عبدالوحید تاج کا نعتیہ مجموعہ ’’متاعِ کرم‘‘ شائع ہوگیا

430

ڈاکٹر نثار احمد نثار
نعت نگاری کا شعبہ بہت تیزی سے ترقی کر رہا ہے‘ اب تواتر کی ساتھ نعتیہ مجموعے منظر عام پر آرہے ہیں‘ نعت کے شعبوں پر تحقیقی اور مطالعاتی کام جاری ہے‘ پی ایچ ڈی کی ڈگریاں جاری کی جارہی ہیں‘ کراچی میں بھی نعتیہ مشاعرے ہو رہے ہیں‘ ان مشاعروں میں عبدالوحید تاج سے ملاقاتیں ہوتی رہتی ہیں ان کا شمار سینئر شاعروں میں ہوتا ہے ان کی جو کتب اب تک شائع ہو چکی ہیں ان میں صاحبِِ ام الکتاب (نعتیہ مجموعہ)‘ ہاشمی گلاب (نعتیہ مجموعہ)‘ خیالِ شگفتہ (غزلیات)‘ سخن طراز (غزلیات)‘ لہو دل کے آبگینے (غزلیات)‘ عریضہ (حمد‘ نعت‘ منقبت سلام)‘ خندۂ گل (غزلیات)‘ آئینہ انتخاب (کلیات)‘ اور متاع کرم شامل ہیں۔ عبدالوحید تاج 2 فروری 1940ء کو ناگ پور (بھارت) میں پیدا ہوئے۔ ڈھاکا یونیورسٹی سے بی اے کیا‘ ان کی درس و تدریس کے شعبے سے وابستگی ہے‘ انہوں نے ہندوستان سے پہلی ہجرت مشرقی پاکستان میں کی اور 16 دسمبر 1973ء کو پاکستان کے شہر گوجرانوالہ آئے اور 1976ء سے آج تک کراچی میں مقیم ہیں۔ اعجاز رحمانی نے عبدالوحید تاج کے نعتیہ مجموعے ’’متاعِ گرم‘‘ پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ عبدالوحید تاج کا شعری سفر ہنرمندی‘ پوری آب و تاب اور برق رفتار سے جاری و ساری ہے۔ انہوں نے عشق محمدیؐ میں اپنی باطنی کیفیت کا اظہار کیا ہے‘ احساسات کی شدت‘ نزکت‘ تخیل اور وقارِ عشق میں جس عقیدت کا اظہار ہوا ہے وہ یقینا زورِ بیاں کی تکمیل ہے۔ فکر میں پاکیزگی اور جذبے کی گہرائی سے کلام میں جو رفعت دیکھنے میں آتی ہے وہ وسیع علم و فضل کا عکس ہے۔ نعت کا ہر شعر حسین‘ دلکش اور لطیف ہے جو بصیرت افروز نظر کا آئینۂ دار ہے۔ عبدالوحید تاج نے اپنے فن نکھارنے اور سنوارنے کے لیے بہت محنت کی ہے‘ اپنے خونِ جگر سے اپنی شاعری کو سیراب کیا ہے جس سے ان کے اظہار میں نہ صرف قوت پیدا ہوگئی ہے بلکہ ایک پُر اثر اور صاف ستھرا اسلوب بھی تشکیل پا رہا ہے۔ ان کے اب تک 11 مجموعے زیور طباعت سے آراستہ ہو کر صفحۂ شہود پر آچکے ہیں۔ یہ اب غزل گوئی سے کنارہ کشی اختیار کر چکے ہیں‘ اس کا سبب تو مجھے نہیں معلوم ان کا یہ مجموعہ اردو ادب میں ایک گراں قدر اضافہ ہے۔ ان کے کچھ اشعار قارئین کے لیے پیش کیے جارہے ہیں:

یہ دنیا ہے یہاں ہر چیز مل جاتی ہے دولت سے
جبینوں کو درِ کعبہ مگر قسمت سے ملتا ہے
٭
ہر قدم دینِ محمدؐ کی حفاظت کے لیے
اپنے کردار کو دیوار بنائے رکھیے
٭
انؐ کا خیال انؐ کی محبت انہیؐ کی یاد
کُل کائنات یہ ہے مری کائنات میں
٭
تاج تم نعتِ نبی لکھتے رہو پڑھتے رہو
مل ہی جائے گی کسی دن آگہی کی روشنی
٭
مل گئی ہے مجھے تھوڑی سی درِ خاکِ رسولؐ
جو میری روح کو میلا نہیں ہونے دیتی
٭
ہے الفتِ سرکار کا سودا مرے سر میں
ہر وقت میں رہتا ہوں مدینے کے سفر میں
٭
بسا ہے نورِ رسالت مآب آنکھوں میں
سمائیں کیسے مہ و آفتاب آنکھوں میں
٭

عبدالوحید تاج کی نعتوں میں عبد و معبود کا فرق نظر آتا ہے‘ انہوں نے اپنے اشعار میں رسول مآبؐ کے بارے میں بہت احتیاط سے کام لیا ہے‘ ان کی شاعری کا محور سیرتِ رسول اور قرآن مجید ہے۔ اس مجموعے میں بہت سی نعتیں طرحی ردیف پر کی گئی ہیں۔ ان کے یہاں غلّو نظر نہیں آتا کیوں کہ یہ جانتے ہیں کہ نعت رسولؐ میں غلّو کی گنجائش نہیں ہے۔ ان کی فنی ریاضت نے انہیں معتبر شعرا نعت کی صف میں شامل کر دیا ہے‘ یہ نعت گوئی کے رموز و نکات پر دسترس رکھتے ہیں‘ انہوں نے اپنی نعتوں کو جمالِ مصطفی اور سیرت مصطفی سے آراستہ کیا ہے۔ ان کے یہاں نعت کے وہ سب موضوعات و مضامین موجود ہیں جو نعت گوئی کے مسلمات و تلازمات کہلاتے ہیں انہوں نے اپنی قلبی کیفیات و احساسات کو نعت میں بیان کرنے میں کوشش کی ہی اس کی ساتھ آشوبِ امتِ محمدی بھی لکھا ہے ان کی نعتیہ شاعری جذبوں کی تہذیب‘ شعور کی توسیع اور روحانی عناصر کے ساتھ زندگی کے مختلف مراحل طے کرتی نظر آتی ہے ان میں عقیدت‘ ادبیت‘ زبان و بیان کا حسن اور فکری سطح پرنئے اور روشن افق کی جستجو ہے ان کی نعتوں میں والہانہ پن اور سرشاری ہے ایک سچے مسلمان کے ناتے ان کا عقیدہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کی اتباع میں ہماری نجات مضمر ہے۔

بزمِ تقدیس ادب پاکستان کا جشن آزادی مشاعرہ

۔17اگست کو شادمان ٹائون کراچی میں جشن آزادی مشاعرہ منعقد کیا گیا۔ محسن اعظم ملیح آبادی نے صدارت کی۔ خواجہ رضی حیدر اور رونق حیات مہمانان خصوصی تھے۔ ڈاکٹر شاداب احسانی‘ سعید الظفر صدیقی اور ظہور الاسلام جاوید مہمانان اعزازی تھے۔ عبدالوحید تاج اور احمد سعید خان نے نظامت کے فرائض انجام  دیے۔ اس موقع پر صاحب صدر‘ مہمانان خصوصی‘ مہمانان اعزازی اور ناظمین مشاعرہ کے علاوہ جن شعرا نے کلام پیش کیا ان میں ظفر چمن زیدی‘ آصف رضا رضوی‘ فیاض علی فیاض‘ علی اوسط جعفری‘ راشد نور‘ سلمان صدیقی‘ سلیم فوز‘ کشور عدیل جعفری‘ حامد علی سید‘ خالد میر‘ سخاوت علی نادر‘ صفدر علی انشا‘ آئرین فرحت‘ ضیا حیدر زیدی‘ زرعلی سید‘ واحدرازی‘ کاشف علی ہاشمی شامل تھے۔ یہ PEBS آئی اینڈ جنرل اسپتال شادمان ٹائون کے تعاون سے بزمِ تقدیس ادب نے ترتیب دیا تھا۔ اسپتال کے ایڈمنسٹریٹر وسیم رئیس نے خطبۂ استقبالیہ میں کہا کہ ان کا ادارہ شعر و ادب کی خدمت کے لیے میدانِ عمل میں آیا ہے‘ وہ چاہتے ہیں کہ انسانی صحت اور ادب دونوں شعبوں کو اپنی ترجیحات میں شامل کریں‘ ہم نے بزمِ تقدیس ادب کے اشتراک سے یہ پروگرام ترتیب دیا ہے ہمارے ہال میں اس وقت سامعین کی کثیر تعداد موجود ہے‘ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ عوام ابھی ادب سے جڑے ہوئے ہیں۔ ہم تمام شرکائے محفل کے ممنون و شکر گزار ہیں۔ بزمِ تقدیس ادب کے روح رواں احمد سعید خان نے کلماتِ تشکر ادا کیے اور کہا کہ آزادی ایک عظیم نعمت ہے‘ جو قومیں غلام ہوتی ہیں ان کا تشخص مجروح ہو جاتا ہے‘ وہ اپنی زندگی‘ اپنی ثقافت و عقائد کے مطابق نہیں گزار سکتے۔ ہندوستان میں رہنے والے مسلمانوں کی حالتِ زار کا آپ اندازہ لگایئے کہ وہاں زندگی کے تمام شعبوں پر ہندوئوں کی اجارہ داری ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ ہم آزاد ملک کے باشندے ہیں‘ یہ آزادی ہمیں کسی نے پلیٹ میں سجا کر نہیںدی‘ آزادی کی ایک طویل جدوجہد سے گزر کر ہم نے انگریزوں سے نجات پائی ہے اب اس آزادی کو برقرار رکھنا ہماری ذمے داری ہے۔ محسن اعظم ملیح آبادی نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ انگریزوں سے آزادی کی جنگ میں زندگی کے تمام شعبوں کے مسلمان شریک تھے اس جنگ میں اربابِ سخن نے بھی بھرپور حصہ لیا انہوں نے قومی نغمے لکھے‘ لوگوں کو آزادی کی تحریک دی‘ جنگ آزادی میں لاکھوں جانیں قربان کی گئیں‘ ہم ان شہیدوں کو سلام پیش کرتے ہیں جن کی بدلت آج ہم آزاد ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہر سال 14 اگست کو ہم یوم آزادی مناتے ہیں اس سال یوم آزادی کے موقع پر کشمیر میں مسلمانوں کا قتل عام ہو رہا ہے۔ بھارت نے اپنی فوجیں کشمیر میں اتار دی ہیں۔ کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کیا ہوا ہے جب کہ کشمیر کا فیصلہ وہاں کے عوام کریں گے کہ انہیں کس ملک کے ساتھ رہنا ہے۔ ہم قلم کاروں پر فرض ہے کہ ہم آزادی کے متوالوں کے لیے قلمی جہاد کریں۔

اکادمی ادبیات پاکستان کا جشنِ آزادی مشاعرہ

اکادمی ادبیات پاکستان کراچی کے زیر اہتمام جشن آزادی مشاعرہ ترتیب دیا گیا‘ فراست حسین رضوی نے صدارت کی انہوں نے اس موقع پر کہا کہ پاکستان کے قیام میں جن اکابرین نے بھرپور حصہ لیا ان کے سپہ سالار قائداعظم تھے جن کی قیادت میں پاکستان قائم ہوا۔ پاکستان بنانے کے لیے طویل جدوجہد کی گئی جس کے نتیجے میں لاکھوں جانوں لہو بہا۔ مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ کر دیا گیا‘ آزادی کے متوالوں نے ہمت نہ ہاری اور 14 اگست 1947ء کو غلامی سے آزادی حاصل کی۔ یہ دن ہماری تاریخ میں بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اس دن تمام ملک میں یوم پاکستان کے حوالے سے تقریبات ہوتی ہیں ہم اپنی نسل کو تاریخ پاکستان سے آگاہ کرتے ہیں‘ یہ سلسلہ جاری رہنا چاہیے تاکہ ہمارے لوگوں کو علم ہو سکے کہ پاکستان کی بقا میں ہم سب کی بقا ہے۔ ڈاکٹر ایم ایس معین قریشی نے کہا کہ انہیںفخر ہے کہ وہ پاکستانی ہیں‘ یہ وطن میری شناخت ہے‘ قائداعظم محمد علی جناح نے مسلمانانِ ہند میں آزادی کا جذبہ پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور علامہ اقبال کے خواب کی تعبیر پاکستان حاصل کیا۔ برصغیر ہندوپاک پر انگریزوں نے بڑی چالاکی سے قبضہ کیا۔ انہوںنے مسلمانوں میں تفرقہ پیدا کیا‘ آپس میں لڑایا‘ 1857ء کی جنگِ آزادی میں مسلمانوں کو شکست ہوئی اور پورا ہندوستان انگریزوں کا غلام بن گیا۔ انگریزوں کے نزدیک مسلمانانِ ہند بڑی طاقت تھے انہوں نے مسلمانوں پر زندگی تنگ کر دی لیکن 14 اگست 1947ء کو مسلمانانِ ہند آزاد ہو گئے اور پاکستان وجود میں آگیا۔ اب ہماری ذمے داری ہے کہ ہم اس ملک کی حفاظت کریں۔ آج ہم مختلف قسم کے مسائل میں الجھے ہوئے ہیں‘ ہمیں چاہیے کہ ہم متحد ہو کر دشمنوں کا مقابلہ کریں۔ راحیلہ ٹوانہ سابق ڈپٹی اسپیکر سندھ اسمبلی نے کہا کہ قائداعظم محمد علی جناح نے مسلمانوں کو عروج بخشا‘ وہ بیماری کے باوجود ایک آزاد وطن کے لیے برسر پیکار ہے‘ وہ عالم اسلام کی عظیم ترین شخصیتوں میں سے تھے‘ مسلمانوں کے مسلمہ رہنما‘ عظیم لیڈر‘ ذہانت‘ فراست‘ عزم و ہمت‘ اخلاص اور حب الوطنی میں بے مثال تھے بقول ڈاکٹر محمد سلیم انہوں نے پاکستان بنایا ہی نہیں بلکہ وہ خود پاکستان تھے‘ وہی ان کی رگوں میں دوڑتا پھرتا تھا‘ وہی ان کا دل تھا اور وہی ان کا دماغ۔ انہوں نے تاریخ کے دھارے کا رُخ تبدیل کر دیا۔ معروف صحافی ابرار بختیار نے کہا کہ آزادی ایک بڑی نعمت ہے‘ اس سے بڑھ کر دنیا میں کوئی چیز نہیں۔ آزادی کا دن منانا بھی ہم سب پر لازم ہے صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ غیر مسلم بھی یوم آزادی پاکستان جوش و جذبے سے مناتے ہیں کیوں کہ یہ جناح کا پاکستان ہے جہاں تمام مذاہب کے ماننے والوں کو مکمل مذہبی آزادی حاصل ہے۔ اکادمی ادبیات پاکستان کے ریزیڈنٹ ڈائریکٹر قادربخش سومرو نے کہا کہ آزادی بہت بڑی نعمت ہے اور اس کی حفاظت ہماری قومی ذمے داری ہے‘ آزادی کی قدر و قیمت مقبوضہ کشمیر اور فلسطین کے مسلمانوں سے پوچھنی چاہیے جو بھارت اور اسرائیل کے ظلم کا شکار ہیں۔ آزادی کا جشن مناتے ہوئے ہمیں عہد کرنا چاہیے کہ پاکستان کی ترقی کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے‘ وطن عزیز کی سالمیت پر کبھی آنچ نہیں آنے دیںگے۔ مشاعرے میں جن شعرائے کرام نے کلام سنایا ان میں فراست رضوی‘ سید کامران‘ ابرار بختیار‘ ڈاکٹر لبنیٰ‘ عشرت حبیب‘ عرفان علی عابدی‘ سید علی اوسط جعفری‘ زینت کوثر لاکھانی‘ ہما بیگ‘ افضل ہزاروی‘ یوسف چشتی‘ قمر جہاں قمر‘ وقار زیدی‘ افروز رضوی‘ حمیدہ کشش‘ محمد رفیق مغل‘ م۔ ش عالم‘ دلشاد احمد دہلوی‘ ڈاکٹر سجاد احمد سجاد‘ حامد علی سید‘ جمیل ادیب‘ سید الحاج نجمی‘ عبدالمجید محور‘ شجاع الزماں خان‘ سید نعیم احمد شامل تھے۔

حصہ