شادیاں مشکل کیوں۔۔۔؟۔

609

سروے: فائزہ مشتاق
تعلیم، نوکری اور شادی ایسے مراحل ہیں جن سے تقریباً ہر شخص کا واسطہ پڑتا ہے۔ ان کے حوالے سے بہت سے فیصلے اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ ایک غلط فیصلہ بہت سی مشکلات کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے۔ تعلیم اور پھر ملازمت کے طویل اور جان جوکھوں کے مراحل… ہر والدین کی فطری خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوںٖ کے لیے بہترین زوج کا انتخاب کریں۔ فی زمانہ رشتوں کی تلاش میں ہر گھر پریشان اور فکرمند نظر آتا ہے جس کی وجہ بے جا خواہشات کی لمبی فہرست ہے۔ خوب سے خوب تر کی تلاش میں یہ فرض سنگین مسئلے کی شکل اختیار کررہا ہے۔ آج ہر گھر، ہر دہلیز پر جوان لڑکے، لڑکیاں شادی کی نکلتی عمروں میں داخل ہوچکے ہیں، اور بہترین رشتے کے انتظار میں مناسب رشتوں کو ٹھکرانا عام ہوگیا ہے۔
رنگ روپ، نقش، قد کاٹھ، عمر، ہم پلہ اسٹیٹس، پُرکشش تنخواہ اور نوکری، ذات پات جیسی مادی ترجیحات پر انکار خود اپنے پیروں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔ دین داری، شرافت، تقویٰ کی بنیاد کو پسِ پشت ڈال دیا گیا ہے۔ معاملہ یہیں ختم نہیں ہوتا بلکہ ملاقات سے قبل تصاویر اور پہلی ملاقات میں لڑکے لڑکی کا ایک دوسرے کو باضابطہ دیکھنے کا مطالبہ زور پکڑنے لگا ہے جو بہت سے شریف اور دینی گھرانوں کے لیے تکلیف دہ بنتا جارہا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ بہتر سے بہترین کی جستجو میں وقت پر شادی نہ ہونے سے بہت سے مسائل جنم لے رہے ہیں۔ مختلف نوعیت کے ذہنی، اخلاقی، خاندانی اور معاشرتی انتشار پیدا ہورہے ہیں۔ اس مسئلے کی وجوہات اور اس کے خاطرخواہ حل کے لیے ہم نے گفتگو کی جو قارئین کی نذر کی جارہی ہے۔
-1 کیا خاندانی اور فرسودہ رسم و رواج شادی میں مشکلات کا باعث ہیں؟ کیسے؟
-2 رشتے کے حصول کے لیے دونوں فریقوں کی کون سی خواہشات بے جا ہیں؟
-3 ان خواہشات کے ذمے دار والدین یا لڑکا/لڑکی؟ وجہ؟
-4 اس مسئلے کے حل کے لیے دونوں فریقوں کے لیے تجاویز؟

سمیعہ عمران (خاتون خانہ)۔

-1 خاندانی رسم و رواج شادی ہونے میں مشکلات کا باعث بنتے ہیں، بلکہ 95 فیصد ایسا ہی ہوتا ہے۔ بچوںکے جوان ہوتے ہی والدین کو جہاں جہیز کی صورت میں اشیائے ضروریہ دینے کی فکر لاحق ہوتی ہے، وہیں خاندان کے طریقوں کے مطابق شان دار تقاریب بھی بوجھ کا باعث ہیں۔ یہی جمع، تفریق ان کے پائوں کی بیڑیاں بن جاتی ہیں، پھر یہ کلچر کہ جب تک لڑکا خودکفیل نہ ہو اس پر ذمے داری نہ ڈالی جائے، ایسی اور بہت سی چھوٹی چھوٹی غیر ضروری رسوم اور رواج ہیں جنہوں نے مشکلات کھڑی کردی ہیں۔
-2 رشتے کے حصول میں سیرت سے زیادہ صورت کو حد درجہ فوقیت دینا ہے۔ ہم لڑکی/لڑکے کی سادگی و شرافت پر حُسن کو ترجیح دینے لگے ہیں۔ پھر نظر اہلِ رشتہ کی مالی حیثیت اور معاش پر بھی ہوتی ہے جو کہ سراسر زیادتی ہے۔ رشتے انسانوں سے جڑتے ہیں، معیشت سے نہیں۔
-3 میرا خیال ہے دونوں ہی ذمے دار ہیں۔ والدین اگر بچوں کے ذہن میں سیرت و کردار اور حیا کو ترجیح کے سانچے میں ڈھالیں گے تو بچے بھی اسی کو اہمیت دیں گے، مگر اکثر اوقات بچے ماحول سے وقتی طور پر مغلوب ہوکر ڈیمانڈ کرتے ہیں، جو والدین کی مجبوری بن جاتی ہے۔
-4 اس مسئلے کا حل صرف اور صرف سنتِ رسولؐ کی پیروی میں پوشیدہ ہے، یعنی تقویٰ شادی کا معیار ہو تو نہ صرف پہلے بلکہ بعداز نکاح بھی مسائل جنم نہیں لیتے۔

فوزیہ طیب (خاتونِ خانہ، سماجی کارکن)۔

-1 فرسودہ رسم میں سب سے بڑی رسم وٹے سٹے کی شادی ہے۔ وٹے سٹے کی شادی میں اکثر بے جوڑ رشتے طے ہونا بہت بڑا مسئلہ ہے۔ اگر ایک رشتہ کسی وجہ سے ناکام ہوجائے تو دوسرے کو بھی اس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔
-2 ایسی چیزوں کا مطالبہ کرنا جو مہنگی ہوتی ہیں جیسے گاڑی، گھر وغیرہ… یہ سب بے جا فرمائشیں ہیں۔
-3 کہیں والدین بھی کرتے ہیں۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ لڑکا/لڑکی جو کہ خودمختار ہیں، کما رہے ہیں تو اپنی من مانی کرنے لگتے ہیں، اور دیکھا دیکھی بہت سی بے جا خواہشات اور مطالبات پر ڈٹ کر اپنی عمریں گزار دیتے ہیں۔
-4 میرا خیال ہے کہ اگر دونوں فریق باہمی تعاون اور سمجھوتا کریں تو مسئلے کا حل نکل سکتا ہے۔ بہتر سے بہترین کی تلاش میں ناشکری کی عادت سے چھٹکارا حاصل کرنا ہوگا۔

آمنہ یوسف(سماجی کارکن)۔

-1 میرے نزدیک خاندانی رسم و رواج میں سب کچھ اتنا غلط نہیں ہے، اس میں کچھ ترمیم کرنے کی ضرورت ہے۔ پرانے طریقے کہیں اس قدر مضبوط ہیں کہ وہ نئے خاندانوں کو ملانے کے لیے جڑوںکا کام کرتے ہیں۔ اگر رسم و رواج شادی ہونے میں رکاوٹ پیدا کررہے ہیں تو ہمیں ان رسموں میں شعوری ترمیم کی ضرورت ہے۔
-2 مادہ پرستی زیادہ ہوگئی ہے جس کی وجہ سے بے جا مطالبات بڑھتے جارہے ہیں۔
-3میرے خیال سے بے جا خواہشات کے ذمے دار والدین ہیں، کیوں کہ اگر لڑکا/لڑکی بے جا خواہشات کرتے ہیں تو والدین اِس تربیت کا عکس ہیں جو ابتدا سے لڑکا/لڑکی کو دی جارہی ہے۔
-4 دونوں فریق تقابل کرنے سے گریز کریں، یہ جان لیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بھی بہترین بنایا اور سامنے والے کو بھی بہترین خصوصیات سے نوازا ہے۔ اس طرح ہمارا رویہ بھی بہت سی درست سمتوں میں دوڑ سکے گا۔

شہناز اختر (لیکچرار،خاتونِ خانہ)۔

-1 فرسودہ رسم و رواج کو خاندانی کا نام دے کر نسل در نسل اسی پر کاربند رہنا اپنے اوپر ظلم ہے جس سے شادی ہونے میں مشکلات پیدا ہورہی ہیں، مثلاً وٹے سٹے کی شادی اور مہندی میں بے جا اخراجات کا بوجھ بھی شادی میں رکاوٹ پیدا کررہا ہے۔
-2 رشتے کے حصول کے لیے دونوں فریق بے جا مطالبات کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہیں۔ دراصل برتری دکھانے کے لیے لڑکی اور لڑکے والے حد سے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس طرح سے بنی بنائی بات بگڑ جاتی ہے۔ لڑکا تعلیم یافتہ، خاندانی، برسرروزگار ہے لیکن لڑکی والوں کی طرف سے ’’گھر کرایہ کا ہے‘‘ یا ’’خاندان بہت بڑا ہے‘‘ کہہ کر انکار کردیا جاتا ہے۔ اسی طرح لڑکے والوںکی خواہش ہوتی ہے کہ ایسے خاندان سے رشتہ جوڑیں جہاں لڑکے کا مستقبل روشن ہو، یا جو تعلیم یافتہ لڑکی ہے وہ روزگار کے حصول میں ساتھ دینے والی ہو۔
-3 میں سمجھتی ہوں کہ اس میں قصور سراسر والدین کا ہے، کیوں کہ بچوں میں بڑوں کی سوچ منتقل ہوتی ہے۔
-4 رشتے کا حصول لالچ، نمود و نمائش، برتری کے احساس پر نہ ہو، بلکہ ذہنی ہم آہنگی، اخلاق اور برابری کے اصول پر ہو۔
…٭…
مختلف شعبہ ہائے زندگی کی خواتین کے تجربات اور خیالات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ رشتے کے حصول کی بنیاد صرف اور صرف اسلام کے اصولوں پر ہو جو کہ مال و اسباب، صورت، ذات برادری پر تقویٰ کو ترجیح دیتا ہے۔ اس کے علاوہ والدین کو چاہیے کہ بچوں کی تربیت اور ذہن سازی ایسے خطوط پر کریں کہ ان کی نظر میں انسانیت کی اصل معراج اخلاق ہو۔ یہاں دونوں فریقوں کو یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ اگر اب معاشرے کی بڑھتی ہوئی خرابیوں کے خلاف نہ کھڑے ہوئے اور بائیکاٹ نہ کیا تو زمانہ ہر روز نت نئے رسم و رواج میں گھِرتا چلا جائے گا اور شادی سنگین مسئلہ بنتی چلی جائے گی۔

حصہ