صحبت کا اثر

803

عائشہ اسلم
کسی دور دراز علاقے میں تین بہن بھائی رہتے تھے۔ بہن کا نام فاطمہ، بھائی کا نام حذیفہ اور ان کے بڑے بھائی کا نام عبداللہ تھا۔ فاطمہ اور حذیفہ ایک ہی اسکول میں پڑھتے تھے۔ فاطمہ 6 سال کی تھی اور پہلی جماعت میں پڑھتی تھی۔ حذیفہ دس سال کا تھا اور پانچویں کلاس میں پڑھتا تھا اور عبداللہ عالم بن چکا تھا۔ وہ اپنے چھوٹے بہن بھائی کو ہمیشہ پیار محبت سے رہنے، ہر بری عادت سے بچنے اور جھوٹ بولنے سے منع کرتا تھا۔ وہ دونوں بہت اچھے بچے تھے اور بڑے بھائی کی ہر بات مانتے تھے۔ ان کے برابر والا مکان خالی تھا۔ ایک دن انہیں اس گھر سے آوازیں آنے لگیں۔ فاطمہ نے دروازے کے باہر دیکھا تو برابر والے گھر میں نئے لوگ شفٹ ہو رہے تھے۔ فاطمہ نے پورے گھر میں شور مچانا شروع کر دیا کہ ہمارے نئے پڑوسی آئے ہیں لیکن جب پتا چلا کہ ان کا صرف ایک ہی بچہ ہے اور وہ حذیفہ جتنا ہے تو فاطمہ اداس ہو گئی پڑوسی بچے کا نام عثمان تھا۔ حذیفہ کی اس سے دوستی ہو گئی۔ دونوں روز شام کو ساتھ کھیلتے عثمان کے گھر میں ٹی وی چلتا تھا اور وہ انڈین فلمیں اور گانے دیکھتے تھے جبکہ حذیفہ کے گھر میں ٹی وی نہیں تھا۔
عثمان نے فلموں اور گانوں کے بارے میں حذیفہ کو بتایا کہ بہت مزہ آتا ہے دیکھنے میں۔ حذیفہ نے کہا کہ ہمارے بھائی جان کہتے ہیں فلمیں اور گانے دیکھنا بری بات ہے۔ عثمان نے کہاہم تو دیکھتے ہیں اتنی اچھی لڑائی ہوتی ہے ہیرو دشمن کو اتنا مارتا ہے بہت مزہ آتا ہے۔‘‘
حذیفہ بولا ’’اچھا چلو میں بھی انڈین فلم دیکھنے چلتا ہوں تمہارے ساتھ میرا بہت دل چاہ رہا ہے۔‘‘
عثمان بولا ’’اچھا ٹھیک ہے چلتے ہیں لیکن اس وقت تو لائٹ جاتی ہے نا‘‘
حذیفہ نے کہا ’’ہاں میں تو بھول گیا کہ اس وقت لائٹ جاتی ہے، چلو ایسا کرتے ہیں کل میں امی سے جلدی کھیلنے جانے کا بہانہ بنا کر آجائوں گا پھر دیکھیں گے اور وہاں تم گھر پہ ہی رہنا۔‘‘
عثمان بولا: ’’ٹھیک ہے‘‘۔
اگلے دن حذیفہ نے جلدی کھیلنے کا بہانہ بنا کر عثمان کے گھر کی گھنٹی بجائی۔ عثمان نے دروازہ کھول کر اسے اندر بلایا حذیفہ اس کا گھر دیکھ کر حیران ہوا۔ ان کا گھر بہت سجا ہوا تھا ایسا لگ رہا تھا جیسے کسی کی سالگرہ ہے۔ حذیفہ نے پوچھا: ’’کیا کسی کی سالگرہ ہے؟‘‘
عثمان نے کہا ’’نہیں اگر کسی کی سالگرہ ہوتی تو ہال میں ہوتی اچھا چلو فلم شروع کرتا ہوں۔ لائٹ چلی گئی تو پھر دیکھ نہیں سکیں گے۔‘‘
ایک گھنٹے تک وہ فلم دیکھتے رہے پھر حذیفہ گھر آگیا۔ تھوڑی دیر بعد اس نے فاطمہ سے کہا: ’’چلو میں تمہیں گانا گا کر اور ڈانس کر کے دکھاتا ہوں‘‘۔ فاطمہ نے کہا ’’اچھا دکھائیں‘‘۔ جیسے ہی حذیفہ نے گانا اور ڈانس شروع کیا تو عبداللہ بھائی آگئے اور کہا۔ ’’یہ کیا کر رہے ہوں تم؟‘‘
حذیفہ بولا ’’کچھ نہیں بھائی جان‘‘
عبداللہ نے کہا ’’سچ بتائو کیا کررہے تھے اور کہاں سے سیکھا یہ سب؟‘‘
بھائی جان کے اتنی سختی سے پوچھنے پر حذیفہ نے کہا ’’وہ پڑوس میں عثمان کے گھر فلم دیکھی تھی اس کا گانا اور ڈانس ہے‘‘۔
عبداللہ نے کہا ’’ایسا کرنا بری بات ہے ہے اور ناچ گانے سے اللہ ناراض ہوتا ہے اور گاہ ملتا ہے ہمیں ہمیشہ اپنی آخرت کی فکر کرنی چاہیے اور برے کاموں سے بچنا چاہیے۔ اب دو ہی راستے ہیں یا تو تم اس کو سمجھا کے سیدھے راستے پر لے آئو اور اگر وہ نہ مانے تو تم اس سے دوستی ختم کردو۔ کیونکہ انسان اپنے دوستوں کی صحبت سے اچھا یا برا بن جاتا ہے!! اس طرح حذیفہ نے عثمان کو سمجھایا اور اس نے اپنی امی اور ابو کو بتایا کہ ناچ گانا دیکھنا بری بات ہے اب میں نہیں دیکھوں گا۔‘‘
حذیفہ نے غلطی کرکے اس پر توبہ کی اور اللہ سے معافی مانگی پھر اپنے دوست کو سیدھے راستے پر لے آیا ہمیں بھی چاہیے کہ اگر کوئی غلطی ہو جائے تو توبہ کریں اور اپنے دوستوں کو بھی سیدھے راستے کی دعوت دینی چاہیے۔

حصہ