ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی کی 26 ویں واردات “یوں نہیں یوں”۔

672

ظہیر خان
ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی سے کون واقف نہیں ہے ’’چمن میں ہر طرف بکھری ہوئی ہے داستاں ’ان‘ کی‘‘۔ دنیا میں جہاں جہاں اردو بولی اور پڑھی جاتی ہے وہاں وہاں ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی بھی پڑھے جاتے ہیں۔ متعدّد کتابوں کے مصنّف ہیں کتاب شائع ہونے کی رفتار کچھ اس طرح ہے…بقول غالبؔ… ’’میری رفتار سے بھاگے ہے بیاباں مجھ سے‘‘… ابھی قاری پہلی کتاب مکمل بھی نہیں کر پاتا کہ اطلاع آجاتی ہے کہ ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی کی اگلی کتاب شائع ہوچکی ہے اور فلاں تاریخ کو شام سات بجے آرٹس کونسل آف پاکستان میں رسمِ اجرا ہے… سردار یٰسین ملک صاحب صدارت فرمائیں گے جبکہ محترمہ مہتاب اکبر راشدی مہمانِ خصوصی ہوں گی۔
ڈاکٹر صاحب کا قلم 64 سال سے بھی زیادہ عرصے سے متحرّک ہے ’عمر گزری ہے اسی دشت کی سیّاحی میں‘ ایک جگہ فرماتے ہیں ’’64 سال سے لکھ‘ بلکہ چھپ رہا ہوں اتنا لکھا کہ قلم کے ساتھ ساتھ دماغ بھی گھسنے لگا ہے‘‘۔ گھسنے پر میرے ذہن میں ایک بات آرہی ہے کہ لوہا جتنا گھسا جاتا ہے اتنا چکنا اور چمکدار ہوجاتا ہے اور انسان کا دماغ تو لوہے سے کہیں زیادہ مضبوط اور طاقت ور ہے اسے جتنا گھسا جائے گا پہلے سے کہیں زیادہ طاقت ور اور کار آمد ہوتا جائے گا اور جہاں تک قلم کا تعلق ہے تو کیا ہوا… ’’اور لے آئیں گے بازار سے گر…‘‘ یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب کی ہر نئی کتاب پہلے سے زیادہ ترو تازہ، شاداب اور بارونق ہوتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی نئی کتاب کیا آتی ہے بس یوں سمجھ لیں کہ حلقۂ علم و ادب میں موسمِ بہار آتی ہے اور جب بہار آتی ہے تو قاری کے چہرے پر نکھار لاتی ہے۔ نئے مضامین نئے لطیفے، نئے پُر لطف واقعات، حالاتِ حاضرہ کے عین مطابق سیاسی حالات کی بدحالی کی نشان دہی، اس پر بے لاگ تبصرہ جس میں شگفتگی کے ساتھ طنز بھی شامل ہوتا ہے۔ اس طرح ڈاکٹر صاحب اپنا فرض ادا کردیتے ہیں مگر ہمارے سیاست دانوں کی حالت ویسی ہی ہے نہ بدلی ہے، نہ بدلے گی‘‘ وہی رفتار بے ڈھنگی جو پہلے تھی سو اب بھی ہے‘‘۔
ڈاکٹر صاحب مزاح لکھتے ہیں، ایسا مزاح جسے پڑھ کر قاری کے لبوں پر مسکراہٹ تو آتی ہے مگر اسے کچھ سوچنے پر مجبور بھی کرتی ہے۔ مزاح میں ایسی ایسی پتے کی بات لکھ جاتے ہیں جو قاری کے خواب و خیال میں بھی نہیں ہوتی۔ تحریر اتنی شگفتہ اور دلچسپ کہ قاری جب تک ان کی کتاب مکمل نہ کرلے اسے چین نہیں پڑتا۔
ُُپچھلے دنوں آرٹس کونسل میں ڈاکٹر صاحب کی 26 ویں کتاب کی رسمِ اجراء کی تقریب منعقد کی گئی میں نے اس کتاب کو ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی کی 26 ویں واردات سے تشبیہ دی ہے …… بات دراصل یہ ہے کہ بقول محمود شام صاحب ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی مزاح نگاروں کے سیکٹر انچارج ہیںاور بحیثیت ِ سیکٹر انچارج جو کچھ بھی کیا جائے گا اس کا شمار واردات ہی میں ہوگا۔ خیر یہ تو ایک مذاق تھا اب ہم سنجیدگی کی طرف آتے ہیں تو حضرات اگر یہ کہا جائے کہ یہ کتاب ڈاکٹر صاحب کا ۲۶ واں شاہکار ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ سلور جبلی تو ڈاکٹر صاحب کی کتاب ’’کتنے آدمی تھے‘‘ پر مکمّل ہوچکی تھی اب اس میں ایک اور کا اضافہ ہوچلا یعنی سلور جوبلی پلس شروع ہوچکی ہے۔ اب کارواں رواں دواں ہے گولڈن جوبلی کی جانب۔ انتظار فرمائیے انشاء اللہ بہت جلد وہ دن بھی آپ دیکھیں گے جب آرٹس کونسل میں ڈاکٹر صاحب کی کتابوں کی گولڈن جوبلی کی تقریب بڑے جوش و خروش سے منائی جائے گی اور آپ حضرات کی تواضع گرما گرم بریانی سے کی جائے گی انشاء اﷲ۔
مرزا غالب نے کہا تھا…

میں نے کہا کہ بزمِ ناز چاہیے غیر سے تہی
سُن کے ستم ظریف نے مجھ کو اٹھا دیا کہ یوں

غالب کی اس غزل میں لفظ ’یوں‘ کی تکرار ہے، بار بار یوں، بار بار یوں، ڈاکٹر صاحب نے اس لفظ ’یوں‘ کو ایک نیا U-TURN دیا ہے۔ یعنی ’’یوں نہیں یوں‘‘ یہ ہے ڈاکٹر صاحب کی 26 ویں کتاب کا عنوان۔ دراصل اس نئی کتاب کا زیادہ تر حصّہ ’’یوں نہیں یوں‘‘ کی ہی بحث میں صرف ہوگیا کہ وہ اشعار جو غلط پڑھے اور لکھے جاتے ہیں وہ ’’یوں نہیں یوں‘‘ ہیں۔ مثلاََ میر تقی میر ؔکا شعر:

راہِ دورِ عشق میں روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا

اب کسی تخریب کار نے، معاف کیجیے گا کسی تحریف کار نے اسے یوں کردیا۔

۔’’ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا‘‘۔

ڈاکٹر صاحب کو اس قسم کی ادبی تخریب کاری قطعی ناپسند ہے ان کا کہنا ہے جو شاعر نے کہہ دیا وہ اصل ہے باقی سب جعلی ہے نمبر دو کا مال ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے اسی قسم کی غلطیوں کی تصحیح کی ہے کہ یہ شعر ’’یوں نہیں یوں‘‘ ہے۔ اس کتاب کے 83صفحات ’’یوں نہیں یوں‘‘ کی نذر ہوگئے اس سے اس بات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے اس موضوع کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے کس قدر محنت کی ہے بقول ان کے 2011سے وہ اس کارِ خیر میں لگے ہوئے ہیں جو میں سمجھتا ہوں کہ اب بھی نا مکمل ہے کیوں کہ اس کے آگے بھی اگر ڈاکٹر صاحب کو کوئی شعر ایسا مل گیا جو غلط پڑھا اور لکھا جارہا ہے تو بس یوں سمجھ لیں کہ ڈاکٹر صاحب کو اپنے آپ کو مصروف رکھنے کا ایک کام مل گیا اور بہت جلد ’’یوں نہیں یوں‘‘ کی دوسری قسط آپ کے ہاتھوں میں ہوگی۔یہ کتاب اہلِ علم کے لیے ایک قیمتی اثاثہ ہوگی خاص طور پر ریسرچ اسکالر اس سے سب سے زیادہ مستفید ہوں گے۔ڈاکٹر صاحب نے ایسا کام کیا ہے کہ بقول میر تقی میرؔ…

۔’’ایسا کچھ کرکے چلو یاں کہ بہت یاد رہو‘‘۔

مزاح لکھنا، چاہے نثر ہو یا نظم آسان نہیں ہے مشکل ہے بلکہ مشکل ترین ہے کچھ احباب مزاح لکھنے کے چکّر میں اوٹ پٹانگ لکھ جاتے ہیں اور اپنے آپ کو مزاح نگار سمجھنے لگتے ہیں یہ ان کی خام خیالی ہے ڈاکٹرایس ایم معین قریشی کا اندازِ تحریر اوروں سے مختلف ہے جب وہ کسی کتاب پرتبصرہ کرتے ہیں تو اس کتاب کے سنجیدہ جملوں میں سے مزاح کشید کرلیتے ہیں بس یہی تو ان کا کمال ہے‘ بے شمار کتابوں پر تبصرہ کرکے سامعین اور پھر قارئین کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیر چکے ہیں‘ بے شمار اس لیے کہ ڈاکٹر صاحب کو خود ان کا شمار یاد نہیں ہوگا۔ یہ ہماری خوش نصیبی ہے کہ ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی جیسی ہستی ہمارے درمیان موجود ہے اور ہم سب ان کی پُر لطف تحریروں سے فیض یاب ہورہے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ ان کی عمر دراز کرے…
آخر میں ایک تُک بندی پیش کرنا چاہوں گا‘ تک بندی اس لیے کہ میں شاعر تو ہوں نہیں اور نہ ہی شعر کہنا چاہتا ہوں اس لیے کہ میرے حلقۂ احباب میں شعرا کی اچھی خاصی تعداد ہے میں شعر کہہ کر ان حضرات سے تعلقات خراب نہیں کرنا چاہتا۔ ہاں تو تُک بندی حاضرِ خدمت ہے… میں نے مرزا غالب کے ایک مصرعہ سے استفادہ کیا ہے …

کہتے ہیں ‘ وہ مزاح ‘ سب اچھا کہیں جسے
یہ حضرتِ قریشی ہیں ‘ دریا کہیں جسے
اکثر میں سوچتا ہوں کہ بزمِ مزاح میں
۔’’ایسا کہاں سے لائوں کہ تجھ سا کہیں جسے‘‘۔

حصہ