عقیل دانش اور فرحت عباس شاہ کے اعزاز میں بزم شعر و سخن کا مشاعرہ

637

ڈاکٹر نثار احمد نثار
ایک زمانہ تھا جب کراچی میں سیاسی‘ سماجی اور ادبی سرگرمیاں اپنے عروج پر تھیں‘ ساری ساری رات پروگرام ہوتے تھے یعنی کراچی ساری رات جاگتا تھا پھر یہ ہوا کہ امن وامان کی صورت حال خراب ہونے لگی‘ کراچی لہو رنگ ہو گیا جس کی وجہ سے زندگی کے تمام ادارے مفلوج ہو گئے‘ خدا کا شکر ہے کہ اب کراچی میں سماجی اور ادبی سرگرمیاں بحال ہو رہی ہیں جہاں تک ادبی تقریبات کا معاملہ ہے تو کراچی میں بہت سی قابل ذکر تنظیمیں مذاکرے‘ مشاعرے اور تنقیدی نشستوں کا اہتمام کر رہی ہیں‘ کراچی میں ایک ہی وقت میں کئی کئی ادبی پروگرام چل رہے ہوتے ہیں۔ راقم الحروف نثار احمد بھی ان پروگرام میں شریک ہوتا رہتا ہے‘ میں نے یہ دیکھا ہے کہ اکثر مشاعروں سے سامعین غائب ہو گئے ہیں۔ شعرا ہی سامعین ہوتے ہیں وہ ایک دوسرے کو کلام سناتے ہیں تقدیم و تاخیر کے مسائل پر خوب جھگڑا ہوتا ہے۔ میں ایسے چند شعرا کو جانتا ہوں کہ جو مشاعرے میں بدمزگی پیدا کرتے ہیں۔ کراچی کی فعال ادبی تنظیموں میں بزم شعر و سخن بھی شامل ہے جس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ کچھ علم دوست افراد نے شہر کے ممتاز تاجر اورادبی شخصیت طارق جمیل کی قیادت میں تین برس قبل یہ تنظیم قائم کی تھی جس کے اراکین و عہدیداران میں تاجر‘ ڈاکٹرز‘ انجینئرز‘ صحافیوں اور زندگی کے مختلف شعبوں کے افراد شامل ہیں۔ یہ ادبی تنظیم اب تک کئی عالی شان پروگرام کرچکی ہے ان کے ہر پروگرام میں سامعین کی خاصی تعداد موجود ہوتی ہے جو ہر شاعر کو توجہ سے سنتی ہے اور بھرپور تعداد و تحسین سے نوازتے ہیں اس کے علاوہ یہ تنظیم شعرا کی کتابیں خرید کر ان کی مالی معاونت بھی کر رہی ہے۔ اس کے جنرل سیکرٹری خالد میر شاعر ہیں اور قلم کاروں کی حوصلہ افزائی میں اپنے صدر طارق جمیل کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ اس تنظیم کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ یہ لوگ کراچی یا بیرون پاکستان سے آنے والے قلم کاروں کے لیے تقاریب سجاتے ہیں اسی تناظر میں گزشتہ ہفتے انہوں نے لاہور سے تشریف لائے ہوئے شاعر و ادیب فرحد عباس شاہ اور لندن سے تشریف لائے ہوئے شاعر و صحافی عقیل دانش کے اعزاز میں مشاعرہ ترتیب دیا جس کی صدارت محسن اعظم ملیح آبادی نے کی۔ رونق حیات اور راشد نور مہمانان خصوصی اور فیاض علی فیاض مہمان اعزازی تھے۔ شیڈول کے مطابق طارق جمیل کی رہائش گاہ پر منعقدہ مشاعرے میں 9 بجے شب طعام کا اہتمام کیا گیا اور 9:45 پر مشاعرے کا آغاز ہوا۔ عبید ہاشمی نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ تلاوت کلام مجید کی سعادت م۔ص۔ایمن نے حاصل کی۔ اس موقع پر صاحبِ صدر‘ مہمان خصوصی اور مہمان اعزازی کے علاوہ جن شعرا نے اپنا اپنا کلام نذر سامعین کیا ان میں سخاوت علی نادر‘ شاعر علی شاعر‘ سعدالدین سعد‘ عبدالمجید محور‘ خالد میر‘ تنویر سخن‘ وسیم احمد‘ احمد سعید خان‘ واحدم رازی‘ اقبال برما‘ نورالدین نور‘ چاند علی چاند‘ شائق شہاب‘ سلمان ثروت اور احسن طارق شامل تھے۔ بزم شعر و سخن کے صدر طارق جمیل نے خطبۂ استقبالیہ میں کہا کہ وہ اپنی تنظیم کے پلیٹ فارم کے ذریعے نوجوان نسل اور معاشرے کے تمام طبقات کو اردو زبان و ادب اور مشرقی رویات سے جوڑنے کے لیے مشاعروں کی روایات کو عالمی سطح پر زندہ کریں گے۔ ہماری تنظیم کے منشور میں کتب بینی کے ادارے کا فروغ اور فنونِ لطیفہ کے سب سے مضبوط رکن شاعری کی ترویج و ترقی شامل ہے۔ ہم اپنی مدد آپ کے تحت ایک تسلسل کے ساتھ ادبی پروگرام کرا رہے ہیں جس سے ہم شعرا کو بدل بدل کر مدعو کرتے ہیں تاکہ کسی کی دل شکنی نہ ہو اور تمام شعرا ہماری تنظیم سے فیض یاب ہوں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت پاکستان بے شمار مسائل کا شکار ہے‘ ہمارے دشمن ہمیں صفحۂ ہستی سے مٹانے کے درپے ہیں‘ اس وقت سب سے اہم مسئلہ کشمیر ہے جہاں بھارت زبردستی قبضہ جما رہا ہے جب کہ جموں و کشمیر کا فیصلہ ووٹنگ کے ذریعے ہونا ہے کشمیر پر رائے شماری کی قرارداد‘ اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر موجود ہے لیکن بھارت نے بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں بکھیر دی ہیں مقبوضہ کشمیر میں کرفیو کا نفاذ ہے جس کے باعث انسانی زندگی بے شمار مصائب و آلام میں مبتلا ہے۔ کشمیریوں کو خون میں نہلایا جا رہا ہے اس موقع پر تمام پاکستانی قوم کشمیری بھائیوں کے ساتھ ہے تاہم قلم کاروں کا فرض ہے کہ وہ قلمی جہاد کریں اور کشمیریوں کی حمایت میں اشعار لکھیں۔ صاحب صدر محسن اعظم ملیح آبادی نے اپنے صدارتی خطاب میں کہاکہ کراچی میں ادبی سرگرمیوں کی بحالی نیک فال ہے اس میں جو لوگ اپنا حصہ ڈال رہے ہیں وہ قابل مبارک باد ہیں۔ انہوں نے بزم شعر و سخن کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ تنظیم پڑھے لکھے اور سخن پرور‘ شخصیات پر مشتمل ہے امید ہے کہ لوگ بہت ترقی کریں گے۔ اس موقع پر بزم نگار ادب کے ایک وفد نے فرحت عباس شاہ اور عقیل دانش کو اجرک کا تحفہ پیش کیا جب کہ بزم شعر و سخن کی جانب سے دونوں مہمانان خصوصی کو شیلڈز پیش کی گئیں اور محسن اعظم ملیح کی خدمت میں جناح کیپ پیش کی گئی۔ مشاعرے میں سامعین نے اپنی سخن پروری کا بھرپور مظاہرہ کیا اور کسی بھی موقع پر مشاعرے کا ٹیمپو ٹوٹنے نہیں دیا۔

اکیڈمی ادبیات کے زیراہتمام یوم یکجہتی ٔ کشمیر مذاکرہ و ریلی

اکیڈمی ادبیات پاکستان کراچی زیر اہتمام یوم یکجہتی ٔکشمیر کے حوالے سے نشست کا اہتمام کیا گیا جس میں ملک کے معروف دانش ور‘ شاعر اور اہل قلم نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ صدارتی ایوارڈ یافتہ پروفیسر سحر انصاری نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارتی انتہا پسند اور وحشی قیادت مقبوضہ کشمیر میں عفت مآب کشمیری بچیوں اور خواتین سے جبری شادی رچانے‘ ان کی عزتیں پامال کرنے کے مکروہ عزائم کا برملا اظہار کر چکی ہیں جیسا کہ کہ نازیوں نے ہٹلر کے دور میں ایسے ہی گھنائونے جرائم کا ارتکاب کیا۔ یوم یکجہتی ٔ کشمیر کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان اور کشمیر لازم و ملزوم ہیں‘ ایک قلب دو جان کی حیثیت رکھتے ہیں اب وقت آگیا ہے کہ چین‘ روس‘ ترکی‘ ایران اور دیگر ممالک خصوصاً مڈل ایسٹ اور سینٹرل ایشیا کے ممالک مشترکہ بنیادوں پر مسئلہ ٔ کشمیر میں اپنی ثالثی کا کردار ادا کریں۔ سندھ اسمبلی کی سابق ڈپٹی اسپیکر راحیلہ ٹوانہ نے کہا کہ کشمیر پاکستان کی پہلی دفاعی لائن ہے‘ یہاں پر پسپائی پورے ملک میں پسپائی کے مترادف ہے۔ اہلِ کشمیر پر ایسا وقت شاید اس سے پہلے کبھی نہیں آیا۔ کشمیر میں پلوامہ طرز کا واقعہ رونما ہو سکتا ہے جس کی بنیاد پر بھارت پاکستان کے خلاف جنگ شروع کر سکتا ہے جس کا جواب ہمیں ہر حال میں دینا پڑے گا۔ اب اٹھنے کا وقت ہے اور پاکستان کے اہلِ قلم کشمیریوں کے ساتھ کھڑے ہیں اور کشمیریوں کے ساتھ درست سمت میں کھڑے ہو کر تاریخ کا دھارا موڑیں گے۔ سردار جاوید نے کہا کہ ہم بھارت کو خبردار کرتے ہیں کہ موجودہ حالات میں ہماری امن پسندی کو ہماری کمزوری نہ سمجھے‘ کشمیر ہمارے اور ہم کشمیر کے ہے‘ کشمیریوں کا دکھ ہمارا دکھ ہے اور ان کی آنکھوں سے بہنے والے آنسو ہمارے دل پر گرتے ہیں۔ آج ہم سب مل کر یہ عہد کرتے ہیں کہ تمام باہمی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر پاکستان کے سچے خدمت گار بنیں گے۔ یہ مجلس مذاکرہ ہندستان کے کشمیریوں پر ظلم و تشدد کا شدید مذمت کرتا ہے اور نعرۂ حق بلند کرتا ہے کہ ’’کشمیر بنے گا پاکستان۔‘‘ اس موقع پر معروف شعرا نے اپنی شاعری کے ذریعے کشمیری عوام کو خراج تحسین پیش کیا۔ بعدازاں کشمیری بھائیوں سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے پاکستان اکیڈمی ادبیات کے آفس سے ریلی نکالی گئی جس میں بڑی تعداد میں ادیب‘ شاعر‘ دانش ور اور سول سوسائٹی کے افراد نے شرکت کی۔ شرکاء نے کشمیر بنے گا پاکستان کا فلک شگاف نعرہ لگایا۔ اس موقع پر سحر انصاری نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں غیر قانونی اور جارحانہ پالیسی سے نہ صرف سنگین انسانیت سوز بحران پیدا کررہا ہے بلکہ اس نے خطے میں امن و سلامتی کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے۔ بھارت متنازع علاقے کی ڈیمو گرافی کو تبدیل کرنے کی کوشش کررہا ہے اور اس کا یہ عمل بین الاقوامی اصولوں اور اقوام متحدہ کی سلامتی کی قراردادوں کی صریح خلاف ورزی ہے۔ عالمی برادری کو بھارتی ظلم و تشدد کا نوٹس لینا چاہیے‘ پاکستان کے تمام اہلِ قلم‘ دانش ور‘ ادیب اور شاعر کشمیری عوام کے ساتھ ہیں اور ان کے لیے آواز بلند کرتے رہیں گے۔ معروف شاعرہ اور افسانہ نگار ناہید اعظمی نے کہا کہ کشمیر پر مظالم قابل قبول نہیں‘ وہ وقت دور نہیں جب کشمیری عوام آزاد فضا میں سانس لیں گے۔ پاکستانی اہل قلم کشمیری بھائیوں کو کسی بھی دکھ کی گھڑی میں تنہا نہیں چھوڑیں گے۔ کشمیر کی آزادی تک پاکستان کے اہل قلم آواز بلند کرتے رہیں گے۔ معروف شاعر شجاع الزماں نے کہا کہ ہم اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ ہیں اور دنیا کو امن کا پیغام دیتے ہیں لیکن کشمیری عوام پر ہونے والے مظالم کے خلاف خاموش تماشائی نہیں بن سکتے۔

غزلیں

شہزاد شرجیل

مقبول کوئی حرفِ دعا ہے کہ نہیں ہے
اب میرا خدا میرا خدا ہے کہ نہیں ہے
الحمد کے برق سے گلشن ہوا آباد
گل رنگ شراروں کی قبا ہے کہ نہیں ہے
لاحق ہے یہی فکر میرے چارہ گروں کو
ناخن سے میرا زخم جدا ہے کہ نہیں ہے
اس عشق میں اوصاف تو آصف کے ہیں لیکن
وہ حسن مگر مثلِ صبا ہے کہ نہیں ہے
در وا ہوا زنداں میں ہر بار یہ سوچا
صیاد بھی راضی بہ رضا ہے کہ نہیں ہے
ترمیم ہر اک وعدۂ فردا میں کہاں تک
کچھ حرمتِ آئین وفا ہے کہ نہیں ہے
جو زیست کی ژدلیدگی لیے مُو کو سنوارے
وہ ایک فقط دستِ قضا ہے کہ نہیں ہے
گر لائق ہے تاوان ہے خونِ گُل و لالہ
خوشبو کا بھی کچھ خون بہا ہے کہ نہیں ہے

ضیا شاہد

یوں ادب سے بلا نہ یار مجھے
نام لے کر میرا پکار مجھے
جتنا بننا تھا بن چکا ہوں میں
کوزہ گر چاک سے اتار مجھے
آئنے سے مجھے ہوا معلوم
کون کرتا ہے بے قرار مجھے
دامن عشق ہوں خیال رہے
وقت کر دے نہ تار تار مجھے
ہائیامید تیرے ملنے کی
کھا گیا تیراانتظار مجھے
آج ہوں تو زیارتیں کر لے
کل نہیں کوء اختیار مجھے
عشق کی منزلوں سے واقف ہوں
لے چلو یار سوئے دار مجھے
یہ ترے حسن کی لطافت ہے
لے اڑی باد نو بہار مجھے
موت سے قبل ہی ضیا شاہد
زندگی کر گئی شکار مجھے

حصہ