رائے سازی کرنے والے کہاں؟۔

471

دو ہفتے قبل ’یوٹیوب سے کشمیریوں کی مدد‘ والے مضمون میں ذکر کیا تھا کہ یوٹیوب پر ٹاپ ٹرینڈ میں شامل بھارتی مواد (بھارتی گانے، پروموو دیگر) بار بار شرمندگی کا احساس دلاتے ہیں۔ اتنا شور مچا ہوا ہے، چاہے جیسا بھی ہے حکومت، میڈیا مستقل کشمیر میں جاری بھارتی مظالم کے خلاف آگہی تو پھیلا رہے ہیں۔ اس کے باوجود ہم جانے انجانے میں بھارتی مواد کو یوٹیوب پر دیکھ دیکھ کر اسے نہ صرف ٹرینڈ لسٹ میں لا رہے ہیں بلکہ ساتھ ہی ساتھ بھارتی معیشت کو بھی سہارا دے رہے ہیں۔ مضمون لکھتے وقت ایک بار پھر یوٹیوب کے ٹرینڈزچیک کیے تو پہلے 20 میں 6 پر بھارتی مواد اب بھی ’منہ چڑِا تا‘نظرآرہا تھا۔
شاید محرم الحرام کے اثرات تھے کہ میوزک کی ٹرینڈ لسٹ میں دیکھا تو10 میں سے 4 پر تو ندیم سرور، فرحان علی وارث کے نوحہ کی ویڈیوز تھیں، باقی 6 پر بھارتی گانے ملین ملین ویوز کے ساتھ موجود تھے۔ پاکستانی ڈراموں کی مقبولیت اب بھی یوٹیوب پر جگہ بنائے ہوئے تھی، یہی نہیں بلکہ ڈرامے کی اگلی قسط کے پرومو بھی انتہائی مقبولیت کے درجے پر آپ کو ملیں گے۔ بات صرف ٹرینڈ ہی کی نہیں، مجموعی مزاج کی ہے۔ کئی دکانوں پر جہاں کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی وافر سہولت موجود دیکھی، وہاں یوٹیوب سے ہی براہِ راست بھارتی گانے چلتے دیکھے۔ یہی نہیں، اب تو ڈھائی تین گھنٹے کی بھارتی فلمیں بھی چونکہ دستیاب ہوتی ہیں یوٹیوب پر، اس لیے وہ بھی ہمارے بھارتی فلموں کے دلدادہ ذوق و شوق سے دیکھ کر اُن کی کثیر آمدنی کا ذریعہ بنتے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ اس وقت بھارت میں بی جے پی کی اکھنڈ بھارت متشدد نظریات والی حکومت ہے، لیکن کیا آپ کو یاد نہیں کہ دو قومی نظریہ کانگریسی رویّے کی پیداوار تھا جو کہ گاندھی اور نہرو کے دور میں عملی شکل اختیار کرگیا۔ یہ اندرا گاندھی ہی تھی کہ جس نے سقوطِ ڈھاکہ کے بعد نظریۂ پاکستان کو خلیجِ بنگال میں ڈبونے کا تاریخی جملہ کہا تھا۔ اس لیے پاکستان اور مسلمانوں کے لیے کیا کانگریس کیا بی جے پی، سب ایک ہی ہیں۔ اس لیے یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ ہندوستان کیا ہے؟
اچھا اب تھوڑا ذکر یوٹیوبرز کا بھی ہوجائے۔ یوٹیوب اور کچھ اس کے طور طریقوں پر جولائی کی دو اقساط میں سمجھانے کی کوشش کی تھی، لیکن دو اقساط تو یوٹیوب کی دنیا کی تفصیل سمجھانے کے لیے یا جائزہ لینے کے لیے ناکافی ہیں، خصوصاً ایسے ماحول میں جب ہر نیا دن نئے تجربات کے تناظر میں نئی نئی چیزیں سامنے لا رہا ہو۔ ویڈیو لاگز کی ایک بہار ہے جو کہ ایک جانب رات دن نت نئے تجربات کے ساتھ بارش کے بعد خودروگھاس کی صورت بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ اب سب سے آسان کام ہی یہ ہوگیا ہے کہ اپنا موبائل فون نکالیں، کم شور والی جگہ کا انتخاب کرکے یا اپنی یا کسی دوست کی گاڑی میں بیٹھ کر جو منہ میں آئے اسے ریکارڈ کراکے اَپ لوڈ کردیں۔ اچھا SEO کریں گے اور متعلقہ ٹرینڈنگ موضوع پر بات کریں گے تو اتنے ویوز تو مل ہی جائیں گے کہ آپ خوش ہوسکیں۔ پھر کمنٹس کا سلسلہ شروع ہوگا۔ اگر کسی متنازع یا ایسے موضوع پر لب کشائی کردی جس پر پہلے ہی کسی سیلیبرٹی یا کسی بڑے یوٹیوبر نے بات چھیڑی ہو، تو کیا کہنے۔ کہیں نہ کہیں تو کلک ہوگی اور ویڈیو وائرل ہونے کی سمت جائے گی۔ کچھ دن قبل پاکستانی اداکارہ ماہرہ خان کے بارے میں معروف آرٹسٹ فردوس جمال نے ایک جملہ کہہ دیا، بس پھر کیا تھا موضوع ٹرینڈ لسٹ میں آگیا، پیچھے سے وی لاگز کی بہار لگ گئی، سب نے خوب ہاتھ صاف کیے۔ جو جس کا جتنا بڑا ’فین ‘تھا اُس نے اتنی زیادہ ’ہوا‘دی اور ’ حقِ پسندیدگی‘ ادا کیا۔ اسی طرح پھر حالیہ بارشوں کے بعد ’’کراچی میں کچرا‘‘ کا موضوع ہر سو گرم رہا۔ آپ کو حیرت ہوگی یہ جان کر کہ بڑے بڑے تجزیہ کار بھی وہ نہ کرسکے جو عوام نے موبائل فون پکڑ کر کردیا۔ اس سب کا نتیجہ یہ نکلا کہ اصل بات ہی کہیں کھو گئی۔ اگر مجھے آپ کی رائے سے اختلاف ہے تو پھر میں آپ کی رائے کے برخلاف بات کروں گا۔ میرے فالوورز مجھے سپورٹ کریں گے، آپ کے آپ کو۔ پھرلائیکس، سبسکرائب اور شیئر کی دوڑ شروع ہوگی۔ ان سب کے پیچھے ویوز کے ڈالر ہوں گے جس کی خاطر اصل دوڑ دھوپ ہے۔ پھر بتادوں کہ یوٹیوب ایک بزنس پلیس بن چکا ہے۔ یہاں وڈیو پر ویوز کے پیسے ملتے ہیں اگر آپ لینا چاہیں، یعنی مونیٹائز کریں (یوٹیوب کی شرائط پر پورا اترنے کے بعد)۔ جن پاکستانی یوٹیوبرز کے زیادہ تر ویوز بھارت سے آتے ہیں وہ مسئلہ کشمیر و دیگر پر مجرمانہ خاموشی اختیار کرتے ہیں کیونکہ انہیںاپنے ویوز، سبسکرائبرز اور یوٹیوب کی آمدنی کے گھٹ جانے کاخوف محسوس ہوتا ہے۔ اس کی اہم مثال ’شاہ ویر جعفری‘ ہیں جن کے پاس کوئی 1.8ملین سبسکرائبرز ہیں، ان کے بعد ’دکی بھائی‘ ہیں جن کے پاس کوئی 1.3 ملین سبسکرائبرز ہیں، لیکن ان کے موضوعات دیکھیں تو آپ کو ایک درجے میں میری بات کی تصدیق ہوجائے گی۔ ان سب کے پاس اول تا آخر یہی دلیل ہے کہ ’’ہم کسی سیاسی، ملکی، قومی، بین الاقوامی، امتِ مسلمہ یا سیاسی، سماجی معاملے پر نہ ہی مہارت رکھتے ہیں، نہ ہی پہلے کبھی بات کی ہے، نہ آئندہ کریں گے۔ یوٹیوب پر آنے کا مقصد صرف پیسہ کمانا ہے، اور اس کے لیے نوجوانوں یا عوام میں جو عمومی مقبولیت کے رجحانات چل رہے ہوتے ہیں انہی کو ہم فالوکرتے ہیں‘‘۔ ان کی بات اصولاً تو صحیح ہے، لیکن ان کی عدم دلچسپی اپنی جگہ مگر جیساکہ میں نے کہاکہ کئی خودرو پودے نکلنا شروع ہوگئے ہیں جو زیادہ اثرانداز ہورہے ہیں، کیونکہ لوگ جاننا چاہتے ہیں۔ اپنے اطراف سے ایک حد تک ہی وہ بے خبر رہ سکتے ہیں، اس کے بعد انہیں گفتگو میں حصہ ڈالنے کو مواد چاہیے ہوتا ہے جس کے لیے اب وہ رات کے کسی شو کا نہیں بلکہ یوٹیوب کا رخ کرتے ہیں۔ اس سے پہلے رائے عامہ، یا رائے سازی کے لیے ٹی وی اسکرین پر ’علامہ جگادری‘ ٹائپ کے سنجیدہ، غیر سنجیدہ، لفافے و غیرلفافے، صحافی و غیر صحافی، اینکر و نیوز کاسٹر تک کی شہرت رکھنے والے بٹھا دیے جاتے۔ وہ مرغوں کی لڑائی سے اپنے چینل کو ریٹنگ دلاتے اور اپنی تنخواہ بڑھوانے کا سبب بنتے۔ اب چونکہ ان کی ٹریننگ سے سب ہی اپنے تئیں تجزیہ نگار بن گئے ہیں اس لیے الامان و الحفیظ ہی پڑھنا پڑتا ہے۔ بہرحال یہ تو ہونا تھا۔ بس یہ جان لیں کہ اصل ڈوری یہاں نہیں ہے، یہ تو ایک وسیع کاروبار کا نمونہ ہے۔ ہم پچھلی اقساط میں بتا چکے ہیں کہ یہ کس طرح وجود میں آیا، کس چکر میں؟ یاد ہے ناں آپ کو ’ڈیٹا‘ والی بات! یہ بھی یاد رہے کہ یوٹیوب کو گوگل خرید چکا ہے۔ دھندہ مندہ نہیں کرنا کسی صورت… یہ ہے اصل مدعا۔
بہرحال بات ہورہی تھی پاکستانی یوٹیوبرز کی، جنہوں نے کشمیر جیسے اہم ترین اور ناگزیر ایشو پر تو مجموعی خاموشی طاری رکھی، البتہ انہیں کئی اور موضوعات پر سماجی اصلاح کا بیڑا اٹھائے ہوئے ضرور دیکھا گیا۔
اب کرنٹ افیئرز ایسی خطرناک چیز ہے کہ مت پوچھیں۔ آپ نے نوٹ کیا ہوگا کہ پڑوسی ملک بھارت میں بھی بے شمار یو ٹیوبرز موجود ہیں جن میں اکثر کو ان کے ’’محکمہ زراعت‘‘ کی جانب سے حب الوطنی کا کیڑا کاٹتا ہے تو سستی شہرت کے لیے اول فول بَک کر ریٹنگ لانے کی پالیسی اختیار کرتے ہیں۔ اچھا پھر یہی نہیں کہ زبانی کلامی دلائل پر بات ہو۔ دلائل تو بہت دور کی بات ہے، اپنے وی لاگز میں دونوں طرف سے اخلاقی حدود پامال کردی جاتی ہیں اور خوب گالیوںکی بوچھاڑ کرکے اپنی برتری ظاہر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ان میں اوّل اوّل ہندوستانی بھاؤ اور شبہم مشرا نے سب سے زیادہ طوفانِ بدتمیزی مچائے رکھا۔ زبردستی اپنی بے کار ایکٹنگ سے اپنی ریٹنگ اور پاک بھارت ٹینشن کو بڑھانے کے لیے وقار ذکاء، وقار صغیر اور ڈاکٹر ترکی جیسے پاکستانی وی لاگرز کو مخاطب کرکے موضوع بناتے ہیں۔ پھر دونوں جانب سے جوابات کا سلسلسہ شروع ہوتا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ وقار ذکاء نے کہاکہ اسے ریٹنگ کی فکر نہیں لیکن جواب دینا ضروری تھا۔ چنانچہ وقار نے بھی اخلاق سے گری ہوئی زبان استعمال کرکے جوابی ویڈیوز بنائیں۔ بات زبانی گالم گلوچ تک نہیں رہی، دوبدو مقابلے تک بات پہنچ گئی۔ کبھی دبئی، کبھی تھائی لینڈ، تو کبھی بھارت میں سامنا کرنے کی بات کی گئی۔ ڈاکٹر ترکی تو پھر بھی قائم رہے اپنی بات پر، تاہم ہندوستانی بھاؤ خاموش رہا۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے ہر ہر موضوع کو چھیڑا گیا۔ بھارت نے اپنا خلائی مشن چاند پر بھیجنے کی کوشش کی، اس کوشش میں وہ بھی زبردستی پاکستان کو لے آئے، جس کے جواب میں پاکستان نے بھی مشن کی ناکامی یا رابطہ منقطع ہوجانے پر خوب باتیں بنائیں۔ اہم بات یہ ہے کہ بھارت کے سب سے مشہور تقریباً سوا 2 ملین سبسکرائبر رکھنے والے ایک یوٹیوبر ’دھرووراٹھی‘ نے بھارت کی جانب سے آرٹیکل 370 کے خاتمے کی ذاتی رائے میں مخالفت کی ہے۔ اس کی اِس ویڈیو کے کوئی 17.5لاکھ ویوز ہیں۔ ویسے یہ وہی ہے جس نے ’را‘ کے مقاصد کا دفاع کرتے ہوئے ’احمد وقاص گورائیہ‘ کا انٹرویو اپنے پیج کے لیے کیا، جس میں یہ پیغام دینے کی کوشش کی گئی کہ ان کا ’توہینِ رسالت‘ سے کوئی تعلق نہیں، اصل معاملہ آرمی کے خلاف بولنے کا تھا۔
ابھی نندن، بھارتی الیکشن، مقبوضہ کشمیر، پھر بھارتی خلائی مشن… تواتر سے ایسے ایشوز آئے کہ پاک بھارت تناؤ کی فضا عوامی سطح تک پہنچ گئی۔ بھارت کو ایک ہزار سال تک مسلم حکمرانی کا تازیانہ شدید تکلیف دیتا رہا۔ اب چونکہ حقیقت بھی ایسی ہی ہے کہ بھارت میں بی جے پی انہی نظریات کا پرچار کرکے مسلمانوں کے خلاف ہندو انتہا پسندوں کو یکجا کررہی ہے تو پاکستانیوں کی جانب سے انہیں ماضی کی یاد دلانے کا عمل انتہائی تکلیف دہ گزرتا ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ برصغیر پر مسلمانوں کی ایک ہزار سال حکومت رہی اور ہندو اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکے۔ یہی نہیں، مسلمانوں کو ہٹاکر انگریز برصغیر کے حکمران بن گئے تب بھی ہندو انگریزوں کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔ البتہ بھگت سنگھ اور اس جیسے دیگر تین چار باغی کرداروں کے نام پر فلمیں ضرور بنائیں، لیکن یہ اپنی جگہ مسلمہ حقیقت ہے کہ بھگت سنگھ ہو یا انگریزوں سے آزادی کا کوئی اور رہنما، بغیر مسلمانوں کی مدد کے وہ کچھ بھی نہیں تھے۔ یہ مسلمان ہی ہے جس کے دین نے اسے غلامی کی قطعی تربیت نہیں دی، وگرنہ ہندو ازم کی تعلیمات میں آزادی کا ایسا کچھ فلسفیانہ یا نظریاتی پہلو موجود نہیں۔
بات ہورہی تھی یوٹیوبرز کی، جو دونوں جانب ایک دوسرے کو ویڈیوز میں للکار رہے تھے اور ان کے چاہنے والے انہیں خوب داد دے رہے تھے۔ علمی سطح دونوں جانب گالیوں کے سوا کچھ نہیں۔ بھارت میں تو یہ سیلیبرٹیز کی صورت اختیار کرتے جا رہے ہیں، پاکستان میں بھی اب یہ وقت زیادہ دور نہیں۔ وقارذکاء باوجود کئی اسکینڈلز کے پہلے ہی سیلیبرٹی شمار کیے جاتے ہیں۔ جنید اکرم، ڈاکٹر ترکی، وقار صغیر سمیت کئی نئے نام اس فہرست میں جگہ بنارہے ہیں۔ اصل ضرورت ہے اُن اہل الرائے، نظریاتی اور سنجیدہ محب وطن افراد کی، جو اس پلیٹ فارم پر بڑی تعداد میں موجود عوام کی رہنمائی کرسکیں۔

حصہ