تبدیلی کے اصل سفیر اپنا کام کرتے رہتے ہیں

532

تزئین حسن
پچھلے دنوں فیس بک پر ایک وڈیو کلپ دیکھنے کا اتفاق ہوا جس میں کسی پاکستانی ادارے کی جانب سے پاکستان کی با اثر ترین خواتین کی فہرست دی گئی تھی۔ ان دس خواتین کو کس بنیاد پر با اثر ترین خواتین کہا گیا تھا مجھے نہیں معلوم مگر اس میں تین چار برانڈڈ لان کی انٹرپرائزز کی مالک تھیں۔ ایک کا تعلق کسی بہت مہنگے اسکول کی چین سے تھا۔ ایک واحد نام جس پر میں کسی حد تک متفق تھی انکا تعلق ایک نجی چینل سے تھا۔ اس سے قبل ایسی فہرستوں میں اداکارہ میرا کا نام بھی شامل ہوتا تھا۔ میرے نزدیک لان کا کاروبار کرنے والیاںیا ایک مخصوص طبقے کی تعلیم سے وابستہ خواتین کسی بھی طرح با اثر نہیں ہو سکتیں جب تک وہ بڑے پیمانے پر معاشرے کے ہر طبقے کی سوچ میں تبدیلی نہ لا سکیں۔ لوگ انھیں بظاہر تسلیم کریںیا نہ کریں لیکن انکے نظریات اور حلیے کے مطابق اپنی سوچ اپنے لباس اور معمولات میں تبدیلی نہ لے آئیں۔ آئیے دیکھتے ہیں اس ملک میں تبدیلی کی اصل کنگ میکر خواتین کا تعلق کس گروپ سے ہے۔
یہ اسی کی دہائی کے اواخر اور نوے کی دہائی کے آغاز کی بات ہے، کراچی یونیورسٹی کے سلور جوبلی گیٹ سے گزریں تو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ کسی فیشن شو میں آ گئے ہیں۔ نت نئے فیشن، خوبصورت رنگوں سے مزین پیراہن میں ملبوس نو عمر دو شیزا ئیں۔ گویا کسی میلےیا شادی میں شرکت کا اہتمام ہے۔ ایسے میں اگر بس اسٹاپ پر کوئی نقاب پوش طالبہ نظر آ جاتی تو اس سے صرف حلقہ اور اسکے کالج یونیورسٹی کا نام پوچھنے کی ضرورت ہوتی۔ ہمیں ایک سو ایک فیصدیقین ہوتا کہ یہ ہماری ہی ساتھی ہے اور کارکنان کے باہمی تعلقات کے موضوع پر خرم جاہ مراد کا پمفلٹ اس نے بھی پڑھ رکھ ہوگا۔ نتیجہ یہ ہوتا کہ حلقے کا نام معلوم کرنے کے بعد بے گانگی کے کسی شائبے کے بغیر جب تک بس نہ آ جاتی مختلف موضوعات پر اپنائیت سے تبادلۂ خیال ہوتا۔
ہو سکتا ہے جامعہ کراچی اور پنجاب کے بڑے میڈیکل کالجز میں صورتحال کچھ مختلف ہو، مگر بعض مقامات ایسے بھی تھے کہ پورے پورے کالج میں اکا دکا لڑکی نقاب یا اسکارف میں نظر آتی۔ اپنے حلیے اور نظریات کی وجہ سے ہم میں سے تقریباً ہر فرد اکیلا پن محسوس کرتا اور ایسے میں اپنا کوئی بھی ساتھی کہیں بھی نظر آجاتا اس کے لیے محبت کے سوتے پھوٹ پڑتے۔ یہ اکیلا پن صرف تعلیمی اداروں میں نہیں گلی محلے اور خاندان میں بھی تکلیف دیتا لیکن طاقت ور تحریکی لٹریچر، ساتھیوں کی صحبت، اور ذمہ داران کی محبت کے اثرات کچھ ایسے تھے کہ ہم اپنے نظریات کے لیے جان کی بازی لگا سکتے تھے اور ہر طرح کی قربانی دینے کے لیے تیار تھے۔
مجھےیاد ہے ایف ایس سی کے فرسٹ ایئر میں میری سندھی قوم پرست رہنما رسول بخش پلیجو کی بیٹی سے دوستی تھی۔ کالج گھر سے کوئی تین میل دور تھا لیکن میں اور سنیہ (نام تبدیل کر دیا گیا ہے) کبھی کبھی سیاسی اور نظریاتی بحثوں میں اتنا الجھے ہوتے کہ گھر تک پیدل آ جاتے۔ سنیہ کی امی میرے ابو کے ساتھ یونیورسٹی میں پڑھاتی تھیں اور وہ لوگ کیمپس میں ہی رہتے تھے۔ پلیجو سے انکی علیحدگی ہو چکی تھی۔ سنیہ قوم پرست ہونے کے ساتھ ساتھ پکی کمیونسٹ تھی۔ مجھے اس اعتراف میں کوئی باک نہیں کہ میرے پاس کمیونزم کے حق میں اس کے دلائل کا کم ہی جواب ہوتا تھا اور اگر تھا تو شاید ابلاغ کا سلیقہ نہ تھا۔
میری والدہ اور پھپو دونوں کی وجہ سے گھر کے ماحول پر مذہبی رنگ غالب تھا لیکن فلسفہ پڑھانے والے میرے والد کا جھکاؤ بائیں بازو کی طرف تھا۔ ہمارے گھر میں اکثر ترقی پسندوں کے اجتماعات ہوتے۔ گھر میں علم کی پیاس بجھانے کے لیے مذہبی اور سیکولر دونوں طرح کا لٹریچرموجود تھا لیکن ہم پھر بھی ڈائجسٹ لٹریچر اور کرائم فکشن شوق سے اپنی علمی پیاس بجھاتے ۔
کالج کے فرسٹ ایئر کے بعد چھٹیوں کے دوران جان محمد عباسی کے گھر حیدرآباد شہر کی تربیت گاہ میں شرکت کا موقعہ ملا۔ چھٹیوں کے بعد کالج پہنچے تو اتنی تبدیلی آ چکی تھی کہ وومنز گارڈ کی ٹریننگ کے دوران معترضین کو صاف بتا دیا کہ آپ ہمیں ڈراپ کرنا (نکالنا) چاہیں تو نکال دیں لیکن یہ چادر اب نہیں اترے گی۔ سنیہ کو بھی جلد اندازہ ہو گیا کہ اب ہم اسکے کسی کام کے نہیں رہے۔
اسٹیشن روڈ پر ریشم گلی کے سامنے بیگم جلیس کے گھر، (عفت جمیل) باجی کے دروس، عذرا جمیل (ناظمہ شہر) سے باہم ملاقاتیں اور ساتھ ساتھ خطبات، پردہ، اور دیگر کتب نے تیزی سے ذہن سازی کا آغاز کیا لیکن مجھے یاد ہے زندگی کی سمت تبدیل کرنے کا اصل فیصلہ میں نے سید مودودی ؒ کی سود کے بارے میں لکھی گئی تحریر کو پڑھ کر کیا (جسکا مشورہ میرے مشکل سوالات کو دیکھتے ہوے مجھے عذرا باجی نے ہی دیا تھا۔ آج سوچتی ہوں کتنا صبر تھا ان میں مجھے اور میرے سوالات کو برداشت کرنے کا۔) جس میں سود کے بارے میں مختلف معاشی نظاموں کی خرابیوں پر بحث کر کہ اسلام کے معاشی نظام کے اصول واضح کیے گئے تھے جس نے میرے ذہن کے باقی شدہ ابہامات کو بخوبی دور کر دیا۔
مارچ میں دریائے سندھ کے کنارے سکھر کے ایک اسکول میں صوبائی تربیت گاہ اٹینڈ کی تو آشفتہ سری کچھ اور بڑھ گئی۔ پتہ نہیںیہ دلیل کی طاقت تھی، ابلاغ کی سادگی، ساتھیوں کا خلوص یا مقصد پر یقین کہ اسکے بعد شہادت حق “تھی” اور ہم۔ اس مختصر سے دور میں جو کچھ جمع کیا آج تک زندگی کے سفر میں وہ زاد راہ اپنا قیمتی سرمایا کام آ رہا ہے۔
جس سال میں نے داؤد انجینرنگ کالج جوائن کیا اسی سال کلاسز سے کوئی دو مہینے پیشتر اپریل میں بہت سوچ سمجھ کر پردہ شروع کیا۔ جون میں میری پھپو کی بیٹی کی شادی تھی۔ خاندان والے مجھے اور میری بڑی بہن کو پہلی ہی تقریب میں دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئے۔ ملا جلا رد عمل تھا مگر یہ وہ وقت تھا جب مہاجر قومیت اور ایم کو ایم کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا اور آپکا پردہ محض ایک مذہبی فریضے کی تکمیل نہ تھی بلکہ آپکے سیاسی نظریات کا اعلان تھا اور اسکی قیمت آپکو ایک تکلیف دہ سماجی تنہائی کی صورت چکانی پڑتی تھی۔
مجھےیاد ہے ہماری ایک قریبی عزیزہ کا تبصرہ تھا،” دیکھتے ہیں ان لڑکیوں کی شادیاں کیسے ہوتی ہیں” انکا یہ تبصرہ بے محل نہیں تھا۔ پردہ کرنے والی بے شمار لڑکیوں کے ماں باپ کے سامنے یہ سوال منہ کھولے کھڑا تھا کہ اس دور میں جب پڑھے لکھے گھرانوں میں پردے کا رواج تقریباً زیرو ہو گیا ہے ہم اپنی اعلیٰ تعلیم یافتہ بچیوں کے لیے رشتے کہاں سے ڈھونڈیں گے۔ مگر یہاں بھی اس طاقت ور تحریکی لٹریچر کی نظریاتی اساس، تحریک کا نظام تربیت اور ذمہ داران کی بندھائی ہوئی ہمت تھی جو ہر طرح کے دنیوی نقصانات کو نظر انداز کر کہ الله کی راہ میں بڑھنے کا حوصلہ دیتی تھی۔
ملک کے اعلیٰ تعلیمی اداروں کا ماحول آج سے بہت مختلف ہوتا تھا۔مجھے یاد ہے ١٩٩١ میں، کراچی یونیورسٹی ہوسٹل میں تین ماہ گزارنے کا موقعہ ملا تو وہاں اٹک سے تعلق رکھنے والی، ملک کے ایک معروف تعلیمی ادارے انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (آئی بی ائے) کی ایک طالبہ نینا ہمارے قریبی حلقے میں تھی۔ نینا بتاتی تھی کہ ایک دفعہ اس نے آئ بی اے میں پریزنٹیشن دی تو ٹیچر کا کہنا تھا کہ آئندہ آپ پریزنٹیشن کے لیے آئیں تو لپ اسٹک لگی ہوئی ہونی چاہیے۔ ایک دفعہ وہ آئی بی اے کے کسی ڈنر میں ہماری ایک صومالی ہوسٹل میٹ توددہ کو ساتھ لے گئی۔ توددہ سیاہ رنگت کے باوجود دلکش نقوش رکھنے والی لڑکی تھی جو میری معلومات کے مطابق سر نہیں ڈھکتی تھی۔ تقریب میں کسی لڑکے نے اس دور میں آئی بی اے کے ماحول اور رواج کے مطابق اخلاقاً توددہ سے ہاتھ ملانے کی کوشش کی تو اس کے انکار پر کچھ مضحکہ خیز سی صورت حال ہو گئی۔ مجھے یاد ہے رات گئےہوسٹل کی سیڑھیوں پر مدھم پیلی روشنی میںیہ واقعہ سناتے ہوے نینا ہنستے ہنستے بے حال ہو گئی تھی۔ اسکا کہنا تھا کہ تزئین میں سوچتی ہوں اگر توددہ کے بجائے تمہیں لے جاتی تو کیا ہوتا۔ اشارہ میرے سخت پردے اور مخالف صنف سے اس سے زیادہ سخت طرز عمل کی طرف تھا۔ ایسے میں چہرے کے پردے کے ساتھ انجینرنگ کی تعلیم کے باوجود کارپوریٹ ورلڈ کا حصہ بننا بھی نا ممکن نہیں تو ایک مشکل امر ضرور تھا۔
میرا فائنل ایئر شروع ہوا تو پوری دنیا میں کمپیوٹر اور کمیو نیکیشن ٹیکنالوجیزکا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا۔ مائکرو سوفٹ کے بانی بل گیٹس کا نام انجینرنگ اور ٹیکنالوجی کے اداروں میں سلیبریٹیز کی طرح لیا جاتا تھا۔ فائنل پروجیکٹ شروع ہوا تو ہمارے ایڈوائزر سیف الدین ہیرانی جو کراچی میں ہی نہیں پورے ملک میں مائکرو پراسیسر کے ماہر سمجھے جاتے تھے، کسی وجہ سے داؤد کالج چھوڑ کر یونیورسٹی روڈ پر واقع سوئس حکومت اور پی سی ایس آئی آر کے قائم کردہ ایک ادارہ IIEE میں پڑھانے لگے تھے۔ انہوں نے پروجیکٹ کی تکمیل کے دوران مجھے IIEE جوائن کرنے کی دعوت دی۔ مجھے یاد ہے اس ادارے کے پیرانہ سال سوئس سربراہ فرٹز گیزر (جو بعد ازاں کراچی ہی میں ٹارگٹ کلنگ کے ایک حادثے میں مارے گئے) نے ایک گھنٹے کے زبانی انٹرویو کے دوران مجھ سے پوچھ پوچھ کر پورے سرکٹ بورڈ کا نقشہ ڈیوائسز سمیت کاغذ پر منتقل کر لیا۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ انہیںیقین نہیں آ رہا تھا کہ ایک چہرے کا پردہ کرنے والی لڑکی یہ کام کر سکتی ہے۔ انکا پوچھنا تھا کہ پروجیکٹ کے بارے میں بات کرتے ہوئے آپ ‘I’ (میں) کے بجائے ‘we’ کا لفظ کیوں استعمال کر رہی ہیں؟ میرا بے ساختہ جواب تھا،۔
‘.I and my six group fellows’
“میں اور میری چھ گروپ فیلوز۔”
انکے لہجے سے مزید حیرت ٹپکنے لگی،
?All of them were girls
(کیاوہ سب لڑکیاں تھیں؟)
میرے اقرار پر انکا فوری رد عمل تھا
In Pakistan it is not possible!
(پاکستان میں ایسا ممکن نہیں)
میرا بر جستہ جواب تھا،
We made it possible!
(ہم نے اسے ممکن بنا دیا )
بعد میں سیف صاحب کو معلوم ہوا کہ مجھے فائنل ایئر کی کمیونیکیشن انجینرنگ کلاس پڑھانے کو دی جا رہی ہے جو ساری لڑکوں پر مشتمل ہے تو وہ میری درخواست پر فرٹز گیزرسے الجھ پڑے کہ اس کا تو ابھی فائنل ایئرکا رزلٹ بھی نہیں آیا،یہ فائنل ایئر کے لڑکوں کو کیسے فیس کریں گی۔ لبرل سوچ کے مالک سیف الدین ہیرانی کے بقول، سوئس ایگزیکٹو کا جواب تھا،
.She can do everything. She is very confident.
‘وہ بہت با اعتماد ہے۔ وہ سب کچھ کر سکتی ہے۔
مجھے اعتراف ہے کہ اس اعتماد میں اس پردے کا بہت ہاتھ تھا جسکا سبب صرف صرف تحریک اور اسکا لٹریچر تھا۔ اپنی پہلی ملازمت میں انجینرنگ کے فائنل ایئر کے طلبہ کو پڑھانا میرے لیے بہت فخر کا با عث تھا مگر اسکے شرعی پہلو کے حوالے سے میں الجھن کا شکار تھی۔ محترم خرم جاہ مراد اس دور میں جمعیت طالبات کی قرانی کلاس لے رہے تھے۔ ان سے رجوع کیا تو انکا کہنا تھا : “اسلامی تاریخ میں ہمیں ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ خواتین محدثین نے مسجد میں بیٹھ کر مردوں کو تعلیم دی ہے۔ میں کوئی مفتی تو نہیں لیکن میری رائے میں اگر فتنہ کا خطرہ نہیں تو اس میں کوئی خرابی نہیں۔”
انٹرویو کے بعد حیدرآباد پہنچنے پر مجھے میری دوست اور گروپ لیڈرثمینہ کا خط موصول ہوا۔اس نے لکھا تھا کہ فرٹز گیزر نے مجھے اور سلمیٰ (ہماری ایک اور قریبی دوست اور گروپ فیلو) کو صرف یہ جان کر بغیر انٹرویو اپائنٹ کیا کہ ہم تمہارے گروپ سے ہیں ۔ مجھے یاد ہے سوئیزرلینڈ سے کوئی وفد آتا تو فرٹز گیزر ہم خواتین ٹیچرز کو بہت فخر سے اس سے ملواتے۔
٢٠٠٥میں میں نے آئی بی اے جوائن کیا تو وہاں اسٹاف میں تو خیر طالبات میں بھی شاید صرف ایک لڑکی میری طرح نقاب لیتی تھی۔ اس کے بارے میں کسی نے بتایا کہ اسکے دو بھائی گونتا ناموبے میں مقیم ہیں۔ لیکن طالبات کی ایک معقول تعداد اسکارف کا اہتمام کرتی۔ میری طالبات میں ایسی بھی تھیں جو آئی بی اے کے اس وقت کے ڈریس کوڈ کو نظرانداز کر کہ سلیو لیس اور مختصر ترین کیپری میں نظر آتیں مگر انکی تعداد کم تھی۔ یہ پرویز مشرف کا دور تھا اور میڈیا نیا نیا آزاد ہوا تھا۔ پاکستانی معاشرہ نائن الیون کے بعد دو حصوں میں تقسیم ہوتا جا رہا تھا۔ روش خیالی اور بنیاد پرستی، دونوں سمت سے رسہ کشی جاری تھی اور میری ذاتی رائے میں امریکی اقدامات کے نتیجے میں مؤخر الذکر کا پلڑا بھاری تھا۔
یہ وہ وقت تھا جب کثیر تعداد میں کراچی سمیت ملک کے ہر شہر میں دینی تنظیموں نے سر اٹھا لیا تھا۔ افغانستان اور بعد ازاں عراق پر امریکی حملوں، باجوڑ کے مدرسے میں ڈرون حملے میں کثیر تعداد میں بچوں کی شہادتوں، قبائلی علاقوں میں امریکی ڈروں حملوں کے نتیجے میں انتہا پسندی اور دہشت گردی ملک عزیز پر اپنے پنجے گاڑ چکی تھی۔ گو پردے کا انتہا پسندی سے کوئی تعلق نہیں مگر لال مسجد کا سانحہ ہوا تو پردے اور انتہا پسندی کے درمیان بھی تعلق جوڑنے کی ناکام کوشش کیجانے لگی۔
لیکن اس سے بہت قبل ہی معاشرے میں پردہ کی قبولیت عام ہو گئی تھی۔ اسے اپنانا اتنا آسان ہو گیا تھا کہ بہت سی ایسی لڑکیاں بھی جن کا تحریک اسلامی چھوڑ کسی بھی تنظیم سے تعلق نہ ہوتا وہ بھی اپنے ذاتی انتخاب اور مرضی کی بنیاد پر اسے اپنانے لگیں۔ انہیںیہ خوف دامن گیر نہ ہوتا کہ انھیں اپنے تعلیمی اداروں یا خاندانوں میں کسی تنہائییا کسی دنیوی نقصان کا سامنا کرنا پڑے۔ جاب انٹرویوز میں پردے سے متعلق کسی سوال کا سامنا کرنا پڑے گا یا بغیر بتائے اسکارف یا پردے کی بنیاد پر مسترد کر دیا جائے گا۔
٢٠١٢میں مشرق وسطیٰ میں پانچ سال گزارنے کے بعد میں نے دوسری مرتبہ آئی بی اے جوائن کیا تو ان سات سالوں میں تبدیلی کہاں سے کہاں پہنچ گئی تھی۔آئ بی اے سٹی کیمپس کی نئی تعمیر شدہ بلڈنگ میں مردوں کی مسجد سے متصل خواتین کی نماز کے لیے مخصوص وسیع ہال میں جانے کا اتفاق ہوتا تو نماز کے اوقات میں مسجد کھچا کھچ طالبات سے بھری ہوئی ملتی۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ اب اسکارف اور نقاب والی طالبات کو گننا اتنا آسان نہیں رہا تھا۔
کوئی ٢٠١٤ کی بات ہے ایک پاکستانی ٹی وی سیریل دیکھنے کا اتفاق ہوا، جس میں اسکارف کے موضوع کو مرکزی خیال بنایا گیا تھا۔ کہانی کچھ یوں تھی کہ ایک لڑکی کا کزن بچپن کی دوستی کے باوجود اس سے شادی کرنے سے صرف اس لیے انکار کر دیتا ہے کہ وہ اسکارف پہنتی ہے۔ بعد ازاں وہ برطانیہ میں تعلیم کے دوران کسی پاکستانی نژاد فیملی کی لڑکی سے شادی کر لیتا ہے۔ لیکن بعد ازاں اپنے والدین کی انڈرسٹنڈنگ اپنی بیوی سے نہ ہونے پر اور کچھ دوسرے حوالوں سے اپنے فیصلے پر پچھتاتا ہے اور اسکارف والی ہیروئن اسکی عزت افزائی کرتی ہے۔ یعنی اب حجاب سے متعلق موضوعات شو بز اور اسکرین کی زینت بھی بننے لگے ہیں گو کہیں کہیں منفی انداز میں مگر مثبت نمائندگی بھی بھر حال موجود ہے۔
کچھ عرصہ قبل آئی بی اے کے میتھمیٹکس ڈیپارٹمنٹ کے ڈین ڈاکٹر شاہد قریشی نے (جن کے ساتھ مجھے آئی بی اے میں براہ راست کام کرنے کا اعزاز حاصل ہے) کراچی یونیورسٹی کی میتھمیٹکس فیکلٹی کی کسی تقریب کی تصویریں فیس بک پر شئیر کیں تو گروپ فوٹوز میں چار پانچ لیکچرریا پروفیسر خواتین نقاب اور کچھ اسکارف میں نظر آئیں۔
یہ تبدیلی کہاں سے چلی تھی اور کہاں پہنچ گئی ہے۔ مگربہت کم لوگوں کو اسکا ادراک ہو گا کہ اس تبدیلی کا اصل آغاز کئی دہایوں پیشتر دراصل ان باہمت روحوں نے کیا جن میں دریا کے پانی کے مخالف سمت جانے کا حوصلہ تھا۔
بن ہلکی موج مگر ایسی، جس موج پہ دریا ناز کرے
حجاب معاشرے میں خاموشی کے ساتھ سرایت کر گیا ہے کہ آج ملک میں تو خیر بیرون ملک اور خصوصاً مغربی ملکوں میں اسکارف پاکستانی اور مسلم امیگرنٹس کا شعار ہو گیا ہے۔ میں جب کینیڈین راکیز کے پہاڑوں میں اسکارف اور نقاب والی خواتین کو ٹریکنگ کرتے دیکھتی ہوں تو میرا دل فخر سے تن جاتا ہے۔ مغرب کے ڈیپارٹمنٹل اسٹورز کی چینز میں آج ایک پروڈکٹ حجاب بھی نظر آتی ہے جسے صرف مسلم خواتین ہی نہیں، خود مغربی خواتین بھی بڑے پیمانے پر (چاہے سینہ ڈھکنے کے لیے ہی سہی ) اختیار کر رہی ہیں۔ مغربی تہذیبی برتری کے دعوے دار آج ان تبدیلیوں سے لرز رہے ہیں۔ آج نائیکے NIKE اورمارکس اینڈ سپنسر جیسے مغرب ٹریڈ مارکس حجابی پروڈکٹس کو اپنی پروڈکٹ لائن کا حصہ بنا رہے ہیں تو میں کیوں اسکا کریڈٹ ان بچیوں کو نہ دوں جنہوں نے اسلام کے اولین دور کی خواتین کی سنت کو اس وقت زندہ کیا جب مغربی کلچر اور تعلیم کے اثر سے سر یا چہرہ ڈھانکنا دقیانوسیت کا استعارہ اور متبادل ہو گیا تھا۔
آجیہ سب کچھ جو بہت عرصے سے میرے قلم سے نکلنے کے لیے بے تاب تھا (کم از کم دس سال سے) اس لیے یاد آیا کہ پچھلے تیس سال میں پاکستانی معاشرے میں اس پہلو سے ہماری اقدار میں جو تبدیلی آئی ہے، اس میں ان بچیوں کا بہت کردار ہے، جنہوں نے پہلی دفعہ ایسے وقت میں اپنییونیورسٹیز، پروفیشنل کالجوں اور دیگر تعلیمی اداروں میں کسی دنیوی نقصان، سماجی تنہائی کے خوف کو نظر انداز کر کہ صرف اور صرف الله کی رضا کو اپنا مطمح نظر بنایا۔ جنہوں نے تپتی دو پہروں میں ٹھنڈے کمروں کے سکون پر دروس کی دعوت کے لیے لوگوں کے دروازے کھٹکھٹانے کو ترجیح دی۔ جنہوں نے تقریبات میں پردے کی بو بو ہونے کے طعنے برداشت کیے۔ جن کے نزدیک انکے نظریات انکے دنیوی مستقبل سے زیادہ اہم تھے، جنکی زندگی میں اگر کسی چیز کی اہمیت تھی تو وہ شہادت حق تھی اور بہت سوں کی زندگی میں آج بھی ہے۔ آج اگر اسکارف حلقہ وار دروس سے نکل کر ٹی وی اسکرین پر آ گیا ہے، ائرپورٹس، شاپنگ مالز، ملکی اور غیر ملکی اداروں کے سیمینارز سے ہوتا ہوا وزیر اعظم ہاؤس تک پہنچ گیا ہے تو یہ تبدیلی کسی طالبان حکومت کی جبری نافذ کی ہوئی نہیں ہے، یہ ذہنوں کی تبدیلی ہے جو ہمارا اصل کام ہے۔ چاہے حکومت میںکوئی بھی ہو۔ تبدیلی کے اصل سفیر حکومتوں کی تبدیلی کے انتظار میں نہیں رہتے، اپنا کام کرتے رہتے ہیں۔ پاکستان کی اصل با اثر خواتین یہی ہیں۔

ہمارے دم سے ہی سارا جہان بدلے گا
ہمارے دم سے ہی سارا جہان بدلے گا
ہمارے دم سے ہی سارا جہان بدلے گا
کہ حرف حق ہی زمین و زمان بدلے گا

(حارث خلیق)

حصہ