ہمارے نظام سقے

1091

جو بھائی پاکستان کے سسٹم کے بارے میں فکر مند ہیں ان کی خدمت میں عرض ہے ہمارے ہاں قیام پاکستان کے بعد سے آج تک کوئی نظام ہی نہیں ہے۔ یہ بات میں پوری ذمہ داری سے کہہ سکتا ہوں کہ قائد اعظم کے بعد سے آج تک یہاں کوئی سسٹم بن ہی نہیں پایا۔ جس کابینہ کا قائد اعظم نے اعلان کیا اس میں بھی تین وزراء پرچی پر بھرتی ہوئے آپ کہہ سکتے ہیں کہ حکومت برطانیہ کی ایڈوائز پر ، اور وہی ایڈوائز آج تک چل ر ہی ہے ، قائد اعظم کے زمانے میں حکومت برطانیہ کی سفارش یا حکم پر سر فرینک والٹر میسروی(Sir Frank Walter Messervy) اگست 1947 سے فروری 1948 تک اس عہدے پر فائز رہے۔ اور پھر ان کے بعد جنرل ڈگلس ڈیوڈ گریسی (Douglas David Gracey) فروری 1948 سے اپریل 1951 تک تعینات رہے۔ اور خیر سے آج تک اس عہدے پر برطانوی عہد کی روایت برقرار ہے فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے سپہ سا لار گوری چمڑی وا لا ہوتا تھا اور اب ہما رے اپنے دیس سے چنا جارہا ہے۔ باقی نظام وہی ہے جو پہلے تھا
ہمارا نظام نظام سقّے کے نظام سے کچھ مختلف نہیں ، آپ لوگوں کو اگر نظام سقّے کے بارے میں جاننا ہو کہ وہ کون تھے ؟اور ان کا کیا کارنامہ تھا تو آپ کے لئے بتاتا چلوں کہ تاریخ میں ہمایوں نام کے ایک مغل شہنشاہ گزرے ہیں ، ایک دن وہ اپنے سپاہیوں کے ساتھ تھے جو اس وقت شیر شاہ سوری سے شکست کھاکر دلی واپس لوٹ رہے تھے۔ بعد میں جب ہمایوں نے تختِ دلی پر دوبارہ قبضہ کیا تو اس سقّے کو اور اس کی مدد کو نہ بھولے۔ اسے دربار میں بلایا اور اسے خلعتِ فاخرہ عنایت کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی بادشاہ بننے کی طفلانہ خواہش بھی یوں پوری کی کہ اس کے سر پر تاج رکھا اور ایک دن کی بادشاہت عنایت فرمائی!
احوال اس واقعہ کا کچھ یوں ہے کہ ہمایوں دریا پار کر رہے تھے کہ ان کی نگاہ ایک ‘ ما شکی ‘ پر پڑی ، ہمایوں نے پوچھا کہ کیوں میاں سقّے ،تمہارا کیا نام ہے؟
ماشکی: (ہاتھ جوڑ کر) “نظام” حضور! میاں ! یہ بتاؤ دریا کی گہرائی کتنی ہے ؟ کیا ہم اس دریا کو عبور کرسکتے ہیں ؟
ماشکی نے اپنے تجربے کی بنیاد پر جواب دیا کیوں نہیں ؟ آپ اپنی فوج کے ساتھ آسانی سے دریا پار کرسکتے ہیں ، بس جس راستے کی میں نشاندھی کروں اسی راہ پر چلتے چلیں آئیں ، یہ کہہ کر ماشکی دریا میں اپنی مشک کے سہارے آگے آگے تیرتا رہا اور شہنشاہ ہمایوں اپنی سپاہ کے ساتھ اس کے پیچھے … آخر کار انھوں نے دریا پار کرلیا۔
اس خوشی میں بطور انعام بادشاہ سلامت میں ما شکی کو ایک دن کی سلطنت کا بادشاہ بنانے کا اعلان کیا۔
اسی طرح ایک دن کے لئے نظام سقّہ کو حکومت مل گئی اور انھوں سے صبح سے لیکر شام تک سلطنت کا جو حال کیا اس سے نظام سقّہ نے خوب شہرت پائی ، ان چند گھنٹوں کی نظام سقّہ حکومت میں مملکت کا جو حال ہوا وہ الگ داستان ہے ، ایم اے فاروقی صاحب نے نظام سقّہ کی آخری تقریر کے عنوان سے ایک شاندار تحر یر لکھی جو جوں کی توں پیش کر رہا ہوں تاکہ قارئین کو نظام سقّہ کے کارناموں سے کچھ تو آگہی حاصل ہو ، فاروقی صاحب لکھتے ہیں کہ’ ہمایوں کے اس اقدام سے شاہی خاندان کے افراد ناراض ہو کر واک آؤٹ کر گئے۔ پہلے ہی دن سقّہ کے سامنے ایک ایسا مقدمہ پیش ہوا جو نہایت پیچیدہ تھا، خازن نے یہ ہولناک اطلاع دی کہ بادشاہ سلامت! خزانہ خالی ہو چکا ہے، عسکریوں کو تنخواہ نہیں ملی تو وہ ملازمت چھوڑدیں گے۔ درباری امرا بھی پر تول رہے ہیں، سقّہ پہلے تو گھبراگیا اور سیدھا ہمایوں کے پاس پہنچا اور عرض کی:’’ حضور!میں باز آیا ایسی حکومت سے،آپ اپنی مملکت سنبھالیں، میں غریب آدمی کہاں سے پیسوں کا انتظام کروں ؟‘‘ بادشاہ نے اسے دلاسا دیااور کچھ راز و نیاز کی باتیں کیں، سقّہ مطمئن ہو کر واپس چلا گیا۔ دوسرے دن سقّہ نے ایک عظیم الشان دربار منعقد کیا، جس میں انواع واقسام کے کھانوں کا انتظام تھا۔ رقص و موسیقی کا بھی اہتمام تھا۔ اس دربار میں شہر کے معززین بھی مدعو تھے۔ گھنٹوں یہ پروگرام چلا، آخر میں سقّہ نے ایک پرجوش اور پر سوز تقریر کی جس کا لب لباب یہ تھا کہ اس وقت ہماری حکومت کا وجود خطرے میں ہے۔ وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی حکومت کو بچانے اور اپنے بادشاہ کے تحفظ کے لئے ہر طرح کی قربانی پیش کریں۔ ہمارا خزانہ خالی ہے ہم ہتھیار نہیں خرید سکتے، دشمن ہم کو نگل لینا چاہتا ہے، ہم نے بادشاہ کا نمک کھایا ہے۔ ہم سر کٹا سکتے ہیں سر جھکا نہیں سکتے۔ تقریر کے بعد اس نے امرا کے سامنے ایک دل کش تجویز رکھی کہ آپ لوگ اپنی وسعت کے مطابق اپنی رقم سرکاری خزانے میں جمع کردیں، ہم آپ کو بطور سند ایک چرمی وثیقہ دیں گے۔ بحران کے خاتمے کے بعد ہم نہ صرف آپ کی رقم واپس کر دیں گے بلکہ بطور انعام د گنی رقم کا اس میں اضافہ کریں گے۔ لوگوں نے اس کار خیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، خزانہ بھر گیا اور توقع سے زیادہ رقم ہاتھ میں آگئی۔ سقّہ کی مدت حکومت اسی شام کو ختم ہوگئی۔
ہمارے ملک کا حال بھی کچھ اس سے مختلف نہیں !
خزانہ ہمیشہ سے ہی خالی چلا آیا ہے ، ضیا الحق مرد مومن مرد حق کے دور میں تو امریکہ بہادر نے خوب ڈالر دئیے تاکہ روس کو افغانستان سے باہر نکالا جاسکے۔ تیرہ سال اسی خزانہ بھرو مہم میں نکل گئے ، بعد میں بے نظیر اور شریف برادران اور مشرف کمانڈو کے ادوار بھی آتے رہے خزانے کا وہی حال رہا جو پہلے تھا ، چنانچہ ایسے حالات پیدا کئے جاتے رہے کہ غیر ملکی دوستوں کی غیبی مدد سے خزانہ بھرتا رہے۔
اور آج وزیر اعظم عمران خان بھی اسی مہم میں سر توڑ محنت کر رہے ہیں کہ کسی طرح خزانہ بھرا جاسکے۔
سرکاری ادارے فروخت کئے جارہے ہیں ، سرکاری ملازمین کی تنخواہیں چھ چھ ماہ تاخیر سے مل رہی ہیں ، وزیر اعظم ہاوس کی بھینسیں تک نیلام ہوچکیں ، بیسیوں سرکاری مہنگی گاڑیاں فروخت کردیں اور اب تو نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ ہمارے موجود ہ ‘ نظام سقّے ‘ شاہی مہمانوں کی سواریاں بھی خود ہی چلا رہے ہیں تاکہ ‘ ڈرائیور ‘ کی تنخواہ بچا کر سرکاری خزانے کا بوجھ کم کرسکیں۔
رہ گئی ملک کو درپیش مسئلوں سے نمٹنے کی بات ! تو ہمارے ‘نظام’ کیلئے وہ کونسا مشکل کام ہے۔ کشمیر پر ہندوستان کا جبری تسلط توڑنے کے لئے جنگ کی کیا ضرورت ہے ؟ تو آدھا گھنٹہ کھڑے ہوکر یہ معاملہ بھی حل کروالیں گے۔ مزے کی بات ہے اس معاملے پر فوج بھی نظام کے ساتھ ہے اور وہ اس آدھا گھنٹے کے دوران بینڈ بجا کر اور سائرن بجا کر قوم کے مورال بلند رکھنے کا فریضہ انجام دیتی رہے گی۔
ہم اس بات پر ناراض ہیں کہ متحدہ عرب امارت نے اور بحرین والوں نے مودی کو اعزاز سے کیوں نوازا ؟
اس پر جذباتی ہونے سے پہلے یہ دیکھ لیں کہ ہندوستان ان ممالک کے ساتھ کتنی تجارت کر رہا ہے ؟
صرف مشرق وسطی اور ہندوستان کی تجارت کا ایک مختصر سا جائزہ پیش کرتا ہوں ، دیکھ لیں اور فیصلہ کریں کہ اعزاز کا حقدار کون ہے ؟
مسلم دنیا اور بھارت کی تجارت
مسلم ممالک اور بھارت کے درمیان تجارت کا حجم 100ارب ڈالر ہے، لہٰذا یہ حیرانی کی بات نہیں ہے کہ عرب ممالک، جہاں بھارت کی 70لاکھ سے زائدورک فورس ہے، وہ کشمیر کے مسئلے پراتناکیوں نہیں بول رہے جتنا انھیں بولناچاہیے تھا، پاکستان کی اسلامی ممالک کے ساتھ کْل باہمی تجارت بہت کم ہے۔ 2007اور 2009کے درمیان پاکستان اور اسلامی ممالک کی دوطرفہ تجارت 44.262ارب ڈالر کے برابر تھی، اس کے بعد زیادہ نہیں بڑھی۔ بھارت کیساتھ ترکی کی تجارت 7ارب ڈالر ہے، جبکہ 2017میں پاکستان کے ساتھ دوطرفہ تجارت بمشکل59کروڑ60لاکھ 80ہزارڈالرتھی۔ سال 2017-18میں بھارت اورسعودی عرب کی باہمی تجارت 27.48ارب ڈالر رہی، جو گزشتہ سال سے25.1ارب ڈالرزیادہ تھی۔ دوسری جانب پاکستان اور سعودی عرب کی دوطرفہ تجارت کاحجم صرف3.6ارب ڈالرتھا۔ 2017-18میں بھارت اور ملائشیاکا تجارتی حجم 16.93ارب ڈالر تھا، جبکہ 2017میں ملائشیا کیساتھ پاکستان کی کل تجارت صرف1.27ارب ڈالر تھی۔ ایران کیساتھ پاکستان کی دوطرفہ تجارت تقریباً1.3ارب ڈالر ہے جبکہ بھارت کے ساتھ 13.13 ارب ڈالرہے
سعودی عرب کی کمپنی آرام کو نے بھارت کے سب سے بڑے صنعتکار مکیش امبانی کے ادارے سے 15 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا معاہدہ کیا ہے۔ مکیش امبانی اس پوری سرمایہ کاری میں 20 فیصد کے حصے دار ہونگے۔ مکیش امبانی سے کئے گئے معاہدے کے مطابق امبانی آرام کو سے یومیہ 5لاکھ بیرل خام تیل خریدے گا۔ اس طرح سعودی عرب کی آرام کو امبانی کے ریلائنس گروپ کی جمناگر ریفائنری میں بڑا حصے دار ہوگا۔
ہندوستان تیل کی کھپت کے اعتبار سے دنیا کا چوتھا بڑا ملک ہے جو اپنی ضرورت کا 80 فی صد تیل درآمد کرتا ہے۔ ہندوستانی درآمدات میں ابو ظہبی کا حصہ فی الوقت نو فی صد ہے۔
امارات کے وزیرِمعیشت نے صحافیوں کو بتایا کہ ملاقات کے دوران وزیرِاعظم مودی نے بھارت میں سرمایہ کاری کے کئی منصوبے پیش کیے ہیں جن کی مالیت 10 کھرب ڈالر سے زیادہ ہے۔
متحدہ عرب امارات میں مقیم بھارتی اندازاً سالانہ 14 ارب ڈالر زرمبادلہ بھارت بھیجتے ہیں۔
یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ ممالک کے درمیاں باہمی تعلقات کی بنیاد تجارت اور لین دین پر ہوتی ہے ، ڈرائیوری اور بھیک پر نہیں !۔

حصہ