آخری خط

433

عروبہ عثمانی
۔’’چار بیٹوں کے بعد میں آپ کا پانچواں بیٹا تھا، شاید اسی لیے آپ لوگوں کی محبتوں کا ذخیرہ میرے لیے ختم ہوگیا تھا۔ ستم ظریفی یہ کہ اپنے دیگر بھائیوں کی طرح میں خوبرو بھی نہ تھا۔ بھائیوں کے ہتک آمیز جملوں سے زیادہ تکلیف دہ میرے لیے آپ کی بے رخی اور نظراندازی تھا۔
ماما! میری خواہش تھی کہ رات کے آخری پہر جب ڈر کے مارے میری آنکھ کھل جاتی تو آپ مجھے اپنی بانہوں میں چھپا لیتیں… مگر اُس وقت میرے پاس میری آیا ہوتیں جو نیند خراب ہونے پر مجھے دھتکار کر سلا دیتیں۔ بابا کے سال بھر بزنس ٹورز کی وجہ سے مجھے اُن کی کمی محسوس ہوتی، مگر ایک آپ ہی ہیں جس سے مجھے سب سے زیادہ عقیدت و محبت ہے۔ میں چاہتا تھا کہ رات گئے آپ کسی تقریب یا چیریٹی ایونٹ سے واپس آتیں تو میں آپ کو پورے دن کا حال سناتا، آپ کے گلے لگ کر ممتا کی گرمی اور نرمی کو اپنے اندر جذب کرتا، مگر ایسا کبھی نہ ہوسکا۔ میں جب بیمار ہوتا تو ڈاکٹروں کی لمبی لائن ہوتی مگر ایک آپ کا چہرہ نہ ہوتا جو میرے لیے باعثِ راحت تھا۔
جب پاک آرمی میں میرا انتخاب ہوا، تب آپ خوش نہ تھیں۔ آپ چاہتی تھیں کہ دوسرے بھائیوں کی طرح میں بھی بیرونِ ملک جائوں اور خوب نام اور پیسہ کمائوں۔ مگر ماما! اگر ملک کا ہر بیٹا یہ کرے گا تو اس پاک وطن کا خیال کون رکھے گا؟ جن محبتوں، جذبات اور احساسات کے لیے میں عمر بھر ترستا رہا، وہ سب میں نے اپنے وطن کے نام کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ آپ کی مرضی کے بغیر میرا پہلا اور آخری فیصلہ۔‘‘
اسے پتا ہی نہ چلا کہ کب اس کا پورا چہرہ آنسوئوں سے بھیگ چکا تھا۔ وہ روز یہ خط پڑھتی اور پچھتاوے کی آگ میں جلتی۔
’’احسن مجھے مزید اولاد نہیں چاہیے، کیا ساری زندگی بچے ہی سنبھالوں گی میں؟‘‘ ڈاکٹر نے جب اسے پانچویں اولاد کی خوش خبری سنائی تو گھر آتے ہی وہ شوہر پر بھڑکنے لگی۔ اس کے لاکھ نہ چاہنے کے باوجود بھی وہ اولاد دنیا میں آ تو گئی، مگر عمر بھر اس کی تلخیوں کا نشانہ بنتی رہی۔ ہاں اس کا پانچواں بیٹا عمر جہانگیر۔
وہ مناظر اس کی آنکھوں کے سامنے گھوم رہے تھے جب وہ عمر کو روتا بلکتا آیا کے ہاتھ تھما کر چلی جاتی۔ آدھی رات کو جب گھر پہنچتی تو وہ دروازے پر ہی اس کا انتظار کررہا ہوتا، مگر وہ کبھی اسے خاطر میں نہ لائی۔
’’آہ عمر!‘‘ درد کی ٹیس سینے میں اٹھی تھی۔ وہ بوڑھی ہوگئی تھی۔ لاڈلے بیٹے اپنی زندگیوں میں مگن تھے، اسے عمر بہت شدت سے یاد آرہا تھا کہ جب وہ بیمار ہوتی تو ساری ساری رات اس کے سرہانے بیٹھ کر ہاتھ پائوں دباتا اور خیال رکھتا کہ کہیں آدھی رات کو ماں کو پانی کے لیے اٹھنا نہ پڑے۔ وہ بیٹا جو ایک آواز پہ دوڑا چلا آتا اور شاید اس کے لیے جان بھی دے دیتا۔’’ماما! آج رات شاید میری زندگی کی آخری رات ہے، آج ہم سب بارڈر پر تعینات ہیں۔ خبر ملی ہے کہ دشمن آج شب خون مارے گا۔ ماما! ابھی نماز کے بعد جب میں نے دعا مانگی تو یہی مانگی کہ مجھے شہادت نصیب ہو اور جنت میں آپ ہی میری ماں ہوں گی۔‘‘۔
’’آج مجھے یہ احساس ہورہا ہے کہ میرے وطن نے مجھے بہت کچھ دیا ہے۔ عزت، مقام، نام، تحفظ اور شناخت۔ وہ وطن جس کے لیے ہزاروں لوگوں نے اپنی جانیں گنوائیں، اس پاک وطن کی حفاظت اور ناموس کی خاطر ہزارہا بار بھی اپنی جان قربان کردوں تب بھی شاید میں اس کا قرض نہیں چکا پائوں گا۔فوج کی ٹریننگ کے دوران ہمیں بے شمار ذہنی اور جسمانی اذیتوں سے گزارا گیا، مگر ہر تکلیف اس مٹی سے میری محبت کی شدت میں اضافہ کرتی گئی۔ آج یا تو میں غازی بنوں گا یا شہید، ہم پھر ملیں گے ماں، یا تو جنگ کے بعد یا قیامت کے بعد…‘‘۔
آج میجر عمر جہانگیر کی شہادت کی اعزازی تقریب تھی۔
’’وہ اولاد خوش قسمت ہوتی ہے کہ جسے اس کے ماں باپ پال پوس کر بڑا کریں، لیکن وہ والدین بہت خوش نصیب ہیں جن کو میجر عمر جہانگیر جیسی اولاد ملتی ہے۔ اس پاک فوج اور ملک کو میجر عمر پر فخر ہے۔‘‘ آرمی چیف نے اس کو اسٹیج پر مدعو کیا۔’’ہم آپ کے احسان مند ہیں کہ آپ نے اس وطن کو میجر عمر جیسا بیٹا دیا۔‘‘ آرمی چیف نے اسے سلیوٹ کیا۔
اور وہ صرف یہ سوچ رہی تھی کہ اس نے عمر کو پیدا تو کردیا تھا مگر ماں ہونے کا اصل فرض تو اس ارضِ وطن نے ادا کیا تھا، تاقیامت اپنے بہادر سپوت کو اپنی آغوش میں تحفظ دے کر۔ شہادت کے بلند مرتبے پر فائز اس کا بیٹا اس کے لیے دنیا میں بھی قابلِ فخر ہے اور آخرت میں بھی ہوگا۔

حصہ