دوپٹے سے عبائے تک

609

پروفیسر در شہوار قادری
عصرِ حاضر کی ڈکشنری کے مطابق واردات اُسے کہا جاتا ہے جو گن پوائنٹ پر کی جائے، یا پھر آپ اچانک ڈاکوئوں کے ہتھے چڑھ جائیں۔ آج میں جس واردات کی داستان اپنے قارئین سے شیئر کررہی ہوں وہ اُس روایتی واردات سے قطعی مختلف ہے۔ آپ یقینا جاننا چاہیں گے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ مذکورہ واردات قلب پر کس طرح اثر انداز ہوئی۔ آیئے، سنیے اور سر دھنیے۔
الحمدللہ میرا تعلق ایک پڑھے لکھے اور متوسط گھرانے سے ہے، جہاں خواتین میں تعلیم کا رواج گزشتہ کئی دہائیوں سے عام ہے۔ دنیاوی تعلیم کے ساتھ دینی تعلیم بھی لازم و ملزوم سمجھی جاتی رہی ہے۔ وضع داری، حقوق العباد کی ادائیگی، اللہ کے بندوں کے کام آنا اور ان جیسے بہت سے معاملات پر ہمارے گھرانوں میں بہت زور دیا جاتا ہے۔ یہ سب بتانے کا مقصد صرف یہ ہے کہ میری فیملی کو جدید اور آزاد خیال ہرگز نہ تصور کرلیا جائے۔ ہاں صرف ایک پہلو جسے حجاب کہا جاتا ہے، اُس کا ہمارے خاندان میں کوئی رجحان نہیں تھا۔ (ہمارے بزرگوں کا خیال تھا کہ اگر دوپٹہ ’’صحیح انداز‘‘ میں یوں لے لیا جائے کہ جسم کی نمائش نہ ہو تب بھی ٹھیک ہے۔)
بہرحال بچپن سے لے کر آج تک زندگی کے مدارج روایتی انداز میں طے ہوتے گئے۔ تعلیم حاصل کی، شادی ہوئی، تدریس کے پیشے میں داخل ہوئی۔ اللہ کے فضل و کرم سے آج ایک معروف یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے عہدے پر فائز ہوں، جب کہ دیگر مشاغل میں اردو اور انگریزی روزناموں میں مزاحیہ کالم نگاری شامل ہے۔
دنیا کے جھمیلوں اور مصروفیات کے درمیان اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کا ساتھ نصیب کردیا جو لوگوں کو دین کی طرف بلاتے ہیں اور انہیں اللہ کے احکامات سے آگاہ کرتے ہیں۔ میری خوش نصیبی ہے کہ میرے پڑوس (گلشن اقبال) میں ڈاکٹر سجیلہ مہر کے درسِ قرآن کی کلاسیں اٹینڈ کرنے کا مجھے موقع ملا۔ ان محفلوں سے جہاں مجھے شعور و آگہی حاصل ہوئی، وہیں روحانی و قلبی سکون کی نعمتوں کا حصول بھی ہوا۔ پھر اللہ کا کرنا یہ ہوا کہ قرآنِ پاک کے ترجمے اور تفسیر والی کلاس میں تنویر آپا (تنویر خانم) کی شاگردی کی توفیق ملی۔ پھر تو دل و دماغ میں تبدیلی کی باقاعدہ تحریکیں جنم لینے لگیں۔ (واضح رہے کہ مذکورہ تحریکوں کا ہمارے وطن کی سیاسی تحریکوں سے قطعی کوئی تعلق نہیں) یہ وہ تحریکیں تھیں جو بندے کو معبود کے قریب لانے کا کام انجام دیتی ہیں۔ زندگی کے امور پہلے بھی طے ہوتے تھے۔ صبحیں، شامیں پہلے بھی ہوا کرتی تھیں۔ معاملاتِ زندگی پہلے بھی نبٹائے جاتے تھے۔ مگر مذکورہ معلمات کی صحبت و رہنمائی نے زندگی کے معاملات کا دھارا رب کی جانب موڑ دیا، مثلاً اب یوں ہونے لگا کہ آٹا گوندھتے وقت، گاڑی ڈرائیو کرتے وقت، کپڑے استری کرتے ہوئے یا دیگر گھریلو امور نبٹاتے ہوئے زبان اللہ تعالیٰ کے کلام میں مشغول رہنے لگی۔ اب کوشش ہوتی ہے کہ سوچ مثبت اور تعمیری ہوجائے تب ہی عمل پر اثر پڑتا ہے۔ ہر کام سے پہلے اپنی نیت کو خالص کرلینا، زبان کی حفاظت، حقوق العباد کی ادائیگی کی فکر کرنا، زبان ذکرِ الٰہی سے تر رہے، فضول دنیاوی سوچوں کے دھارے اب عافیت کی راہ پر چل پڑے ہیں۔ کسی مریض کی عیادت کو جانا ہو، انتقال پر تعزیت یا خوشی کے موقع پر مبارک باد کو جانا ہو تو پیش نظر اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات اور خوشنودی ہو کہ میرا رب راضی ہوجائے اور ان معاملات کا اجر اس کے دربار سے عطا ہو۔ ہمارا آپس میں ملنا بیٹھنا اور جمع ہونا حتی الامکان اللہ کی رضا کے لیے ہو۔ اپنے اندر کی اس تبدیلی کو میں بہت بڑی سعادت تصور کرتی ہوں کہ اگر اس ننھی منی سی مثبت تبدیلی کو اللہ کی بارگاہ میں مقبولیت حاصل ہوجائے تو کس قدر خوش نصیبی کی بات ہو۔
قارئین کرام! اب کیفیت کچھ یوں ہوگئی ہے کہ دوستی اور دشمنی، پسند اور ناپسند کا تعلق اللہ رب العزت سے جڑ جائے۔ شدت سے خواہش جنم لیتی ہے کہ روزِ حشر مجھے یہ صدا سنائی دے:

توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے
یہ بندہ دو عالم سے خفا میرے لیے ہے

وارداتِ قلبی اور کیفیاتِ ذہنی سے ایک قدم اور آگے بڑھتے ہیں۔ یہاں اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے میری زندگی میں ایک اور خوش گوار تبدیلی پیدا ہوئی۔ ہوا یوں کہ گزشتہ سال استقبالِ رمضان کے سلسلے میں ڈاکٹر سجیلہ اپنے دل کش اندازِ خطابت میں سامع خواتین سے کہہ رہی تھیں کہ ’’کوشش کیجیے کہ آنے والا رمضان المبارک ہماری زندگیوں میں زبردست تبدیلیاں لے کر آئے اور ہم اللہ کے حضور اپنی کمائیوں کو فخریہ انداز میں پیش کرسکیں۔‘‘ دل نے سوچا کہ ایسی کیا تبدیلی اپنے اندر لائوں؟ فوراً ہی جواب آیا کہ ’’عبایا لے لو‘‘۔ یہ وہ لمحہ تھا کہ دل و دماغ کے درمیان بحث و مباحثہ چل نکلا۔ عبائے کی موافقت میں جو دلائل تھے وہ بہت تھوڑی تعداد میں تھے، جب کہ مخالفت میں بہت بھاری، وزنی توجیہات (دنیاوی لحاظ سے) میرے سامنے پنجہ آزمائی کررہی تھیں، مثلاً ایک بھرپور ڈانٹ ایک طرف سے آئی کہ اپنی جسامت دیکھی ہے تم نے… ایک تو قدم تمہارا چھوٹا، پھر تم موٹی بھی ہو، عبایا پہن کر چلتے ہوئے اردو کا ۸ (آٹھ) کا ہندسہ دکھائی دو گی، جیسے کوئی گھڑی چلی جارہی ہو اور تم اپنی عمر سے پورے دس سال بڑی بھی لگو گی۔ آج جو تمہاری سہیلیاں تمہیں Compliments دیتی ہیں کہ ’’لگتا نہیں ہے کہ تم ایک پیارے سے پوتے کی دادی ہو…‘‘ دوسری آواز نے مجھ پر مزید نفسیاتی وار کیا کہ ابھی تو تم اپنے بیٹے کی چھوٹی بہن لگتی ہو، مگر عبایا میں اماں جی دکھائی دو گی۔
یہ حقیقت ہے کہ ہر عورت کی طرح فطری خوشی مجھے بھی محسوس ہوتی تھی کہ جب مجھے خوش لباسی کے ساتھ اچھا نظر آنے کے تعریفی کلمات سننے کو ملتے تھے۔ میری طالبات مجھے کلاس میں سرتاپا ’’فل میچنگ‘‘ میں دیکھ کر بہت سراہتی تھیں۔ میراخیال تھا کہ میری کلاس کے بہترین رزلٹ کی ایک وجہ طلبہ و طالبات کا مکمل توجہ کے ساتھ میرے پڑھائے ہوئے کو سمجھنا اور اس میں دل چسپی لینا ہے، گویا یہ بھی ایک دلیل تھی جو مجھے عبایا پہننے سے روک رہی تھی کہ میڈم عبایا پہننے کے بعد نہ آپ کو کوئی سنے گا اور نہ آپ کی سنے گا، اور پھر رزلٹ برآمد ہوگا صفر… حضرتِ دل نے ایک اور مشورہ دیا کہ ابھی گرمیوں کا موسم ہے، جب سردیاں آجائیں تب پہن لینا (گویا دین کے احکامات بھی سیزن سے مشروط ہونے لگے)۔
ادھر ایک اور سمت سے ایک بھاری بھرکم دلیل مجھے قائل کرنے لگی کہ محترمہ آپ جو ساڑھیاں باندھنے کی اتنی شوقین ہیں کہ ان کی خریداری کے لیے کراچی کے بڑے بڑے شاپنگ سینٹرز سے لے کر دبئی اور انڈیا سے خوب صورت اور منفرد ڈیزائن کی ساڑھیاں جمع کر رکھی ہیں، اب ان ساڑھیوں سے بھرے سوٹ کیسوں کا کیا بنے گا؟ عبایا پہن کر تو ساڑھی اندر چھپ گئی ناں… ہائے ہائے کس قدر دیدہ زیب کامدانی اور کشیدہ کاری کی آرڈر پر تیار کرائی تھیں یہ ساڑھیاں… ایک اور تنبیہ مجھے ملی کہ تم جیولری کی بھی بہت شوقین تھیں کہ اپنے سوٹوں سے میچنگ ٹاپس، لاکٹ اور موتیوں کی مالائیں ہر رنگ میں جمع کر رکھی تھیں۔ عبایا اپنانے کے بعد تو وہ سارے کے سارے سیٹ بے کار ہوجائیں گے، کون دیکھے گا تمہاری میچنگ…! گویا تمام توپوں کے دہانے میری جانب گولہ باری کررہے تھے۔ مزے کی بات یہ کہ وہ تھے بھی سب ڈرون حملے، یعنی بغیر پائیلٹ کے۔ عبایا کی مخالفت میں یہ سارے دلائل خود ساختہ تھے۔ ایک بہانہ میرے پاس اپنے امریکا پلٹ شوہر کا تھا جو امریکی روشن خیالی کے ہمارے گھر میں ترجمان بن کے حال ہی میں لوٹے تھے۔ میرا خیال تھا کہ وہ مجھے عبایا میں دیکھ کر شدید ردعمل کا اظہار کریں گے، لہٰذا ان کے کندھے پر بندوق رکھتے ہوئے مجھے عبائے کا خیال ہمیشہ کے لیے ترک کردینا چاہیے۔
الغرض ایک کشمکش تھی دل اور دماغ کے درمیان، جس کی وجہ سے فیصلہ کرنے میں ہچکچاہٹ ہورہی تھی۔ پھر جھجکتے جھجکتے ہم نے عبایا خرید لیا اور جزوی طور پر پہننے کا فیصلہ کرڈالا، وہ اس طرح کہ بازار وغیرہ جاتے ہوئے ہم عبایا پہن لیتے تھے، جب کہ یونیورسٹی اور پارٹیوں میں بڑے اور کھلے دوپٹے سے کام چلا لیا جاتا… سچ پوچھیے تو عبایا کا یہ جزوی پہناوا بھی دل میں خلش پیدا کررہا تھا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ حدیث بار بار ذہن میں آتی کہ گناہ وہ ہے جو تمہارے دل میں کھٹک پیدا کرے… واقعی انسانی ضمیر ہماری کتنی زبردست رہنمائی کرتا ہے، ہم اس کا اندازہ نہیں کرسکتے۔ بالآخر ہم نے اپنے آپ کو مشرف بہ عبایا کر ہی لیا۔ سرِ تسلیم خم کر ڈالا اپنے رب کے حضور، کہ جس نے مسلمان عورت کو ستر ڈھانپنے کا حکم دیا ہے۔ پھر ہم کون ہوتے ہیں اپنے مالکِ حقیقی کی حکم عدولی کرنے والے!
الحمدللہ آج میں اپنے آپ کو عبایا میں بہت پُرسکون، مطمئن اور محفوظ محسوس کرتی ہوں۔ کیا یہ اللہ کا بہت زبردست انعام نہیں ہے! یقین جانیے کہ زندگی اب پہلے سے بہت زیادہ سادہ اور آسان ہوگئی ہے۔ اب ملبوسات سے متعلقہ لوازمات کی ضرورت محسوس ہوتی ہے اور نہ ہی کسی تقریب میں جانے کے لیے گھنٹوں پہلے اہتمام کے مراحل درکار ہیں۔
ہماری وہ بہنیں جو آسان زندگی کی اس لذت سے ابھی تک آشنا نہیں ہیں، وہ قدم بڑھائیں، اللہ کی مدد ان کے ساتھ ہوگی۔

کیا ڈر ہے جو ہو ساری خدائی بھی مخالف
کافی ہے اگر ایک خدا میرے لیے ہے

حصہ