تعویذ

1152

ہادیہ امین
موبائل فون مستقل بجے جا رہا تھا، قرآن کی کلاس چل رہی تھی اس لیے شبانہ باجی نے فون سائلنٹ کردیا، مگر وائبریشن کی وجہ سے توجہ بار بار اس کی طرف جارہی تھی۔ کلاس کے بعد موبائل دیکھا، ان کے شوہر کی خالہ زاد بہن کی 27 مس کالز تھیں۔ شبانہ باجی پریشان ہوگئیں… اللہ خیر کرے۔ کال بیک کرنے لگیں تو خود ہی فون بج گیا۔
’’السلام علیکم! ہاں فضیلہ میں تمہیں ہی فون کررہی تھی، کلاس کی وجہ سے موبائل سائلنٹ پر تھا، سب خیریت ہے؟‘‘
دوسری طرف سے گھبرائی ہوئی آواز محسوس ہورہی تھی ’’شبانہ باجی وہ گلستان…وہ…وہ…‘‘
’’کیا ہوا گلستان کو، سب خیریت ہے؟‘‘
گلستان فضیلہ کی چھوٹی بہن تھی۔ شبانہ باجی غسلِ میت کا نیک کام بھی کرتی تھیں۔ فضیلہ کی گھبرائی ہوئی آواز سے ان کا ذہن کسی اور طرف جانے لگا۔
’‘شبانہ باجی! ایک مسئلہ ہوگیا۔ لمبی کہانی ہے، فون پر نہیں سنا سکتی، آپ کی مہربانی ہوگی اگر آپ گلستان کے گھر آجائیں،آپ کا احسان ہمیشہ…‘‘ آگے فضیلہ سے بولا نہ گیا۔
’’اچھا میں آتی ہوں۔‘‘ شبانہ باجی نے فوراً ڈرائیور سے کہہ کر گاڑی گلستان کے گھر کی طرف مڑوا لی۔ وہ کبھی گلستان کے گھر گئی نہیں تھیں مگر راستہ ان کو معلوم تھا۔ وہ سمجھیں گلستان کے فلیٹ کے باہر رش ہوگا، مگر توقع کے برعکس وہاں خاموشی تھی۔ ’’شاید میں غلط فلور پر آگئی۔‘‘ انہوں نے سوچا، مگر یادداشت بتا رہی تھی گلستان کا فلیٹ چوتھے فلور پہ ہی تھا۔ انہوں نے دروازے پر لگی گھنٹی بجائی، دروازہ فضیلہ نے کھولا۔
’’السلام علیکم!‘‘
’’وعلیکم السلام! آئیے شبانہ باجی۔‘‘
فلیٹ اندر سے بہت خوب صورت اور پُرآسائش تھا۔ شبانہ باجی کو داخل ہوتے ہی گلستان نظر آگئی۔ روئی روئی سی آنکھیں۔ ایک دن پہلے ہی فضیلہ اور گلستان شبانہ باجی کے گھر اُن سے ملنے آئیں تھیں، مگر اب گلستان کو دیکھ کر شبانہ باجی کو یکدم ترس آیا۔
’’شبانہ باجی! آپ آرام سے بیٹھ جائیں۔ بات یہ ہے کہ گلستان کو آج اپنے گھر میں ایک تعویذ ملا ہے، اور آج ہی اس کے اوپر مسائل کے انبار آگئے… صبح شوہر سے لڑائی، پھر کام والیاں غائب ہوگئیں، بیٹی بھی اسکول جاتے ہوئے سر درد کی شکایت کرکے گئی ہے…گلستان بہت پریشان ہے… آپ تو جانتی ہیں آج کل جادو ٹونا کتنا بڑھ گیا ہے، ہم سے حسد کرنے والے اور نقصان پہنچانے والے بہت ہیں۔ ہم جانتے ہیں یہ کس کی حرکت ہوسکتی ہے، آپ رہنمائی فرمائیں ہم کیا کریں؟‘‘
شبانہ باجی سمجھ گئیں معاملہ گمبھیر ہے۔ ان دونوں کی والدہ بھی ایک رات کو سوئیں اور پھر صبح نہ اٹھیں… ان دونوں کی عمر تب چودہ اور سولہ سال تھی… تب ہی سے یہ بات مشہور تھی کہ ان کی ماں پر کسی نے جادو کردیا… اور یہی بات اب بھی ان کے ذہنوں میں رچی بسی تھی۔
’’جادو بے شک برحق ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے بچنے کی احتیاطی تدابیر بھی بتائی ہیں، مگر ہر چیز جادو نہیں ہوتی۔ میں جتنا قرآن، حدیث اللہ کے فضل سے جانتی ہوں اُس کے حساب سے رہنمائی کرنے کی کوشش کروں گی، مجھے پوری بات بتائو۔‘‘
گلستان نے رندھی ہوئی آواز میں بولنا شروع کیا: ’’کل شام میں کام ختم کرکے آپ کی طرف چلی آئی،گھر میں کوئی نہیں تھا۔ جھاڑو، پونچھا، سبزی، استری، کپڑے، برتن سب کی ماسیاں کام ختم کرکے جا چکی تھیں۔‘‘
’’یااللہ! اتنی ماسیاں…؟ اتنی نعمتوں میں تو زندگی جنت ہونی چاہیے، نہ جانے ایک تعویذ کی وجہ سے جہنم کیسے ہوگئی؟‘‘ شبانہ باجی نے دل میں سوچا۔
’’پھر میں رات کو تیار ہوکر دعوت میں چلی گئی، واپسی پر خاصی رات ہوگئی تھی، میں سوگئی اور پھر صبح میں اکیلی تھی جب یہ مجھے نظر آیا۔ لاکر دکھائوں آپ کو؟‘‘
’’گلستان بیٹی! جب نیند پوری نہیں ہوتی تو مزاج میں جھنجھلاہٹ آہی جاتی ہے، رات کو تمہارے ہاں سب دیر سے سوئے تھے، اسی لیے صبح تمہاری نوک جھونک ہوگئی ہوگی، اور بیٹی بھی اسی وجہ سے سر درد کی شکایت کررہی تھی۔ رہی بات ماسیوں کی، تو ہوگئی ہوگی کوئی وجہ۔ آج کل کون پریشان نہیں ہے! اپنے ماتحتوں سے اکثر لوگ تنگ ہیں۔ تم کہتی ہو تو تعویذ لاکر دکھا دو، شاید کوئی نکتہ سامنے آئے۔‘‘
ایک منٹ بعد فضیلہ اور گلستان کالے رنگ کا ایک چھوٹا سا چوکور کاغذ کا ٹکڑا لے کر آئیں۔کاغذ کو ایک طرف سے گلستان اور ایک طرف سے فضیلہ پکڑی ہوئی تھی، یہ احتیاط اس وجہ سے تھی کہ کہیں غلطی سے تعویذ پر ہاتھ نہ لگ جائے… شبانہ باجی نے تعویذ کو ہاتھ میں لینا چاہا تو دونوں گویا چیخ پڑیں ’’نہیں نہیں، خدارا نہیں…‘‘
شبانہ باجی نے تعویذ غور سے دیکھا ’’کل تمہاری بیٹی جو کپڑے میرے گھر پہن کر آئی تھی، وہ کہاں سے آئے تھے؟‘‘ شبانہ باجی نے پوچھا۔
’’وہ میں لائی تھی، کل اس نے پہلی دفعہ پہنے تھے۔‘‘ گلستان الجھی ہوئی تھی، جب کہ فضیلہ ستائشی نظروں سے دیکھ رہی تھی جیسے اسے یقین ہو کہ شبانہ باجی معاملے کی تہ تک پہنچ گئی ہیں۔
’’وہ کرتی ذرا لاکر دکھائو۔‘‘
گلستان بجلی کی سی تیزی سے گئی اور فوراً بیٹی کی قمیص لے آئی۔ شبانہ باجی نے کرتی کا دامن نکالا اور اس پر لگے ٹسل زور سے گننے شروع کیے ’’ایک، دو، تین اور چوتھا کہاں ہے گلستان؟‘‘
گلستان اور فضیلہ دونوں حیران تھیں، چوتھے ٹسل کی جگہ محض دھاگا لٹک رہا تھا اور باقی ٹسل ہو بہو تعویذ کی شکل کے تھے۔ شبانہ باجی نے تعویذ بلا خوف اٹھایا اور گلستان کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے بولیں’’پکڑو اور ٹانکو اسے یہاں پہ، اتنی سی بات پہ پریشان ہوگئیں، لاحول ولاقوۃ الا باللہ، مجھے تمہاری بیٹی کی کرتی اچھی لگی تھی، میں نے اپنی نواسی کے لیے ویسی لینے کا سوچا، اسی لیے کرتی کا پورا جائزہ لیا اور تہ تک پہنچ گئی۔‘‘
’’ہاں سارہ (بیٹی) مستقل ٹسل سے کھیل رہی تھی، اسی نے نکالا ہوگا، میں نے منع بھی کیا تھا مگر وہ کھیلتی ہی رہی۔‘‘ گلستان نے جواب دیا اور یوں ایک جادوئی قصہ اپنے اختتام کو پہنچا۔
جادو برحق ہے مگر یہ بھی اٹل حقیقت ہے کہ اللہ کے حکم کے بغیر کوئی پتّا بھی نہیں ہل سکتا… کٹھن وقت کبھی اللہ کی طرف سے آزمائش ہوتی ہے جو درجات کی بلندی کے لیے آتی ہے۔ جس پر کیا گیا صبر بے حساب اجر کا باعث ہوتا ہے، اور کبھی یہ اپنے گناہوں کا نتیجہ، مکافاتِ عمل اور اپنے ہاتھوں کی کمائی ہوتی ہے، اللہ کے بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق زندگی نہ گزارنے کا نتیجہ ہوتا ہے، اور اللہ کی یاد سے غافل دل پر ویسے بھی شیطان مسلط ہوجاتا ہے۔ اللہ کے نبیؐ نے جادو سے بچنے کی کئی تدابیر بتائی ہیں جن میں صبح و شام کے اذکار خصوصاً معوذتین شامل ہیں۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’سورہ البقرۃ پڑھا کرو،کیوں کہ اس کا پڑھنا باعثِ برکت، اسے چھوڑنا باعثِ حسرت ہے، اور اس کے پڑھنے والے پر جادوگر قدرت نہیں پاسکتے۔‘‘ (صحیح مسلم:1874)
اللہ تعالیٰ تمام لوگوں کو جادو کرنے، کرانے اور دیگر شیطانی کاموں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے اور تمام مسلمانوں کو نیک ہدایت دے، آمین۔

حصہ