حق تو یہ ہے کہ ۔۔۔۔

456

شبانہ ضیا
اسلامی سال کا پہلا مہینہ قربانی سے شروع ہوتا ہے اور آخری مہینہ بھی قربانی کا ہوتا ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ اللہ کے نزدیک قربانی کی کتنی اہمیت ہے، چاہے قربانی جان کی ہو یا مال کی۔ امام حسینؓ اور شہدائے کربلا نے کس طرح دینِ اسلام کو قائم رکھنے کے لیے عظیم قربانی دی جو قیامت تک لوگوں کے لیے مثال ہے۔ اسی طرح حضرت ابراہیمؑ جن کو اللہ رب العزت نے ’’خلیل اللہ‘‘ کہہ کر مخاطب فرمایا، یعنی اپنا دوست کہا، اللہ کو ان کا تمام عمر قربانی دینا، مشکلات اور آزمائشوں پر صبر کرنا پسند آیا، پھر اپنے بیٹے حضرت اسماعیلؑ کو قربان کرنے کے عمل کو قیامت تک لوگوں کے لیے یادگار بنادیا تاکہ مسلمان ہر سال اُن کی قربانی کو یاد کرکے سنت ِ ابراہیمی ادا کرسکیں۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام زندگی دین کو قائم کرنے میں گزری۔ اللہ کی خاطر گھربار چھوڑا۔ دکھ، تکلیف، اذیت، بھوک، افلاس کو بڑی ہمت اور حوصلے سے برداشت کیا۔ آپؐ کا ہر عمل رہتی دنیا تک کے لیے مثالی نمونہ ہے۔ مسلمانوں نے اللہ کے دین کو قائم کرنے کے لیے اپنے جان و مال کی قربانی تاریخ کے ہر دور میں دی ہے۔ ہم نے بھی یہ ملک لاکھوں انسانوں کی جانی و مالی قربانی دے کر حاصل کیا ہے۔
ہر چیز قربانی مانگتی ہے، جب تک ہم قربانی نہیں دیں گے کس طرح کامیاب و سرفراز ہوں گے، کس طرح ہم جنت میں جاسکیں گے! قربانی چاہے جان کی ہو یا مال کی، دل کی ہو یا دماغ کی، وقت کی قربانی ہو یا جذبات کی… ہر قربانی کے پیچھے کوئی نہ کوئی وجہ ہوتی ہے۔ انسان عظیم مقصد کے لیے ہر چیز قربان کرنے پر آمادہ ہوجاتا ہے، یہاں تک کہ وہ اپنی جان کی بھی پروا نہیں کرتا، کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ اس تمام قربانی کے پیچھے اللہ نے اس کے لیے اجر رکھا ہے جو کہ بہت ہی انمول ہے۔ اللہ اس بندے پر اپنی رحمتوں، برکتوں کا سایہ کردیتا ہے، جو کہ دنیا میں بھی خیر پاتا ہے اور آخرت میں بھی۔ مگر آج ہمارے معاشرے میں قربانی کا جذبہ ناپید ہوتا جارہا ہے۔ صبر و برداشت کا مادہ لوگوں کے عمل سے نکلتا جارہا ہے۔ قربانی اور ایثار جیسے جذبات پروان چڑھنے کے بجائے دم توڑتے نظر آرہے ہیں۔ ذرا غور کریں کہ یہ سب کیوں ہورہا ہے تو اندازہ ہوگا کہ آج کا انسان حرام و حلال کی تمیز بھول چکا ہے۔ جھوٹ، دھوکا دہی، قتل، چوری، غیبت اور کرپشن میں مبتلا نظر آتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ کی ہوس میں دوسروں کو حقارت سے دیکھتا ہے، اور آگے نکل جانے کی دوڑ نے انسانیت کا خون کردیا ہے کہ آج کے انسان کو بس اپنی ذات کے سوا کسی سے کوئی غرض نظر نہیں آتی۔ آج وہ انسانیت کی خدمت کے جذبے سے عاری نظر آتا ہے، پھر وہ کس طرح اپنی جان کو، مال کو قربان کرے گا سوائے دنیا دکھاوے کے لیے! لوگوں نے سنتِ ابراہیمی ؑ کو سمجھنے کے بجائے بس زیادہ سے زیادہ قربانی کے جانور لانے اور قربان کرنے کو اپنا لیا ہے کہ حق ادا ہوگیا۔ اللہ کو ایسی قربانی سے کوئی غرض نہیں جو دکھاوے کے لیے کی جائے۔ آج ہم غور کریں کہ ہم کس طرف جا رہے ہیں، ہمارا مقصد کیا ہے، سنتِ ابراہیمیؑ کی ادائیگی یا پھر دکھاوا؟

حصہ