انسانوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی اسکیم

643

سید مہرالدین افضل

دعوت و تبلیغ اور ہدایت و اصلاح کی حکمت:۔

(تفصیل کے لیے دیکھیے سورۃ الاعراف حاشیہ نمبر:150)
سورۃ الاعراف آیت 199 سے 202 میں ارشاد ہوا: ’’اے نبیؐ، نرمی و درگزر کا طریقہ اختیار کرو… معروف کی تلقین کیے جائو… اور جاہلوں سے نہ الجھو۔ اگر کبھی شیطان تمہیں اُکسائے تو اللہ کی پناہ مانگو، وہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے۔ حقیقت میں جو لوگ متقی ہیں اُن کا حال تو یہ ہوتا ہے کہ کبھی شیطان کے اثر سے کوئی برا خیال انہیں چھو بھی جاتا ہے تو وہ فوراً چوکنے ہوجاتے ہیں۔ اور پھر اُنہیں صاف نظر آنے لگتا ہے کہ اُن کے لیے صحیح طریقِ کار کیا ہے۔ رہے اِن کے یعنی شیاطین کے بھائی بند، تو وہ اُنہیں اُن کی کج روی میں کھینچے لیے چلے جاتے ہیں اور انہیں بھٹکانے میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھتے۔‘‘
اِن آیات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دعوت و تبلیغ اور ہدایت و اصلاح کی جدوجہد کے لیے چند اہم ہدایات دی گئی ہیں۔ یہ ہدایات صرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے لیے نہیں تھیں بلکہ آپؐ کے ذریعے سے اُن سب لوگوں کے لیے ہیں جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قائم مقام بن کر دنیا کو سیدھی راہ دکھانے کے لیے اُٹھیں۔ اس لیے ان ہدایات پر تفصیل سے غور و فکر کرنا ضروری ہے۔

اے نبیؐ! نرمی و درگزر کا طریقہ اختیار کرو: ۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دعوت دیتے ہوئے بارہ سال گزر چکے ہیں، آپؐ کی دعوت عقل کو اپیل کرتی ہے اور دلیل دلوں میں بس جاتی ہے، لیکن اس کے مقابلے میں ہر کونے سے شریر اور فسادی لوگ نکل کھڑے ہوتے ہیں جو کسی دلیل پر غور نہیں کرتے، بس اپنے وہم اور گمان کے پیچھے چلتے ہیں اور باپ دادا کی روایات میں قید رہنا پسند کرتے ہیں۔ وہ، جو کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی، امانت داری اورشرافت کے قائل تھے اور اعلیٰ نسبی کا اعتراف کرتے تھے، اب ان کی اکثریت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت قبول کرنے کے لیے تیار نہیں، وہ مذاق اُڑاتے ہیں، دیوانہ کہتے ہیں، جادوگری کا الزام لگاتے ہیں، مال و دولت، عیش و عشرت اور بادشاہت کا لالچ دیتے ہیں، جھوٹا پروپیگنڈا کرتے ہیں، مخالفت میں ڈٹ جاتے ہیں۔ جب کوئی چال کامیاب نہیں ہوتی تو تشدد پر اتر آتے ہیں۔ جسمانی تشدد، قتل کی کوششیں، معاشرتی بائیکاٹ اور معاشی قتل… کون سا ہتھیار نہیں آزمایا گیا! جہاں کوئی شخص اسلام کی طرف تھوڑا سا بھی جھکائو ظاہر کرتا، اُسے طعنے دیتے، برا بھلا کہتے، جسمانی اذیت اور معاشی و معاشرتی بائیکاٹ کا نشانہ بنالیتے۔ اس صورتِ حال میں اسلام قبول کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد ملک چھوڑ چکی ہے اور حَبَش میں مقیم ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ آپؐ کو قید کرنے، جلا وطن کرنے یا قتل کردینے کے مشورے ہورہے ہیں۔ جب کہ آپؐ اِن شدید مزاحمتوں کے مقابلے میں تبلیغِ دین کا فرض انجام دے رہے ہیں۔ یہ بارہ سال آج کی طرح تیزی سے گزرنے والے دنوں پر مشتمل نہ تھے، جب کہ سال مہینوں کی طرح گزر جاتا ہے۔ اِن کا ہر دن پہاڑ تھا اور ہر رات طویل تھی۔ ایسے موقع پر ہدایت یہ دی جارہی ہے کہ اے نبیؐ، نرمی و درگزر کا طریقہ اختیار کرو۔ اور یہ ہدایت اُس کی جانب سے ہے، جو قادرِ مطلق اور قہار و جبار ہے۔ آپ کو حیرت نہیں ہوتی؟ حیرت ہونی چاہیے اور اسے دور کرنے کے لیے انسانوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی اسکیم کو سمجھنا چاہیے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو جو مہلت دی ہے اس میں وہ ان کے ساتھ نرمی اور درگزر کو پسند کرتا ہے۔ اگر وہ جبر کرنا چاہتا تو سب کو جبراً مسلمان بنا سکتا تھا، یا طاقت کا استعمال کرنا ہوتا تو کسی کے اندر ہلنے کی طاقت بھی نہ رہتی، جہاں کسی نے انکار کیا وہیں سلا دیا جاتا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو دنیا کی زندگی میں ارادے کی جو آزادی دی ہے اُس کا تقاضا یہ ہے کہ آزادی کے اس دورانیے میں اُن تک حق کی دعوت نرمی سے پہنچائی جائے اور انہیں ڈھیل دی جائے تاکہ ان پر آخرت کے لیے حجت تمام ہوسکے۔ یہ بات سمجھنا اُن لوگوں کے لیے مشکل ہے جنہیں ایک بنا بنایا نظام مل گیا اور جنہوں نے اُسے بگاڑا، یا بگڑنے دیا، اور اب دوبارہ اِسے قائم کرنے کی جدوجہد کے بجائے اُس قائم کیے گئے نظام کی چند باتوں اور طریقوں کی بنیاد پر حکم لگاتے ہیں… بلکہ یہ انہی کی سمجھ میں آئے گا جو آپؐ کے طریقے پر دعوت اور اِقامت دین کی جدوجہد کے لیے کھڑے ہوں۔
مولانا مودودیؒ لکھتے ہیں: داعی ٔ حق کے لیے جو صفات سب سے زیادہ ضروری ہیں اُن میں سے ایک یہ ہے کہ اسے نرم خو، متحمل اور عالی ظرف ہونا چاہیے، اُس کو اپنے ساتھیوں کے لیے شفیق، عام انسانوں کے لیے رحیم اور اپنے مخالفوں کے لیے حلیم ہونا چاہیے۔ اُس کو اپنے رفقا کی کمزوریوں کو بھی برداشت کرنا چاہیے اور اپنے مخالفین کی سختیوں کو بھی۔ اسے شدید سے شدید اشتعال انگیز مواقع پر بھی اپنے مزاج کو ٹھنڈا رکھنا چاہیے۔ نہایت ناگوار باتوں کو بھی عالی ظرفی کے ساتھ ٹال دینا چاہیے، مخالفوں کی طرف سے کیسی ہی سخت کلامی، بہتان تراشی، ایذا رسانی اور شریرانہ مزاحمت کا اظہار ہو، اُس کو درگزر ہی سے کام لینا چاہیے۔ سخت گیری ودرشت خوئی، تلخ گفتاری اور انتقام لینے کا مائنڈسیٹ اِس کام کے لیے زہر کا حکم رکھتا ہے اور اِس سے کام بنتا نہیں، بگڑتا ہے۔ اِسی چیز کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں بیان فرمایا ہے کہ: میرے رب نے مجھے حکم دیا ہے کہ ’’غضب اور رضا، دونوں حالت میں انصاف کی بات کہوں۔ جو مجھ سے کٹے، میں اُس سے جڑوں۔ جو مجھے میرے حق سے محروم کرے، میں اُسے اُس کا حق دوں۔ جو میرے ساتھ ظلم کرے، میں اس کو معاف کردوں۔‘‘ اور اِسی چیز کی ہدایت آپؐ اُن لوگوں کو کرتے تھے جنہیں آپؐ دین کے کام پر اپنی طرف سے بھیجتے تھے کہ ’’جہاں تم جاؤ وہاں تمہاری آمد لوگوں کے لیے خوش خبری اور شادمانی کا سبب ہو۔ ایسا نہ ہو کہ وہ تم سے نفرت کرنے لگیں۔ اور تم لوگوں کو سہولت دو، اُن پر سختی کرکے زندگی تنگ نہ کرو۔‘‘ اور اِسی چیز کی تعریف اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں فرمائی ہے کہ : ’’یہ اللہ کی رحمت ہے کہ تم ان لوگوں کے لیے نرم ہو ورنہ اگر تم درشت خو اور سنگ دل ہوتے تو یہ سب لوگ تمہارے گرد و پیش سے چَھٹ جاتے۔‘‘(آل عمران159)

معروف کی تلقین کیے جائو:۔

دعوتِ حق کی کامیابی کا گُر یہ ہے کہ آدمی فلسفہ طرازی اور دقیقہ سنجی کے بجائے لوگوں کو معروف یعنی اُن سیدھی اور صاف بھلائیوں کی تلقین کرے جنہیں بالعموم سارے ہی انسان بھلا جانتے ہیں، یا جن کی بھلائی کو سمجھنے کے لیے وہ عقلِ عام (Common sense) کافی ہوتی ہے جو ہر انسان کو حاصل ہے۔ اس طرح داعی ٔ حق کی اپیل عوام و خواص سب کو متاثر کرتی ہے اور ہر سننے والے کے کان سے دل تک پہنچنے کی راہ نکال لیتی ہے۔ ایسی معروف دعوت کے خلاف جو لوگ رکاوٹ ڈالتے ہیں اور شورش برپا کرتے ہیں، وہ خود اپنی ناکامی اور اس دعوت کی کامیابی کا سامان فراہم کرتے ہیں،کیوں کہ عام انسان، چاہے وہ کتنے ہی تعصبات میں مبتلا ہوں، جب یہ دیکھتے ہیں کہ ایک طرف ایک شریف النفس اور بلند اخلاق انسان ہے جو سیدھی سیدھی بھلائیوں کی دعوت دے رہا ہے، اور دوسری طرف بہت سے لوگ اس کی مخالفت میں ہر قسم کی اخلاق و انسانیت سے گری ہوئی تدبیریں استعمال کررہے ہیں تو رفتہ رفتہ اُن کے دل خود بہ خود مخالفینِِ حق سے پھرتے اور داعی ٔ حق کی طرف متوجہ ہوتے چلے جاتے ہیں، یہاں تک کہ آخرکار میدانِ مقابلہ میں صرف وہ لوگ رہ جاتے ہیں جن کے ذاتی مفاد نظامِ باطل کے قیام ہی سے وابستہ ہوں، یا پھر جن کے دلوں میں تقلیدِ اسلاف اور جاہلانہ تعصبات نے کسی روشنی کے قبول کرنے کی صلاحیت باقی ہی نہ چھوڑی ہو۔ یہی وہ حکمت تھی جس کی بدولت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو عرب میں کامیابی حاصل ہوئی اور پھر آپؐ کے بعد تھوڑی ہی مدت میں اسلامی لہر قریب کے ملکوں پر اس طرح پھیل گئی کہ کہیں سوفی صدی اور کہیں 80 اور 90 فی صدی باشندے مسلمان ہوگئے۔
اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ ہم سب کو اپنے دین کا صحیح فہم بخشے اور اُس فہم کے مطابق دین کے سارے تقاضے اور مطالبے پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین وآخر دعوانا ان لحمد للہ رب العالمین۔

حصہ