جشن آزادی

460

ناہیدخان
یار عزیر کتنا مزہ آئے گا نا اس بار ہم بقرعید اور 14 اگست ساتھ ساتھ منائیں گے حماد خوش ہو کر بولا ہاں یار بہت مزہ آئے گا آج نماز کے بعد ہم قربانی بھی کریں گے اور پھر 14 اگست کی تیاری بھی کرنی ہے سب بچوں نے اپنے اپنے حصے کی جھنڈیاں منگوالی ہیں نا گلی میں سجانے کے لیے عزیر کو جیسے ہی یاد آیا اس نے فوراً حماد سے پوچھا۔ ہاں سب نے اپنی اپنی جھنڈیاں منگوا لی ہیں اور میں نے تو ایک بہت بڑا جھنڈا بھی منگوایا ہے ابو سے حماد جوش سے بولا۔ دونوں بچے عید کی نماز پڑھنے عیدگاہ جارہے تھے اور ساتھ میں پلاننگ بھی ہو رہے تھے کے سارا کام کس طرح سے انجام دینا ہے۔ حالیہ بارشوں کی وجہ سے گلیوں اور روڈ پر پانی اور کیچڑ جمع ہوگیا تھا جسے دیکھ کر دونوں بچے بہت فکرمند ہوگئے کے اب وہ گلی میں جھنڈیاں کس طرح سے لگائیں گے اسی فکر مندی میں انہوں نے خطبہ سنا اور عید کی نماز پڑھ کر واپس گھر چلے واپسی کے دوران رستے میں لوگ جابجا قربانی کرتے نظر آئے ان کی اپنی گلی میں بھی کئی گائیں اور بکرے ذبح ہو چکے تھے فضل انکل جو ایک بہت ہی خرانٹ گائے لے کر آئے تھے اب وہ بڑی مشکلوں سے ذبح ہونے جا رہی تھی بہت سارے لوگ اور یہ دونوں بچے بھی بڑی دلچسپی سے قربانی کا یہ منظر دیکھنے لگے جب قربانی ہو چکی تو دوسرے لوگوں کی طرح فضل انکل نے بھی گائے کی آلائش ( گندگی) وغیرہ گلی میں ہی پھینک دی جس سے گلی کی صورتحال نہایت خراب ہوگئی تھی اور لوگ ایک دوسرے کو برا بھلا کہہ رہے تھے کہ انہوں نے علاقے کو بہت گندا کردیا تھا ہر نمازی کے کپڑے اس گندگی کی وجہ سے خراب ہوچکے تھے۔ اتنے میں سہیل صاحب نے عزیر کو آواز دی کے آجاؤ قربانی ہونے والی ہے عزیر بھاگم بھاگ اپنے دوستوں کے ساتھ گھر پہنچنا چاہتا تھا مگر راستے کی گندگی کی وجہ سے وہ تیز تیز نہیں چل پا رہے تھے عزیر غصے سے بولا کیا مصیبت ہے یار سب کپڑے خراب ہو گئے اور ہمارے بھی یہ کہتے ہوئے سب بچے عزیر کے گھر میں داخل ہو گئے جہاں قسائی گائے ذبح کرنے کو تیار تھا بچے سب بھول کر یہ منظر دیکھنے لگے قربانی کے بعد عزیر اپنے بھائی کے ساتھ مل کر گوشت صاف جگہ پر رکھنے لگا اس کے ابو نے تمام آلائش جمع کی اور گاڑی میں رکھ کر کوڑا دان میں ڈال کر آگئے عزیراور سب بچوں کو یہ دیکھ کر بہت حیرت ہوئی عزیر نے اپنے والد سے پوچھا کہ انہوں نے دوسرے لوگوں کی طرح کچرا گلی میں کیوں نہیں پھینکا عزیر کے ابو مسکرائے اور شفقت سے بولے کے آپ سب بچوں کو پتا ہے نا کہ ہم قربانی کیوں کرتے ہیں بچے فوراً بولے ابراہیم علیہ السلام کی سنت کی وجہ سے بالکل ٹھیک کہا آپ نے بچوں اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مذہب کو ہمارے نبیؐ نے مکمل کیا اور ہمارے مذہب میں صفائی کو نصف ایمان کہا گیا ہے تو پھر یہ بتائیں مجھے کہ ہم ایک سنت پر تو عمل کریں اور مذہب کی دوسری اتنی اہم بات کو نظرانداز کردیں یعنی صفائی پر توجہ نہ دیں گندگی پھیلائیں جس کی وجہ سے دوسروں کو تکلیف پہنچے اور اس سے بھی بری بات یہ کہ اس کی وجہ سے ہم محلے پڑوس میں آپس میں لڑتے پھریں تو ایسی قربانی کو کیا اللہ تعالی قبول فرمائیں گے؟ بالکل نہیں سب بچے یک زبان ہو کر بولے اس لیے ہمیں صفائی کا خاص خیال رکھنا چاہیے ابو نے وضاحت سے سب بچوں کو سمجھا دیا۔ اب سب بچوں کو یہ فکر لگ گئی کہ ان کے گھر جو قربانی ہوئی ہے وہ قبول ہوگی کہ نہیں کیونکہ ان کے گھروں کا کوڑا وغیرہ بھی گلی میں پڑا ہوا تھا تمام بچے کہنے لگے کہ اگر ہم سب لوگوں کو سمجھاتے ہیں تو لڑائی اور بڑھے گی اور ہمیں 14اگست کی جھنڈیاں بھی تو لگانی ہے سب بچے سوچ میں پڑ گئے کہ اب کیا کریں ۔
اچانک عزیر کے ذہن میں ایک ترکیب آگئی اس نے سب بچوں کو قریب بلایا اور کہا کہ مجھے پتا ہے کہ اب ہمیں کیا کرنا ہے یہ کہتے ہوئے اس نے تمام بچوں کے کان میں سرگوشیاں کرنی شروع کی جسے سن کر تمام بچوں کی آنکھیں خوشی سے چمکنے لگیں سب بچوں نے کہا کہ ٹھیک ہے چلو شروع کرتے ہیں۔ پھر گلی میں سب نے دیکھا کہ ہر بچہ اپنے گھر سے صفائی کا سامان لے کر آرہا ہے کوئی وائپر لایا کوئی جھاڑو اور کوئی پانی کی بالٹی پھر ان ننے منے بچوں نے اپنی گلی کی صفائی شروع کر دی بڑوں نے یہ منظر دیکھا تو انہیں بہت شرمندگی محسوس ہوئی سب اپنے اختلافات بھول کر بچوں کے ساتھ صفائی میں لگ گئے اور کچھ ہی دیر میں گلی چمکنے لگی سب نے بچوں کے ساتھ مل کر پوری گلی کو جھنڈیوں سے سجا دیا اور ہر گھر میں جھنڈے لہرائے معصوم بچوں نے انہیں آج قربانی اور آزادی کا مطلب سمجھا دیا تھا سب ہی مل کر نعرے لگا رہے تھے پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ اور بچے اپنے اس کارنامے پر بہت ہی خوش نظر آرہے تھے کہ انہوں نے آج سب کو دوبارہ متحد کردیا تھا آزادی کا مطلب سمجھا دیا تھا۔۔۔

حصہ