جدید ادبی کتابی سلسلے “مکالمہ” کا 45 واں شمارہ

1608

نعیم الرحمن
مبین مرزاموجودہ دورمیں اردوادب کے مستند،منفرداورنامورافسانہ نگار،شاعر،نقاد اوردانشورہیں۔ان کے افسانوں کے دومجموعے’’خوف کے آسمان تلے ‘‘ اور’’زمینیں اورزمانے‘‘ شاعری کامجموعہ ’’رائیگانی‘‘ شائع ہوچکاہے۔اسلام آباد سے خوبصورت کتابیں شائع کرنے والے ادارے الحمرا کے لیے انہوںنے تین جلدوںمیں’’اردوکے بہترین خاکے‘‘ یکجا کیے۔یہ ایک بہت عمدہ اورخوبصورت کتاب ہے۔افسوس کہ الحمراپبلشرآگ کی نذر ہوگیا اوربہت خوبصورت کتب شائع کرنے والا ادارہ جاری نہ رہ سکا۔قومی ادارے اکادمی ادبیات کے لیے مبین مرزانے اردوادب کے نثری اورشعری کئی سالانہ ادبی شمارے مرتب کیے۔متعدد عالمی ادبی کانفرنسوں میں مقالات بھی پیش کرچکے ہیں۔ گویا مرزاصاحب ہمہ وقت ادب اورادیبوں کے کاموں میں مصروف رہتے ہیں۔وہ اپنے ادارے اکادمی بازیافت سے بہت خوبصورت اورعمدہ کتب شائع کرتے ہیں۔بازیافت کی شائع کردہ کتب معیاری اورصوری ومعنوی حسن سے آراستہ ہوتی ہیں۔
جولائی 1996ء میں مبین مرزا نے اپنے دوستوں قیصرعالم،طاہر مسعود اورآصف فرخی کے ساتھ مل کرجدید ادبی کتابی سلسلے ’’مکالمہ‘‘ کااجرا کیا اورپہلے ہی شمارے سے بطور مدیر بھی اپنی دھاک بٹھادی۔بعض وجوہ کی بناپر مکالمہ کے دوسرے شمارے سے دیگرساتھیوں کاتعاون مبین مرزا کومیسر نہ رہا۔لیکن پرچہ اب تک پوری آن بان سے جاری ہے اور اس کاشمارے اردو کے چند بہترین ادبی جرائد میں کیاجاتاہے ۔اس دوران مکالمہ کابے مثال اورضخیم ’’افسانہ نمبر‘‘ بھی دوجلدوں میں شائع کیاگیا۔جس کاذکربرسوں گزرنے پربھی ادبی حلقوں میں اب تک جاری ہے۔اس نمبرکومستقل حوالہ جاتی نمبرکی حیثیت حاصل ہے۔معیارپرسمجھوتہ نہ کرنے کی وجہ سے مکالمہ کی اشاعت تاخیرکاشکار رہی۔اس کے دوشمارے اکثرڈیڑھ سے دوسال بعد شائع ہوتے رہے۔لیکن جب بھی شائع ہوئے دھوم مچ گئی۔پھر دوسال قبل اچانک مبین مرزا نے ’’مکالمہ‘‘ کوماہانہ بنانے کافیصلہ کیا۔عام خیال یہ تھاکہ جب عام شمارہ بروقت شائع نہیں ہوپاتاتواس کی ماہانہ اشاعت ممکن نہ ہوسکے گی۔لیکن مبین مرزاکی استقامت اوراولوالعزمی نے یہ ناممکن بھی ممکن کردکھایا۔یہی نہیں کہ باقاعدگی سے ہرماہ پرچہ شائع ہورہاہے ۔ اگر کسی ماہ تاخیر ہوجائے تودوشمارے ایک ساتھ شائع کردیے جاتے ہیں۔یہی نہیں مکالمہ کاضخیم سالنامہ بھی آرہاہے۔جوایک ڈیڑھ سال بعد شائع ہونے والے مکالمہ کی مانند ہی ہے۔ماہانہ شمارے قارئین کے لیے بونس کی حیثیت رکھتے ہیں۔ حال ہی میں مکالمہ کاپینتالیس واں شمارہ جو ماہانہ پرچے کا دوسرا سالنامہ ہے۔ شائع ہوا ہے۔ تقریباً ساڑھے پانچ سو صفحات پرمشتمل یہ ایک مکمل اور بھرپور شمارہ ہے جس کی اشاعت پر مبین مرزا تحسین کے حق دارہیں۔
حرفِ آغازمیں اس باراداریے کو’’نمائش پسندی کے دورمیں ادب‘‘ کاذیلی عنوان دیاگیاہے۔اس اداریے میں اکیسویں صدی کے نمائشی دور میں ادب اورادیب کی جانب سے نمائش پسندی کے خلاف بھرپور اورمدلل گفتگوکی گئی ہے۔جس کے مطابق ادب وشعر،بلکہ جملہ فنونِ لطیفہ کاتعلق ہی اظہارکی خواہش سے ہے،اظہارکی یہ خواہش بھی توخود کوسامنے لانے کاایک ذریعہ ہے۔یعنی وہی نمائش پسندی۔لیکن یہاں یہ بھی واضح کیاگیاہے کہ نمایاں ہونے کی خواہش اورنمائش پسندی میں کیافرق ہے۔ فنکار دراصل خود کونہیں بلکہ اپنے فن کوسامنے لاتا ہے۔ اپنے جذبے،احساس، خیال اور شعور کو ابھارتا ہے۔ ذاتی طور پر وہ کہیں پس منظرمیں رہتاہے۔ اس وقیع بیان میں اردوکے نامورشعرا کے اشعاربطورمثال پیش کیے ہیں اورعہدِ جدیدکے مشاغل کی لایعنیت کوبھی واضح کرتے ہوئے۔حاصل کلام کچھ ایسے پیش کیاہے۔ ’’مسئلہ یہ ہے کہ سوشل میڈیاکے ذریعے لوگ مستقل ایک بھری محفل میں خود کوپاتے ہیں۔ہروقت رونق کے مرکزمیں اورآوازوں کے ہجوم کے درمیان،لیکن حقیقی زندگی میں محلے،بلکہ ایک گھرمیں رہنے والے لوگوں کے مابین بھی اتنے فاصلے پیداہوگئے ہیں کہ آدمی سے آدمی کی ملاقات نہیں ہوپاتی، ایک کی آواز دوسرے تک پہنچتی ہی نہیں۔جب بیماری،آزاری یاکسی اوروجہ سے حقیقتاً آدمی کوآدمی کی ضرورت ہوتی ہے تواسے معلوم ہوتاہے کہ وہ سارامجمع تواس کے موبائل،ٹیبلت یالیب ٹاپ کی اسکرین پرتھا،اصل میں تووہ تنہائی اورسناٹے کی لپیٹ میں ہے۔اس کے عملی مظاہرے آئے دن دیکھے جاسکتے ہیں۔ایک شخص کی علالت کی خبرپرعیادت کرنے والوں کی تعداد توبہت ہوتی ہے،لیکن اس کے پاس آکر،اس کاہاتھ تھام کراپنے رشتے کی حرارت کااحساس دلانے والے پانچ فی صدبھی نہیں ہوتے ۔اس کاسبب یہ ہے کہ رشتے اورتعلقات بھی اس عہدکے انسان کی خارجی زندگی کادکھاواہوکررہ گئے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ اس دورمیں ادیب اورشاعرکیاکرسکتے ہیں؟ سچ پوچھئے توادیب شاعرہی وہ لوگ ہیں جونمائش پسندی کے اس امنڈتے سیلاب کے آگے اپنے معاشرے کوبچانے کے لیے کوئی بندباندھ سکتے ہیں۔سیاست داں، سول سرونٹس، مصلح، سماجی کارکن، ڈاکٹر، انجینئر، سب مل کربھی وہ نہیں کرسکتے جو کام ادیب شاعر کر سکتے ہیں۔ اس لیے کہ یہ صلاحیت قدرت نے سب سے بڑھ کرانہی کوبخشی ہوتی ہے کہ معاشرے کے تغیرات کے عقب میں کارفرمامحرکات کودیکھ سکیں۔یہی نہیں بلکہ ان کی نظرانسانی احساس کی بدلتی ہوئی ان صورتوں کوبھی سب سے پہلے اورسب سے زیادہ گہرائی میں جاکردیکھ سکتی ہے جواس کے لاشعوراورتحت الشعورمیں تہ درتہ پیداہوتی ہیں۔جن کاخودانسان اوراس کے سماج کوبھی کہیں بہت بعدمیں جاکراندازہ ہوتاہے۔تاہم یہ کام اس وقت ہوسکتاہے جب ادیب شاعرکواس عہد میں اپنے کردار کے تقاضے اورفن کے مطالبے کاشعورہو۔یہ شعوراس کے اندراس نمائش پسندی سے اغماض پیداکرتے ہوئے اس کی ذہنی ،فکری اورتخلیقی شخصیت کومتحرک کرے گا اورمعاشرے میں اپنے اصل کردارکی طرف مائل۔‘‘
بہت عمدہ ،بروقت اورچشم کشااداریہ ادیب وشاعرکے کردارکوواضح کرتاہے۔جس کے بعد ایک سوتیس صفحات پرمبنی افسانوں کے حصے میں سترہ مصنفین کی بیس تحریریں شامل کی ہیں۔سب سے پہلے باسودے کی مریم،مئی دادا اورترلوچن جیسے شاہکارافسانوں کے مصنف اسد محمد خان کی ’’ٹکڑوں میں کہی گئی کہانی2019ء‘‘کاایک نیاٹکڑاشامل ہے۔جس کے بارے میں اسد محمدخان کہتے ہیں کہ’’ میری یہ تحریرایک نوع کے سفرنامے کی صورت میں وجود میں آئی تھی اورایک مجموعے میں شامل کی گئی تھی ۔تواب ،برادرم مرزاجی،برسوں بعدمیں نے اسے ریوائز کیا اوریوں نئی صورت میں یہ قاریوں کے لیے حاضرہے۔میں ریڈرزڈائجسٹ میں شائع ہونے والے ایک آرٹیکل کے علاوہ کراچی کی لائبریریوں سے حاصل کیے گئے اُس ریسرچ میٹریل اورمضامین کابھی احسان مندہوں جوآتش فشاں ویسووی یس کے بارے میں وقتاً فوقتاً میرے مطالعے میں رہے۔اُن رسائل اورمضامین کابھی شکرگزارہوں جن میں کُلانی یم اورپومپیائی کی بازیافت کی تفاصیل درج ہیں۔ ان سب کی وجہ سے ہی یہ تحریر اس قابل ہوئی کہ معتبرقاریوں کے سامنے لائی جاسکے۔آخری بات یہ کہ میں نے پومپیائی سے کھود کرنکالے گئے ایک پرانے جسدکومصوری کے زندہ شاہ کارکی صورت میں خودبھی دیکھا اوریادرکھاہے۔تفصیل بعد میں پیش کروں گا۔‘‘
اس قسم کی کہانیاں اسد محمدخان کاقلم ہی بیان کرسکتاہے۔قارئین کواسد محمدخان کے شخصی خاکوں کی نئی کتاب کاانتظارہے۔جس میں انہوں نے اپنی دوستوں اورپیاروں کاذکرکیاہے۔یہ یقینا ان کی آپ بیتی کی حیثیت رکھتی ہے اورغالباً القاپبلشرزسے شائع ہوگی۔
سینئرناول وافسانہ نگاررضیہ فصیح احمدکی کافی عرصہ سے کوئی نئی کتاب شائع نہیں ہوئی۔لیکن ادبی جرائدمیں ان کے افسانے تواترسے چھپ رہے ہیں۔مکالمہ سالنامہ میں رضیہ فصیح احمدافسانہ ’سزایاسبق‘ لے کرآئی ہیں۔جس میں سفرنامے کالطف بھی موجود ہے۔مسعوداشعرکاافسانہ ’کھڑے سے بڑے‘ بھی ایک عمدہ تحریرہے۔مسعود اشعربہت سینئرلکھاری ہیں لیکن کم لکھتے ہیں۔ان کی کتاب بھی اب آنی چاہیے۔زاہدہ حنا بہت منفرد افسانہ نگار،کالم نگار اوردانشورہیں۔ان کے افسانے معاشرے کے المناک پہلووں کی نشاندہی کرتے ہیں۔ان کا افسانہ ’’ چل کھسروگھرآپنے‘‘ بھی المیہ مشرقی پاکستان اوراس میں بے گھرہونے والوں کابیانیہ لیے ہوئے ہے ۔سلمٰی اعوان زودنویس ہونے کے باوجود بہت اچھی ناول،افسانہ اورسفرنامہ نگارہیں۔ان کانیاسفرنامہ ’’شام۔امن سے جنگ تک‘‘ حال ہی میں شائع ہواہے۔لیکن کراچی میں دستیاب نہیں ہے۔سلمٰی اعوان کا’’ تصویرکایہ رُخ بھی‘‘ اپنے موضوع پر بہت خوبصورت افسانہ ہے۔اے خیام کے افسانہ اپنے عنوان ’’قتل‘‘ سے ہی چونکادیتاہے۔طاہراقبال نے اپنے ضخیم ناول ’’نیلی بار‘‘ سے مستنصرحسین تارڑ سمیت کئی مستندلکھاریوں سے بھی داد وصول کی ہے۔ان کا قدرے مختصرافسانہ ’’نوکربچہ‘‘ طاہراقبال کے منفرداسلوب سے آراستہ ہے۔محمدحامدسراج کی مرتب کردہ ’’بادشاہوں کی آپ بیتیاں‘‘ اورخودمنتخب کردہ پچیس افسانوں پرمبنی’’نقش گر‘‘ حال ہی میں بک کارنرجہلم نے انتہائی خوبصورت طباعت کے ساتھ شائع کی ہے۔ حامدسراج ’’درون ِ خود ہمہ تن ریختہ وآبلہ پا‘‘ قارئین کواپنے نام سے کچھ امتحان میں ڈالتاہے۔لیکن افسانہ بہت عمدہ ہے۔ شہنازخانم عابدی ’’کالی فائل ‘‘ کے ساتھ سالنامے میں شامل ہیں۔معروف افسانہ نگارامجد طفیل کے عمدہ ادبی جریدے ’’استعارہ ‘‘ نے بہت جلدقارئین کی توجہ حاصل کرلی ہے۔استعارہ کاچھٹاشمارہ’’محمدحسن عسکری‘‘ نمبرجلد شائع ہونے والاہے۔امجدطفیل کے تین افسانے پرچے میں شائع ہوئے ہیں۔افسانوی حصہ میں شامل دیگرتحریریں بھی مبین مرزا صاحب کے حسن انتخاب کی دلیل ہیں۔
مکالمہ کے مضامین کاحصہ ہمیشہ انتہائی وقیع اور بھرپور ہوتا ہے۔ سالنامے میں بھی ’نقد و نظر‘ کے زیرِعنوان سوسے زائد صفحات پردس مصنفین کے گیارہ مضامین شائع کیے گئے ہیں۔ڈاکٹرقاضی افضال حسین کامضمون’’بازاری بیانیہ‘‘ ادبی زبان وبیان مختلف ہیئتوں کے بارے میں بہت اچھااورطویل مضمون ہے۔جس میں فارمولاناول کاآزمودہ طریقہ کاردلچسپ ہے۔جس میں کئی معروف ناول نگاروں کاتذکرہ بھی کیا گیاہے۔جنہوں نے بڑی تعداد میں کامیاب ناول تحریرکیے۔
ڈاکٹر مرزا حامد بیگ کے دو مضامین ’’عسکری صاحب‘‘ اور ’’انتظار صاحب‘‘ بروقت اور معلومات سے بھرپور ہیں۔ حسن عسکری صاحب 5 نومبر 1919ء کو پیداہوئے۔ اس سال محمدحسن عسکری کی پیدائش کو ایک صدی مکمل ہو رہی ہے۔ اس موقع پرادبی جریدہ ’’استعارہ‘‘ محمد حسن عسکری نمبر شائع کر رہا ہے۔ ڈاکٹر مرزا حامد بیگ خود بھی صاحب طرز افسانہ و ناول نگار ہیں۔ انہوں نے اردو افسانہ صدی اور ترجمہ نگاری پر بھی بہت عمدہ کتب تحریرکی ہیں۔ ان کا ایک منفرد اور دلچسپ ناول ’’انارکلی‘‘ اپنی طرز کا انوکھا ناول ہے جس میں ڈاکٹر صاحب نے انار کلی کے ایک حقیقی کردار ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ حامد بیگ صاحب نے عسکری صاحب اور انتظار حسین صاحب پر بہت عمدہ اور معلوماتی مضامین پیش کیے ہیں۔ انتظار صاحب میں انہوں نے صاحبِ طرزافسانہ نگارکے مختلف افسانوں اورمجموعہ کامختصر اوراچھاتجزیہ کیاہے جس سے قاری کے لیے انتظارحسین کی تفہیم میں آسانی ہوتی ہے۔
ڈاکٹرانیس اشفاق نے بہت کم وقت میں چند انتہائی دلچسپ اور منفرد ناول پیش کر کے سرحدکے دونوں جانب اپنی دھاک بٹھا دی۔ انہوں نے اپنے حالیہ ناول ’’خواب سراب‘‘ میں مرزا محمد ہادی رسواکے بہترین اور یادگار ’’امراؤ جان ادا‘‘ کی کہانی کو دلچسپ انداز میں آگے بڑھانے کی کوشش کی ہے۔ ڈاکٹر انیس اشفاق نے دوسرا ناول ’’پرندے اور پری ناز‘‘ میں نیر مسعود کے بے مثال ناولٹ ’’طاؤس چمن کی مینا‘‘ کو بنیاد پر لکھا ہے۔ ڈاکٹر انیس اشفاق کا اردو اکادمی دہلی کے طنز و مزاح کے سیمینار میں پڑھا گیا دلچسپ مقالہ’’ طنزومزاح ،ایک تشنہ ء تعبیرصنفِ ادب‘‘ اس شمارے کابہترین مضمون ہے۔
محمدسہیل عمرنے اقبال اکیڈمی کے لیے اقبالیات کے موضوع پر بہت بے مثال کام کیااورکئی شاندارکتب شائع کیں۔سہیل عمرنے علامہ اقبال کی سوانح عمری چارجلدوں میں بہت منفردانداز میں تحریرکرنے کابیڑہ اٹھایا۔اس سلسلے کی تین کتب جوعلامہ اقبال کے ابتدائی،وسطی اوردرمیانی دورسے متعلق تھیں ۔لیکن اختتامی دور پرکتاب اب تک شائع نہیں ہوئی۔ایساعمدہ سلسلہ ادھورا چھوڑناقارئین کے ساتھ ناانصانی ہے۔محمدسہیل عمرصاحب سے درخواست ہے کہ وہ اس سلسلے کی آخری کتاب بھی شائع کرکے اسے مکمل کریں۔محمدسہیل عمرنے اسلام میں رحمت اورانسانی ہمدردی کے تصورپرکچھ خیالات ’’ازخداگیردطریق‘‘کے عنوان سے پیش کیے ہیں۔بہت فکرانگیزمقالہ ہے جوسوچ کے در وا کرتاہے۔دیگر مضامین میں یاسمینزحمیدنے ’’شعری تخلیق میں نئی پرانی جہات کاتصور‘‘ پرقلم فرسائی کی ہے۔ڈاکٹرضیاء الحسن نے ’’غالب کے اثرات جدیدغزل پر‘‘ کے موضوع کوبہت عمدگی سے برتاہے۔ڈاکٹرنجیبہ عارف نے اردوکے صاحبِ طرزافسانہ نگار’’اسد محمدخان کی افسانہ نگاری کے فنی کوائف ‘‘ پرمضمون پیش کیاہے۔ڈاکٹرطارق ہاشمی نے’’اردوغزل 1970ء تاحال‘‘ میں جدید غزل کاشاندارجائزہ پیش کیاہے۔ڈاکٹراشفاق احمدورک نے ’’اردوخاکے کے اولین نقوش‘‘ کوموضوع بنایاہے۔ وہ خود بھی بہت اچھے خاکہ نگارہیں۔اردوطنزو مزاح پرشاندارمقابلے پرڈاکٹراشفاق احمدورک کوڈاکٹریٹ کی ڈگری ملی ہے۔جمیل الرحمٰن نے ’’جدیداردونظم۔میلانات ،مسائل اورتقاضے ‘‘ پرعمدہ مضمون تحریرکیاہے۔اس طرح مکالمہ کے اس سالنامے میں جدیداردوغزل اورنظم پردوبہت عمدہ مضامین شائع ہوئے ہیں۔
شاعری کے حصے میں اساتذہ اورنوواردان دونوں کوشامل کیاگیاہے۔ظفراقبال اورسحرانصاری کے کلام پرکچھ کہناسورج کوچراغ دکھانے جیسا ہے۔ڈاکٹرپیرزادہ قاسم کی بارہ تخلیقات اس شمارے میں شامل ہیں۔پیرزادہ قاسم منفردغزل گوہیں۔لیکن بہت مدت سے ان کانیا مجموعہ کلام منظرعام پرنہیں آیا۔طویل اورمختصربحروں میں انہوں نے بے مثال غزلیں کہیں ہیں۔بہت مدت بعدان کااتناکلام یکجاشائع ہواہے۔ان کے دواشعار

بلاکے اس جبرِ وقت میں اُس کوڈھونڈ لینا کمال ہوگا
اگرملا بھی تو رُک کے اک لمحہ بات کرنا محال ہوگا
اسے خبرہوسکے تواچھاخزاں تعاقب میں ہے خزاںکے
ملال موسم کے بعد اک اوموسم صد ملال ہوگا

تراجم کے علاوہ یادیں اورخاکے یں ظفراقبال کی آپ بیتی’’درگزشت‘‘ کی بیسویں قسط،حسن منظرکے سفرنامے’’اوراق بوسیدہ‘‘ کی دسویں قسط اورہالینڈ میں مقیم اردوداں طبقہ کوڈچ ادب سے متعارف کرانے والے فاروق خالدکے ’’زنداں نامہ ‘‘ کی تیسری قسط اس شمارے کا اختصاص ہے۔ محمدحمزہ فاروقی،حمرہ خلیق،نجیبہ عارف،اخلاق احمد،سیدعامرسہیل اورخرم سہیل نے بہت عمدہ خاکے تحریرکیے ہیں۔غالب ،اقبال اورفیض پرمضامین فتح محمدملک،محمدحمیدشاہداورڈاکٹرخالدمحمود سنجرانی نے لکھے ہیں۔محمدعارف جمیل کے سفرنامہ’’حاضرسائیں‘‘ کی دسویں قسط کے ساتھ سبوحہ خان کازردپتوں کابن جومیرادیس ہے‘‘ بھی اس شمارے کی دلچسپیوں میںاضافہ کرتے ہیں۔آخر میں مصنف ،ڈرامہ نگار،رقاص،اداکارمرحوم انور سجادپریونس جاوید اورڈاکٹرامجدطفیل کے خاکے ہیں۔غرض مکالمہ کاسالنامہ ایک مکمل ادبی دستاویز ہے ۔ اس عمدہ سالنامے کی اشاعت پرمبین مرزاکوبھرپورمبارکباد پیش ہے۔

حصہ