اکادمی ادبیات پاکستان کا اظہار یک جہتی مشاعرہ

384

ڈاکٹر نثار احمد نثار
اکادمی ادبیات پاکستان کراچی کے زیر اہتمام قومی تقریب اظہار یکجہتی کشمیر مشاعرہ ’’روحِ آزادی ٔ کشمیر اور اہل قلم‘‘ کا انعقاد کیا گیا جس کی صدارت ملک کے نامور ادیب‘ ڈاکٹر شادب احسانی نے کی۔ مہمان خصوصی معروف شاعر اختر سعیدی تھے۔ ملک کے نامور ادیب ڈاکٹر شاداب احسانی نے کہا کہ گزشتہ 72 برسوں میں کشمیری مسلمانوں نے حریت فکر اور آزادی کے لیے بے پناہ قربانیاں دی ہیں اور جب تک قربانیوں کا سلسلہ جاری رہے گا کوئی طاقت اس حریت کی تحریک کو گزند نہیں پہنچا سکتی۔ ہندو بالادستی کے قیام کی غرض سے بھارتی وزیراعظم کی طرف سے شروع کیا جانے والا ظلم و جبرکا سلسلہ بتا رہا ہے کہ ایک بار پھر ایک غاصب اور ظالم حکمران نے وادیٔ کشمیر میں کربلا برپا کردی ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ کشمیری حریت پسند استعماری گماشتوں کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی تاریخ خود رقم کر سکتے ہیں اور اپنی تقدیر خود لکھ سکتے ہیں۔ آج کشمیریوں کی روح آزادی کے لیے تڑپ رہی ہے۔ معروف شاعر‘ صحافی اختر سعیدی نے کہا کہ کشمیر میں جو ہو رہا ہے دنیا کا باشعور طبقہ اس سے باخبر ہے اگرچہ یہ خبریت کامل درجے کی نہیں کہ ایک قید خانے سے کوئی خبر کیسے نکال کر لائے مگر شہود واقعات پر قیاس کرتے ہوئے مستور حالات کا اندازہ تو کیا ہی جاسکتا ہے۔ 80 لاکھ کشمیری نسل انسانی کے عظیم ترین دور ارتقا سے گزرتے ہوئے بھی ایک انتہا پسند اور جنونی شخصیت کے زیر عتاب ہیں‘ دنیا اس کا نوٹس کیوں نہیں لے رہی۔ ٹرمپ اور مودی جب ملتے ہیں تو مودی اسے دو ملکوں کا ذاتی معاملہ قرار دیتا ہے اور ٹرمپ ہمیشہ کی طرح منہ بسور کر فقط گردن ہلا دینا کافی سمجھتے ہیں‘ کیا منصفانہ مزاج ہے‘ موجودہ عہد میں غالب تہذیب کی منصف مزاجی اگر یونہی برقرار رہی تو میں کرہ ارض اور ساڑھے سات ارب انسانوں کے مستقبل کے بارے میں کچھ زیادہ پُرامید نہیں ہوں۔ بشیر احمد سدوزئی نے کہا کہ معاندین اسلام‘ مودی‘ نیتن یاہو‘ ٹرمپ یا کوئی اور اسلام دشمنی میں سب ایک ہیں‘ اسلام اور مسلمانوں کا زوال ان کی مساعی نکتہ اشتراک ہے اور یہ اس مشن میں بتدریج آگے بڑھ رہے ہیں۔ اس منظر نامے میں مسلم ممالک کے ساتھ جو ہو رہا ہے وہ قابل فہم ہے۔ مستقبل قریب میں یہ منظر مزید واضح ہوکر سامنے آجائے گا۔ لازم ہے کہ یہ امت اور اس کے دانشور اپنے گرد بُنے گئے جال اور شکار کی چالوں کو سمجھیں‘ جس طرح پاکستان کی سطح پر کشمیر ایشو کے تناظر میں امت نے جہاد کی درست تفہیم کو سمجھا ہے لازم ہے کہ دیگر ممالک میں بھی یہ احساسِ بیداری پیدا ہو۔ یہ امت اور اس کے دانشور ماضی کے مغالطوں سے نکل کر ازسرنو اپنے لیے راہ عمل کا تعین کریں کہ آخری نتیجے کے طور پر انہیں انہی اعمال اور تصورات کی طرف رجوع کرنا پڑے گا۔ معروف شاعر اقبال سہوانی نے کہا کہ کشمیر کی کہانی ریاست جموں و کشمیر کی ایک مکمل داستان ہے جس میں کشمیر کے علاقے‘ آباد انسانی نسلوں‘ آبادی کی تعداد اور جغرافیہ کے بارے میں بنیادی حقائق بیان کرنے کے علاوہ مختلف ادوار پر محیط سیاسی تاریخ کا بھی اس انداز میں احاطہ کیا گیا ہے کہ اس کا اسلوب اور حوالہ جات اس کی صداقت کی خود گواہی ہے۔ حقیقت معلوم ہونی چاہیے کہ دنیا کے حالات ایک جیسے نہیں رہتے۔ بھارت بھی اپنی اندھی طاقت کے بل بوتے پر ہمیشہ کے لیے کشمیر پر قابض نہیں رہ سکے گا۔ قادر بخش سومرو نے کہا کہ کشمیریوں کے اس عزم سے ظاہر ہوتا ہے کہ کشمیریوں کی جدوجہد آزادی جاری رہے گی۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق بھارتی زیر انتظام کشمیر (مقبوضہ کشمیر) نوجوانوں نے 1988ء میں بھارت سے آزادی کے لیے مسلح جدوجہد کا آغاز کیا اور مختلف نشیب و فراز کے باوجود یہ تحریک جاری ہے۔ مسلح و سیاسی جدوجہد آزادی کے ان 31 برسوں میں کشمیریوں نے ایک لاکھ سے زائد انسانی جانوں کی قربانی اور جہد مسلسل سے ثابت کر دیا ہے کہ یہ تحریک اقوام عالم کی طرف سے کشمیریوں کے عزت و وقار کے ساتھ حق آزادی کو تسلیم کیے جانے تک جاری و ساری رہے گی جب کہ اس موقع پر شعرائے کرام میں ڈاکٹر شاداب احسانی‘ شوکت جمال‘ اختر سعیدی‘ محمد بشیر سدوزئی‘ نصیر سومرو‘ سیدہ ہما طاہر‘ ڈاکٹر ذکیہ رانی‘ عرفان علی عابدی‘ ہما اعظمی‘ ارجمند خواجہ‘ الحاج نجمی‘ جمیل ادیب سید‘ شہناز پروین‘ ڈاکٹر رحیم ہمراز‘ارم ملک‘ شجاع الزماں خاں‘ قمر جہاں قمر‘ حمیدہ کشش‘ نظر فاطمی‘ وحید محسن‘ عشرت حبیب‘ اقبال سہوانی‘ عارف شیخ نے کلام سنا کر کشمیری بھائیوں کی عظمت کو خراج تحسین پیش کیا۔

نیاز مندان کراچی کی شعری نشست

۔16 ستمبر بروز پیر کو نارتھ ناظم آباد میں کوئٹہ ہائوس کے سڑک کنارے ٹیبل کرسیوں پر کھلی فضا میں ایک ادبی نشست کا اہتمام کیا گیا جس کی صدارت رونق حیات نے کی۔ موسیقار شمیم بازل مہمان خصوصی تھے۔ تنویر سخن نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ مہمان خصوصی نے کہا کہ آرٹسٹ کی ناقدری اور نظر انداز کیے جانے پر مجھے بہت دکھ ہے‘ شاعروں اور ادیبوں کے معاملات بھی اچھے نہیں ہیں۔ فنون لطیفہ کی تمام شاخوں پر توجہ دی جائے۔ صاحبِ ثروت افراد کا فرض ہے کہ وہ شاعری اور موسیقی کے فن سے وابستہ افراد کی اعانت کریں‘ ان کی سرپرستی کریں جیسا ک ماضی میں ہوتا رہا ہے۔ ہندوستان میں تقریباً ہر راجا یا نواب اپنے اپنے علاقوں میں فنون لطیفہ کے فنکاروں کی حوصلہ افزائی کرتے تھے اب یہ حال ہے کہ سرکاری اور نیم سرکاری ادارے آرٹس اور شاعری کے فروغ میں مخلص نہیں۔ شمیم بازل نے مزید کہا کہ فن کاروں کو غمِ روزگار نے پریشان کیا ہوا ہے ہماری مشکلات کا حل نکالا جائے تاکہ ہم لوگ بھی سکون کی زندگی گزاریں۔ الیاس شامی نے کہا کہ جو معاشرہ اہل دانش‘ شاعروں اور ادیبوں کو پہلی صف میں جگہ نہیں دیتا وہ معاشرہ ترقی نہیں کر سکتا۔ گلوکاروں‘ موسیقاروں اور مصوروں کے مسائل بھی بڑھ گئے ہیں‘ نفسا نفسی کا زمانہ ہے لوگوں کو ذاتی مفادات عزیز ہیں‘ مشاعروں اور ادبی تقریبات میں شرکا کی تعداد روز بہ روز کم ہوتی جارہی ہے‘ ہم اردو زبان و ادب سے دور ہوتے جارہے ہیں‘ اردو کو سرکاری زبان کادرجہ نہیں مل پایا جب کہ اس حوالے سے عدالت کے واضح احکامات موجود ہیں۔ بیورو کریسی اردو کو عملی طور پر نافذ العمل نہیں ہونے دے رہی۔ رونق حیات نے کہا کہ ان کی تنظیم نیاز مندان کراچی طویل عرصے سے اردو زبان و ادب کے فروغ کے لیے کام کر رہی ہے اس سلسلے میں ہم نے ایک عالمی کانفرنس بھی ترتیب دی تھی جس میں ان تمام مسائل کا احاطہ کیا گیا تھا جو کہ اس وقت قلم کاروں کی ترقی میں رکاوٹ ہیں‘ ہم نے ان تمام سرکاری اداروں کو خطوط لکھے ہیں کہ جو فنونِ لطیفہ کے دیگر شعبوں کے علاوہ شاعری کو پروموٹ کرنے کے ذمے دار ہیں اس سلسلے میں ان اداروں کو حکومت پاکستانی سے گرانٹ ملتی ہے جس کے اخراجات پر ہم تحفظات رکھتے ہیں۔ میری معلومات کے مطابق یہ ادارے ستائش باہمی کی بنیاد پر بے حد فعال ہیں جب کہ جیوئن اہل قلم نظر انداز کیے جارہے ہیں۔ دبستان کراچی میں اس وقت ادبی فضا پورے عروج پر ہے لیکن الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا ان کی خبروں کو کوریج دینے سے گریزاں ہیں‘ انہیں اشتہارات سے عشق ہے ادب سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ یہ صورت حال انتہائی تشویش ناک ہے۔ ہم اربابِ اختیار سے اپیل کرتے ہیںکہ ادب کی ترویج و اشاعت میں میڈیا کو پابند کیا جائے کہ وہ اپناکردار ادا کریں۔ اس موقع پر جن شعرا نے کلام پیش کیا ان میں رونق حیات‘ راقم الحروف نثار احمد‘ سعد الدین سعد‘ تنویر سخن‘ شاہدہ عروج‘ عارف شیخ عارف‘ م۔ن ساغر‘ زوہیب اسد اور دیگر شامل ہیں۔ الطاف حسین نے کلماتِ تشکر ادا کیے انہوں نے کہا کہ فنون لطیفہ کی سب سے اہم شاخ شاعری ہے جو کہ ہر زمانے میں رائج رہی ہے یہ ادارہ ان دنوں بہت سے مسائل سے دوچار ہے‘ تمام قلم کاروں کو چاہیے کہ وہ نیاز مندان کراچی کے ہاتھ مضبوط کریں تاکہ ہم قلم کاروں کے مسائل کے لیے بھرپور جدوجہد کرسکیں‘ ہم چاہتے ہیں کہ دبستان کراچی کے شعرا کو ان کا حق دیا جائے۔

بزمِ تقدیس ادب کی محفل ِ مسالمہ

محرم الحرام اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے جو کئی حوالوں سے اہمیت کا حامل ہے کہ حضرت امام حسینؓ اور ان کے 72 ساتھیوں نے یزید کے خلاف ایک نئی تاریخ رقم کی۔ انہوں نے یزید کی بیعت نہیں کی بلکہ اپنی جانوں کو قربان کرکے ساری دنیا کو یہ سبق دیا کہ باطل کی حمایت کرنا اسلام میں جرم ہے۔ حضرت امام حسینؓ کی یاد میں خاص طور پر محرم کے مہینے میں مسلمانانِ عالم اپنے اپنے طور پر انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ اربابِِ سخن‘ حضرت امام حسینؓ کے لیے مشاعروں کا اہتمام کرتے ہیں جس کو محفل ِ مسالمہ کہا جاتا ہے باالفاظ دیگر واقعات کربلا کو شاعری میں رثائی ادب کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے۔ رسائی ادب عرب کی روایات کا حصہ ہے یعنی ہر غم کے موقع پر عربوں میں غم زدہ اشعار نظم کرنے کی روایت موجود تھی۔ شاعروں نے کربلا میں ہونے والے مظالم کے علاوہ حضرت امام حسینؓ اور ان کے رفقائے کار کے حالات و واقعات نظم کیے‘ ان کی بہادری بیان کی۔ حضرت امام حسینؓ کے خاندان پر یزید کے دربار میں کیا ہوا‘ وہ سب کچھ لکھا۔ رثائی ادب نے اردو زبان و ادب میں گراںقدر اضافہ کیا۔ ان خیالات کا اظہار معروف شاعر‘ صحافی‘ نقاد اور ماہر تعلیم سرور جاوید نے بزمِ تقدیس ادب پاکستان کے زیر اہتمام منعقدہ محفل مسالمہ کی صدارت کرتے ہوئے اپنے خطاب میں کیا۔ انہوں نے بزمِ تقدیس ادب کو مبارک باد پیش کی کہ انہوں نے حضرت امام حسینؓ کی یاد میں سلام کی محفل کا اہتمام کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ حضرت امام حسینؓ کا ذکر عین عبادت ہے کیوں کہ اہلِ بیت سے محبت کرنا ہر مسلمان پر لازم ہے۔ حضرت امام حسینؓ کے بارے میں ہمارے رسول اکرم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں۔ حضرت حسینؓ سے محبت کرنا باعثِ ثواب ہے جو لوگ مجلسِ حسن منعقد کرتے ہیں وہ نیک کام کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں ثواب دارین عطا فرمائے۔ سرور جاوید نے شعرائے کرام سے کہا کہ وہ وقت کی پابندی کے ساتھ مشاعرے میں آیا کریں اور اپنا کلام سنانے کے بعد مشاعرہ گاہ سے چلے جانا غیر اخلاقی حرکت ہے۔ اس محفل مسالمہ میں یداللہ حیدر مہمان خصوصی تھے‘ اختر سعیدی مہمان اعزازی تھے۔ احمد سعید خان نے نظامتی فریضہ انجام دینے کے ساتھ ساتھ خطبۂ استقبالیہ بھی پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہماری تنظیم اردو ادب کے فروغ کے لیے اپنی مدد آپ کے تحت کام کررہی ہے۔ مذہبی پروگرام کرانا بھی ہماری تنظیم کے منشور میں شامل ہیں ہم مسالمہ کی علاو نعتیہ مشاعرہ بھی کرتے ہیں‘ ہم چاہتے ہیں اسلامی معلومات بھی ہماری نوجوان نسل تک پہنچے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے لیے یہ بہت مشکل ہوتا ہے کہ بعض شعرا دیر میں آتے ہیں اور جلدی چلے جاتے ہیں اس سے مشاعرہ ڈسٹرب ہوتا ہے‘ اس خرابی کو دور ہونا چاہیے۔ مشاعرے کے آداب میں یہ بات شامل ہے کہ ہم تمام شعرا کو سماعت کریں۔ مسالمے میں جن شعرا نے امام حسینؓ کے حضور سلام پیش کیا ان میں صاحب صدر‘ مہمان خصوصی‘ مہمان اعزازی اور ناظم مشاعرہ کے علاوہ سید آصف رضا رضوی‘ ظفر چمن زیدی‘ فیاض علی فیاض‘ ڈاکٹر شوکت اللہ جوہر‘ شاعر حسین شاعر‘ مقبول زیدی‘ کشور عدیل جعفری‘ آسی سلطان‘ نسیم شیخ‘ سخاوت علی نادف‘ عبدالمجید محور‘ نظر فاطمی‘ اکرام الحق اورنگ زیب‘ اسد ظفر‘ شارق رشید‘ علی اظہار زیدی‘ محسن رضا دعا‘ الحاج نجمی‘شجاع الزماں خاں‘ ضیا حیدر زیدی‘ زاہد علی زاہد‘ وسیم احسن‘ واحد رازی‘ سخاوت حسین ناصر‘ زین الدین زین‘ شائق شہاب‘ یوسف اسماعیل‘ عاشق شوکی‘ چاند علی چاند‘ آغا ذیشان‘ اریب ہادی‘ ذوالفقار پرواز اور علی کوثر شامل تھے۔

حصہ