میرا اسکول بند ہوگیا

821

گورنمنٹ اپوا بوائز سیکنڈری اسکول کے ایریا کورنگی میں کیسے بھول سکتا ہوں! تجربہ کار، تعلیم دوست اساتذہ کرام اور نظم وضبط کی اعلیٰ مثال اسکول ہیڈ ماسٹر شیخ شمیم احمد خان کی جانب سے دی جانے والی شفقت و محبت میری زندگی میں اہم مقام رکھتی ہے۔ اپوا اسکول کورنگی کا شمار کراچی کی اُن درس گاہوں میں ہوتا تھا جہاں بچوں میں چھپی خداداد صلاحیتوں کو اجاگر کرنے پر خصوصی توجہ دی جاتی۔ یہ اساتذہ کی محنت اور ذاتی دلچسپی کا نتیجہ تھا کہ ہم نصابی سرگرمیاں ہوں یا غیر نصابی… ہر میدان میں ہمیشہ اپوا اسکول نے ہی کامیابیوں کے جھنڈے گاڑے اور وطنِ عزیز کو نہ صرف نامور ڈاکٹر، انجینئر، وکلا، ماہرینِ تعلیم اور معروف شاعر و ادیب دیے، بلکہ شوبز کی دنیا کو بھی کئی چمکتے ستاروں سے نوازا۔ کسی بھی درس گاہ میں طلبہ و طالبات کی صلاحیتوں کو ابھارنا اچھا اقدام ہے، لیکن تعلیم حاصل کرتے بچوں میں چھپی فنکارانہ صلاحیتوں کو اجاگر کرنا خاص اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ خوش قسمتی سے یہ اعزاز گورنمنٹ اپوا سیکنڈری اسکول کورنگی کو حاصل رہا، جس نے طلبہ کو مختلف پروگرامات کے ذریعے ایک کامیاب زندگی گزارنے کی تربیت دی جس کی کوئی مثال نہیں ملتی، مثلاً 1980ء کی دہائی میں ہفتۂ طلبہ کے تحت ہونے والے سالانہ پروگرامات میں کھیلوں کے ساتھ ساتھ فنکارانہ صلاحیتوں کے حامل طلبہ کو بھی اپنے جوہر دکھانے کے مواقع فراہم کیے جاتے، اور بہترین کارکردگی دکھانے والے طلبہ کی حوصلہ افزائی کے لیے انہیں انعامات دیے جاتے تھے۔ ہفتۂ طلبہ کے دوران ایک دن ایسا بھی آتا جب نویں اور دسویں جماعت کے طلبہ اساتذہ اور اسکول اسٹاف کا کردار ادا کرتے، یعنی نہم و دہم جماعت میں زیر تعلیم طلبہ چھٹی، ساتویں اور آٹھویں جماعت کے بچوں کو پڑھاتے۔ اسی طرح کوئی مالی کا کردار ادا کرتا تو کوئی خاکروب کا… کسی کو چوکیدار بنایا جاتا تو کوئی گھنٹہ بجانے کی ذمہ داری ادا کرتا۔ مجھے یاد ہے میرے ہم جماعت دوست ناصر نے اُس وقت خاکروب کا کردار ادا کیا تھا۔ صبح آٹھ بجے سے ساڑھے بارہ بجے تک میٹرک کلاس کے اس طالب علم نے اسکول کے کئی برآمدوں کی صفائی کرڈالی۔ جیسے کہ میں پہلے بتا چکا ہوں کہ اچھی کارکردگی دکھانے والے طلبہ کو انعامات بھی دیے جاتے تھے، اس لیے ناصر کو اُس کی بہترین کارکردگی کی بنیاد پر نہ صرف میڈل ملا بلکہ ہیڈ ماسٹر شمیم احمد خان کی جانب سے خصوصی طور پر پانچ سو روپے کیش بھی دیے گئے۔ اُس زمانے میں یہ رقم چونکہ بہت زیادہ ہوا کرتی تھی، اور پھر آج کے مقابلے میں بچوں میں پیسے کا لالچ بھی نہ تھا، اس لیے ناصر نے وہ رقم اسکول کی شجرکاری مہم میں لگادی۔ اس کی جانب سے لگائے جانے والے پودے چند ہفتوں میں ہی بڑے ہوتے دکھائی دینے لگے۔ اس کے اِس اقدام کا اسکول کے دوسرے بچوں پر خاصا اثر ہوا، یوں دیکھتے ہی دیکھتے تمام بچوں نے پودے لگانے کی ایک باقاعدہ مہم شروع کردی، اور تھوڑے ہی عرصے میں اسکول سرسبز و شاداب دکھائی دینے لگا۔ اُس زمانے کے اساتذہ طلبہ کا تعلیمی مستقبل سنوارنے کے لیے کوئی کسر اٹھا نہ رکھتے۔ وہ اپنی ساری توانائیاں مستقبل کے معماروں کی تعلیم و تربیت پر صرف کرتے۔ اسمبلی لگنے سے قبل تمام اساتذہ اسکول میں موجود ہوتے اور چھٹی کے بعد بھی خاصی دیر تک پڑھائی جاری رکھتے۔ حیرت کی بات تو یہ تھی کہ اسکول ہیڈ ماسٹر شیخ شمیم احمد خان ٹرانسپورٹ کی کمی کے باوجود کبھی دو اور کبھی تین بسیں تبدیل کرکے سعید آباد شیرشاہ سے صبح پونے سات بجے اپوا اسکول کورنگی پہنچ جایا کرتے تھے۔ چھٹی کرنا تو دور کی بات، میں نے کبھی انہیں دیر سے بھی آتے ہوئے نہیں دیکھا۔
اسمبلی کے وقت تمام بچوں کا اسکول میں حاضر ہونا لازمی ہوتا۔ وقت پر اسکول نہ پہنچنے کی صورت میں اُس زمانے کی مشہور سزائیں ملا کرتیں۔ ان میں الٹے ہاتھ پر کھڑے اسکیل سے مارنا، دوانگلیوں کے درمیان پینسل رکھ کر ہاتھ کو زور سے دبانا، کلاس کے سامنے ہاتھ اوپر کرکے کھڑا ہونا، منہ پر تھپڑ کھانا اور مرغا بننا۔ چونکہ ان سزاؤں سے میری جان جاتی تھی، خاص طور پر ہاتھ اوپر کرکے کھڑے ہونے اور مرغا بننے کی سزا سے، جو شروع کے چند منٹ تو برداشت ہوجاتی، لیکن زیادہ دیر کھڑے رہنے سے دن میں تارے نظر آجاتے تھے، اس لیے میں اسمبلی لگنے سے قبل ہی اسکول پہنچ جاتا تھا۔
وقت گزر جاتا ہے اور یادیں باقی رہ جاتی ہیں۔ اپوا اسکول کورنگی کے بارے میں اتنا کچھ لکھنے کا مقصد زمانۂ طالب علمی کو یاد کرنے کے ساتھ ساتھ فی زمانہ اسکول کی حالتِ زار پر لب کشائی کرنا ہے۔ بتانا یہ بھی ہے کہ کل تک بہترین عمارت اور اچھی تعلیم کی وجہ سے شہر بھر میں اپنی الگ شناخت رکھنے والا اپوا اسکول آج کھنڈرات میں تبدیل ہوکر رہ گیا ہے، جہاں نہ مالی ہے، نہ کوئی مستقل چوکیدار… پینے کا صاف پانی ہے اور نہ ہی سیوریج سسٹم… گرد اڑاتے میدان کے ساتھ تعمیر کی جانے والی عمارت میں قائم خالی کلاسیں کسی بھوت بنگلے کا منظر پیش کرتی ہیں۔ حالیہ بارشوں کے باعث اسکول کی دیوار کا ایک بڑا حصہ گر چکا ہے۔ مفت تعلیم دینے کے دعوے داروں کی عدم توجہی کے باعث اسکول کے در و دیوار کسی آسیب کی زد میں نظر آتے ہیں۔ اسکول میں جاری تعلیمی سرگرمیوں کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کل تک جس درس گاہ کے طلبہ کراچی میٹرک بورڈ کے تحت ہونے والے امتحانات میں اعلیٰ پوزیشنیں حاصل کیا کرتے تھے آج اس کا سیکنڈری کیمپس تقریباً ختم کردیا گیا ہے۔ جس کے احاطے میں کبھی پاک سرزمین شاد باد کی صدائیں گونجا کرتی تھیں آج وہاں کی فضاؤں میں خاموشی طاری ہے۔ آج آل پاکستان وومن ایسوسی ایشن (اپوا) کی خالق رعنا لیاقت علی خان کی روح بھی تڑپ رہی ہوگی۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ایک طرف تو سندھ حکومت مفت تعلیم دینے کے دعوے کرتی ہے جبکہ دوسری طرف کراچی جیسے شہر میں جہاں پہلے ہی تعلیمی اداروں کی اشد ضرورت ہے، داخلے نہ ہونے کے باعث بند ہوتے اسکولوں پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔
حکومتی بے حسی پر اُس روز میرا دل خون کے آنسو رو رہا تھا۔ میں ماضی کی یادوں کو تازہ کرنے اسکول جا پہنچا، وہاں پہنچتے ہی اسکول سے جڑی تمام یادیں میری نگاہوں کے سامنے تھیں۔ میں انہی سوچوں میں گم کبھی دائیں طرف جاتا تو کبھی بائیں جانب چکر لگانے لگتا۔ میری بے چینی میں اضافہ ہوتا جارہا تھا۔ میں ابھی اسی کشمکش میں مبتلا تھا کہ ایک نوجوان نے میرے قریب آتے ہوئے کہا
’’انکل کیا مسئلہ ہے، آپ کچھ پریشان لگ رہے ہیں!‘‘
اس کے پوچھنے پر ایک لمبی آہ بھرتے ہوئے میں نے اسکول سے جڑی ماضی کی تمام یادیں اور اپنے دل کی ساری کیفیت اُس کے سامنے رکھ دی۔ میری باتیں سن کر وہ بولا:۔
’’انکل آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں، ہمارے بڑوں نے بھی اسی اسکول سے تعلیم حاصل کی ہے، سنا ہے کسی زمانے میں علاقے کا یہ سرکاری اسکول بہت اچھا ہوا کرتا تھا، تاہم توجہ نہ دینے کے باعث اب یہ اسکول زبوں حالی کا شکار ہے، یہ اسکول نہ صرف رکشہ اسٹینڈ میں تبدیل ہوتا جارہا ہے بلکہ جانوروں کی چراگاہ بھی بنا ہوا ہے۔ کلاسوں میں نہ فرنیچر ہے، نہ پنکھے۔ کھڑکیاں، دروازے غائب ہیں، دیواریں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، جبکہ بیت الخلا تک موجود نہیں۔ انہی وجوہات کی بنا پر لوگوں کو مجبوراً پرائیویٹ اسکولوں کا رخ کرنا پڑتا ہے۔ یہی وہ حالات ہیں جن کے باعث لوگً نجی اسکولوں کو بھاری فیسیں دینے پر مجبور ہیں۔‘‘
اسکول کے احاطے میں تعمیر ہونے والی عمارت کے بارے میں اس نے بتایا:
’’یہ جو نئی بلڈنگ تعمیر کی جارہی ہے، پہلے دن سے ہی اس کی تعمیر کا کام خاصی سست روی کا شکار رہا، جبکہ اسے کئی سال قبل مکمل ہوجانا چاہیے تھا۔ لگتا ہے عمارت تیار ہونے سے قبل ہی تباہ ہونے کو ہے۔ اسکول میں ایک نیا بلاک تو تیار کردیا گیا ہے، لیکن وہ عمارت بھی بچوں کے داخلے نہ ہونے کے باعث خالی پڑی رہتی ہے۔ ماضی کے مقابلے میں یہ اسکول اب بنیادی سہولتوں سے محروم ہوچکا ہے۔ مرکزی دروازہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے جس کے سبب اسکول نشہ کرنے والوں کی آماج گاہ بنا ہوا ہے، چاروں طرف کچرے کے ڈھیر لگے ہیں۔ کچھ لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت سیوریج کے پانی کی لائن ڈالی تھی، وہ بھی ناکارہ ہوچکی ہے۔ پانی کا نکاس نہ ہونے سے اسکول کا میدان کسی گندے تالاب کا منظر پیش کرتا ہے جس سے بیماریاں جنم لیتی ہیں، پینے کے صاف پانی کی تو بات ہی چھوڑیے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں، ہر کوئی اپنے چکروں میں پڑا ہوا ہے۔‘‘
اس نوجوان کی باتوں نے مجھے مزید افسردہ کردیا۔ میرے اعصاب جواب دیتے جارہے تھے۔ میں ابھی چند قدم آگے بڑھا ہی تھا کہ اسکول کے سامنے والی گلی میں رہنے والے ایک اور شخص احمد نواز نے جو کہ خود بھی شعبہ تعلیم سے وابستہ رہ چکے ہیں، اپوا اسکول کی بدترین صورت حال پر بات شروع کردی:
’’علاقے کے لوگ اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں پڑھانا چاہتے ہیں، لیکن جب کسی اسکول کی حالتِ زار ایسی ہو تو لوگ کیسے اپنے بچوں کو سرکاری اسکول بھیج سکتے ہیں! سرکاری اسکولوں میں ماند پڑتی تعلیمی سرگرمیوں اور تباہ ہوتی عمارتوں کو بچانے کے لیے چاہیے تو یہ تھا کہ حکومت تعلیمی پالیسیاں مرتب کرتے ہوئے تجربہ کار اور صوبائی سطح پر متحرک ماہرین سے صلاح مشورہ کرتی اور تعلیم دوست منصوبوں پر کام کرتی، لیکن سندھ حکومت نے تو ایسے تمام ماہرینِ تعلیم کو نظراندازکرکے اپنے من پسند نااہل افراد کو ذمہ داریاں سونپ دیں، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کی جانب سے کیے جانے والے تمام اقدامات بری طرح ناکام ہوگئے، جبکہ بجٹ کا بہت بڑا حصہ بھی کرپشن کی نذر ہوگیا۔ ظاہر ہے کوئی ڈاکٹر گاڑی کا انجن ٹھیک کرسکتا ہے اور نہ ہی کوئی مکینک کسی بیمار شخص کا علاج کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ کامیاب نتائج کے حصول کے لیے درست سمت کا تعین ضروری ہوتا ہے۔ جب سمت درست نہ ہو تو اس قسم کے نتائج ہی برآمد ہوا کرتے ہیں جس کی ایک جھلک اس اسکول میں دیکھی جاسکتی ہے۔ سب مال کما رہے ہیں، ان کی اپنی اولادیں یورپ اور امریکہ جاکر ڈگریاں حاصل کرتی ہیں، غریب کو صرف تسلیاں دی جاتی اور سبزباغ دکھائے جاتے ہیں۔ عوام کو صحت و تعلیم جیسی بنیادی سہولتوں سے بھی محروم کردیا گیا ہے۔‘‘
ایک طرف اصل حقائق یعنی تباہ حال انفرااسٹرکچر اور بند ہوتے اسکول ہیں، تو دوسری جانب وزیر تعلیم پڑھا لکھا سندھ بنانے کے دعوے کرتے سنائی دیتے ہیں۔ میں اس پر صرف اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ اپوا اسکول کورنگی سیکنڈری کیمپس کی صورت حال میرے لیے کسی صدمے سے کم نہیں، اور اس کے سوا میں کر بھی کیا سکتا ہوں سوائے حکمرانوں سے دردمندانہ اپیل کرنے کے۔ اگر حکومتِ سندھ واقعی شرحِ خواندگی میں اضافے کے لیے سنجیدہ ہے تو خدارا تمام بند ہونے والے اسکولوں میں فوری طور پر نصابی سرگرمیاں شروع کروانے کے لیے اقدامات کرے، اور مفت تعلیم کا نعرہ لگانے کے بجائے سیاسی اثرات سے پاک خالصتاً اہلیت کی بنیاد پر اساتذہ کی تقرریاں کرنے کے ساتھ ساتھ اسکولوں کی خستہ حالی کی طرف بھی توجہ دے، کیونکہ اہل اساتذہ کی تعیناتی، بہتر انفرااسٹرکچر اور حکمرانوں کی ذاتی توجہ سے ہی پست ہوتے تعلیمی معیار کو بحال اور صوبے میں تعلیم کی شرح میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔

حصہ