فیاض علی فیاض کے اشعار سماجی شعور کے آئینہ دار ہیں‘ پروفیسر انوار احمدزئی

1220

ڈاکٹر نثار احمد نثار
فیاض علی فیاض کی شاعری مطالعے اور مشاہدات کا اثاثہ ہے‘ وہ شاعری میں بھی خود احتسابی کے قائل ہیں اسی لیے ان کے اشعار میں غمِ امروز بھی ہے اور غمِ فردا کے ساتھ گہرے سماجی شعور کی گونج بھی‘ ان کے کلام میں تغزل کے بے شمار شاہکار ملتے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان کے یہاں صرف رومانوی رنگ ہے بلکہ تہذیبی آدرشوں میں فکرِ نو کی طلب‘ اخلاقی قدریں‘ روایت کی پاسداری‘ جدید تیکنیکی انقلاب کے ثمرات بھی ان کی شاعری میں نظر آتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار پروفیسر انوار احمد زئی نے ادارۂ فکر نو‘ نیاز مندان کراچی‘ بزم شعرو سخن اور بزمِ سعید الادب کے زیر اہتمام فیاض علی فیاض کے اعزاز میں منعقد تقریب پزیرائی کے موقع پر اپنے صدارتی خطاب میں کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ آج کی تقریب کے نظامت کار خالد میر نے اپنی بزلہ سنجی اور جملہ بازی سے محفل کو گرمائے رکھا۔ یہ ایک قابل ستائش اقدام ہے کہ ہم ایک زندہ شخص کو خراج تحسین پیش کر رہے ہیں جنہوں نے اپنی پختہ کاری سے غزل کو نئے نئے موضوعات دیے‘ ان کی شاعری کی صنع کاری اور صفت سازی پر رشک آتا ہے۔ انہوں نے جدید سیاسی منظر نامے کو بھی غزل کی صبوحی میں اتارا ہے‘ ان کا ڈکشن ان کو معتبر بناتا ہے۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں مزید عزت و شہرت عطا فرمائے۔ کے ایم سی آفیسرز کلب کشمیر روڈ کراچی کے سبزۂ زار پر فیاض علی کے اعزاز میں منعقدہ پروگرام کی سرپرستی پروفیسر منظر ایوبی نے کی۔ انہوں نے کہا کہ فیاض علی فیاض پچیس‘ تیس سال سے متعدد کتابوں کی تصنیف و تالیف کے حوالے سے بھی شہرت رکھتے ہیں جب کہ انہوں نے ادب کے مختلف مکاتب فکر‘ شعر گوئی کے مختلف اسالیب‘ ہر عہد کے رجحانات‘ علمی میلانات اور ذہنی و فکر انقلابات سے اپنی شاعری سجائی ہے۔ انہوں نے جس طرح شاعری کے قدیم و جدید دبستانوں اور قدیم شعری سرمایہ کے مطالعہ کو شامل حال رکھا وہ ان کے عمیق مطالعہ‘ فلسفیانہ سوچ اور ایک زاویۂ خیال کا آئینہ دار ہے۔ انہوں نے بہاریہ شاعری کے تمام لوازمات اپنی غزلوں میں شامل کیے انہوں نے زمانے کی چیرہ دستیاں‘ ظلم و تشدد کے واقعات‘ بے سکون زندگی کے کٹھنائیاں رقم کی ہیں۔ موضوعی اعتبار سے جو تنوع‘ ہمہ گیری‘ بو قلمونی اور رنگا رنگی فیاض کی غزلیہ کلام میں پائی جاتی ہے وہ ان کے ہم عصر شعرا میں شاذ و نادر ہی نظر آتی ہے۔ فیاض علی جہاں ایک طرف کلاسک سے جڑے ہوئے ہیںاور روایت کا احترام کرتے ہیں وہاں جدید ترین لب و لہجے اور دل نشین انداز میں اپنے فنی کمالات کا مظاہرہ بھی کر رہے ہیں‘ ان کی غزلیں‘ ان کی نظمیں‘ زندگی کی تلخ حقائق اور عالمی مسائل کے ساتھ ساتھ حیات اجتماعیہ کی سچائیوں کی مظہر بھی ہیں اور طبقاتی سماج کی انسانی کش پالیسیوں کی آئینہ دار بھی۔ ان کے یہاں سہلِ ممتنع کے ساتھ ساتھ تخلیقی صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ فنی بصیرت بھی نمایاں ہے‘ فصاحت و بلاغت ان کے کلام کا خاصا ہے ان کے نرم و شیریں لہجے اور اسلوب کی دلآویزی نے انہیں بڑا شاعر بنایا ہے‘ ان کی بولتی ردیفوں‘ کیف آور قافیوں‘ گنگناتی تشبیہوں‘ چہکتے استعاروں‘ کھنکھناتی ترکیبوں اور مسکراتی علامتوں سے مزین اشعار قاری کے ذہن و دل میں اتر جاتے ہیں۔ بلاشبہ یہ جدید غزل نگاری کے نمائندہ شاعر ہیں۔ اس تقریب کے مہمانان خصوصی رونق حیات‘ سعیدالظفر صدیقی اور تاجدار عادل تھے۔ اختر سعیدی اور طارق جمیل مہمانانِ اعزازی تھے جب کہ خالد میر نے نظامت کے فرائض انجام دینے کے ساتھ ساتھ فیاض علی کے لیے کئی قطعات پیش کیے۔ تلاوتِ کلام مجید کی سعادت م۔ص۔ایمن نے حاصل کی۔ اختر سعیدی نے فیاض علی فیاض کو منظوم خراج تحسین پیش کیا۔ انہوں نے اپنی نظم میں فیاض علی کی شخصیت کے تمام پہلوئوں پر روشنی ڈالی‘ ان کی نظم کو بے حد پسند کیا گیا اور کئی مقررین نے اپنے خطاب میں اس بات کا ذکر بھی کیا کہ اختر سعیدی کی نظم سب سے اچھی تھی۔ طارق جمیل نے کہا کہ دبستان کراچی میں تین دہائیوں سے ادبی محفلیں اجڑ کر رہ گئی تھی جیسے جیسے امن وامان کی صورت حال بہتر ہوئی ہے ادبی پروگرام تواتر کے ساتھ ہو رہے ہیں۔ ان کی تنظیم بزم شعر و سخن نے بہت جلد دنیائے ادب میں مثبت پیغامات کے سبب عزت و شہرت کمائی ہے ہم اپنے نوجوانوں کو کتاب کلچر سے جوڑیں گے‘ آپ سے گزارش ہے کہ آپ ادبی سرگرمیوں کا حصہ بنیں۔ تاجدار عادل نے کہا کہ ادب بہت مشکل مرحلوں سے گزر رہا ہے اس قسم کے ماحول میں کسی شاعر کی ادبی خدمات کا ذکر کرنا ایک اچھی روایت ہے فیاض علی ایک بہترین خطاط‘ کاتب اور قدر آور شاعر ہیں انہوں نے اپنی محنت اور لگن سے لوگوں کے دلوں میں گھر بنایا ہے۔ سعیدالظفر صدیقی نے کہا کہ فیاض علی فیاض سادہ لوح اور خوب صورت شخصیت کے ساتھ توانا آواز شاعر ہیں ان کے اشعار میں روانی ہے‘ صاف ستھری اور نکھری ہوئی شاعری ان کا خاصا ہے‘ یہ گہری سوچ کو چھوٹے چھوٹے مصرعوں میں بیان کرکے قاری کو حیران کر دیتے ہیں‘ وہ اپنے ماضی سے جڑے ہوئے ہیں حال پر بھی ان کی نظر ہے جب کہ اچھے مستقبل کے خواب بھی ان کی نگاہوں میں ہیں۔ رونق حیات نے کہا کہ فنون لطیفہ میں شاعری سب سے مؤثر ابلاغ ہے اور فیاض علی اس فن میں ماہر ہیں آج کی تقریب ان کے لیے کمالِ فن ایوارڈ ہے اس کے بعد رونق حیات نے فیاض علی کے لیے 8 صفحات پر مشتمل ایک طویل نظم پیش کی۔ سید آصف رضا رضوی نے بھی فیاض علی کو منظوم خراج تحسین پیش کیا۔ اس موقع پر بزم شعر و سخن کی جانب سے فیاض علی کو شیلڈ پیش کی گئی جب کہ مختلف تنظیموں کے نمائندوں نے فیاض علی کو تحفے اور گلدستے پیش کیے۔ صاحبِ اعزاز فیاض علی نے اپنے اشعار سنا کر سامعین سے خوب داد وصول کی۔ طاہر پرفیوم والا نے کلماتِ تشکر ادا کیے۔ راقم الحروف کے نزدیک یہ تقریب تاریخی اہمیت کی حامل ہے کہ اس تقریب میں سامعین کے علاوہ صاحبانِ عقل و دانش بڑی تعداد میں موجود تھے۔ بزم شعر و سخن کی یہ کاوش قابلِ تقلید و قابل تحسین ہے۔ امید ہے کہ یہ تحریک آگے بڑھے گی زندہ شاعروں کے ساتھ تقریب پزیرائی ایک قابل احترام عمل ہے دوسری ادبی تنظیموں کو بھی اس کارِ خیر میں حصہ لینا چاہیے۔ اس موقع پر خالد میر کی جانب سے یہ اعلان بھی کیا گیا کہ ہر تین ماہ بعد کسی بھی شاعر کے اعزاز میں اس طرح کی محافل سجائی جاتی رہے گی۔

آزاد خیال ادبی فورم کا مذاکرہ اور مشاعرہ

آزاد خیال ادبی فوم کے تحت 14 سال سے بغیر کسی تعطل کے مذاکرے اور مشاعروں کا سلسلہ جاری ہے اسی تناظر میں کے ایم سی آفیسرز کلب کشمیر روڈ کراچی میں 6 اگست بروز منگل مذاکرہ اور مشاعرہ ترتیب دیا گیا جس میں انوار احمد علوی نے صدارت کی اور سرور جاوید نے ’’ادبی انجمنوں کا ادب کی ترویج میں حصہ‘‘ کے عنوان پر گفتگو کی۔ انہوں نے کہا کہ ادب کی ترویج نہیں ہو پارہی اس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ الیکٹرانک میڈیا نے ادب سے اپنا ہاتھ کھینچ لیا ہے ادب کی ترویج و اشاعت ان کی ترجیہات ِمیں شامل نہیں ہے۔ اخبارات میں بھی وہ لوگ آ گئے ہیں جن کا ادب سے کوئی لینا دینا نہیں ہے ‘ اب وہ اپنے اخبارات میں ’’گلوبل‘‘ سے اپنی مرضی کی چیزیں نکال کر شائع کر دیتے ہیں‘ نئے نئے مضامین اور نئی نئی تخلقیات منظر عام پر نہیں آرہی ہیں‘ میں تو بہت عرصے سے کہہ رہا ہوں کہ ادب روبۂ زوال ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ادب کی انجمنیں جتنی زیادہ ہوںگی اتنی ہی ادب کی ترویج و اشاعت ہوگی میں سمجھتا ہوں کہ کراچی میں 50 ہزار شاعر تو ضرور ہوں گے ان میں سے کتنے ایسے ہیں جنہیں کوئی فورم میسر نہیں کہ جہاں وہ اپنا کلام سنا سکیں اس لیے زیادہ سے زیادہ ادبی فورم بنانے کی ضرورت ہے۔ یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ جو لوگ مشاعرے کرا رہے ہیں ان میں متشاعر بھی شرکت کر رہے ہیں جس کی وجہ سے ادب متاثر ہو رہا ہے ادب کی ترقی نہیں ہو رہی ایک زمانے میں ادب کے دو بڑے گروپ تھے ایک حلقۂ ارباب ذوق اور دوسرا انجمن ترقی پسند مصنفین ان اداروں میں بھی ادب کا کام ٹھنڈا پڑ گیا ہے جب کہ مسلم شمیم ایڈووکیٹ نے انجمن ترقی پسند مصنفین کے آئین میں کچھ اس طرح سے ترمیم کی ہے کہ اب ہر لکھاری اس انجمن کا رکن بن سکتا ہے چاہے وہ ترقی پسند ہو یا نہ ہو۔ حکومت نے جن اداروں کو ادب کی ترقی کے لیے نامزد کیا ہے وہاں بھی کوئی قابلِ ذکر کام نہیں ہورہا۔ اکادمی ادبیات پاکستان کراچی میں ہر ہفتے مشاعرہ ہورہا ہے۔ ادب کی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ مختلف لوگ اپنے اپنے حلقوں‘ اپنے اپنے علاقوں میں ادبی سرگرمیاں شروع کریں۔ اس موضوع پر گفتگو کرنے والوں میں راقم الحروف نثار احمد‘ حامد علی سید‘ نظر فاطمی‘ عبدالغفور کھتری‘ شمس الغنی‘ شاعر علی شاعر‘ اختر سعیدی‘ شجاع الزماں اور احمد سعید فیض آبادی شامل تھے۔ ایک سوال کے جواب میں سرور جاوید نے کہا کہ مشاعروں‘ ادبی تقریبات کے لیے فنڈنگ کا مسئلہ ہر زمانے میں موجود رہا لیکن ہر زمانے میں کوئی نہ کوئی مخیر شخص فنڈنگ کرتا رہتا ہے بس اتنا خیال رکھا جائے کہ فنڈنگ کرنے والے کو صدر محفل نہ بنایا جائے‘ مہمان خصوصی‘ مہمان اعزازی بنانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اس پروگرام کے دوسرے حصے میں مشاعرہ ہوا جس میں اسلام آباد سے تشریف لائے شاعر وادیب و نقاد ڈاکٹر نثار ترابی نے اپنی غزلیں سنائیں اور یہ بھی کہا کہ دبستان کراچی شاعری کا ایک اہم محور ہے یہاں محبت کرنے والے آباد ہیں وہ جب بھی کراچی آتے ہیں ان کے اعزاز میں محفلیں سجائی جاتی ہیں میں اسلام آباد میں مقیم ہوں لیکن میرا دل کراچی والوں کے ساتھ دھڑکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کراچی کے شعرا جدید غزلیں کہہ رہے ہیں۔ نظریاتی اور مزاحمتی شاعری بھی کراچی کا خاصا ہے کراچی کے شعرا جدید تراکیب و استعارے استعمال کر رہے ہیں آج بھی آزاد ادبی فورم میں بہت عمدہ شاعرہ سامنے آئی ہے۔ ان کے علاوہ جن شعرا نے اپنا کلام پیش کیا ان میں سرور جاوید‘ شمس الغنی‘ سبی سے تشریف لائے شاعر ریاض ندیم نیازی‘ احمد سعید فیض آبادی‘ غلام علی وفا‘ اختر سعیدی‘ حامد علی سید‘ نثار احمد نثار‘ عبدالمجید محور‘ نظر فاطمی‘ عمر برناوی‘ انجم جاوید‘ افضال بیلا‘ سلمان ثروت‘ شجاع الزماں اور عباس ممتاز شامل تھے۔ صاحب صدر نے کہا کہ ادب کی ترویج کے لیے ضروری ہے کہ ہم سب ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوں‘ ادبی گروہ بندیاں اور لسانی تعصب سے ادبی کام متاثر ہو رہا ہے۔ آزاد ادبی فورم ایک ایسا ادارہ ہے جو مسلسل ادب کی خدمت میں مصروف عمل ہے اس کے روح رواں سرور جاوید محبتوں کے انسان ہیں میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں مزید عزت و شہرت عطا فرمائیں اور یہ اسی طرح ادب کی خدمت کرتے رہیں۔

اکادمی ادبیات پاکستان کی حمایت علی شاعر کی یاد میں مشاعرہ

اکادمی ادبیات پاکستان کراچی میں حمایت علی شاعر کی یاد میں منعقدہ مشاعرے کی صدارت ڈاکٹر جمال نقوی نے کی انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ حمایت علی شاعر اردو ادب کے معتبر شاعر و ادیب تھے انہوں نے پابند نظمیں بھی لکھیں اور آزاد نظمیں بھی۔ ان کی شاعری میں سیاسی‘ سماجی اور تاریخی منظر نامے آتے ہیں ان کے قطعات و رباعیات بھی ادب کا سرمایہ ہے اور ہائیکوز بھی ان کی کتاب میں موجود ہے۔ رضوان صدیقی نے کہا کہ حمایت علی شاعر کی آواز‘ ان کا ترنم‘ ان کی شاعری کی طرح دل نشین تھا‘ وہ مشاعروں کی جان تھے‘ وہ بہاریہ شاعری کے علاوہ نعتیہ شاعری پر بھی دسترس رکھتے تھے۔ پروفیسر اوجِ کماِل نے کہا کہ ان کے والد ہمہ جہت شخصیت تھے۔ شاعری سے لے کر فلم سازی تک انہوں نے ہرمیدان میں اپنی کامیابی کے پرچم لہرائے۔ انہوں نے تین مصرعروں پر مشتمل شاعری ثلاثی پر بھی ایک نیا تجربہ کیا۔ ان کی کتابوں میں آگ میں پھول‘ شکستِ آرزو‘ مٹی کا قرض‘ تشنگی کا سفر‘ حرف حرف روشنی‘ دودِ چراغ محفل‘ عقیدت کا سفر‘ ہارون کی آواز‘ تجھ کو معلوم نہیں‘ کھلتے کنول سے لوگ‘ محبتوں کے سفیر‘ چاند کی دھوپ‘ ثلاثیاں اور ہائیکو‘ شیخ ایاز شخص و عکس شامل ہیں۔ معروف شاعر‘ صحافی اقبال سہیوانی نے کہا کہ اس ضمن میں آپ نے ایسے عام اردو ہائیکو نگارں کی طرز نگارش سے صحت مند گریز کیا ہے جو ہر سہ مصرعی تخلیق کو ہائیکو کہنے میں عار محسوس نہیں کرتے ہیں۔ ان سب اصناف سخن میں فکر سے مستزاد شاعر صاحب نے نظم گوئی میں گاہے گاہے اجتہاد سے بھی کام لیا ہے لہٰذا آپ کے یہاں ’’ایک مصرع ایک نظم‘‘ کے عنوان سے یک مصرعی نظم (اگر ایسی کوئی چیز ہوسکتی ہے تو) ملتی ہے۔ نیز رباعی کی تقلید میں ایک نئی مصرعی صنف سخن ’’ثلاثی‘‘ کی ایجاد و ترویج کا سہرا بھی آپ کے سر باندھا جاسکتا ہے۔ آپ نے اتنی مختلف النوع شاعری پر ہی اکتفا نہیں کیا۔ قادر بخش سومرو نے کہا کہ تقسیم ملک کے بعد وہ پاکستان آگئے اور کراچی میں رہائش پذیرہوئے۔ انہوں نے تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا پہلے وہ ریڈیو پاکستان کراچی میں اسٹاف آرٹسٹ کی سیٹ پر ملازم ہوئے مگر جب حیدرآباد میں ریڈیو اسٹیشن قائم ہوا تو وہ بھی حیدرآباد منتقل ہو گئے اور وہاں سندھ یونیورسٹی سے 1962ء میں اردو ادب میں ایم اے بھی کرلیا۔ ریڈیو کی ملازمت چھوڑ کر وہ سچل سرمست کالج حیدرآباد میں لیکچرار لگ گئے۔ حیدرآباد سے ’’شعور‘‘ کے نام سے ایک رسالہ بھی نکالا جو کچھ ہی عرصہ جاری رہا۔ انہیں ریڈیو میں براڈ کاسٹنگ کے ساتھ ساتھ نغمے اور گیت لکھنے کا بھی موقع ملا جس کی وجہ سے ان کی فلمی دنیا تک رسائی ہوگئی۔ انہیں ادبی خدمات کے صلے میں نگار ایوارڈ‘ رائٹرز گلڈ آدم جی ایورڈ‘ عثمانیہ گولڈ میڈل‘ صدارتی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے اپنی منظوم خود نوشت ’’آئینہ در آئینہ‘‘ تحریر کی۔ اس موقع پر شعرائے کرام میں ڈاکٹر جمال نقوی‘ رضوان صدیقی‘ اوج کمال‘ محمد اصغر خان‘ کشور عدیل جعفری‘ شگفتہ شفیق‘ جمیل ادیب سید‘ دلشاد احمد دہلوی‘ قمر جہاں قمر‘ ارجمند خواجہ‘ فرح دیبا‘ علی کوثر‘ ڈاکٹر رحیم ہمراز‘ شجاع الزماں خان‘ صدیق راز ایڈووکیٹ‘ عاشق شوکی‘ عارف شیخ عارف‘ طاہرہ سلیم سوز‘ اقبال سہوانی‘ تنویر حسین سخن نے کلام سنا کر حمایت شاعر کی عظمت کو خراج عقیدت پیش کیا۔

حصہ