روح کی پیاس

1728

راحیلہ چوہدری
اللہ تعالیٰ نے انسان کو’’جسم‘‘اور’’روح‘‘ دو چیزوں کے مرکب سے بنایا ہے۔جسم نے روح کو اپنے اندر سمو رکھا ہے۔لیکن انسان کی حقیقت بنیادی طور پر روح سے ہے۔جسم توصرف روح کی نمائندگی کرتے ہوئے اس کی جسامت کو دکھاتا ہے۔جس طرح روح جسم کے لیے ضروری ہے اسی طرح جسم بھی روح کے لیے ضروری ہے۔روح ایک بہت ہی پاکیزہ چیز ہے جو جسم کی طرح دکھائی نہیں دیتی۔اسے بھی جسم کی طرح بھوک پیاس لگتی ہے لیکن اس کا پانی اور کھانا کیا ہے اسے کس وقت دینا ہے۔بد قسمتی سے ہم میں سے بہت لوگ نہیں جانتے اور اسے بھوکا پیاسا رکھتے ہیں اور جب روح ہی بھوکی پیاسی رہے گی تو انسان کا اپنا ذاتی اندرونی انتشار کیسے ختم ہوگا۔جسم کی طرح روح کی بھی غذا ہوتی ہے اسے بھی بھوک پیاس لگتی ہے۔ ایمانیات، احساسات، جذبات، اخلاقیات اور تصورات یہ سب روح کی غذا ہیں۔ خواہشات، فسادات، تفریقات یہ سب جسم کی غذا ہیں۔
’’جسم‘‘ اور ’’روح‘‘کی ضروریات الگ الگ ہیں۔بہت کم لوگ اس بارے میں جانتے ہیں اور اس لا علمی کی وجہ سے بے را ہ روی،بے چینی، پریشانی اور اندورنی انتشار کا شکار ہیں۔بدقسمتی سے ہمارا نوجوان بڑی بری طرح اس حوالے سے میڈیا کاشکار ہے۔گزشتہ چند برسوں میں ہمسایہ ملک کی طرف سے آنے والی بہت سی فلموں اور گانوں نے ہمارے جوان کی روح اور روحانیت کے حوالے سے بڑی غلط ذہن سازی کی ہے۔ہمارا مسلمان نوجوان اس لیے بے مقصدیت اور بے راہ روی کا شکار ہے کیونکہ وہ محبت کے اصل معنی ہی نہیں جانتا اور روحانی پیاس کے معنی کچھ اور سمجھ بیٹھا ہے۔ جب جسم کو کھانا،پانی اور ضروریات زندگی نہیں ملتی وہ فریاد کرتا ہے۔ اسی طرح ’’روح‘‘ کھانا، کپڑے، موسیقی اور کسی بھی دنیاوی لذت کو نہیں جانتی۔ اسے کچھ اور چاہیے۔جب ’’روح‘‘ کو اپنی پسند کا کھانا نہیں ملتا تو وہ فریاد کرتی ہے اور اس کی پریشانی ویرانی بن کر سارے جسم پر طاری ہو جاتی ہے۔پھرانسان اس ویرانی کو دور کرنے کے لیے روز نئی سے نئی جگہ کھانا کھانے چلا جاتا ہیے۔ایک جگہ سے شاپنگ کر کے دل نہیں بھرتا اس سے بھی اچھے شاپنگ مال میں جاکر شاپنگ کرنے کی خواہش بڑھ جاتی ہے۔ایسے کام کر کے اسے لگتا ہے کہ وہ اپنے اندر کی ویرانی اور کرب کو کم کر رہا ہے۔مگر حقیقت میں انسان اپنی ویرانی کو اوربڑھا رہا ہوتا ہے۔کبھی آپ محسوس کریں کہ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ اچھے سے اچھی جگہ کھانا کھاکراچھے سے اچھا لباس پہن کر بھی انسان مزید اچھے سے اچھے کی خواہش میں ہی مبتلا رہتا ہے۔ یہی وہ نقطہ ہے جہاں انسانی روح کی پیاس اپنے عروج پر پہنچ چکی ہوتی ہے اور ہم اپنی ہی روح کو سمجھ نہیں پا رہے ہوتے کہ اس کی ویرانی کو کیسے کم کریں اور جسم کو روز نئی سے نئی لذتوں میں ڈال کر خود کو وقتی تسکین دیتے رہتے ہیں خود کو بہلاتے رہتے ہیں۔جس سے اندر کی ویرانی بڑھتی رہتی ہے کم نہیں ہوتی۔
روح اللہ کا ایک لطیف امر ہے جس کا علم اللہ نے انسان کو نہیں دیا۔روح ہمارے جسم کا اصل ہے۔جس طرح جسم کے بننے کا نظام اور ہے اسی طرح روح کے بننے کا نظام بھی اور ہے۔جسم مٹی سے بنا ہے اس کی خوراک کا انتظام بھی مٹی سے ہی کیا گیا ہے۔گندم،سبزی،پھل،پانی سب چیزیں زمین یعنی مٹی سے ہی جسم کی پرورش کے لیے نکالی جاتی ہیں۔روح آسمان سے آئی ہے اس کی غذا بھی اللہ نے آسمان سے اْتاری ہے۔روح کو اللہ اور اس کے رسولؐ کا تعلق چاہیے۔جیسے اللہ نے ہمارے جسم میں روٹی اور پانی کی طلب کو بے ساختہ رکھ دیا ہے اسی طرح انسانی روح میں اللہ تعالیٰ نے اپنی اور رسولؐ کی طلب رکھ دی ہے جو نکل نہیں پاتی۔روح کا تعلق جب تک اللہ اور رسولؐ سے نہیں جڑتا اس کی بھوک اور پیاس بڑھتی رہتی ہے۔واصف علی واصف ایک جگہ فرماتے ہیں:’’جس کا اللہ کریم سے رابطہ نہ ہو وہ روح تکلیف میں ہوتی ہے۔چاہے جسم کتنی ہی راحت میں ہو۔جس کا اللہ کے ساتھ رابطہ ہو جائے وہ روح راحت میں ہے،جسم راحت میں ہو یا نہ ہو۔‘‘روح جسم کے مقابلے میں زیادہ طاقتور ہے اس لیے اس کی پریشانی بھی جسم سے زیادہ ہے۔جس طرح ہم روز ایک ہی طرح کا کھانا نہیں کھا سکتے اسی طرح روح کو بھی ایک من پسند دسترخوان چاہیے۔جہاں سے وہ اپنے پسندیدہ کھانے کھا کر تروتازگی محسوس کر سکے۔لیکن افسوس روح کے دسترخوان اور اس کی پسندیدگی کا ہم نے بہت ہی کم انتظام کیا ہے۔روح کا دستر خوان کیا ہے؟ روح کا دستر خوان ہے قرآن مجید، حدیث، سیرت، شریعت۔ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا روحانی دستر خوان ہے۔قرآن ہمیں تقوی سکھا تا ہے،صلہ رحمی کا درس دیتا ہے۔شیطان سے نفرت اور دوزخ سے خوف دلاتا ہے۔
قرآن میں اللہ اور پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ہے۔یہ قرآن کا روحانی دستر خوان ہے جس پر ہزاروں طرح کے روحانی کھانے اللہ نے انسان کی روح کے لیے سجا دیے ہیں۔اسی لیے کسی نے کیا خوب کہا ہے ’’وہ روح کبھی نہیں مرجھاتی جس کی پیاس قرآن کی تلاوت سے بجھتی ہو‘‘۔اگر انسان صرف روزانہ تلاوت ِ قرآن پاک کو اپنا معمول بنا لے تو ایک دن ایسا ضرور آئے گا کہ وہ اس کے ترجمہ اور تفسیر کو بھی پڑھنے کی خواہش ضرور کرئے گا لیکن اس سے پہلے قرآن کو کھولنا ضروری ہے اس نیت کے ساتھ کے یہ کتابِ ہدایت ہے۔یہی وہ کتاب ہے جو زندگی کا دستور لائی ہے۔انسان کی زندگی کی دنیاوی اور اْخروی ساری کامیابیاں اسی کتاب کے ساتھ جْڑی ہوئی ہیں۔قرآنِ مجید کے بعد اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا۔قرآن کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ ہی ہمیں جینے کا وہ ڈھنگ سکھاتی ہے۔جو اللہ کو مطلوب ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور حدیث کا مطالعہ کیے بغیر کوئی انسان بھی اسلام کے مکمل نظام ِحیات کو نہ سمجھ سکتا ہے نہ عمل کر سکتا ہے۔ قرآن، حدیث، سیرت، شریعت ان سب کے مطالعے کے بغیر انسان کی روحانی پیاس کم نہیں ہو سکتی۔ اللہ اور رسولؐ کی محبت ہمارے جسم کے لیے روح ہے۔
گھر بیوی، خاوند، خاندان، معاملات، قانون، عدالت، سیاست یہ سب جسم ہیں۔ اللہ قرآن نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان سب کو اپنے دل میں آباد کرنا‘ ان کی یاد سے دلوں کو روشن کیے رکھنا اصل زندگی ہے۔ جب تک دلوں میں اللہ کے ذکر کا دِیا نہیں جلے گا اور معاملات زندگی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرنے کی کوشیش نہیں کی جائے گی‘ روح کی پیاس بڑھتی جائے گی‘ نہ انسان کا اندورنی انتشار ختم ہو گا اور نہ ہم معاشرے کو بے راہ روی سے بچا سکیں گے۔

حصہ