ڈھونڈھوگے ہمیں ملکوں ملکوں

511

افشاں نوید

جب ہوا چلے گی تو خوشبو میری بھی پھیلے گی
میں چھوڑ آئی ہوں پیڑوں پہ اپنے ہاتھ کا رنگ

سب سے اچھا رنگ تو صبغۃ اللہ ہے۔ وہ اس رنگ میں رنگی ہوئی تھی۔ اس کی خوشبو کو پھیلنے کے لیے موسمِ بہار کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ تو خوشبو کی طرح دل میں بستی ہے۔ بات یہ نہیں کون کتنا جیا؟ اہم یہ بات ہے کہ کون کیسے جیا؟؟
عیدِ قربان کے موقع پر جب لوگ اپنی قربانیوں کی فکر میں لگے ہوتے ہیں، اللہ کی مخلوق میں کچھ ایسے بھی ہیں جو اس فکر میں ہوتے ہیں کہ شہروں، قصبوں میں کوئی گوشت سے محروم نہ رہ جائے۔کسی سے لیتے ہیں، کسی کو دیتے ہیں۔ کراچی سے کسی کے بکرے گلگت میں ذبح ہورہے ہیں تو کسی کی گائے چکدرہ میں، کسی کی سبی میں۔ لاہور کے ساتھیوں کی قربانیاں کہیں خیبر پختون خوا کے مستحقین کے لیے، کہیں سندھ کے پسماندہ لوگوں کے لیے… یہی اسلامی اخوت ہے۔ اس روئے زمین پر ایسے بھی لوگ ہیں جو اپنی زندگی خلق کی بھلائی کے لیے وقف کیے ہوئے ہیں۔
لوگ کہتے ہیں: یہ عجیب لوگ ہیں، اپنے لیے جینا ہی نہیں جانتے۔ زندگی ایک بار ہی ملتی ہے، ایسا بھی کیا کہ اپنے لیے نہ جیو…!
عید الاضحی میں ایک دن باقی ہے۔ شبانہ کے ہاتھوں میں بھی مسلسل فون ہے… یہ گائے وہاں ہوجائے، ان بکروں کے پیسے وہاں چلے جائیں، فلاں ضلع کے لیے ابھی بندوبست نہیں ہوسکا ہے، فلاں سے بات کرکے دیکھتے ہیں، فلاں ناظمہ کو تسلی دو جلد ہی ان کے ضلع کی ڈیمانڈ پوری کردیں گے… سارا سارا دن یہی گفتگو۔ عید سے ایک روز قبل جو ڈھیروں کپڑے دھلتے دیکھے تو میاں نے احتجاج کیا: اتنے کاموں میں مشین اور لگالی؟ بولی: عید سے قبل ہی نمٹ جائیں سب کام تو اچھا ہے… مگر مشین میں پڑے وہ کپڑے اس کے لمس کے منتظر ہی رہ گئے۔ کپڑے دھوتے ہوئے دماغ کو ایک جھٹکا لگا اور وہ ہائے درد کہہ کر ہاتھوں میں آگئی۔ بولی: محسوس ہورہا ہے دماغ کو کسی نے شدید ضربیں لگائی ہیں۔
اسپتال لے جایا گیا تو معلوم ہوا کہ برین ہیمبرج ہوا ہے۔ کوئٹہ کے ڈاکٹروں نے کراچی لے جانے کا مشورہ دیا کہ وہاں نسبتاً بہتر اور جلد طبی سہولیات میسر ہوں گی۔ جلدی تو تھی اُسے۔ اچھا ہوا جلدی جلدی سب کام نمٹا گئی۔ ’’پینتیس برس کی عمر بھی کوئی جانے کی عمر ہوتی ہے؟‘‘ یہ تو ہم کہتے ہیں۔ پیدا کرنے والے نے تو پیشانی پر نہیں لکھا کہ کتنی عمر دی گئی ہے۔ جب چاہے گا بلا لے گا۔
گیارہ برس کی بڑی بیٹی ہے، پانچ برس کا چھوٹا۔ دو درمیان کے۔ چاروں معصوم بچے شاید حیران ہورہے ہوں کہ یہ کیا ہوگیا! وقتِ تحریر شبانہ کی قبر تیار ہوچکی ہوگی۔عشاء میں نماز ِجنازہ ہے۔
وہ رب کی مہمان ہوئی۔ذرا دیر میں اپنے اگلے گھر لحد کو آباد کر دے گی۔
مختصر سی زندگی میں مقصدِ زندگی نبھا گئی۔ بچے تو وہ پال دے گا جو ماؤں سے ستّر گنا زیادہ پیار کرتا ہے۔ ہم مائیں سمجھتی ہیں ہم پال رہے ہیں اولاد۔ کیا کیا جتن نہیں کرتے… مائیں نمازوں سے غافل ہوجاتی ہیں، باپ حرام کمائی پر مجبور پاتے ہیں خود کو، کہ اولاد کے لیے یہ سب کرنا پڑا… سوچنا اپنے لیے چاہیے کہ خدا کو کیا منہ دکھائیں گے؟
شبانہ نے جس کے دین کی سربلندی کے لیے خود کو وقف کیا وہ رب کیونکر اس کے کنبے کو تنہا چھوڑے گا…؟ اس عمر میں وہ صوبہ بلوچستان کی ناظمہ تھی۔کتنی بھاری ذمہ داری ہوتی ہے صوبے کی نظامت۔ جب اس کو استصواب کے فیصلے کی اطلاع دی گئی تو اس نے قیّمہ سے نہ گھرداری کا عذر رکھا، نہ بچوں کی مصروفیات بیان کیں… بس اتنا کہا کہ اللہ نے یہ ذمہ داری ڈالی ہے تو دعا کریں کہ مجھے استقامت عطا فرمائے۔ میری وجہ سے تحریک کو کوئی نقصان نہ اٹھانا پڑے۔ میں اس اعتماد پر پوری اتروں جو مجھ پر کیا گیا ہے۔
پھر اس نے تن، من، دھن سب ہی کچھ لگا دیا۔ گھر، بچوں، تحریک سب کے تقاضے ساتھ ساتھ نبھاتی تھی۔ کتنی گواہیاں اس کے اخلاص، اس کے کردار کی نہ صرف زبانوں بلکہ سوشل میڈیا پر بکھری پڑی ہیں۔ اس کی بیماری کی اطلاع سے وفات کے بعد تک چاہے فیس بُک ہو یا واٹس ایپ گروپس… ہر جگہ اس کے لیے دعائیں تھیں۔ پورے پاکستان کے تحریکی حلقوں کا موضوع اس کی خوبیاں، اس کی قربانیاں، اس کے کردار کی گواہی تھی۔ اللہ کو کتنی محبوب تھی وہ، تب ہی تو خلق کے دلوں میں بستی تھی۔
مولا! اس ایک ہفتے میں جب سے برین ہیمبرج کی اطلاع ملی تھی، ہزاروں لوگوں نے آپ سے اُس کی زندگی مانگی تھی۔ اس کے بچوں کی ممتا کی ٹھنڈک کی سلامتی مانگی تھی۔ آپ بہتر جانتے ہیں، آپ کے فیصلے ہی برحق ہیں۔ ہماری ان دعاؤں کو اُس کی قبر کی روشنی اور ٹھنڈک بنا دیجیے گا، اس کے خاندان کے والی وارث آپ ہیں مولا۔
اس کی قبر جس کو آباد کرنے، بسانے وہ آیا ہی چاہتی ہے مولا ماں کی گود جیسا ٹھنڈا فرما دیجیے گا۔
بہت دکھی دل سے یہ چراغ مٹی کے حوالے کررہے ہیں مولا۔ اس کی ضوفشانی سے اس دیس کو، اس کی بستی کو منور رکھیے گا۔
دل غمگین ہیں مولا، زبان وہی کہے گی جس سے آپ راضی ہوں
انا للہ وانا الیہ راجعون۔ بے شک ہم آپ ہی کے ہیں،آپ ہی کی طرف پلٹ کر جانے والے ہیں۔
تعزیتی ریفرنس بیاد شبانہ اعجاز۔ ناظمہ صوبہ بلوچستان
آج کراچی کے اجتماعِ ارکان کو تعزیتی ریفرنس میں بدل دیا گیا۔ اسلامی اجتماعیت کیا چیز ہوتی ہے۔ جن ساتھیوں نے کبھی شبانہ کو دیکھا نہ سنا، اُس کے تذکرے پر سب کی آنکھوں کے گوشے نم تھے۔ ریفرنس کو خود قیّمہ پاکستان دردانہ صدیقی نے کنڈکٹ کراکے شبانہ کو خراج تحسین پیش کیا۔ فضا بے حد سوگوار تھی۔ شبانہ کے اپنے خاندان کی تنہائی تو بجا، آج کوئی شبانہ کے اس بڑے خاندان کی سسکیاں اور آنسو دیکھتا۔ شبانہ کی جدائی ہر ایک کو مغموم کیے ہوئے تھی۔ اجتماعیت کے تاج کا ایک ہیرا جدا ہوگیا۔
امت الرقیب صاحبہ جن کی گود میں وہ پلی بڑھی، شدتِ جذبات پر قابو نہ پا سکیں۔ بولیں ’’میں چھوٹی سی شبانہ کا ذکر کروں کہ جمعیت کی شبانہ، یا دلہن بنی گڑیا سی شبانہ، ناظمہ صوبہ کی بھاری ذمہ داری سنبھالے شبانہ، یا وہ شبانہ جس کو اب مرحومہ کہنا ہے!!! جس کا تعزیتی ریفرنس ہورہا ہے‘‘… دائیں بائیں سب ہی رو دیے یہ سن کر۔
نائب ناظمہ صوبہ رخشندہ نے اُس کے احساسِ ذمہ داری کی کتنی ہی باتیں دہرائیں کہ ایک مرتبہ غلطی سے صوبہ سندھ کا کارٹن اس کے سامان میں چلا گیا، وہ واپس گھر جانے کے بجائے پہلے اسٹیشن گئی، سکھر کی بلٹی کراکے مجھے اطلاع دی، پھر اپنے گھر گئی۔ حالانکہ اس کا سامان سندھ کے دفتر میں رہ گیا لیکن وہ سارا راستہ رابطے میں رہی کہ آپ کا کارٹن پہنچتے ہی آگے روانہ کردوں گی، آپ پریشان نہ ہوں۔ اس کو اپنے رہ جانے والے سامان کی فکر نہ تھی۔ جب کہ اس کے سامان میں تو اس کی ذاتی اشیاء اور بچوں کے استعمال کی کتنی چیزیں ہوںٖ گی۔
دردانہ صدیقی نے کہا ’’میں جب کراچی میں اس سے ملنے اسپتال پہنچی تو میری کیفیت دیکھ کر نرس بولی ’’آپ کون ہیں ان کی؟‘‘ میں نے کہا ’’بہن‘‘۔ وہ آوازیں دیتے ہوئے بولی ’’شبانہ اٹھو، دیکھو بہن آئی ہے، پکار رہی ہے تمہیں، کچھ تو بولو شبانہ‘‘۔ مگر شبانہ روٹھ گئی تھی اس دنیا سے، اس فانی و بے حقیقت دنیا سے‘‘۔ قیمہ صاحبہ حالیہ دورہ بلوچستان کا ذکر کرنے لگیں کہ ’’کس قدر احساسِ ذمہ داری تھا اس کے اندر، سیکھنے کی جستجو، انتہائی اطاعتِ امر۔ میں تو بہت کچھ پلان کرکے آئی تھی شبانہ کے ساتھ بلوچستان کی تنظیمی بہتری کے حوالے سے، مگر مجھے کیا پتا تھا کہ میری بہن…‘‘ جب دردانہ صدیقی نے اپنا سر روسٹرم پر ٹکا دیا سسکیاں لیتے ہوئے… پھر کچھ بھی نہ بچا کہنے کو اور سننے کو۔ سب جذبے جو زبان بن گئے، جو آنسوؤں میں ڈھل گئے،جو ٹشو میں جذب ہوگئے یا دوپٹے کے پلو میں۔
عائشہ منور مارے شدتِ جذبات کے اسٹیج کی سیڑھیاں نہ چڑھ سکیں اور سامنے ہی بیٹھ گئیں حاضرین کے۔ نظر بھر کر انھوں نے ارکان کو دیکھا تو ایک پیغام نظروں سے نظروں کو منتقل ہوا کہ… ایسا درس سنا ہے کہیں، ایسی کتاب پڑھی ہے کوئی، ایسا کوئی لیکچر ہے یادداشت میں محفوظ؟ جو درسِ عبرت شبانہ دے کر گئی ہے،کتنا بڑا درس دے گئی اپنی مختصر کتابِ زندگی کا آخری ورق الٹ کر کہ… سکھیو، سہیلیو! جلدی کرو ملن کی گھڑی قریب آلگی ہے،کب آجائے یہ نہیں پتا۔ بہت مغالطے میں نہ رہنا لمبی عمر کے… میری ہمدم دیرینہ جلد ملیں گے… بس ذرا جلدی سمیٹ لینا زادِراہ…
عائشہ باجی کی پُرنم دعا پر یہ تعزیتی ریفرنس اختتام پذیر ہوا اور شبانہ کی خوشبو پھیل گئی چہارسمت… زمین سے افق تک۔
شبانہ کے شوہر اعجاز صاحب کی گواہی
انا للہ و اِنا الیہ راجعون
ہم نے خیر مانگی تھی… ہم نے شفا مانگی تھی… ہم نے بچوں پہ رحم مانگا تھا… ہم نے چاہا تھا جو دنیا آخرت کے لیے بہتر، وہ کردیں!
اب جو اللہ احکم الحاکمین نے کیا اس پہ راضی ہیں۔ صبر دینے والی ذات وہی ہے۔
شبانہ اللہ تم پر رحمتوں کی برکھا برسائے۔ اللہ حی القیوم ہے، اسے زندگی دینا کوئی مشکل نہ تھا۔
آنکھ آنسو بہاتی ہے، دل غمگین ہے، مگر اس کے باوجود ہم وہی بات کہیں گے جس سے ہمارا رب راضی ہو۔ اور ہم اے شبانہ تمہاری جدائی کے سبب غمگین ہیں۔ تم بالکل ہی الگ تھیں، تم جیسا دنیا میں کوئی ہے میں تصور بھی نہیں کرسکتا۔ آہ تم ہمیں روتا چھوڑ کے اتنی جلدی چلی گئیں جبکہ تم تو بہت زیادہ کیئر نگ تھیں، کسی کو دُکھی کرنے کا تو سوچ بھی نہیں سکتی تھیں، تم مجھے کہتی تھیں اعجاز مجھ سے ناراض کبھی نہ ہونا میں مر جاؤں گی۔ شبانہ میں تم سے بہت راضی ہوں اور اللہ بھی تم سے بہت راضی ہوں، اور حدیث کے مصداق: جس کا شوہر اس سے راضی ہو جنت کے آٹھوں دروازوں میں سے جس سے بھی چاہو داخل ہوجاؤ۔
جنت میں ملاقات ہو گی
اللہ حافظ

حصہ