۔”اللہمَّ” بیرسٹر ظفر اللہ خان کی بے مثال کتاب الدعا

1544

نعیم الرحمن
اسلام میں دعا کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ اللہ تعالیٰ بندے کی دعا کو پسند کرتا ہے۔ دعا عاجزی، انکسار اور شکر گزاری کی علامت ہے۔ دعا عجز و انکسار کی حالت میں دل کی کیفیت کے اظہار کا آسان، مؤثر اور محبوب ترین عمل ہے۔ دعا بنی آدم کا سب سے قیمتی سرمایہ ہے جو انبیاء علیہم السلام کے بھی شاملِ حال رہا ہے اور ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا پسندیدہ معمول بھی رہا ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام کو آسمان جیسی بلندیوں سے جس غلطی کی پاداش میں زمین پر بھیجا گیا، اُس آزمائش سے رہائی اور چھٹکارے کے لیے دعا ہی کا تحفہ عطا فرمایا گیا، اور انبیاء و رسل علیہم السلام نے اپنے اپنے زمانے میں اپنے متعلقین کو ایسی ہی دعائوں کے ذریعے اپنے خالقِ حقیقی سے مربوط کیا ہے۔
قرآن پاک کا آغاز اور اختتام بھی دعائیہ کلمات سے ہوتا ہے۔ اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں اپنے محبوب بندوں کی دعاؤں کا بار بار ذکر فرمایا ہے تاکہ تمام انسان ان کلمات سے اپنے رب کو یاد فرمائیں۔ دعا بندے کے اپنے خالق سے براہِ راست تعلق کا ذریعہ ہے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے متعدد مقامات پر دعا کی ہدایت دی ہے۔ ان آیاتِ مبارکہ سے دعا کی عظمت واضح ہوتی ہے۔ کلام پاک میں اللہ عزوجل کو عاجزی اور خوف سے پکارنے کا حکم دیا گیا ہے۔ دعا اہم عبادات میں شامل ہے جن کا اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو حکم دیا ہے۔ اس نے دعاؤں کی قبولیت کا وعدہ کیا ہے، اور دعا نہ کرنے والوں کو وعید سنائی ہے اور دعا کرنے والوں کی تعریف فرمائی ہے۔ حدیثِ مبارک ہے کہ دعا سراسر عبادت ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ کی روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی چیز اللہ تعالیٰ کے نزدیک دعا سے بہتر نہیں ہے۔
دعا کا مقام اسلام میں بہت بلند ہے۔ ایمل پبلشرز نے اسی موضوع پر بیرسٹرظفراللہ خان کی بے مثال کتاب ’’اللّھُمَّ‘‘ انتہائی خوب صورتی سے شائع کی ہے۔ 240 صفحات کی اس پوری کتاب کا ہرصفحہ دل کش بارڈرکے ساتھ شائع کیا گیا ہے جس کا ہدیہ 240 روپے ہے۔ بیرسٹر ظفر اللہ خان نے ابتدائی دینی تعلیم صوفیائے کرام کے شہر ملتان میں حاصل کی۔ ایف اے اور بی اے کے امتحانات پرائیویٹ طور پر ملتان ایجوکیشن بورڈ اور بہاء الدین زکریا یونیورسٹی سے امتیازی پوزیشن کے ساتھ پاس کیے۔ قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے ایم ایس سی بین الاقوامی تعلقاتِ عامہ میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ کچھ عرصہ اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد میں تدریس کے بعد1987ء میں انٹرنیشنل سول سروس آف پاکستان کے ڈسٹرکٹ مینجمنٹ گروپ میں شمولیت اختیار کرلی۔ 1997ء میں سٹی یونیورسٹی لندن سے ایل ایل بی کے امتحان میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ یونیورسٹی آف ویسٹ انگلینڈ سے 1998ء میں قانون کے شعبے میں پوسٹ گریجویٹ ڈپلوما کیا اور لنکزاِن لندن سے بار اِیٹ لا کیا۔ اس کے علاوہ ظفر اللہ خان نے سوئٹزر لینڈ، ہالینڈ اور اٹلی میں بھی قانون کی تعلیم حاصل کی۔ 2002ء میں ملازمت سے مستعفی ہوکر باقاعدہ پریکٹس کا آغاز کیا۔ ظفر اللہ خان اسلام، قانون اور حقوقِ انسانی پرکئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ آپ بطور وفاقی سیکریٹری قانون، انصاف اور حقوقِ انسانی بھی کام کرچکے ہیں۔
’اللّھُمکے پبلشر شاہد اعوان نے عرضِ ناشر میں کتاب کا تعارف کراتے ہوئے لکھا ہے ’’اللّھُمدراصل کتاب الدعا ہے۔ کتاب الزہد اور بہترین انسان کا اگلا قدم۔ ظفراللہ خان کا سفر دو مختلف سطح پر تیزی سے جاری ہے، علمی اور عملی۔ دُعا کے موضوع پر یہ کتاب علمی سفر کا ایک اور پڑاؤ ہے، عملی سفرکے مراحل تو سامنے ہیں ہی، دعا انسانی بے بسی کا وہ اظہارہے جو بیک وقت خالق کا حکم اور اس کی پسند ہے۔ رحمن اور عبادالرحمن کے تعلق کا مظہر اپنی نہاد میں اس قدر بھرپور ہے کہ جملہ عملی اور کلامی عبادات کا سرنامہ ٹھیرتا ہے۔ دعا عمل ہے اور کیفیت بھی، راستہ ہے اور منزل بھی، طلب ہے اور مطلوب بھی، عشق ہے اور دوائے عشق بھی۔ غیاب میں حضوری اور حضوری میں سپردگی کا رنگ، زمان ومکان سے ماورا، عالم امکاں سے آگے۔
عشق کی تقویم میں عصرِ رواں کے سوا اور زمانے بھی ہیں جن کا نہیں کوئی نام، دعا حمد ہے اور عجز بھی، شکر ہے اور طلب بھی۔ دعا خوف ہے اور امید بھی، گریہ ہے اور سکون بھی۔ دعا اضطراب ہے اور سکینت بھی، بندگی ہے اور بندگی کا اظہار بھی۔ دعا زندگی ہے اور طرزِ زندگی بھی۔ اس طرزِ زندگی کے حصول کی دعا، اپنے لیے اور آپ کے لیے بھی، ظفر اللہ کے لیے توہے ہی۔‘‘
اتنے عمدہ، مختصر اور جامع تعارف نے کتاب کی ہرجہت اور دعا اور اس کے مقصد کو واضح کردیا۔ کتاب کے آغاز میں سورہ بقرہ کی آیت نمبر 186 دی گئی ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں سے دعا کی قبولیت کا وعدہ کیا ہے: ’’جب تم سے میرے بندے میرے بارے میں دریافت کریں تو (کہہ دو) میں تو (تمہارے ) پاس ہوں۔ جب کوئی پکارنے والا مجھے پکارتا ہے، تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں۔‘‘
ظفر اللہ خان پیش لفظ میں لکھتے ہیں کہ ’’ہر انسان کی زندگی میں کچھ لمحات اور واقعات ایسے پیش آتے ہیں کہ وہ دنیاوی ذرائع اور وسائل کی کثرت کے باوجود اپنے آپ کو بے بس اور مجبور محسوس کرتا ہے۔ اس حالت میں اس کے ہاتھ بے ساختہ دعا کے لیے اٹھتے ہیں اور انسان زبان سے چند دعائیہ کلمات ادا کرتا ہے۔ اس صورتِ حال میں اپنے سے کسی بالاتر ہستی کو پکارنا دعا اور مناجات کے زمرے میں شامل ہے۔ اسی طرح جب انسان دیکھتا ہے کہ وہ تمام ظاہری اور روحانی نعمتیں، جو اس کو حاصل ہیں، وہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں، تو اس کے دل میں نعمتوں کے شمار کے بقدر محبتِ باری تعالیٰ پیدا ہوتی ہے اور دل میں حمد و ثنا اور شکرِ خداوندی کا داعیہ ابھرتا ہے۔ ایسی صورتِ حال میں بندہ شکر گزاری کے کلمات ادا کرتا ہے، اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کرتا ہے۔ دنیا کے ہر مذہب میں دعا کا تصور موجود ہے، مگر اسلام نے دعا کی حقیقت کو مستقل عبادت کا درجہ عطا کیا ہے۔
قرآن مجید کا آغاز اور اختتام بھی دعائیہ کلمات سے ہوتا ہے۔ سورۃ فاتحہ سے بہتر آداب اور دعا کی صورت کیا ہوسکتی ہے، اور آخری دو سورتوں سے بہتر استعاذہ اور مدد کے لیے کیا اذکار ہوسکتے ہیں! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا ہی کو عبادت قرار دیا ہے۔ مختصر طور پر اسلام سے بہتر حقیقتِ دعا کوکسی بھی دوسرے مذہب نے پیش نہیں کیا، اور قرآن مجید اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بہترکسی نے اس کے آداب و ضوابط اور کلمات عطا نہیں فرمائے۔ دعا بنی آدم کا سب سے قیمتی سرمایہ ہے۔ آج انسان ہر طرف سے لاچار، بے بس، بے کس اور مجبور ہے۔ پریشانیاں، تکالیف، مصائب، دکھ، غم اور خوف و ہراس انسان کو ہر طرف سے گھیرے ہوئے ہیں۔ روحانی اور جسمانی بیماریاں اس کو تباہ کررہی ہیں۔ حوادثِ زمانہ کے تھپیڑوں سے انسانیت جاں بلب ہے، زندگی کے مصائب و آلام کا رِستا ہوا ناسور بن چکی ہے۔ انسان کو مجموعی طور پر سوچنا چاہیے کہ ایسا کیوں ہورہا ہے؟ ہم مصیبتوں، پریشانیوں، آفتوں اور مشکلات کے وقت مادّی جائز و ناجائز تدبیروں کی تلاش میں تو سرگرداں رہتے ہیں لیکن اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے حکم ’’مجھ سے دعا کرو، میں تمہارا کام پورا کردوں گا‘‘ کی طرف متوجہ نہیں ہوتے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے تمام مسائل کے حل کے لیے اللہ عزوجل سے اپنا رابطہ قائم رکھے، اُس کے حضور گڑگڑائے، آہ و زاریاں کرے، ندامتوں، شرمندگیوں، پشیمانیوں کا اظہار کرے۔ آنسو بہاتے ہوئے اپنی تمام التجائیں اسی کے حضور پیش کرے۔ پھر دیکھیں کہ مسائل کیسے حل ہوتے ہیں۔ جلد ہی انسان اپنے دکھوں، تکلیفوں سے نجات پا جائے گا۔ اس کی زندگی پُرسکون، کامیاب و کامران ہوجائے گی۔ اسی مقصد کے لیے یہ کتاب قرآنی آیات اور صحیح احادیث کی روشنی میں ترتیب دی گئی ہے، جو انسان کو اللہ تعالیٰ سے رابطے کا ایک طریقہ سکھاتی ہے کہ کس طرح انسان اپنی مشکلات کے وقت، کس مصیبت و پریشانی کے لیے کن الفاظ کے ساتھ اپنے خالق و مالک، رازق کو پکارے اور خدا تعالیٰ کی نعمتوں کا صبح و شام کیسے شکر بجا لائے۔‘‘
اس طویل اقتباس سے کتاب کا مقصد و منشا ہر قاری پر واضح ہوجاتا ہے۔ ’اللّھُم کے ذریعے ظفر اللہ خان نے دورِ حاضر کی ایک اہم ضرورت کو پورا کیا ہے۔ آج ہم میں سے ہر ایک کو اپنے خالق و مالک سے رجوع اور حاجت روائی کے لیے کثرت سے دعاؤں کی ضرورت ہے۔ اس کتاب نے ہر موقع اور ہر تکلیف کے لیے قرآنی اور انبیاء علیہم السلام کی دعاؤں کو پیش کیا ہے جو ہر گھر اور ہر مسلمان کی اہم ترین ضرورت ہے۔ پبلشر شاہد اعوان نے بھی وقت کی اہم ترین اور ضروری کتاب کو شائع کرکے اہم فریضہ انجام دیا ہے۔
کتاب کی ابتدا میں دعا کے تعارف کا ایک باب ہے، جس میں دعا کے بارے میں قرآن و حدیث کے حوالوں سے مزین اہم معلومات فراہم کی گئی ہیں۔ یہ باب ہر مسلمان کو پڑھنا، سمجھنا اور اس کے مطابق عمل کرنا چاہیے۔ دعا کے معنی پکارنا، آواز دینا، منسوب کرنا، کسی کام کی ترغیب دینا، مدد طلب کرنا اور عبادت کرنا ہیں۔ اصطلاح میں اللہ تعالیٰ کو پکارنا اور بارگاہِ الٰہی سے کسی شے کی اپنے یا دوسرے کے لیے درخواست کرنے کو ’’دعا‘‘ کہتے ہیں۔ سادہ الفاظ میں دعا بندے کا خدا سے اپنی حاجتیں طلب کرنا ہے۔
کتاب کے اس باب میں دعا کے بارے میں ذہن میں آنے والے ہر سوال کا جواب دیا گیا ہے۔ جیسا کہ قرآن پاک میں لفظ دعا مختلف معنوں میں استعمال ہوا ہے مثلاً بلانا اور پکارنا۔ سورۃ نورکی آیت کا ترجمہ ’’مسلمانو! رسول کواس طرح نہ بلایاکرو، جس طرح ایک دوسرے کو بلاتے ہو۔‘‘ اسی طرح بعض جگہ منسوب کرنا، عبادت کرنا، مددکے لیے پکارنے کے لیے بھی دعا کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔
دعا کئی طریقوں سے کی جاتی ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کی حمد و ثنا بیان کرنا۔ جیسے ربنالک الحمد (اے ہمارے رب! تمام تعریفیں تیرے لیے ہی ہیں) کہا جائے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ سے عفو و رحمت اور ایسی چیزیں طلب کرنا جس سے اس کا قرب حاصل ہو، جیسے کہ اے ہمارے رب! ہمیں بخش دے۔ دنیا کی بھلائی کی درخواست کرنا جیسے اے ہمارے پروردگار! ہمیں رزق عطا فرما۔ اس کے علاوہ تسبیح و تہلیل اور تحمید کو بھی دعا ہی کہا جاتا ہے، کیوں کہ یہ بھی اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی رضا اور قرب حاصل کرنے کا ذریعہ اور طریقہ ہے۔ پھر دعا کے چار ارکان ہیں۔ پہلا مدعو (جسے دعا میں پکاراجائے): دعا میں جس کو پکارا جاتا ہے وہ خداوندِ قدوس کی ذات ہے۔ وہ آسمان اور زمین کا مالک ہے اور اس کا خزانہ جود و عطا سے ختم نہیں ہوتا۔ اسی طرح وہ اپنی ساخت و کبریائی میں کوئی بخل نہیں کرتا۔ کسی چیزکے عطا کر نے سے اس کی ملکیت کا دائرہ تنگ نہیں ہوتا، اور وہ بندوں کی حاجتوں کو قبول کرنے میں دریغ نہیں کرتا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے (ترجمہ) ’’ہم آپ کے پروردگار کی عطا و بخشش سے اُن کی اور اُن سب کی مدد کرتے ہیں اور آپ کے پروردگار کی عطا کسی پر بند نہیں ہے۔‘‘ اور ’’مجھ سے دعاکرو، میں قبول کروں گا۔‘‘
دوسرا داعی (دعا کرنے والایعنی بندہ): بندہ ہر بات اور ہرچیز میں اپنے رب کا محتاج ہے۔ جیساکہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے (ترجمہ) ’’انسانو! تم سب اللہ کی بارگاہ کے فقیرہو اور اللہ صاحب ِ دولت اور قابلِ حمد و ثناہے۔‘‘ دعاکرنے والے کو ہمیشہ اپنے محتاج اور خداوند ِ عالم کے مختار ہو نے کا احساس ہونا چاہیے۔ جتنا بھی انسان اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں خود کو محتاج ظاہر کرے گا، اتنا ہی اللہ کی رحمت سے قریب رہے گا، اور اگر تکبر کر کے اپنی حاجت اورضرورت کو اُس کے سامنے پیش نہیں کرے گا تو اللہ کی رحمت سے دور ہوتا جائے گا۔
تیسرا دعا (بندے کا خدا سے مانگنا) ہے۔ دعا میں بندے کا اپنے آپ کو اللہ کے سامنے پیش کرنا، جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ (ترجمہ) ’’اے پروردگار! ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد مانگتے ہیں۔‘‘ مسلمانوں کے لیے اللہ کے نزدیک حاجتیں پوری کرنے کے لیے دعا مانگنے اور اللہ عز و جل سے مدد طلب کرنے سے بہتر کوئی اور چیز نہیں ہے۔ دعا کے ذریعے مصائب و بلا کے دروازوں کو بند کیا جا سکتا ہے۔ انسان اور رب کے درمیان رابطہ قائم کرنے کا ذریعہ دعا ہے۔ اللہ سے مانگتے وقت انسان اپنے تمام اختیارات کا مالک خدا کو سمجھے، یعنی خدا کے سوا کوئی اس کی دعا قبول نہیں کرسکتا۔ (ترجمہ) ’’بھلا وہ کون ہے (سوائے خدا کے)، جو مجبور کی فریاد کو سنتا ہے، جب وہ اس کو آوازدیتا ہے اور اس کی مصیبت کو دورکردیتا ہے۔‘‘
دعا کی قدر و قیمت بہت زیادہ ہے۔ جب بھی انسان کی حاجت اللہ کی طرف عظیم ہوگی اور وہ اللہ کا زیادہ محتاج ہوگا، اتنا ہی دعا کے ذریعے اللہ کی طرف زیادہ متوجہ ہوگا۔ جتنا اللہ کی طرف متوجہ رہے گا، اتنا ہی اللہ کی رحمت سے قریب ہوگا۔ اس کے برعکس بھی ایسا ہی ہے یعنی جتنا انسان اپنے کو بے نیاز محسوس کرے گا، اللہ سے دور ہوتا جائے گا۔
چوتھا، مدعولہ (وہ حاجت اور ضرورت، جو بندہ خداوندِ قدوس سے طلب کرتا ہے): بارگاہِ الٰہی میں راز و نیاز اور مانگنا صرف بزرگانِِ دین کے الفاظ اور دعاؤں پر منحصر نہیں ہے، بلکہ انسان اس مقام پر آزاد و خودمختار ہے اور ہر حالت میں اور ہر جگہ اور ہر زبان میں اللہ کی بارگاہ میں اپنی حاجت پیش کرسکتا ہے۔ انسان کے لیے خداوندِ عالم سے چھوٹی سے چھوٹی حاجت طلب کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، یہاں تک کہ وہ اپنے لیے جوتا اور جانوروں کے لیے چارہ، اور اپنے لیے آٹا و نمک بھی مانگ سکتا ہے، لیکن سب سے اچھی بات یہ ہے کہ انسان انبیائے کرام علیہ السلام، صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین اور بزرگانِ دین کے بتائے کلمات اور الفاظ سے اللہ تعالیٰ کے ساتھ مناجات کرے، کیوں کہ یہ اللہ تعالیٰ کی معرفت ہم سے زیادہ رکھتے ہیں۔
اورانہی دعاؤں کا ’’اللّھُمّ ‘‘ ایک خزینہ ہے۔ دعا کا کون سا پہلو ہے جو ظفر اللہ خان نے اپنی کتاب میں بیان نہیں کیا! قرآن مجید میں دعا کی عظمت، اسلام میں دعا کی اہمیت اور فلسفہ، احادیثِ مبارکہ میں دعا کی فضیلت، دعا کے آداب، دعا میں خشوع و خضوع، صبر کی تلقین، تنگی و فراخی اور خوشی و غمی ہر حال میں بندے کو عاجزی کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگتے رہنا چاہیے، دعا میں اپنی آواز کو نہ تو بہت زیادہ بلند کیا جائے اور نہ ہی بالکل پست بلکہ اعتدال سے کام لینا چاہیے، دعا صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہی سے کرنی چاہیے جو وحدہٗ لاشریک ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’اپنی ضروریات میں سے جو بھی مانگناچاہتے ہو، اللہ تعالیٰ ہی سے مانگو، یہاں تک کہ اپنے جوتے کا تسمہ بھی،کیوں کہ اگراس کی رضا نہ ہوئی، تو وہ بھی عطا نہیں ہوگا۔‘‘
’اللّھُممیں بے شمار اور ہر موقع کی دعائیں ہر خاص و عام کے استفادے کے لیے موجود ہیں۔ لفظ ’’رَبّنَا‘‘ سے شروع ہونے والی چند قرآنی دعائیں دی گئی ہیں جس کے بعد ’اللّھُمسے شروع ہونے والی قرآنی دعائیں ہیں، اور لفظ ’’رب‘‘ سے شروع ہونے والی قرآنی دعائیں بھی ہیں، جس کے بعد قرآن پاک میں منقول انبیاء علیہم السلام کی دعائیں ہیں۔ حضرت آدمؑ، حضرت نوح ؑ، حضرت ابراہیم ؑ، حضرت لوطؑ، حضرت یعقوبؑ، حضرت یوسفؑ، حضرت ایوبؑ، حضرت شعیبؑ، حضرت موسیٰؑ،حضرت سلیمانؑ، حضرت یونسؑ، حضرت زکریاؑ، حضرت عیسیٰ ؑ اور ہمارے پیارے آقا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعائیں بھی شامل ہیں۔ یہ اتنا بڑا خزانہ ہے جسے استعمال کرنے والا ہر فرد اللہ رب العزت کا قرب حاصل کرسکتا ہے۔ پھر عمومی مسنون دعائیں، اور خصوصی مسنون دعائوں کے علاوہ مختلف مواقع کے لیے خاص دعائیں، جیسے ملاقات کے وقت کی دعا، صبح اور شام کی دعا، سونے سے پہلے کی دعا، گھر سے باہر نکلنے کی دعا، بچوں کی حفاظت کی دعا، کھانا کھانے کی دعا، مسجد میں داخل ہونے اور باہر آنے کی دعا، اَذان کے بعد کی دعائیں، سجدے کی دعا، بیمار کی عیادت کی دعا، موت سے پہلے پڑھی جانے والی دعائیں، انتہائی مشکل وقت کی دعا، ایمان میں کمزوری آجانے پر پڑھی جانے والی دعا، گناہ سرزد ہونے پر معافی کی دعا، قرض سے بچنے کی دعا، دنیا اور آخرت کی بھلائی کی دعا۔ یہ محض دعا کے چند عنوانات ہیں۔ کتاب کے آخر میں ’’حاصلِ کتاب‘‘ کے عنوان سے کچھ نتائج بھی پیش کیے گئے ہیں جیسا کہ عقیدۂ دعا، دعا کے فوائد، دعا میں کیا مانگنا چاہیے، دعا میں کیا نہیں مانگنا چاہیے، دعا کے آداب، دعا کے اوقات، وہ مقامات جہاں دعا جلد قبول ہوتی ہے۔
ظفر اللہ خان صاحب نے اس کتاب میں بے شمار اور دعائیں بھی دی ہیں اور اپنی اور ہر استفادہ کرنے والے کی آخرت کا عمدہ سامان کرلیا ہے۔ اللہ ان کو اس بے مثال کتاب کے لکھنے اور شاہد اعوان کو شائع کرنے پراجر سے نوازے، آمین۔

حصہ