دِیا جلائے رکھنا ہے

462

شہلا خضر
آج صبح ہی سے ثمرین کا موڈ بہت خراب تھا۔ فجر کی نماز کے وقت جب الارم بند کرکے وہ اٹھنے ہی کو تھی کہ لائٹ چلی گئی۔ ایک تو ویسے ہی منہ اندھیرے نیند سے بیدار ہوتے ہی اوسان بحال ہونے میں کچھ وقت لگتا ہے، اوپر سے بچوں اور ان کے والد نے رات کو دیر تک جاگ کر کرکٹ میچ جو دیکھا تو کمرے میں جابجا کشن، کھانے کے برتن، پانی کی بوتلیں بکھری چھوڑ کر سونے چلے گئے تھے۔ اندازے سے وہ دروازے کی جانب چلی تو پیروں میں خالی بوتل کے آنے سے وہ توازن برقرار نہ رکھ پائی اور دھم سے نیچے آگری۔ وہ تو اللہ نے کرم کیا کہ کشن اور چادروں کی وجہ سے کچھ نہ ہوا، مگر اس غیر متوقع افتاد سے وہ جھنجھلا گئی۔ ابھی ثمرین نماز پڑھ کر فارغ ہی ہوئی تھی کہ لائٹ آگئی۔ اس نے بچوں کو اسکول کے لیے اٹھایا اور ان کے لیے ناشتے کا انتظام کرنے باورچی خانے چل دی۔ ثمرین کراچی کے ایک مضافاتی علاقے میں رہائش پذیر ہے جہاں پر گورنمنٹ کی لائن میں پانی کم اور ہوا زیادہ آتی ہے، جب بھی قسمت سے دو یا تین دن بعد پانی آئے تو دوڑ دوڑ کر ڈرموں اور دستیاب تمام خالی برتنوں میں بھر کر رکھ لیا جاتا ہے۔ مالک مکان نے تین سال پہلے اس مسئلے کے حل کے لیے بورنگ تو کروا لی، مگر چونکہ کراچی میں بارشیں گزشتہ کئی سال سے معدوم ہیں، اس لیے زیر زمین پانی خشک ہوجانے سے بورنگ بھی کارگر ثابت نہ ہوئی۔
قصہ مختصر، جب ثمرین نے چائے کی پتیلی دھونے کے لیے باورچی خانے کے ڈرم کی ٹونٹی کھولی تو چند بوندیں آئیں اور پانی ختم ہوگیا۔ رات کو بچوں نے ٹیلی ویژن پر کرکٹ میچ دیکھنے کے دوران نوڈلز اور شربت بنا بناکر خوب پانی ضائع کیا تھا۔ ثمرین کا موڈ مزید آف ہوگیا اور سارا غصہ بچوں پر چِلّا کر نکالا۔ خیر، خرید کر لائے گئے پینے کے پانی سے پتیلی دھوئی، چائے بنائی اور بچوںکو ناشتا کروا کر اسکول روانہ کیا۔
ثمرین پانچ بہنوں اور ایک بھائی میں سب سے بڑی تھی۔ والد پرچون کی ایک دکان چلاتے تھے، بچپن ہی سے تنگ دستی دیکھی۔ ماں بہت صابر وشاکر عورت تھی اور کم آمدنی میں بھی سلیقے سے بچوں کی تعلیم و تربیت مناسب طریقے سے کی۔ ابھی ثمرین بارہویں میں ہی آئی تھی کہ اس کی بڑی پھوپھو نے اپنے بی اے پاس بیٹے سجاد احمد کے لیے رشتہ مانگ لیا۔ سجاد احمد کسی پرائیویٹ کمپنی میں کلرک تھے۔ ثمرین کے والد نے فوراً ہامی بھرلی، اور یوں انٹر کا امتحان دیتے ہی وہ بیاہ کر سجاد احمد کے گھر آگئی۔ بچپن کی محرومیاں شادی کے بعد بہت حد تک کم ہوئیں، مگر دو بیٹوں اور ایک بیٹی کی پیدائش، پرورش اور پھر تعلیمی اخراجات، بوڑھی بیمار ساس کے علاج معالجے کا خرچا، مکان کا کرایہ، بجلی کا بل… یہ سب اخراجات سجاد کی محدود آمدنی میں پورے کرنا مشکل ہوتا جارہا تھا۔ اسی لیے گھر کی صفائی، برتن اور کپڑے دھونا، سب کام ثمرین نے اپنے ذمے لے لیے تاکہ کچھ پیسے بچائے جاسکیں۔
بچوںکو اسکول بھیجنے کے بعد حسبِ معمول شوہر اور ساس کو ناشتا بناکر دیا۔ آٹھ بجے سجاد احمد کے دفتر نکل جانے کے وقت ہوتا۔ ان کے جانے کے بعد ثمرین نے پہلے صفائی کی اور پھر بچے کھچے پانی سے بمشکل ناشتے کے برتن دھوئے۔ پسینے سے شرابور ثمرین ہاتھ منہ دھوکر سستانے کو بیٹھی تو اتنے میں ڈھائی گھنٹے کی طویل لوڈشیڈنگ کا وقت ہوگیا اور بجلی ایک بار پھر چلی گئی۔ اب تو صبر و ضبط سب ختم ہوگیا اور ثمرین دالان میں بیٹھ کر رونے لگی اور دل ہی دل میں اللہ تعالیٰ سے گلے شکوے کرنے لگی کہ کیسا ملک ہے، ہمارے یہاں کوئی چیز بھی ٹھیک نہیں، مہنگائی نے کمر توڑ رکھی ہے، شدید گرمی میں پانی کی بوند بوند کو ترس گئے ہیں، لوڈشیڈنگ کے علاوہ بھی بجلی کسی بھی وقت چلی جاتی ہے، علاج کروانا کتنا مہنگا ہے۔ ہمارا کیا قصور تھا جو ہمیں ایسا ملک ملا؟ دیگر ممالک میں تو یہ سب نہیں ہوتا، وہاں کتنی خوب صورتی ہے، کتنی دلفریبیاں ہیں، جو لوگ وہاں رہتے ہیں وہ کتنے خوش قسمت ہیں۔ کاش ایک موقع ہمیں مل جائے تو ہم بھی اس چمکتی دمکتی دنیا میں چلے جائیں۔ خاصی دیر تک اس طرح کے خیالات میں وہ گھری رہی۔ اب اسے یاد آیا کہ کھانا بھی پکانا ہے، لہٰذا وہ سبزی کی ٹرے لے کر ساس کے پاس ہی لائونج میں بیٹھ گئی۔ اتنے میں لائٹ آگئی۔ ثمرین نے ٹیلی ویژن آن کردیا تاکہ کچھ دیر کے لیے وہ اپنی پریشان کن سوچوں سے نجات حاصل کرسکے۔ کچھ دیر بعد ٹیلی ویژن اسکرین پر بریکنگ نیوز کا ٹائٹل آگیا۔ دونوں ساس، بہو متوجہ ہوگئیں کہ یااللہ خیر ہی کی خبر ہو۔
نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں دو مساجد پر دہشت گرد حملہ، پچاس افراد شہید اور چالیس سے زائد زخمی ہوگئے۔ درندہ صفت جنونی حملہ آور نے بے حد اطمینان سے معصوم نمازیوں کو گولیوں کی بوچھاڑ سے شہید کیا، اور اس حملے کے تمام مناظر اپنی گن پر لگے کیمرے سے پوری دنیا میں Live دکھاتا رہا۔
کرائسٹ چرچ کی مساجد کے بے گناہ نمازیوں کے خون سے لتھڑے جسم اور زخمیوں کی درد بھری آہیں اور سسکیاں ثمرین کی تصوراتی خوب صورت، چمکتی دمکتی دنیا کو چکناچور کرگئیں۔ سوچوں کا ایک سیل رواں تھا جو کہ بہتا ہی جارہا تھا۔ کیا شہید اور زخمی ہونے والوں کا صرف مسلمان ہونا ہی جرم ٹھیرا؟ کیوں کہ خبروں میں بتایا جارہا تھا کہ یہ سارے لوگ طویل عرصے سے نیوزی لینڈ کے رہائشی تھے اور مہذب شہری بن کر زندگی گزار رہے تھے، ان میں سے کچھ تو تعلیم کے حصول اور کچھ بہتر زندگی کے حصول کے لیے مختلف اسلامی ممالک سے آئے تھے۔
اے میرے پیارے رب، ہم تو اپنے وطن میں روزانہ لاکھوں مساجد میں اطمینان سے نمازیں ادا کرتے ہیں، ہم تو یہاں پورے حق کے ساتھ رہتے ہیں، یہاں ہمیں کوئی دوسرے درجے کا شہری نہیں سمجھتا، ہر شہری بے خوف و خطر اپنے اپنے مذہبی مسلک کے حساب سے عبادات انجام دیتا ہے۔ یہی وہ لمحہ تھا جب ثمرین کو اپنی احمقانہ سوچوں سے چھٹکارا ملا، کیوں کہ اب وہ جان چکی تھی کہ پرائی دنیا پرائی ہی ہوتی ہے، اپنا ملک ہی دنیا کا وہ واحد حصہ ہوتا ہے جہاں ہم آزادی سے اپنی خوشیاں اور غم منا سکتے ہیں اور پورے حق سے رہ سکتے ہیں۔
شام کو جب سجاد احمد گھر لوٹے تو ثمرین نے نہایت دکھ سے انہیں تمام واقعہ سنایا اور شکر ادا کیا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں آزاد وطن دیا ہے، بے شک اس وقت ہم بہت سے مسائل میں گھرے ہوئے ہیں، لیکن یہ سب قابلِ حل مسائل ہیں۔ سجاد احمد نے بھی تائید کی اور ثمرین کو بتایا کہ ان شاء اللہ جلد ہی ہم ڈیم فنڈ جمع کرکے ملک کو بجلی اور پانی کے بحران سے نکالنے کے لیے ڈیم بنائیں گے، اس کے علاوہ جتنی بڑی ہماری آبادی ہے اگر ہم ان سب کو تعلیم و ہنر سکھا دیں تو یہی افراد ہمارے لیے کارآمد شہری بن جائیں گے، کیوں کہ جتنی آبادی اتنے ہی کام کرنے والے ہاتھ ہوجائیں گے تو ہمارا ملک تیزی سے ترقی کی راہ پر گامزن ہوجائے گا۔
ثمرین نے اپنے شوہر سجاد احمد سے وعدہ کیا کہ اپنے ملک میں موجود چھوٹی چھوٹی پریشانیوں کی وجہ سے مایوس نہ ہوگی، بلکہ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت پر بھرپور توجہ دے کر انہیں کارآمد شہری بنائے گی تاکہ آنے والی نسلیں آج سے بہتر پاکستان میں زندگی گزاریں۔

موج بڑھے یا آندھی آئے، دِیا جلائے رکھنا ہے
گھر کی خاطر سو دکھ جھیلے، گھر تو آخر اپنا ہے

حصہ