سرزمینِ حجاز

455

افروز عنایت
الحمدللہ 25 اپریل کو اللہ تبارک تعالیٰ نے ایک مرتبہ پھر عمرے کی سعادت کا موقع فراہم کیا۔ میرے لیے اس عمرے کی خاص بات یہ تھی کہ بڑا بیٹا، اس کے بیوی بچے بھی ساتھ تھے۔ ان بچوں کے لیے عمرے کی سعادت حاصل کرنے کا یہ پہلا موقع تھا، خصوصاً عدینہ جو ساڑھے سات سال کی ہے اُس کے لیے یہ ایک خاص اور یادگار موقع ہی نہ تھا بلکہ عمرے کے دوران ملنے والی تربیت و تعلیمات اُس کے لیے بہت اہمیت کی حامل تھیں، کیونکہ اس موقع پر ایک مسلمان کو ان تعلیمات سے آراستہ ہونے کا موقع میسر آتا ہے۔
25 اپریل کو براہِ راست مدینہ کی فلائٹ سے 6.30 بجے مدینۃ النبی کی سرزمین پر قدم رکھا تو دل کو سکون و ٹھنڈک محسوس ہوئی۔ چاروں طرف بادل چھائے ہوئے تھے۔
ہمارا ہوٹل باب النساء کے بالکل سامنے تھا بمشکل 5 منٹ کے فاصلے پر، لہٰذا سامان ہوٹل کے کمرے میں رکھ کر مغرب کی نماز پڑھنے مسجد نبویؐ پہنچے۔ ہمارے اندازے سے کہیں زیادہ رش تھا۔ مسجد میں نماز پڑھنا تو ناممکن تھا لیکن صحنِ مسجد بھی پورا بھرا ہوا تھا۔ النساء گیٹ نمبر 25 کے پاس بمشکل نماز ادا کرنے کا موقع ملا۔ ابھی اوابینکے نوافل بھی ادا نہیں کیے تھے کہ بادل امنڈ آئے، سبحان اللہ گرج چمک کے ساتھ بارانِ رحمتنے مزا دوبالا کردیا۔ موسم میں مزید ٹھنڈک اور راحت نے دلوں کو مسحور کردیا۔ ٹھنڈی ہوائوں کے تھپیڑے تھکے بدنوں کو جیسے لوری دے رہے تھے۔ ہوٹل پہنچ کر رات کے کھانے سے فارغ ہوکر عشاء کی نماز کے لیے پھر مسجدنبوی میں قدم رکھا۔ رش کا وہی عالم تھا۔ آنے والوں کا تانتا، ہر طرف خواتین کے ڈھکے ہوئے سر اور بدن، بچوں کی کلکاریاں، ہر ایک چہرہ شادماں۔ میں اپنے دل کی کیفیت یہاں بیان کرنے سے قاصر ہوں، اس کا احساس صرف وہی کرسکتے ہیں جنہیں اللہ کی ان دو مقدس زمینوں پر سر بسجود ہونے کا موقع ملا ہو۔ بار بار آنکھیں چھلکی پڑرہی تھیں۔ میرے دل میں خوشی کے ساتھ یہ احساس بھی غالب تھا کہ الحمدللہ ہم امتِ مسلمہ ہیں، ہمارے نبیؐ کو اللہ نے تمام جہاں میں اعلیٰ مرتبے اور مقام سے نوازا ہے، جس کا احساس یہاں آکر دل میں طمانیت پیدا کرتا ہے۔ اسی جذبے سے سرشار نمازِ عشاء سے فارغ ہوکر مسجد سے ابھی باہر بھی نہ آئے تھے کہ ایک مرتبہ پھر بادل برسے، کھلے آسمان کے نیچے آکر بارانِ رحمت نے اپنے سحر میں جکڑ لیا۔ سبحان اللہ ہر ایک کا چہرہ شاد… سبحان اللہ، سبحان اللہ کا ورد ہر ایک زبان سے جاری تھا۔ سفر کی تمام تھکن اس بارانِ رحمت نے دور کردی۔ میں نے پلٹ کر مسجد نبوی کے دروازے پر بیٹھی منتظمہ سے خواتین کے لیے ریاض الجنۃ کے اوقات معلوم کیے۔ منتظمہ نے بتایا کہ نمازِ عشاء اور نماز فجر کے بعد کا وقت خواتین کے لیے مخصوص ہے۔ لہٰذا صبح فجر پر مسجد نبوی پہنچے۔ خواتین کا بے انتہا رش تھا، جن کے چہروں سے جوش و خروش عیاں تھا کہ وہ اللہ کے نبیؐ پر سلام کا نذرانہ پیش کرنے کے لیے حاضر ہوئی ہیں۔ حاضری کے لیے منتظر خواتین کو یہاں تین سے چار گھنٹے لگ جاتے ہیں، لہٰذا تمام خواتین ذکرِ الٰہی میں مصروف ہوگئیں۔ اس سے پہلے میں جب بھی گئی ہوں مختلف ممالک کی خواتین کو الگ الگ گروپ بناکر حاضری کے لیے بھیجا جاتا تھا۔ لیکن اِس مرتبہ ان کا طریقہ کار مختلف تھا۔ تمام مسلم ممالک کی خواتین اکٹھی جس گیٹ کے پاس اُس کے کھلنے کے انتظار میں بیٹھی ہوئی تھیں وہ تین گھنٹے تک نہ کھلا۔ معلوم ہوا کہ آج دوسری طرف والا گیٹ کھولا گیا ہے جہاں سے خوش نصیب خواتین کا داخلہ ہوا۔ ہم ناکام واپس پلٹے کہ ان شاء اللہ تعالیٰ عشاء کی نماز پر اللہ ضرور موقع نصیب فرمائے گا۔ الحمدللہ اللہ تبارک تعالیٰ نے موقع نصیب فرمایا۔ مدینہ میں چار روز کے قیام کے دوران دو مرتبہ ریاض الجنۃ پر حاضری دی۔ بے انتہا رش اور خواتین کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر تھا۔ چہرے شادمان، آنکھیں اشک بار، لبوں پر درود و سلام کے ساتھ دعائیں، پھر عزیز و اقارب کے سلام و درود کا نذرانہ جو میرے پاس امانت تھے، پیش کیے۔ ایک بات جو میں نے محسوس کی اسے قارئین سے ضرور شیئر کروں گی کہ اِس مرتبہ پاکستانی خواتین میں بدعات کم نظر آئیں الحمدللہ، جسے محسوس کرکے خوشی بھی ہوئی۔ ریاض الجنۃ پر آکر میرے لبوں پر ہمیشہ سورۃ الکوثر کا ورد شروع ہوجاتا ہے۔ میرے نبیؐ کی شان، اللہ تبارک تعالیٰ نے ان سے جو وعدہ فرمایا ہے آج ہم اس کے گواہ ہیں کہ بے نام و نشان تو وہی ہوئے جو آپؐ کو طعنے دے رہے تھے۔ آپؐ کا نام تو تاقیامت بلندی پر رہے گا، الحمدللہ۔ اللہ نے ہمیں اس نبیؐ کے امتی ہونے کا شرف عطا کیا جس کی آرزو حضرت موسیٰؑ اور حضرت عیسیٰؑ نے کی، یہ سوچ کر ہی میرے خوشی کے آنسو رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے، اپنی خوش نصیبی پر رشک آرہا تھا۔ اپنا ماتھا اللہ کی شکر گزاری میں ٹیک دیا کہ مجھے تُو بار بار اس در پر لارہا ہے جس کی تمنا ہر مومن کے دل میں بسی ہوئی ہے۔ میری ہمیشہ خوش نصیبی کہ یہاں مجھے اپنے مرحوم والدین اور ساس سر کے لیے بھی نوافل ادا کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔ نوافل اور دعائوں سے فارغ ہوکر مسجد سے باہر آئے تو دل کو سکون و ٹھنڈک کا احساس ہوا جیسے کسی بہت پیارے ساتھی سے قرب حاصل کرکے ہوتا ہے۔ اللہ رب العزت ہم سب کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت عطا فرمائے، آمین۔
جب 2010ء میں حج کا موقع نصیب ہوا، اس وقت میری مرحومہ چھوٹی بہن سائرہ میرے ساتھ تھی، جس کی کاوشوں سے مدینہ میں آٹھ دنوں کے قیام کے دوران سات مرتبہ ریاض الجنۃ پر حاضری کا موقع نصیب ہوا تھا۔ اِس مرتبہ اُس کا یاد آنا یقینی تھا۔ اس کے لیے نوافل اور دعائے خیر ادا کی۔ خدا جنت میں سائرہ کے درجات بلند فرمائے۔ گرچہ شعبان کا مہینہ تھا لیکن چھتریوں تلے افطاری کی رونق نظر آئی۔ عدینہ کو اکثر اس کے بابا چاکلیٹ کا بڑا پیکٹ تھما دیتے، وہ بڑی خوشی سے بچوں میں یہ چاکلیٹ تقسیم کرتی، اور مزے کی بات یہ کہ جب دوسرے بچے ایسی اشیاء تقسیم کرتے تو اُن سے بھی بڑے شوق سے لیتی، اور بھائی کے ساتھ مل کر کھاتی، کیونکہ میں نے اُس سے پہلے دن ہی کہا تھا کہ یہ اس در کا ہدیہ ہے اسے شوق سے کھائو۔ عدینہ نے ہمارے ساتھ ایک مرتبہ ریاض الجنۃ پر بھی حاضری دی اور نوافل بھی ادا کیے۔ ہمیں تھوڑی فکر تھی کہ وہ تھک جائے گی، لیکن الحمدللہ اس کا شوق قابلِ دید تھا۔ ہاں یہ ضرور ہوا کہ رات کے دو بجے آکر وہ بے سدھ سو گئی اور صبح فجر پر بھی نہ اٹھ سکی۔
٭…٭…٭
مدینہ کے مقدس مقامات کی زیارتیں گرچہ عبادت کا درجہ نہیں رکھتیں، لیکن عہدِ رسالت کی یاد تازہ کرتی ہیں۔ ہر جگہ یہ احساس ذہن پر غالب ہوتا ہے کہ آپؐ اور صحابہ کرامؓ کا یہاں سے گزر ہوا ہوگا، اور آپؐ سے جڑے تاریخِ اسلام کے اہم واقعات کی بازگشت ذہن کے دریچوں پر دستک دیتی ہے۔ میں ان اہم تاریخی مقامات کا ذکر اپنے 2010ء میں ادا کیے گئے حج کے سفرنامے (وہ پینتالس دن) میں تفصیل سے کرچکی ہوں، یہاں صرف چند مقامات کا ہی ذکر کروں گی۔ گرچہ اِس مرتبہ بھی تمام مقامات کو دیکھنے کا موقع ملا، ہر مقام پر پہنچ کر عدینہ کو اس مقام سے متعلق تفصیل سے بتانا بھی ضروری تھا۔ وہ بڑی دلچسپی سے نہ صرف سنتی بلکہ یاد کرنے کی کوشش بھی کررہی تھی۔
٭…٭…٭
یہاں کے خاص تاریخی مقامات میں مسجد قبا، مسجد قبلتین، جبل احد کے علاوہ باغِ سلمان فارسیؓ، مسجد شیخین، مسجد استراحت، مسجد فجر، بیئر غرس، حجرہ فاطمہؓ وغیرہ شامل ہیں۔
٭…٭…٭
جس طرح عمرہ و حج پر جانے والے زائرین مدینۃ النبی میں ریاض الجنۃ پر لازمی طور پر حاضری دیتے ہیں، اسی طرح مسجد قبا اور مسجد قبلتین میں نوافل و نماز ادا کرنے کی تمنا بھی رکھتے ہیں۔ مسجد قبا جہاں دو نوافل ادا کرنے کا ثواب عمرہ ادا کرنے کے برابر ہے، اسی طرح مسجد قبلتین (دو قبلوں والی مسجد) کی تاریخی حیثیت اور اس واقعے سے بھی تمام مسلمان آگاہ ہیں۔
صحیح بخاری کی حدیث کے مطابق آپؐ ہر ہفتے مسجد قبا تشریف لاتے تھے اور دو رکعت نماز ادا فرماتے۔ ہم سب نے بھی یہاں نوافل اور ظہر کی نماز ادا کی۔ جبل احد کے راستے میں ہی مسجد شیخین اور مسجد استراحت واقع ہے۔ مسجد شیخین جہاں آپؐ نے غزوہ احد کے سلسلے میں صحابہ کرامؓ سے مشاورت فرمائی، اور مجاہدین ہتھیاروں سے لیس ہوئے۔ استراحت جیسا کہ نام سے ہی ظاہر ہے، آپؐ نے صحابہؓ کے ساتھ یہاں آرام فرمایا۔ جب ڈرائیور نے گاڑی جبلِ احد کے پاس روکی تو چاروں طرف زائرین کا رش تھا۔ شہدائے احد کے مدفن، پہاڑ، اور جگہ جگہ لگے اشیاء کے اسٹالز پر زائرین کا بے تحاشا رش موجود تھا۔ ہم سب نے بھی شہدائے احد پر فاتحہ خوانی کی۔ رومات (رماۃ) پہاڑ جس پر آپؐ نے ایک حفاظتی دستہ متعین فرمایا تھا، میں محویت سے اس پہاڑ کو دیکھ رہی تھی اور وہ تمام واقعہ میری آنکھوں کے سامنے ایک فلم کی طرح چل رہا تھا۔ عدینہ نے مجھ سے پوچھا ’’دادو وہ سامنے پہاڑی پر بھی لوگ موجود ہیں‘‘۔ میں نے عدینہ کو تمام واقعہ گوش گزار کیا۔ احد کا یہ تمام واقعہ امتِ مسلمہ کے لیے ایک سبق ہے۔ اس واقعے سے واضح ہے کہ آپؐ کا ہر حکم منجانب رب العزت تھا، اس سے روگردانی کرنا امتِ مسلمہ کے لیے ناممکن ہے، اور غلط روش ہے۔ اس غزوہ میں اسی معمولی غلطی نے جیتی جنگ کی بازی پلٹ دی اور مسلمانوں کو سخت جانی نقصان سہنا پڑا۔ آپؐ کے پیارے چچا حضرت حمزہؓ اور ستّر صحابہ کرامؓ نے اس غزوہ میں شہادت پائی، جس کا نہ صرف آپؐ کو بلکہ صحابہ کرامؓ اور تمام مسلمانوں کو سخت صدمہ و افسوس ہوا۔ حتیٰ کہ جس نے آپؐ کے چچا حضرت حمزہؓ کو بے دردی سے شہید کیا مسلمان ہونے کے بعد آپؐ کے سامنے آیا تو آپؐ نے اسے اپنے سامنے آنے سے منع فرمایا (اس واقعہ کی وجہ سے)۔ اس تاریخی واقعے کا یہ مقام اور جبل احد میرے سامنے تھا۔ اس پہاڑ سے آپؐ کو محبت تھی۔ آپؐ نے اس پہاڑ کے بارے میں فرمایا ’’یہ وہ پہاڑ ہے جس سے ہم محبت کرتے ہیں اور وہ ہم سے محبت کرتا ہے‘‘۔ اس کے بعد آپؐ نے اپنے ہاتھ سے مدینہ کی طرف اشارہ کرکے فرمایا ’’اے اللہ میں ان دونوں پتھریلے میدانوں کے درمیان خطے کو حرمت والا قرار دیتا ہوں جس طرح ابراہیمؑ نے مکہ کو حرمت والا شہر قرار دیا تھا۔ اے اللہ ہمارے صاع اور مد میں برکت عطا فرما۔‘‘ (صحیح بخاری)۔
بے شک جس خطے سے ہمارے نبیؐ نے محبت فرمائی اُس سے ہماری محبت لازمی ہے، جس کا ثبوت ہمیں سرزمینِ مدینہ آکر ملتا ہے۔ ہر وقت یہاں مسلمانوں کا جم غفیر موجود ہوتا ہے۔ مسجد نبویؐ کی فضیلت تو اس حدیثِ مبارکہ سے واضح ہے کہ آپؐ نے فرمایا ’’میری اس مسجد میں نماز مسجد الحرام کے سوا تمام مساجد میں نماز سے ایک ہزار درجہ زیادہ افضل ہے‘‘ (سبحان اللہ)۔ اس شہرِ مبارکہ کے ذرّے ذرّے سے زائرین محبت کرتے ہیں اور زیارت کرتے ہیں۔ الحمدللہ اِس مرتبہ بیئر غرس کی زیارت کا بھی موقع ملا جس کے پانی سے آپؐ کے جسمِ اطہر کو غسل دینے کا شرف حاصل ہوا جو کہ حضرت سعد بن اسامہ کی ملکیت تھا۔ روایات میں ہے کہ اس کے صاف شفاف اور میٹھے پانی کو آپؐ نے پسند فرمایا تھا۔ چاروں طرف لوہے کی گرل (Giril) سے گرچہ اب کنویں کے احاطے کو بند کردیا گیا ہے، باہر سے ہی زائرین اس کنویں کا نظارہ کرتے ہیں۔ سعودی حکومت کی یہ کوشش ہے کہ مسلمان یہاں آکر کسی بدعت کا شکار نہ ہوں، لہٰذا ایسے مقامات کو مقفل کردیا گیا ہے جیسے کہ خاکِ شفا کا علاقہ جہاں تہ در تہ مٹی اور بجری بچھا دی گئی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ بہت عرصہ پہلے والدہ محترمہ بھی حج سے واپسی پر خاکِ شفا خرید کر لائی تھیں، یعنی یہ ایک بڑا کاروبار شروع ہوگیا تھا۔
مسجد الفجر جو آج بھی اپنی اصلی صورت میں موجود ہے۔ کچے گارے اور مٹی سے بنی یہ چار دیواری جس میں ایک وقت میں بمشکل 10 یا 12 خواتین و حضرات نماز ادا کرسکتے ہیں، یہاں رات میں بارش کی وجہ سے کچی دیواروں سے مٹی کی سوندھی خوشبو اٹھ رہی تھی، کچھ چٹائیاں بھی گیلی تھیں، لیکن ہم نے یہاں چاشت کی نماز پڑھی۔ روایات میں ہے کہ آپؐ جب صبح صادق مدینہ کی سرزمین کے قریب پہنچے تو یہیں فجر کی نماز ادا فرمائی۔ (واللہ اعلم)۔
اسی طرح حضرت فاطمہؓ کا حجرہ بھی تقریباً اپنی پرانی حالت میں موجود ہے، جسے دیکھ کر سردارانِ جنت کی والدہ کی سادگی کا اندازہ ہوتا ہے۔
حجرے کا ہم نے دور سے نظارہ کیا۔ عدینہ ان پرانی تعمیر شدہ عمارات کو دیکھ کر بڑی حیران ہورہی تھی اور ہم سے ان کے متعلق سوالات پوچھ رہی تھی۔
اِس مرتبہ مدینہ شریف میں چار دن کا مختصر قیام تھا جو کہ دل کی پیاس بجھانے کے لیے ناکافی تھا، لیکن الحمدللہ بہت کچھ دیکھنے کو ملا۔ مدینہ میوزیم کو اس سے پہلے دیکھنے سے محروم رہے لیکن اِس مرتبہ اس کی بھی سیر کی، بلکہ یہ کہوں گی کہ میوزیم کی سیر عدینہ کی وجہ سے ہی کی۔ یہاں دورِ خلافت سے تعلق رکھنے والی نایاب اشیاء کو دیکھنے کا موقع ملا۔ عدینہ کے بابا نے تمام نایاب اشیاء کی تصاویر اور فلم اپنے موبائل فون میں محفوظ کرلیں، تاکہ عدینہ پاکستان پہنچ کر یاد تازہ کرسکے۔
(جاری ہے)

حصہ