خواب گل پریشان ہے!۔

449

فر حت طاہر
۔’’فکر کی کوئی بات نہیں! یہ تبدیلی کی عمر ہے، اس میں اسی طرح ہوتا ہے۔‘‘ ماہرِ نفسیات ڈاکٹر غزالہ نے شہلا کو تسلی دی، اور کچھ ہلکی پھلکی دوائیں لکھ دیں، مگر وہ خود بھی دل میںسوچ کر ہنس رہی تھیں کہ 16برس کی عمر تو وہ ہوتی ہے جب ہر چیز خوبصورت لگتی ہے، بھلا ڈپریشن کیوں؟ sweet sixteen میں تو انسان بن پیے مدہوش ہوتا ہے۔کھڑے کھڑے نیند آجاتی ہے۔ یہ تو سمن فاطمہ تھی جسے اس عمر میں نیند نہ آنے کا عارضہ لاحق ہوگیا تھا۔ مگر وہ کیا کرے جسے آنکھ بند کرتے ہی ڈرائونے خواب نظر آنے لگیں اور وہ چیخ مار کر اٹھ بیٹھے! اس فکر نے ہی ماں کو مجبور کیا کہ ماہرِ نفسیات سے رابطہ کرے۔ کائونسلنگ کے دوران عادات و ماحول اور خاندانی مسائل سے لے کر بات بچپن تک آپہنچی۔
شادی کے پانچ سال بعد شہلا کی گود ہری ہوئی تو ہر طرف خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ باپ خوشخبری لے کر اسپتال سے گھر جارہا تھا کہ ہنگاموں میں پھنس گیا۔ کالج کی طالبہ (بشریٰ زیدی) بس کے نیچے آکر کچلی گئی تو جلائو گھیرائو شروع ہوگیا۔ جلتی ہوئی بس سے اترنے کی کوشش میں حیدر علی زخمی ہوا، شکر ہے جان تو بچی!۔
ادھر اسپتال میں بیوی اپنی نوزائیدہ بچی کے ساتھ سولی پر لٹکی رہی۔ اتنے ارمانوں، دعائوں سے پیدا ہونے والی بچی کا استقبال کیا عالیشان ہوتا! جب باپ موت وزیست کی کشمکش میں مبتلا ہو، اور روزگار دائو پر لگا ہو تو یہ سب خواب محسوس ہوتا ہے۔ بے چاری شہلا خود آرام کیا کرتی، الٹا زخمی شوہر کی تیمارداری میں لگ گئی۔ شکر ہے کہ نام کا تحفہ پہلے ہی دیا جاچکا تھا ’’سمن فاطمہ‘‘۔ شاید اس کی کشش تھی کہ باپ تیزی سے روبہ صحت تھا۔
وقت اچھا ہو یا برا، گزر ہی جاتا ہے۔ سمن خوشیوں کے ہنڈولے میں پرورش پارہی تھی۔ اس کی خوبصورتی، ذہانت، خوش اخلاقی اور مستعدی ہر ایک کو مسکرانے پر مجبور کردیتی۔ اب وہ دو سال کی ہونے والی تھی۔ الفاظ تو بہت پہلے سے بولتی تھی، مگر اب جملے بولنے کی کوشش کرنے لگی تھی۔ ان ہی دنوں حالات پھر تیزی سے خراب ہونے لگے تھے اور پھر ایک واقعے نے اشتعال کی آگ بھڑکادی۔ شادی ہال کے باہر سے دو بہنیںاغوا ہوگئیں جن کی لاشیں انتہائی ناگفتہ بہ حالات میں ملیں۔ اس کے بعد فسادات شروع ہوگئے۔ پریشان حیدر علی گھر پہنچا تو بیوی نے سکون کا سانس لیا، اور ننھی سمن باپ کی گود میں چڑ ھ گئی اور ٹوٹے پھوٹے لفظوں میں بولنے لگی:
۔’’بابا…! شادی میں نہیں جانا… مر جاتے ہیں۔‘‘۔
اس جملے کی تکرار سن کر ماں باپ ششدر رہ گئے۔ سمن نے اپنا پہلاجملہ بولا بھی تو کیا؟؟ پریشانی، خوف اور بے اطمینانی، بدامنی میں ڈوبا ہوا! جس کے پور پور سے تشویش عیاں تھی۔
وقت گزرنے کے ساتھ جیسے جیسے سمن بڑی ہورہی تھی اس کی حساسیت پریشان خیالی میں بدلتی جارہی تھی۔ حالات کی کشیدگی شہر میں ہو یا ملک میں… یا دنیا کے کسی بھی کونے میں ہونے والی امن و امان کی مخدوش صورتِ حال اس کی بے چینی میں اضافے کا باعث بن جاتی۔ اب وہ میٹرک کی طالبہ تھی۔ افغانستان پر امریکی حملے کے بعد پوری دنیا خصوصاً خطے کے لوگ شدید خطرات کی زد میں تھے۔ بہت کچھ یقین دہانیوں کے باوجود سمن کی بے قراری کم نہ ہوتی۔ ماں پریشان ہوکر بالآخر ڈاکٹر غزالہ کے پاس آپہنچیں مگر بہت احتیاط کے ساتھ کہ کسی کو معاملے کی بھنک نہ پڑے۔
مستقل کائونسلنگ اور ذہنی مشقتوں کے بعد سمن نارمل ہوتی جارہی تھی۔ صحت بحال ہوئی تو رنگ روپ دوبارہ کھل اٹھا۔ ابھی انٹر میں آئی تھی کہ رشتوں کی لائن لگ گئی، مگر وہ تو بچپن سے ہی پھوپھو کے بیٹے سعد کی منگیتر تھی۔ سیکنڈ ایئر کے امتحانات سے فارغ ہوئی ہی تھی کہ دلہن بن کر رخصت ہوگئی۔ زندگی کے اس خوبصورت موڑ پر سمن اس آسیب سے گویا باہر آگئی تھی، اور اپنے اندر نئی زندگی کا وجود پاکر تو جیسے قوسِ قزح کے رنگ بکھرنے لگے تھے، اور پھر وہ دن آپہنچا جب دنیا کا مقدس ترین رشتہ عطا ہوا۔ وہ یک ٹک اپنی گڑیا کو دیکھے جارہی تھی۔ ریحا تھی بھی اتنی پیاری! سمن کا بچپن صاف جھلک رہا تھا۔
ایک ماہ کی ریحا کو لے کر سمن اور سعد کشمیر روانہ ہوئے تاکہ سیر و سیاحت کے علاوہ عید اپنے آبائی علاقے میں منا سکیں۔ ابھی انہیں یہاں پہنچے ہفتہ ہی ہوا تھا کہ پورے علاقے میں شدید ترین زلزلہ آگیا۔ سمن اپنی بچی کو سینے سے چمٹائے کھیتوں میں ننگے پائوں اور سر کھڑی تھی۔ سعد کو دیکھتے ہی اس سے لپٹ کر بے ہوش ہوگئی۔ ریلیف کے کاموں کا آغاز ہوا تو وہ واپس کراچی آگئے۔گھر پہنچ کر سمن ایسی بے سدھ ہوئی کہ ماں باپ اس کی طرف سے ایک بار پھر مایوس ہونے لگے۔ دوبارہ علاج شروع ہوگیا۔
وقت بڑا مرہم ہے اور موت کا خوف بھی لوگوں کے دل سے کم ہونا شروع ہوگیا تھا، اور سمن بھی بہتر ہوتی چلی گئی۔ اور اپنی ریحا کو دیکھ کر تو جیسے اس کو نئی زندگی مل جاتی تھی۔ ریحا اب پورے دو سال کی ہورہی تھی۔ اس کی پرورش کے ساتھ ساتھ اب تعلیم کی طرف بھی دھیان ہونے لگا تھا۔ سمن ہر ایک سے اس معاملے میں مشورہ کرنے لگی تھی۔ کبھی اس کا دل چاہتا کہ اپنی بیٹی کو حافظہ بنائے، کبھی ڈاکٹر، کبھی ٹیچر! وہ خود ہی اپنی سوچوں پر مسکرا دیا کرتی تھی۔ انہی دنوں اسلام آباد کے ایک مدرسے میں ایسا معرکہ ہوا کہ انسانیت ششدر رہ گئی۔ معصوم بچیاں فاسفورس سے راکھ بنادی گئیں۔ وہ ایسا دن تھا کہ سمن پر ایک بار پھر وہی دورہ پڑا۔ ماں باپ کے لیے اُس کو سنبھالنا مشکل ہوگیا۔ سعد بھی سخت پریشان تھا۔ بیوی کی حساسیت اتنی بڑھ چکی تھی کہ اسے لمحے بھر کی دیر ہوتی تو خوف سے زرد پڑجاتی۔ کہیں بم دھماکا، کہیں خودکش حملہ، کہیں جلائو گھیرائو!!!۔
چینلز کی بھرمار کی وجہ سے ایسے واقعات کی تشہیر بھی بہت زیادہ ہونے لگی ہے۔ چنانچہ اس کی پریشانی دوچند ہوگئی ہے۔ اخبارات کا داخلہ بند کروایا، کیبل کنکشن کٹوایا، مگر موبائل سے اطلاح کی فراہمی روکنا ممکن نہیں!! اور یہ ہے بھی آج کل کے حالات میں رابطے کا ذریعہ!! چنانچہ سمن کو ہر وقت ایک ڈوز دیتے دیتے وہ تھک سا گیا ہے۔ ادھرحالات ہیں کہ مخدوش سے مخدوش ہوتے جارہے ہیں۔ اب سمن کی ساری بے قراری ریحا میں منتقل ہوچکی ہے۔ معصوم سی بچی کسی سے بات کرتی ہے تو سب سے پہلا سوال یہ پوچھتی ہے ’’آپ کی طرف حالات ٹھیک ہیں؟‘‘
جو سنتاہے اس بات پر مسکرا اٹھتا ہے مگر ایک تکلیف کے ساتھ۔ اس جملے میں چھپا درد اس شہر ناپرساں میں رہنے والا ہر فرد خوب محسوس کرتا ہے۔ آج بھی صبح سعد کام پر جانے کے لیے نکلنے لگا تو پہلے بیوی اور پھر بچی کو تسلی دی:
’’میں فیکٹری پہنچ کر فون کروں گا، اور ہاں بیٹا تیار رہنا! آج بابا کو تنخواہ ملے گی تو شاپنگ کو چلیں گے۔ آپ اسکول جائو، شام کو سالگرہ بھی تو ہے ہماری بیٹی کی۔‘‘
سعد نے بیٹی کو اسکول روانہ کیا اور خود فیکٹری جانے کے لیے تیار ہونے لگا۔ حسبِ معمول فیکٹری پہنچ کر خیریت کا فون کیا مگر اس کے بعد مصروفیت کے باعث رابطہ نہ کرسکا۔ سمن بھی اطمینان کے ساتھ شام کی تیاریوں میں مشغول تھی۔ ریحا کو بہلاتے بہلاتے وہ تھک گئی تھی، سعد ابھی تک واپس نہ آیا تھا۔ اسی وقت ابو کا فون آیا، وہ تشویش کے عالم میں سعد کا پوچھ رہے تھے… اور پھر گویا قیامت ٹوٹ پڑی۔
’’فکر نہ کرو، میں بہت جیوں گا، میری کوئی لاش واش حادثے کا شکار ہوکر گھر نہ آئے گی۔‘‘ اس کی یہ بات تو پوری ہوگئی۔ لاش کیا گھر آتی، راکھ تو بن گیا تھا سب کچھ!!! سمن خوف سے زرد پڑتی ریحا کو دیکھ رہی تھی اور اپنے عمر بھر کے خوف کو ایک حقیقت بنتے دیکھ کر سوچ رہی تھی ’’کیا میری پریشان خیالی میری بچی کی محرومی میں ڈھل گئی ہے؟‘‘ریحا کو سینے سے چمٹاتے ہوئے اس نے اس سفر کے بارے میں سوچا جس کی آبلہ پائی شاید سعد کے تپش میں گھرے جسم سے کسی طرح کم نہ تھی۔
…٭…
۔10 ستمبر 2019ء
’’سانحہ بلدیہ ٹائون: ساتویں برسی، کل علی انٹرپرائز فیکٹری پر اجتماع ہوگا۔‘‘ چودہ سالہ ریحا اپنے سامنے رکھے اخبار کی اس خبر پر دیر سے نظریں جمائے بیٹھی تھی۔ تفصیل میں مزید درج تھا کہ اجتماع میں سانحہ بلدیہ میں شہید ہونے والے260 محنت کشوںکے لواحقین، مختلف صنعتوں سے وابستہ محنت کش، سماجی اور سیاسی نمائندے شریک ہوں گے اور متاثرین کو درپیش مسائل، اب تک کی صورتِ حال اور لائحہ عمل پر بات کریں گے۔
سات سال گزرنے کے باوجود ریحا کے سامنے وہ دن جیسے آج بھی تازہ تھا۔ اس سانحے نے خلافِ توقع ماں بیٹی کو ایک نئی ہمت و جرأت عطا کی تھی۔ دوسروں کی تکلیف پر تڑپنے والوں کو جب اپنا درد ملا تو توانائی کی ایک نئی لہر دوڑ گئی۔ غم کی شدت نے ان کو کندن بنادیا تھا۔ وہ دونوں ایک دوسرے کی ڈھال بن گئی تھیں۔
سمن نے اپنی ادھوری تعلیم مکمل کرکے بی اے کی ڈگری حاصل کرلی تھی جس کی وجہ سے وہ معاشی طور پر اپنے پائوں پر کھڑی تھی۔ اپنے والدین کے زیر سایہ رہنے کے باعث اس کو اپنی بیٹی کی طرف سے تھوڑا اطمینان حاصل تھا۔ نانا، نانی ریحا کی تربیت پر خصوصی توجہ دے رہے تھے۔ وہ نویں جماعت کی طالبہ تھی۔ اپنی عمر سے کہیں زیادہ سنجیدہ اور حساس… بااعتماد اور باخبر۔ اس کی حساسیت نے اسے شعلۂ جوالہ بنادیا تھا۔ فی الحال تو وہ سائنس پڑھ رہی تھی مگر آگے اس کا ارادہ انصاف کے حصول کے لیے قانون کی تعلیم حاصل کرنے کا تھا۔
ان ہی خوبیوں کی وجہ سے وہ اپنے ماحول میں ایک نمایاں نام بن چکی تھی۔ متاثرین کی نمائندگی کے لیے اسٹیج سے نام پکارا گیا تو شرکاء حیرت سے اس باپردہ بچی کو دیکھ رہے تھے جو حادثے کے وقت احتجاجی مظاہروں میں اکثر ماں کی گود میں بیٹھی ہوتی تھی۔ پُراعتماد اور باوقارانداز میں مائیک ہاتھ میں لیے وہ بول رہی تھی’’میرا شہر، میرا علاقہ آج بھی انصاف کا منتظر ہے۔ ہمیں شناختی کارڈ سے محروم رکھا جارہا ہے…کچرے پر سیاست چمکائی جا رہی ہے۔ ہماری سڑکوں پر کرنٹ سے لوگ مر رہے ہیں… ٹرانسپورٹ سے محروم… پانی بجلی جیسے مسائل میں الجھا کر ہمیں کمزور سے کمزور کیا جارہا ہے۔‘‘
وہ سانس لینے کو رکی اور پھر گویا ہوئی ’’سارا مسئلہ قیادت کا ہے۔ اس ظلم کے نظام کو ہمارے شہر ہی نہیں، اس دنیا سے ختم کرنے کے لیے مضبوط اور دیانت دار قیادت کو میدانِ عمل میں منظم اور مربوط ہوکر اپنا کردار ادا کرنا ہوگا… ایک مستحکم اور متحد ملک ہی اپنا دفاع بہتر انداز میں کرسکتا ہے، ورنہ مودی جیسے ظالم قسائی مجبور انسانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑتے رہیں گے۔‘‘ لوگ اپنی پریشانی اور غم کو قوت میں ڈھال کر نہ جانے کتنے لوگوں کو مؤثر پیغام دے رہے تھے۔ بقول شاعر: ۔

سنا ہے غم میں طاقت ہوتی ہے

حصہ