سید مودودی رحمتہ اللہ علیہ

343

منکرین حدیث کے خلاف قلم اُٹھانے میں مولانا کی خدمات سنہری حروف میں لکھے جانے کے قابل ہیں

مولانا طارق جمیل (معروف عالمِ دین)۔
جماعت اسلامی کے ایک سیمینار میں مجھے دعوت دی گئی، منتظمین نے مجھے گفتگو کے لیے عنوان دیا، قاضی حسین احمد نے کہا کہ مولانا کو عنوان نہ دیں یہ جو گفتگو کریں گے وہی عنوان ہوگا۔
نشست ختم ہوئی تو میاں چنوں کا ایک نوجوان تھا، اُنھوں نے قاضی صاحب سے پوچھا کہ طارق جمیل صاحب تو تبلیغ کے آدمی ہیں، آپ نے اُنھیں جماعت اسلامی کے سٹیج پر کیسے بلایا، تو اُنھوں نے کہا کہ یہ مولانا مودودی کو رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں اس لیے بُلایا ، اور ہمارے طبقے میں نفرت کتنی ہے، سال لگانے والے علما سال کے آخر میں ملاقاتیں کرتے ہیں، مجھ سے ملنے آئے تو باتوں باتوں میں ، میں نے تذکرہ کیا کہ مولانا مودودی رحمتہ اللہ علیہ تو ایک مولوی صاحب کھڑے ہوگئے کہ آپ نے’’ مودودی‘‘کو رحمتہ اللہ علیہ کیوں کہا؟
یہ وہ زہر ہے جو ہمیں ایک اُمت بننے نہیں دیتا۔تو میں نے کہا کہ کیوں کفر پر مرگئے تھے کہ رحمتہ اللہ علیہ نہ کہوں … کوئی شرم کرو ، کوئی حیا کرو، انسان بنو،تم مولوی تو کیا تم تو انسان ہی نہیں۔
مولانا مودودی رحمتہ اللہ علیہ نیک آدمی تھے ،اچھے عالم تھے ، پکے حنفی مسلمان اورعالم تھے ، اُنھوں نے کوئی الگ فرقہ نہیں بنایا ، کوئی الگ اجتہاد نہیں کیا۔ پڑھے لکھے طبقے کو دین سمجھانے،سوشلزم کے خلاف قلم اُٹھانے، منکرین حدیث کے خلاف قلم اُٹھانے میں مولانا کی خدمات سنہری حروف میں لکھے جانے کے قابل ہیں۔ حمیدالدین فراہی صاحب بڑے عالم تھے اُنھوں نے بعض احادیث پر عقلی اعتراضات کیے تو مولانامودودی صاحب نے بڑی طاقت سے رد کیا۔ آج کل یہ جو مغربی ذہن ہے ،یہ جو مادہ پرستی کا ذہن، یہ دنیا کے اندر ترقی دیکھ کراس میںرچ جانے والا ذہن، اس ذہن کو مرعوبیت سے نکالنے کے لیے ، اس ذہن کو غلامی کی زنجیروں سے آزاد کرنے کے لیے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی صاحب کا لٹریچر پڑھنا ضروری ہے۔تنقیحات ایک کتاب ہے جو مغربی تہذیب کی تاروپود بکھیر دیتی ہے، مغربی تہذیب کا جادو جو دل ودماغ پر بیٹھ گیا ہے اور چاروں طرف کے حالات میں جس طرح غلامی نے ڈھیرے ڈالے ہیں اس سے نجات کے لیے تنقیحات کا پڑھنا ضروری ہے۔

حصہ