شریک مطالعہ: فنون احمد ندیم قاسمی صدی نمبر

1775

نعیم الرحمٰن
احمد ندیم قاسمی اردو کے مایہ ناز شاعر و افسانہ نگار تھے۔ اردو ادب میں کئی شعرا نے عمدہ افسانے بھی لکھے، لیکن شعر و نثر میں ایسا بھرپور مقام اور انفرادیت شاید احمد ندیم قاسمی کے سوا کسی اور کو حاصل نہ ہوسکی۔ ان کے 12 شعری مجموعے شائع ہوئے، جن میں دھڑکنیں، رم جھم، جلال و جمال، شعلۂ گل، دشتِ وفا، محیط، دوام، لوحِ خاک، جمال، بسیط، ارض وسما اور انوارِ جمال شامل ہیں، جن میں قطعات، رباعیات اور نعتیہ کلام شامل ہے۔ جب کہ 18 افسانوی مجموعے بھی اشاعت پذیر ہوئے جن میں چوپال، بگولے، طلوع و غروب، گرداب، سیلاب، آنچل، آبلے، آس پاس، در و دیوار، سناٹا، بازارِ حیات، برگِ حنا، گھر سے گھر تک، کپاس کا پھول، نیلا پتھر، کوہ پیما اور پت جھڑ شامل ہیں۔ ان کی افسانوی کلیات دو جلدوں میں ’’احمد ندیم قاسمی کے افسانے‘‘ کے نام سے شائع ہوئی۔ ایک ناولٹ ’’اُس راستے پر‘‘، تنقیدکی کئی کتب اور خاکوں کے دو مجموعے ’’میرے ہم سفر‘‘ اور ’’میرے ہم قدم‘‘ نے بھی قارئین کی بھرپور پذیرائی حاصل کی۔ منتخب فکاہیہ کالموں کا مجموعہ ’’کیسر کیاری‘‘ کے بھی کئی ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی احمد ندیم قاسمی کے بے شمار تصنیفی اور تالیفی کام ہیں۔ اردو کے منفرد ادبی جریدے ’’نقوش‘‘ کے ابتدائی دس شمارے بھی قاسمی صاحب کی ادارت میں شائع ہوئے۔ اس کے علاوہ انہوں نے ’’ادب لطیف‘‘، ’’سویرا‘‘، ’’اقبال‘‘ اور ’’صحیفہ‘‘ کی بھی ادارت کی۔ کئی اخبارات کے مدیر اور کالم نگار رہے۔ انجمن ترقی پسند مصنفین پنجاب اور پھر پاکستان کے سیکریٹری جنرل کے فرائض بھی انجام دیے۔ 1968ء میں پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈ، 1980ء میں ستارۂ امتیاز اور اکادمی ادبیات کا اعلیٰ ترین اعزاز کمالِ فن ایوارڈ، اور1999ء میں پاکستان کا اعلیٰ ترین سول ایوارڈ ’’نشانِ امتیاز‘‘ سمیت بے شمار اعزازات حاصل کیے۔ 1976ء سے تاحیات ڈائریکٹر مجلس ترقی ادب رہے۔
1963ء میں اپنے ادبی سہ ماہی جریدے ’’فنون‘‘ کا اجرا کیا اور 2006ء میں اپنے انتقال تک فنون کے 126 شمارے شائع کیے۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ بیشتر ادبی جرائد کی مانند ’’فنون‘‘ احمد ندیم قاسمی کے انتقال کے ساتھ بند نہیں ہوگیا، بلکہ ان کی صاحبزادی ناہید قاسمی اور نواسے نیر حیات قاسمی فنون کو زندہ رکھے ہوئے ہیں، اور تقریباً ہر سال چھ مہینے میں فنون اسی معیارکے ساتھ منصہ شہود پر طلوع ہورہا ہے۔ نیر حیات قاسمی اور ناہید قاسمی نے فنون کے دو خصوصی شمارے ’’احمد ندیم قاسمی صدی نمبر‘‘ شائع کیے ہیں۔ اس سے قبل احمد ندیم قاسمی کی منہ بولی بیٹی منصورہ احمد ’’فنون‘‘ کے بعد اپنے ادبی جریدے ’’مونتاج‘‘، اکادمی ادبیات اپنے منفرد ادبی جریدے ’’ادبیات‘‘ اور ’’ماہِ نو‘‘ بھی احمد ندیم قاسمی کے بارے میں خصوصی شمارے شائع کرچکے ہیں، لیکن ان کے اپنے ادبی جریدے ’’فنون‘‘ کا ’’ندیم صدی نمبر‘‘ ان سب پر بازی لے گیا۔ تقریباً دو ہزار صفحات پر مشتمل اس نمبر میں اردوکے اس عظیم شاعر و ادیب کے بارے میں ہر معلومات موجود ہے۔ جلد دوم کے آخر میں ڈیڑھ سو صفحات کا انگلش حصہ بھی شامل ہے۔ قاسمی صاحب کی زندگی کا کوئی پہلو نہیں جو اس خصوصی شمارے میں شامل نہ ہو۔ مستقبل میں احمد ندیم قاسمی کی شخصیت اور فن پر کام کرنے والے محققین کے لیے یہ شمارہ بھرپور رہنمائی فراہم کرے گا۔ ایسے مکمل اور بھرپور شمارے کی تخلیق پر ناہید قاسمی اور نیر حیات قاسمی مبارکباد کے مستحق ہیں۔
فنون احمد ندیم قاسمی صدی نمبر جلد اوّل کی ابتدا میں فنون میں ’’حرفِ اوّل‘‘ کے عنوان سے قاسمی صاحب کے بارہ اداریوں کا انتخاب دیا گیا ہے۔ ’’ایک ذاتی وضاحت‘‘ کے عنوان سے قاسمی صاحب نے لکھا ہے کہ ’’بعض عناصر نے ادبی دنیا میں گزشتہ کئی برسوں سے، ایک مغالطے کو حقیقت کا رنگ دے کر عام کر رکھا ہے۔ مغالطہ یہ ہے کہ میں ایک ادبی گروہ یا کسی گروپ کا سربراہ ہوں۔ اس گروہ کو کبھی ندیم گروپ، کبھی قاسمی گروپ اورکبھی فنون گروپ کا نام دیا جاتا ہے، اور اس مغالطے کو بڑے التزام کے ساتھ پاکستان، ہندوستان اور دوسرے براعظموں میں رہنے والے اردو داں طبقوں میں پھیلایا گیا ہے۔ نتیجہ اس کا یہ ہے کہ بالمشافہ گفتگو میں، انٹرویوز اور مراسلت میں مجھ سے بار بار استفسار کیا جاتا ہے کہ یہ کس نوعیت کی کشیدگی ہے؟ اہلِ قلم کی ایک معقول تعداد اس دھینگا مشتی میں اپنا قیمتی وقت کیوں ضائع کررہی ہے؟ اور میں ایک سینئر قلم کار کی حیثیت میں اس افسوس ناک صورت حال کو ختم کرنے کا اقدام کیوں نہیں کرتا؟‘‘ اسی تحریر میں انہوں نے لکھا کہ ’’میرا کوئی گروپ نہیں ہے۔ کرہ ارض پر سانس لینے والے ایک سیدھے سادے انسان کی حیثیت میں، جب میں اپنی زندگی کی ساڑھے چھہتر منزلیں طے کرنے کے بعد پلٹ کر دیکھتا ہوں تو اپنے آپ کو مطمئن پاتا ہوں۔ کسی ذرا سے پچھتاوے کا سایہ بھی میرے ماضی کے منظر کو نہیں دھندلاتا۔ میں یہ سوچ کر ایک عجیب سی تسکین محسوس کرتا ہوں کہ اس میعادِ حیات میں نہ کسی کو فریب دینے کا مرتکب ہوا ہوں اور نہ میں نے کبھی اپنے ضمیرکو فریب دینے کی کوشش کی ہے۔ یقینا اس مدت میں بعض لغزشیں بھی ہیں، بعض کوتاہیاں بھی ہیں، بعض نادانیاں بھی ہیں اور ان کا کوئی جواز بھی نہیں ہے، مگر یہ عام انسانی فروگزاشتیں ہیں، بلکہ میرا مؤقف تو یہ ہے کہ اگر مجھ سے یہ فروگزاشتیں سرزد نہ ہوتیں تو بحیثیت انسان میری تکمیل ہی معرضِ خطر میں پڑسکتی تھی۔ قدرت نے دیانت اور محبت کو میرے وجود میں خون کی طرح جاری و ساری رکھا ہے۔ سو میں ذہنی اور روحانی طور پر بحمداللہ ایک آسودہ شخص ہوں۔‘‘
اس اداریے میں قاسمی صاحب نے اپنے بارے میں پھیلائی گئی کئی افواہوں کی بھرپور تردید کی ہے۔ ’’ادب، عہد بہ عہد رواںدواں‘‘ اور ’’اہلِ قلم سے شعور و دانش کا مطالبہ‘‘ بھی دو بہت اہم موضوعات پر اداریے ہیں۔ لیکن ان سب سے بڑھ کر فنون شمارہ 119… جس کے ساتھ فنون کی اشاعت کے چالیس سال مکمل ہوئے تھے… کی دل چسپ کہانی قاسمی صاحب نے بیان کی ہے: ’’1962ء کے دن تھے جب حکیم حبیب اشعر دہلوی مرحوم، مصور موجد اور ملک اسلم مرحوم نسبت روڈ پر میرے ہاں جمع ہوتے تھے اور کلاسیکل اردو شعرا کے بارے میں حکیم صاحب کی خوب صورت گفتگوسنتے تھے۔ انہی دنوں انہوں نے میر اور غالب کے علاوہ سودا کے باقاعدہ مطالعے پر زور دیا اور اس کے کلام کے انتخاب کا کام میرے سپرد ہوا۔ میں روزانہ ان احباب کی خدمت میں سودا کے منتخب اشعار پیش کرتا، اور پھر ایک ایک شعرکے نکات و اسرار پر حبیب اشعر کے ارشادات کا سلسلہ دیر تک جاری رہتا۔ یہ انتخاب بعد میں ’’فنون‘‘ کے ابتدائی شماروں میں درج ہوتا رہا۔ اُن دنوں حکیم صاحب ایک طبی رسالہ ’’حاذق‘‘ کے نام سے نکالتے تھے، مگر وہ نہ حکمت کی طرف پوری طرح متوجہ ہوتے تھے اور نہ ’’حاذق‘‘ باقاعدگی سے شائع ہو پاتا تھا۔ باتوں باتوں میں ایک روز ہمارے درمیان فیصلہ ہوا کہ ’’حاذق‘‘ کا نام بدل کر اسے ادبی رسالے کی حیثیت سے شائع کرنا چاہیے۔ حکیم حبیب اشعر مرحوم نے اس تجویز کا اس شرط کے ساتھ خیر مقدم کیا کہ ’’حاذق‘‘ کی آخری اشاعت’’حسن و صحت نمبر‘‘ پر مشتمل ہونی چاہیے جو طب کے علاوہ ادب کی دنیا میں بھی یادگار رہے۔ اس نمبرکا شعبۂ طب مرتب کرنے کی ذمے داری خود حکیم صاحب نے قبول کی اور’’حسن‘‘ کا شعبہ میرے سپرد ہوا کہ کلوپٹرہ سے دورِ حاضر تک، اور پھر اردو شاعری میں ولی سے لے کر ناصر کاظمی تک ایسا انتخاب وجود میں لایا جائے جس میں حسن کو تہذیب و فن کی ایک غیر فانی قدر کی حیثیت حاصل ہو۔ یہ یادگار نمبر شائع ہوا اور پورے ملک میں اس کی بہت تحسین ہوئی۔ رسالہ ’’حاذق‘‘ کا صرف نام بدلنے کی درخواست منظور ہوئی اور میں نے اس کا نیا نام ’’فنون‘‘ تجویز کیا جو متفقہ طور پر منظور ہوا۔ اپریل 1963ء میں فنون کا جو پہلا شمارہ نکلا اس میں جن اہل ِ قلم نے حصہ لیا، اُن میں سید ابوالخیر مودودی، عبدالرحمن چغتائی، حافظ محمود شیرانی، جوش ملیح آبادی، فیض احمد فیض، فراق گورکھپوری، کرشن چندر، سعادت حسن منٹو، راجندر سنگھ بیدی، عصمت چغتائی، سید ضمیر جعفری ، منو بھائی، ناصرکاظمی، قتیل شفائی، جیلانی بانو، اُمِ عمارہ، انور، غلام محمد عنایت الٰہی ملک جیسے خواتین وحضرات شامل تھے۔ حکیم حبیب اشعر صرف دوستانہ سطح پر اور اخلاقی لحاظ سے میرے ساتھ تھے، ورنہ ان کی آمدنی کے ذرائع سراسر محدود تھے اور وہ فنون کو کسی قسم کی مالی امداد دینے کے اہل نہ تھے۔ اہل میں بھی نہ تھا، مگرمیں مشاعروں میں شرکت اور اخبارات میں کالم نویسی سے جو کچھ کماتا تھا، وہ فنون کی نذرکردیتا تھا۔ اُن دنوں قریب قریب میں ہر اشاعت کے بعد فیصلہ کرتا تھا کہ اب قارئین سے معذرت کے ساتھ فنون کی اشاعت ختم کردوں گا، مگر جب بھی رسالہ چھپ کر سامنے آتا تھا اور اہلِ ادب کی طرف سے تحسین و آفرین کے ڈھیر موصول ہونے لگتے تھے تو میں اگلا (آخری) شمارہ مرتب کرنے بیٹھ جاتا تھا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا خاص الخاص کرم تھا کہ اُس نے مجھے منصورہ احمدکی سی بیٹی عنایت کی۔ اس بیٹی نے پچھلے آٹھ، دس برس سے فنون کا سارا انتظام و انصرام اپنے ذمے لے لیا اور میرا کام صرف یہ رہ گیا کہ رسالہ مرتب کروں۔ یوں مجھے بے حد سکون حاصل ہوا، اور اُدھر منصورہ بیٹی کی حیرت انگیز محنت و کاوش سے اخباری کاغذ پر چھپنے والا فنون سفید کاغذ پر شائع ہونے کے قابل ہوگیا۔ بیٹی نے رسالے کے باقاعدہ خریدار بنانے میں کمال کی محنت کی، اور خریداروں کی تعداد ایک دم دس گنا ہوگئی۔ ساتھ ہی فنون کی اشاعت میں باقاعدگی پیدا ہوگئی، اور آج بعض پیشہ ور بدخواہ عناصر کی منفی تحریروں کے باوجود فنون سربلندی کا سفر نہایت سکون اور اعتماد سے طے کررہا ہے۔‘‘۔
فنون کے اجرا کی دل چسپ اور پُرلطف کہانی احمد ندیم قاسمی کی زندگی ہی کا نہیں، اردو ادب کا بھی ایک انتہائی اہم موڑ ثابت ہوئی۔ نہ صرف قاسمی صاحب نے اس جریدے کے 126 شمارے شائع کیے بلکہ 2006ء میں ان کے انتقال کے بعد بھی ان کی یہ یادگار اب تک جاری و ساری ہے، اور فنون کے شماروں کی تعداد 140 تک پہنچ گئی ہے۔ بحمداللہ اس کا معیار بھی قائم و دائم ہے اور احمد ندیم قاسمی صدی نمبر نے فنون کی وقعت میں اضافہ کیا ہے۔
(جاری ہے)

حصہ