر میں کہیں بھی گندگی کر سکتی ہیں۔ شروع میں کچھ دن محنت کرنی پڑتی ہے۔ پھر وہ عادی ہو جاتی ہیں۔
پھر ایک اور کام بھی ہوتا ہے وہ یہ۔۔۔کہ جب ان کو ہاتھ لگاؤ تو آنے کے بعد اچھی طرح ہاتھ دھونا پڑتے ہیں کیونکہ ان کے اندر جراثیم ہوسکتے ہیں۔ اور یہ پرشین کیٹ ہیں۔ ان کے بال بھی تیزی سے جھڑتے ہیں۔ اس کا بھی بہت خیال رکھنا پڑتا ہے۔ ان کو کچھ عرصہ بعد ویکسین لگانی پڑتی ہے۔
اور کھانے کا بھی خیال رکھنا پڑتا ہے۔ شروع میں تو یہ دو مہینے تک دودھ پیتی ہیں۔ اس کے بعد ان کو کیٹ فوڈ دینا پڑتا ہے۔ اور ہلکی غذا جیسے گوشت یا کلیجی کو بوائل کر کے دے سکتے ہیں۔” چچی صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہنے لگیں” یہ عام بلیوں کی طرح نہیں ہوتیں۔ بہت نازک مزاج ہوتی ہیں۔ ان کو ہر چیز نہیں کھلا سکتے۔ اور امی جان، ان لوگوں کو گھر کے اندر ہی رکھنا پڑتا ہے۔ باہر نہیں نکلنے دیتے ہم لوگ”
“وہ کیوں بھئی؟ بلیاں تو باہر ہی گھومتی ہیں”
” نہی امی جان۔ ایک تو یہ قیمتی بہت ہوتی ہیں۔ اس لیے کھو جاتی ہیں، لوگ اٹھا کر لے جاتے ہیں۔کیونکہ یہ لڑاکا نہیں ہوتیں۔ ان کی آواز بھی کم ہوتی ہے۔ اس لیے کوئی بھی اجنبی دبوچ لے، تو شور نہیں مچاتی۔ اور عام جنگلی بلیوں کے ساتھ اگر یہ گھل مل جائیں تو ان کو جراثیم لگ جاتے ہیں۔ جس سے یہ بچاری بیمار ہو جاتی ہیں۔ پھر ان کو جانوروں کے ڈاکٹر کے پاس لے جانا پڑتا ہے۔
بس اسی طرح بہت خیال رکھنا پڑتا ہے۔ اچھا خاصا مصروف رکھتی ہیں یہ مجھے۔ لیکن بچوں کا شوق ہے اس لیے رکھا ہوا ہے۔”
چچی نے اپنا دل ہلکا کیا۔
ماما نے بھی تائید میں سر ہلاتے ہوئے کہا “جی ہاں بھابھی، یہی تو مسئلہ ہے۔ مصروفیت اپنی جگہ، لیکن مجھے ان لوگوں کے جو بال جگہ جگہ گرتے ہیں نا اس سے بڑی کوفت ہوتی ہے۔ جہاں بیٹھتی ہیں بال چھوڑ کر جاتی ہیں۔
“جی بھابھی یہ لمبے بالوں والی بلیاں ہیں نا، اس لیے ان کے ساتھ یہ معاملہ ہے۔ ورنہ ہر بلی بال نہیں چھوڑتی” چچی جان بلیوں کی حمایت میں بولیں۔
“خیر اب دیکھئے، یہ چار بچے ہیں۔ تھوڑے بڑے ہوں گے تو کسی کو دیں گے۔ ابھی تو بہت چھوٹے ہیں اس لیے ان کو ماں کی ضرورت ہے ٹھیک ہے ماریہ؟ ابھی تو ہم آپ کو نہیں دے سکتے۔ عمر بھائی نے تو آپ سے کہہ دیا لیکن اتنے چھوٹے بچوں کو ان کی ماں کے پاس ہی رہنا پڑتا ہے۔ ٹھیک ہے جان ؟”
“جی چچی جان ،کوئی بات نہیں۔ میں یہاں آ کر ان کے ساتھ کھیل لوں گی۔ لیکن کیا میں ایک بلونگڑے کا نام رکھ سکتی ہوں؟” سب لوگ کھلکھلا کر ہنس پڑے ، ماریہ کے زبان سے بلونگڑہ لفظ سن کر۔
“دادی جان نے بتایا ہے، کہ بلی کے بچے کو بلونگڑا کہتے ہیں” سب لوگ پھر ہنس پڑے۔ ماریہ، ہاں بھئی، بلی کے بچے کو بلونگڑا ہی کہتے ہیں۔ آپ ضرور نام رکھ سکتی ہیں۔ کیا نام سوچا ہے میری بیٹی نے؟”
ماریہ شرما گء۔ “وہ میں نے کیٹو سوچا ہے” ” واہ بھء ، بہت اچھا نام ہے۔ ٹھیک ہے۔۔۔آج سے یہ وائٹ والا بلونگڑہ آپ کا کیٹو ہے”
“شکریہ چچی جان۔۔”
ماریہ خوشی خوشی باہر کی طرف لپکی۔ پاپا کو یہ خبر بھی تو دینی تھی۔

حصہ