ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی کی کتاب ’’یوں نہیں یوں اور کچھ دیگر کی رسم اجرا

620

ڈاکٹر نثار احمد نثار
گزشتہ ہفتے ممتاز ادیب‘ کالم نویس اور مزاح نگار ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی کی 26 ویں کتاب ’’یوں نہیں اور کچھ دیگر‘‘ کی تقریب اجرا آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں منعقد ہوئی تقریب کی مجلسِ صدارت میں جنرل (ر) معین الدین حیدر‘ سردار یاسین ملک‘ عبدالحسیب خان اور میاں زاہد حسین شامل تھے۔ مہمان خصوصی پروفیسر سحر انصاری تھے‘ مہمان اعزازی مہتاب اکبر راشدی تھیں۔ جنرل معین الدین حیدر نے کہا کہ ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی کی یہ 26 ویں کتاب ایک مکمل تحقیقی مقالہ ہے جس پر انہوں نے 8 سال لگائے‘ انہوں نے مختلف اشعار کو مدّلل انداز میں پیش کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس زمانے میں کتب بینی کا شعبہ کمزور ہوتا جارہا ہے تاہم کتابیں علم حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہیں ہمیں کتاب کلچر کو پروموٹ کرنا چاہیے۔ ڈاکٹر معین قریشی نے یہ کتاب بہت تحقیق اور محنت سے ترتیب دی ہے اس کا مطالعہ کیجیے اور ڈاکٹر صاحب کے فن سے فیض پایئے۔ مہتاب اکبر راشدی نے کہا کہ یہ کتاب علم و آگہی کا خزانہ ہے‘ ڈاکٹر معین قریشی نے جو کام کیا ہے اس پر انہیں پی ایچ ڈی کی ایک اور ڈگری ملنی چاہیے حالانکہ یہ پہلے سے پی ایچ دی ہیں۔ اس کتاب میں انہوں نے مزاح میں منفرد اسلوب اپناتے ہوئے تحقیق کے نئے در کھولے ہیں۔ انہوں نے اشعار کو ان کے پس منظر میں بیان کرکے ایک قابل تحسین کارنامہ انجام دیا ہے۔ عبدالحسیب خان نے کہا کہ ایس ایم معین قریشی مزاح نگاری اور طنزیہ لکھاریوں میں اپنا جداگانہ اسلوب رکھتے ہیں‘ وہ انتہائی سنجیدگی اور شائستگی کی ساتھ بڑی سے بڑی بات کہہ جاتے ہیں‘ ان کی تحریر میں طنز بھی شائستہ انداز میں ہوتا ہے۔ طنز میں اگر تضحیک نہ ہو تو ہم اپنی غلطی کو مان لیتے ہیں ان کے طنز میں ایک پیغام ہوتا ہے‘ وہ معاشرتی برائیوں کے خلاف صفِ آرا ہیں‘ وہ اپنی تحریروں کے ذریعے امن کے خواہاں ہیں‘ وہ چاہتے ہیں کہ حق دار کو حق مل جائے کسی کی دل شکنی کرنا ان کے نزدیک گناہِ کبیرہ ہے‘ ان جیسے بڑے لوگ صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ سردار یاسین ملک نے کہا کہ اردو ہماری قومی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ علاقائی زبانوں کی ترقی بھی ضروری ہے۔ اردو کا کسی بھی زبان سے کوئی جھگڑا نہیں ہے ہم اپنے بچوں کو انگریزی ضرور سکھائیں کہ یہ ایک بین الاقوامی زبان ہے تاہم انہیں قومی اور علاقائی زبانوں سے بھی روشناس کرائیں ورنہ دھیرے دھیرے ہماری زبانیں اور ہماری تہذیب ختم ہو جائے گی‘ ہم اپنے گھروں میں اپنی مادری زبانوں میں گفتگو کریں تاکہ ہمارے بچے اپنی مادری زبان سے جڑے رہیں۔ اس پروگرام میں شمائلہ خالد نے نظامت کے فرائض انجام دیے اور اپنے خوب صورت اندازِ تکلم سے سامعین کے دلوں میں اپنا گھر بنایا۔ انہوں نے کسی بھی موقع پر تقریب کا ٹیمپو ٹوٹنے نہیں دیا۔ اس موقع پر رمیز الحسن صدیقی نے تلاوتِ کلام مجید کی سعادت حاصل کی اور شہزاد عالم شہزاد نے نعت رسولؐ پیش کی۔ ڈاکٹر دائود عثمانی نے کتاب پر سیر حاصل تبصرہ کیا اور اس کتاب کا ایک مضمون ’’ہوئے مر کے ہم جو زندہ‘‘ پڑھ کر سنایا۔ انہوں نے ڈاکٹر معین قریشی کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے دو سو مشہور اور ضرب المثل اشعار کی اصلاح مستند حوالوں سے کی ہے۔ پروفیسر غازی علیم الدین کا تحریر کردہ مضمون ڈاکٹر دائود عثمانی نے پیش کیا کیوں کہ پروفیسر غازی علیم الدین حج کے لیے جارہے ہیں اس لیے وہ اس تقریب میں شریک نہیں ہوسکے۔ انہوں نے معین الدین قریشی کے بارے میں لکھا ہے کہ ان کی کتاب اعلیٰ سطحی‘ جامعاتی تحقیق ہے اور مزاح کے قارئین کے لیے رہنما ہے۔ اس کتاب میں خوب صورت اشعار مستند حوالوں سے درج ہیں۔ یہ وہ اشعار ہیں جو زبانِ خاص و عام ہیں لیکن اپنے اصل شاعر کے بجائے دوسرے شعرا سے منسوب ہیں۔ اس کتاب سے ہماری معلومات میں اضافہ ہوگا۔ نسیم انجم صاحبہ نے کہا کہ معین قریشی طنز و مزاح کے حوالے سے ایک معتبر نام ہے‘ فی زمانہ ان کا دمِ غنیمت ہے ورنہ طنز و مزاح میں اب تو کوئی اہم نام سامنے نہیں آرہا یہ ایک ایسے مزاح نگار ہیں کہ کسی کو بھی ان سے کوئی اختلاف نہیں ہے‘ ان کی طنز نگاری میں پھکڑ پن نہیں ہے‘ یہ سادہ جملوں میں مافی الضمیر بیان کردیتے ہیں کہ کسی کو برا بھی نہیں لگتا۔ صاحبِ اعزاز معین قریشی نے کہا کہ وہ آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے ان کی کتاب کی تقریب منعقد کی اور وہ تمام قارئین کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ جن کی شرکت سے تقریب کامیاب ہوئی۔ انہوں نے بتایا کہ یہ کتاب ان کی آٹھ سالہ انتھک محنت کا نتیجہ ہے‘ اس کے 45 مسودات بنے۔ اس کتاب کا نام انہوں نے اپنی بیوی کے تکیہ کلام’’یوں نہیں یوں‘‘ سے متاثر ہو کر رکھا ہے۔ ڈاکٹر معین قریشی کی تقریب میں قابلِ ذکر حاضرین موجود تھے۔ ڈاکٹر معین قریشی محبتوں کے انسان ہیں‘ ان کا حلقۂ احباب بہت وسیع ہے یہ طنز و مزاح کے حوالے سے ایک بین الاقوامی شخصیت ہیں ان کے قارئین زندہ ہیں ان کی پُر مزاح گفتگو سے بوریت نہیں ہوتی بلکہ دل چاہتا ہے کہ یہ بولتے رہیں اور ہم سنتے رہیں انہیں لفظوں کی نشست و برخواست کا سلیقہ آتا ہے جس کے باعث ان کی ہر تحریر دل چسپ ہوتی ہے انہوں نے دنیا بھر کے ممالک کی سیر کی ہے اور مطالعاتی دورے بھی کیے ہیں جس کا اظہار ان کی تحریروں میں نظر آتا ہے یہ اردو و ادب کا گراں قدر سرمایہ ہیں۔

نسیم شیخ کا مجموعہ کلام ’’موجِ نسیم‘‘ شائع ہو گیا

دبستان کراچی کے شعرا نسیم شیخ اس حوالے سے بہت مشہور ہیں کہ ان کے کریڈٹ پر کئی شاندار مشاعرے موجود ہیں اردو ادب کی ترویج و ترقی کے لیے مشاعروں کے کردار سے انکار ممکن نہیں۔ نسیم شیخ‘ موج سخن پبلی کیشن کے پروپرائیٹر ہیں یہ بہت مناسب ریٹ پر کتابیں شائع کر رہے ان کے شعری مجموعے موجِ نسیمی 224 صفحات پر مشتمل ہے جس میں غزلیں‘ نظمیں اور گیت شامل ہیں ایک صفحے پر دس اشعار ہیںتو کہیں 9 اشعار ہیں اس کتاب میں جتنا کلام شامل ہے اس سے دو کتابیں بن سکتی تھیں۔ ان کی کہنہ مشق سخن وری سے یہ بات عیاں ہے کہ ان کی ترقی کا سفر جاری ہے‘ ان کے ہاں غمِ جاناں کے ساتھ معاشرتی ظلم و ستم اور اچھے مستقبل کے خواب نظر آتے ہیں‘ یہ دھیمے لہجے میں بات کرتے ہیں لیکن ان میں معاشرے سے بغاوت کی بو آرہی ہے جس کا سبب یہ ہے کہ وہ زمانے کے گرم و سرد سے گزرے ہیں ان کے یہاں مزاحمتی شاعری کی گونج بھی سنائی دیتی ہے ان کی نظمیں دلوں کو چھوتی ہیں اندازِ بیاں سادہ ہے‘ اشعار میں جان ہے اور بہت آسانی سے ابلاغ ہو رہا ہے۔ یہ عاشقِ رسول بھی ہیں اور نعتیہ اشعار بھی کہہ رہے ہیں۔

آقائے دو جہاںؐ کی محبت میں اے نسیم
دل کا دھڑکتے رہنا بھی کارِ ثواب ہے

نسیم شیخ کی انتھک ریاضت اور وسیع مطالعے نے انہیں اپنے ہم عصرشعرا میں معتبر کیا ہے‘ موج نسیمی ان کا چھٹا مجموعہ کلام ہے‘ ان کی شاعری ہنستے مسکراتے الفاظ سے مزین ہے‘ تاہم کہیں کہیں وہ شہرِ آشوب کا تذکرہ بھی کر رہے ہیں‘ ان کے ہاں جدیدیت اور مابعد جدیدیت بھی نظر آتی ہے‘ یہ غزل کے روایتی مضامین بھی لکھ رہے ہیں اور تصوف کی باریک بینی پر بھی نظریں جمائے ہوئے ہیں۔ کربِِ ہجرت بھی ان کے اشعار میں ہے اور پاکستان سے محبت کے اشعار بھی ان کی شاعری کا حصہ ہیں۔ ان کے استعارے‘ تلمیحات اور اسلوب بیان زندگی کی عکاسی کر رہے ہیں‘ بوسیدہ اور متروک الفاظ سے انہوں نے اپنی شاعری کو مجروح نہیں ہونے دیا۔ نسیم شیخ ایک باوقار شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ اہلِ فکر کے درمیان قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں‘ انہوں نے بڑی دیانت داری سے اپنے ضمیر کی آواز کو شاعری میں ڈھال کر ہمارے سامنے پیش کیا ہے۔ قدیم و جدید کی پاسداری ان کے اشعار کو زندہ رکھتی ہے‘ انہیں الفاظ کے حسنِ ترتیب کا سلیقہ ہے‘ ان کی انقلابی فکر قابل ستائش ہے۔ انہیں علم عروض پر بھی دسترس ہے‘ ان کے موضوعات کا تنوع‘ احساسات و جذبات کی مہک اور بے ساختگی ہمیں خوش گوار حیرت سے دوچار کرتی ہے۔ وہ آمد و آورد کی بحث و تکرار میں الجھنے کے بجائے مشاہداتی تجربوں اور مطالعاتی تحریک سے اپنے اشعار سجاتے ہیں‘ ان کے یہاں سہل ممتنع بھی نظر آتا ہے اور مشکل بحروں سے کہی گئی غزلیں بھی ان کی شاعری کا قدوقامت بلند کر رہی ہیں چونکہ یہ افسانہ نگار‘ ڈراما نگار اور کہانی نویس بھی ہیں لہٰذا کہیں کہیں منظر کشی‘ کرداروں کی تلخیق اور پنچ لائن کلائمکس ہمیں چونکا دیتا ہے۔ انہوں نے تمام اصنافِ سخن پر طبع آزمائی کی ہے لیکن میرے نزدیک یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ کون سی صنفِ سخن میں یہ سب سے زیادہ کامیاب ہوئے ہیں۔ انہوں نے رثائی ادب میں بھی اپنا حصہ ڈالا ہے‘ یہ قوسِ قزح کے رنگوں سے مزین شاعری کے ساتھ اردو ادب کا تابندہ ستارے ہیں‘ وہ کہتے ہیں کہ:

سورج نے مجھ سے چاند کے لہجے میں بات کی
میں برف بن کے دھوپ میں پہروں کھڑا رہا
زندگی اوڑھے ہوئے میرا بدن چلتی ہے
اور میں سمٹتا رہا اُس کا مکیں ہوتے ہوئے
کھوج لگانے کی خاطر میں خود میں روز اترتا ہوں
آخر مجھ میں میرے جیسا کون بھٹکتا رہتا ہے
وہ وقت میں نے گزارا ہے جس گھڑی مجھ پر
یقین ٹوٹ کے برسا‘ گمان ہنستا رہا

بزمِ نگار ادب کے زیراہتمام بیادِ حمایت علی شاعر تعزیتی اجلاس اور مشاعرہ

مورخہ 2 اگست بروز جمعہ برمکاں شائق شہاب بزم نگارِ ادب پاکستان کی زیر اہتمام بیادِ حمایت علی شاعر تعزیتی ریفرنس اور مشاعرے کا اہتمام کیا گیا جس میں پروفیسر منظر ایوبی صدر‘ ڈاکٹر شاداب احسانی اور سعیدالظفر صدیقی مہمانان خصوصی تھے جب کہ سید آصف رضا رضوی مہمان اعزازی اور توقیر اے خان ایڈووکیٹ مہمان توقیری تھے۔ واحد رازی نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ طالب رشید نے تلاوتِ کلام مجید کی سعادت حاصل کی اور واحد رازی نے خوب صورت لحن میں نعت رسولؐ پیش کی۔ انہوں نے نعتیں بھی کہی ہیں‘ ان کی منظوم سوانحِ حیات پر کراچی یونیورسٹی میں تقریب ہوئی ان پر پی ایچ ڈی ہو رہی ہے‘ ڈاکٹر اوجِ کمال نے کہا کہ ان کے والد نے ہمارے لیے بہت کچھ کیا وہ اپنے خاندان کے لوگوں پر خصوصی توجہ دیتے تھے‘ ہر شخص کے دکھ درد میں شریک ہوتے تھے‘ وہ تعصب کے خلاف تھےمظالم کے خلاف آواز بلند کرنے کی پاداش میں کئی مرتبہ جیل گئے لیکن انہوں نے اصولوں پر سودے بازی نہیں کی۔ صاحب صدر نے کہا کہ حمایت علی شاعر کی مختلف جہتیں ہیں ان کی ہر جہت پر گھنٹوں بات کی جاسکتی ہے وہ عمر میں مجھ سے 8 سال بڑے تھے تاہم وہ میرے ہم عصر قلم کاروں میں شامل تھے انہوں نے بحیثیت شاعر‘ صداکار‘ گیت نگار بہت شہرت پائی۔ حمایت علی شاعر بھارت سے ہجرت کرکے پاکستان میں مقیم ہوئے‘ مہاجروں کے ساتھ جو مسائل پیش آئے اس سے وہ بھی دوچار ہوئے‘ لہٰذا ان کے یہاں کرب‘ ہجرت اور دردِ زیست کی عکاسی موجود ہے‘ ان کے فکر و نظر کی دنیا انفرادی تشخص تک محدود نہیں تھی‘ وہ ساری دنیا کی بھلائی کے خواہاں تھے‘ ان کی غزل میں جذبۂ عشق‘ روایتی غزل سے بہت مختلف ہے۔ اس موقع پر سخاوت علی نادر نے خطبۂ استقبالیہ پیش کیا جس کا خلاصہ تھا کہ وہ اردو ادب کے فروغ میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں ان کی تنظیم نگارِ ادب اس وقت سب سے زیادہ ادبی پروگرام منعقد کر رہی ہے اور کراچی کے تمام اہم شعرا ان کے مشاعروں میں آرہے ہیں ،شائق شہاب نے کلماتِ تشکر ادا کیے اور اعلان کیا کہ بزمِ نگارِ ادب بہت جلد کُل پاکستان مشاعرہ کرنے جارہی ہے۔ مشاعرے میں صاحب صدر‘ مہمانان خصوصی‘ مہمان اعزازی اور ناظم مشاعرہ کے علاوہ جن شعرا نے کلام سنایا ان میں شہاب الدین شہاب‘ راشد نور‘ اختر سعیدی‘ علی اوسط جعفری‘ سراج الدین سراج‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار‘ خالد میر‘ عبدالمجید محور‘ نسیم شیخ‘ حامد علی سید‘ احمد سعید خان‘ سخاوت علی نادر‘ ریحانہ احسان‘ صاحبزادہ عتیق الرحمن‘ ضیا شہزاد‘ یاسر صدیقی‘ وسیم احسن‘ ہما اعظمی‘ چاند علی چاند‘ شائق شہاب‘ نظر فاطمی‘ ذوالفقار پرواز اور طالب رشید شامل تھے۔

آخر کو ہنس پڑیں گے کسی ایک بات پر
رونا تمام عمر کا بے کار جائے گا

خورشید رضوی

حصہ