شہ رگ

291

آمنہ آفاق
۔’’امی! امی! میرے چوٹ لگ گئی۔‘‘ ماہ رخ کی بھرائی ہوئی آواز سن کر میں فوراً سارے کام چھوڑ چھاڑ کر اس کی طرف بھاگی۔
’’کیا ہوا میری بیٹی کو‘ کہاں گری ہو؟‘‘ میں نے فکر مندی سے پوچھا۔
’’میں ماربل پر پھسل گئی‘ میرے ہاتھ پر بہت زور سے چوٹ لگی ہے۔‘‘ اس نے روتے ہوئے بتایا۔
میں نے فوراً اس کو گلے سے لگایا اور اس کی چوٹ پر آیوڈیکس مَل کرکپڑا باندھ کر لٹا دیا۔ اب کوئی بھی کام کرنے کا دل نہیں چاہ رہا تھا‘ میں سکون کی تلاش میں صوفے سے ٹیک لگا کر آنکھیں موند کر بیٹھ گئی مگر فائرنگ کی تیز آواز اور دروازوں پر دھڑا دھڑ دستک سے میں ہڑبڑا کر چوکنا ہوگئی۔
’’ارے! یہاں تو سکون ہے…‘‘ میں نے جائزہ لیا۔ اوہ! یہ گولہ باری تو میرے دماغ میں ہو رہی ہے‘ آج میری بیٹی کی چھوٹی سی چوٹ نے مجھے فکر مند کر دیا اور وہاں کشمیر میں مائیں اپنے جوان بچوں کو خون میں رنگتا دیکھ رہی ہیں۔ آہ…! کتنا ظلم ہو رہا ہے وہاں۔ لیکن مجھ سمیت بہت سارے مسلمان ان سب باتوں سے بالکل بے نیاز ہیں حالانکہ مقبوضہ کشمیر کی کشیدہ صورت حال سے ہم سب واقف ہیں مگر ہم ’’کریں تو کیا کریں‘‘ یہ سوچ کر پھر سے اپنی روز مرہ کی مصروفیات میں مگن ہو جاتے ہیں… کیوں؟ آخر کیوں ہم کچھ نہیں کرسکتے؟ کاش ہم نے اتنا کچھ ہونے ہی نہ دیا ہوتا… کبھی ہم اپنے آپ کو ان کی جگہ پر لائے ہی نہیں‘ جو ہو رہا ہے ان کے ساتھ ہو رہا ہے‘ ہم تو یہاں سکون سے بیٹھے ہیں ناں… ہمارے بیوی بچے محفوظ ہیں پس ہم ان کے لیے غمگین ضرور ہیں لیکن یہ خام خیالی ہے کہ ہم محفوظ ہیں کیوں کہ جس طرح کشمیر کے مسلمانوں کی نسل کشی کی جارہی ہے‘ اُن کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے لیے اقدامات کیے جارہے ہیں‘ بھارت کے اس اقدام سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت کے مسلمان کتنے غیر محفوظ ہیں اور ہمارے حکمران جس ڈھیلے پن کا مظاہرہ کر رہے ہیں اس سے ہمارا محفوظ ہونا یا رہنا بھی بہت مشکل ہے کیوں کہ کشمیر کو بھارت کے قبضے میں جاتا دیکھ کر ہمارے حکمران کچھ نہیں کر پا رہے ہیں۔ کشمیر کے مسلمان تڑپ تڑپ کر مدد کی اپیل کر رہے ہیں مگرہم ’’کریں تو کیا کریں‘‘ کا عملی نمونہ بنے بیٹھے ہیں کیوں کہ ہماری حکومت تو امن چاہتی ہے ناں… سب کو راضی خوشی رکھنا چاہتی ہے اب چاہے دوسرے غیر مسلم ممالک ہم پر چڑھ ہی دوڑیں مگر جس طرح ہم نے بھارتی پائیلٹ ابھی نندن کو پلیٹ میں سجا کر پیش کیا ہے اسی طرح کشمیر کو بھی پلیٹ میں سجا کر پیش کرنے جا رہے ہیں۔
کشمیر‘ جو کہ پاکستان کی شہ رگ ہے‘ کتنی بے باکی سے ہماری شہ رگ پر ہاتھ ڈالا گیا ہے کیوں کہ ہم نے کشمیر کی آزادی کا کبھی سنجیدگی سے سوچا ہی نہیں‘ ہر وقت پاکستان امن… امن کی رٹ لگائے رکھتا‘ بھارت کی ہر گستاخی کا جواب امن کے ذریعے دیا جاتا رہا‘ کشمیر کے حوالے سے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے وہاں بچے‘ نوجوان جان کی بازی لگاتے رہے اور یہاں ہم ’’امن کی آشا‘‘ جلاتے رہے مگر کہاں نظر آتا ہے بھارت امن کا متلاشی؟ وہ تو اور نڈر اور بے باک ہو گی اہے‘ کلسٹر بم کا استعمال بے دریغ کیا جارہا ہے تو پھر پاکستان کیوں گھٹنوں میں منہ چھپائے بیٹھا ہے؟ آج ضرورت ہے ٹیپو سلطان‘ محمد بن قاسم جیسے عظیم لیڈر کی‘ کیا ہم اپنے کشمیری بھائیوں کو ناامید کر دیں گے؟ خدارا اب تو بیدار ہو جایئے‘ کچھ تو ایسا راستہ تلاش کیجیے جس کے ذریعے ہم اپنے کشمیری بھائیوں کی مدد میں اپنا حصہ ملا سکیں‘ بھارتی مصنوعات و چینلز اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کا مکمل بائیکاٹ کریں‘ اپنے رب کریم سے گڑگڑا کر اور ان کے دکھ کو اپنا دکھ جانتے ہوئے ان کے جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کی دعائوں کا اہتمام کیجیے۔
اللہ پاک سے پوری امید ہے کہ جلد ہی یہ تاریکی کے بادل چھٹ جائیں گے اور ایک نئی سحر کشمیر کی منتظر ہے‘ ان شاء اللہ۔

غزل

ثوبیہ اجمل

دل میں لیے ہر بات رہ گئے
گنوا کر اُسے خالی ہاتھ رہ گئے
دل کی دل میں بات رہ گئی
ہم بے زباں مثلِ زرد پات رہ گئے
نئی منزل کی جانب لوگ چل دئیے
ہم لیے اکیلی اپنی ذات رہ گئے
کسی کومانگے بنا مل گئی مرادیں
حرفِ دعا لیے ہم خالی ہاتھ رہ گئے
اپنے کلام پر کبھی ناز تھا ہمیں
چپ چاپ اب دیکھتے مات رہ گئے

حصہ