تحریک ِ پاکستان سید مودودیؒ بدگمانیاں اور حقیقت

3628

راحیلہ چودھری
سید ابو الا اعلیٰ مودودیؒ مشہور عالم دین،مفسر قرآن اور جماعت اسلامی کے بانی تھے۔مولانا مودودیؒ بیسویں صدی کے موثر ترین اسلامی مفکرین میں سے ایک تھے۔ان کی فکر، سوچ اور تصانیف نے پوری دنیا کی اسلامی تحاریک کے ارتقا میں گہرا اثر ڈالااور بیسویں صدی کے مجددِ اسلام ثابت ہوئے۔سید ابو الا اعلیٰ مودودی ؒ کو ان کی دینی خدمات کے پیش ِ نظر شاہ فیصل ایوارڈ سے نوازا گیا۔آپ کی لکھی ہوئی قرآن ِمجیدکی تفسیر’’ تفہیم القرآن‘‘ کے نام سے مشہور ہے اور جدید دور کی نمائندگی کرنے والی اس دور کی بہترین تفسیروں میں شمار ہوتی ہے۔
آپ کی کتب کے 28سے زائد زبانوں میں تراجم ہو چکے ہیں۔
مولانا مودودی ؒکا تحریکِ پاکستان میں ایک بڑا اہم کردار ہے مگر بدقسمتی سے ہمارے لوگ کم ہی اس بارے میں جانتے ہیں۔تحریک پاکستان کے حوالے سے مولانا مودودیؒ پر کئی جھوٹے الزامات لگائے جاتے ہیں اور بڑے افسوس کے ساتھ یہ الزامات گزشتہ کئی سالوں سے لگائے ہی جا رہے ہیںمولانا مودودی ؒکے بہت سے مخالفین کی مولانا کے بارے میں یہ رائے تھی کہ وہ پاکستان کے خلاف تھے اور وہ قائداعظمؒ کو کافرِاعظم کہتے تھے۔جبکہ حقیقت میں یہ جملہ اس وقت کے ایک مشہور احراری لیڈر مظہر علی اظہرنے لاہور کے ایک جلسہ عام میں بولا تھااوراس جلسے کی صدار ت اس وقت غلام غوث ہزاروی صاحب کر رہے تھے۔
مولانا مودودیؒ ؒکے مخالفین نے بے شمار جھوٹی باتیں پھیلا ئیںاور افسوس ناک صورت حال اس وقت پیدا ہوئی جب اس لاحاصل بحث میں علمائے کرام بھی شریک ہوگئے۔مولاناکی علمی تحریروں سے اختلاف تو کئی لوگوں نے تقسیم ہند سے پہلے کے دور میں بھی کیا تھا۔مگر سیاست کے میدان میں مولانا کی سب سے زیادہ مخالفت قیام پاکستان کے بعد ہوئی۔منکرین حدیث،کیمونسٹ،قادیانی،اور پرویزی فکر کے لوگ سید مودودیؒ کی مخالفت میں پیش پیش تھے۔سیاسی امور کو مذہبی رنگ دے کر اور مذہبی امور کو سیاسی رنگ دے کر مولانا کی تحریروں کو سیاق وسباق سے ہٹا کر غلط معنی پہنائے گئے اور دوسرے اہل قلم کی تحریروں کو بھی مولانا مودودیؒ کی تحریریں قرار دے کر بغض و عناد کا اظہار کیا گیا۔ان لوگوں نے عجیب من گھڑت باتوں کی بنیاد پر مولانا کو قائد اعظم کا مخالف مشہور کر دیا حالانکہ وہ قائد اعظم کے مداح تھے۔(قیام پاکستان کے تناظر میں مولانا مودودیؒکا عظیم کردار،حافظ محمد ادریس۔صفحہ:8)۔
مولانا مودودی ؒنے یکم اگست 1976کو نوائے وقت کے ایڈیٹر کے نام اپنے خط میں تحریر کیا:’’آپ کی معلومات کے لیے اتنا کہنا کافی سمجھتا ہوں کہ ہوش سنبھالنے کے بعد جب میں نے ملکی سیاست میں دلچسپی لینی شروع کی تھی ،میرے دل میں مسلمانوں کے جن لیڈروں کا احترام سب سے زیادہ تھا ان میں قائد اعظم مرحوم بھی تھے۔میں نے ان کو ایک با اصول ،راست بازاور مضبوط سیرت و کردار کا مالک انسان سمجھا ۔1920سے (قائد اعظم کی رحلت)1948 تک میرے دل میں ان کے متعلق کبھی بدگمانی پیدا نہیں ہوئی کہ وہ اپنے ضمیر کے خلاف بھی کوئی بات کہہ سکتے ہیں‘‘۔1940سے تحریک پاکستان کی زوردار مہم نے ہندوستان کے ہر گوشہ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا ۔
اس موقع پر یو پی مسلم لیگ اسلامی دستور کے خدوخال مرتب کرنے کے لیے جید ماہرین شریعت کی ایک مجلس تشکیل دی تو اس میں سید مودودیؒ کو بھی شامل کیا۔مولانا مودودیؒنے اس کمیٹی کی رکنیت کو قبول کیا اور پوری دلچسپی سے اپنا کام کیا۔1941میںسید مودودی ؒکے پیغام کے ساتھ قمر الدین صاحب کو قائد اعظمؒ کے پاس بھیجا گیا۔جنہوں نے قائد اعظم ؒسے دہلی میں مفصل ملاقات کی قائد اعظمؒ نے اس موقع پر فرمایا:’’وہ سید مودودیؒ کی خدمات کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ان کی جماعت اگر مسلمانوں کی زندگی اور کردار کی تطہیر میں مصروف ہے تو مسلم لیگ اس سے زیادہ فوری اہمیت کے کام یعنی آزاد ریاست کے حصول کے لیے کوشاں ہے۔جہاں تک آخری منزل مقصود کا تعلق ہے جماعت اسلامی او رمسلم لیگ میں فرق نہیں‘‘
میاں محمد شفیع المعروف م ۔ ش ایک پختہ کار صحافی اور تحریک پاکستان پر گہری نظر رکھنے والے دانش ور اور قلم کار تھے ۔انھوں نے اپنے ہفت روزہ میں لکھا:’’مولانا ظفر احمد انصاری سید مودودیؒکی کوششوںکو ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ مودودیؒصاحب کے لٹریچر نے حکومت الٰہیہ کی آواز بلند کی ۔اس سلسلے میں یہ حقیقت بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ علامہ اقبال نے سید مودودیؒکو پنجاب میں دینی کام کرنے کی ترغیب دیتے ہوئے اپنی سر گرمیوں کا مرکز پنجاب کو بنانے کی دعوت دی تھی ۔سید مودودیؒ علامہ اقبال کی اسی دعوت پر پٹھانکوٹ تشریف لائے تھے۔‘‘ (م۔ ش، ہفت روزہ، اقدام لاہور۔ 9 جون 1963)
تحریک پاکستان کی بنیاد دو قومی نظریہ پر تھی اس تصور کو پیش کرنے ،اسے نکھارنے اور فروغ دینے میں مولانا مودودیؒ کی تحریروں کا اہم کردار تھا۔مولانا مودودی ؒ نے اپنے متعدد مضامین کے ذریعے تحریک پاکستان کے نظریاتی تشخص کو واضح کیا۔1938میں کانگریس کی سیا سی تحریک اس قدر زور پکڑ گئی کہ بہت سے مسلمان اور خود علمائے کرام کی ایک بہت بڑی تعداد بھی ان کے ساتھ مل گئی ۔کانگریس کے اس نظریے کو ’’متحدہ قومیت‘‘یا ایک ’’قومی نظریہ‘‘کا نام دیا جاتا ہے۔سید مودودی ؒنے اس نظریے کے خلاف بہت سے مضامین لکھے جو کتابوں کی صورت میں ’’مسئلہ قو میت‘‘،’’مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش ‘‘کے ناموں سے شائع ہوئے۔
آل انڈیا مسلم لیگ کے جوائنٹ سیکرٹری ظفر احمد انصاری لکھتے ہیں:’’مولانا مودودی نے’’ مسئلہ قومیت‘‘کے عنوان سے ایک سلسلہ ِمضامین لکھا جو اپنے دلائل کی محکمی ، زورِاستدلال اور زور ِبیان کے باعث مسلمانوں میں بہت مقبول ہوا اور جس کا چرچا بہت تھوڑے عرصے میں اور بڑی تیزی کے ساتھ مسلمانوں میں ہو گیا۔اس اہم بحث کی ضرب متحدہ قومیت کے نظریے پر پڑی اور مسلمانوں کی جداگانہ قومیت کا احساس بڑی تیزی کے ساتھ پھیلنے لگا ۔قومیت کے مسئلے پر یہ بحث محض ایک نظری بحث نہ تھی بلکہ اس کی ضرب کانگریس اور جمعیت العلمائے ہند کے پورے موقوف پر پڑی تھی۔ہندووں کی سب سے خطرناک چال یہی تھی کہ مسلمانوں کے دلوں سے ان کی جداگانہ قومیت کا احساس کسی طرح ختم کر دے ان کے ملی وجود کی جڑیں کھوکھلی کر دی جائیں ۔خود مسلم لیگ نے اس بات کی کوشش کی کہ اس بحث کا مذہبی پہلو زیادہ سے زیادہ نمایاں کیا جائے۔تاکہ عوام کانگریس کے کھیل کو سمجھ سکیں اور اپنے دین و ایمان کے تقاضوں کو پورا کرنے کی طرف متوجہ ہوں‘‘۔(چراغ راہ،نظریہ پاکستان نمبر۔صفحہ:232)
پاکستان کے ممتاز مورخ ’’ڈاکٹراشتیاق حسین قریشی‘‘اپنی تازہ ترین انگریزی کتاب ’’علما سیاسی میدان میں‘‘ میں لکھتے ہیں:’’مولانا مودودی ؒنے انڈین نیشنل کانگریس کی پالیسیوں کا جس طرح تجزیہ کیا اس نے لوگوں کی آنکھیں کھول دیں۔ان تحریروں کے نتیجے میں مولانا مودودی ؒکے حامیوں کی تعداد میں تو زیادہ اضافہ نہیں ہوا لیکن اس کی وجہ سے مخلص اور ذہین مسلمان کانگریس سے برگشتہ ہو گئے اور ان کی اکثریت نے مسلم لیگ کی صفوں میں شامل ہو کر قائد اعظم کی قیادت قبول کر لی ‘‘۔(صفحہ:339)
مولانا مودودی ؒنے ’’ترجمان القرآن ‘‘کے ایک سلسلہ مضامین کے ذریعے جو 1938سے1939میں شائع ہوئے،کانگریس کے چہرے سے نقاب اُتاردیااور مسلمانوں کو متنبہ کیا ۔مولانا نے برصغیر میںمسلمانوں کی تاریخ کا جائزہ لیا،کانگریس کی لادینیت کی قلعی کھولی اور یہ ثابت کیا کہ ہندوستان کے مخصوص حا لات میں اس کے لیے جمہوریت ناموزوں ہے۔اس لیے کے اس میں مسلمانوں کو ایک ووٹ اور ہندووں کو چار ووٹ ملیں گے۔(م۔ش،ہفت روزہ،اقدام لاہور۔۹جون1963۔صفحہ: 191)
’’سید مودودی ؒنے اس زمانے میں اسلامی ریاست، مسئلہ ملکیت زمین اور مسلم قومیت کے حوالے سے جو تحریریں شائع کیں،مسلم لیگ نے لاکھوں کی تعداد میں ان سے پمفلٹ بنا بنا کر شائع کیے اور پورے ہندوستان میں ان کی بھرپور تشہیر کی۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تعلیم یافتہ طبقہ اور با شعور مسلمان کانگریس میں جانے سے بچ گئے اور وہ مسلم لیگ میں شریک ہو کر قائد اعظم کی قیادت میں سرگرم عمل ہو گئے‘‘۔(علما سیا سی میدان میں۔صفحہ:339)۔صوبہ سرحد اور سلہٹ میں ریفرنڈم میں سید مودودیؒ نے پاکستان کے حق میں ووٹ ڈالنے کا مشورہ دیا اور فرمایا :اگر میں صوبہ سرحد کا رہنے والا ہوتا تو استصواب رائے میں میرا ووٹ پاکستان کے حق میں پڑتا۔(رسائل ومسائل ،جلد اول،صفحہ:320)۔
برگیڈئیر ظفر اقبال چو ہدری اپنی کتاب ’’یادوں کی دھنک‘‘ اشاعت دوم فروری 2001میں لکھتے ہیں:
’’قائد اعظمؒ نے پاکستان بننے کے بعدمولانا مودودیؒکو دعوت دی تھی کہ وہ ریڈیو پر اپنے لیکچرز کے ذریعے اسلامی حکومت اور اسلامی معاشرہ قائم کرنے کے لیے پاکستانی عوام کی رہنمائی کریں ۔‘‘
ریڈیو پاکستان سے مولانا نے قائد اعظمؒہی کی تحریک پر بہت سی تقاریر کیں جو اسلامک پبلی کیشنز نے’’ اسلام کا نظامِ حیات ‘‘اور ’’نشری تقریریں ‘‘ کے نام سے شائع کیں وہ آج بھی کتابی صورت میں موجود ہیں ۔سید مودودیؒ نے پاکستان کو فی الواقعہ اسلامی ریاست بنانے کے لیے دل وجان سے علمی و عملی جدوجہد کی ۔قائد اعظمؒ اور مسلم لیگ کے دیگر قائدین نے تحریک پاکستان میں متعدد مرتبہ پاکستان کو اسلامی ریاست بنانے کا اعلان کیا۔قیام پاکستان کے بعد بھی قائد اعظمؒ کی تقریروں میں اسی خواہش اور عزم کا اظہار ملتا ہے ۔سید مودودیؒنے اپنی جماعت اسلامی کی معیت میں پاکستان کو اسلامی ریاست بنانے کی کوشیش کی تو قائد اعظمؒ کی وفات کے چند ہفتے بعد انھیں جیل میں ڈال دیا گیا۔
آخر میں ایک سوال کا جواب جو سب پڑھنے والوں کے ذہنوں میں پیدا ہورہا ہوگا ۔کہ جب مولانا نے تحریک پاکستان میں علمی وعملی بھرپور جدو جہد بھی کی اور قائد اعظم سے کوئی اختلاف بھی نہیں تھا تو پھر مسلم لیگ اور قائد اعظم سے الگ جماعت اسلامی کی صورت میں ایک علیحدہ جماعت بنانے کی ضرورت انہیں کیوں پیش آئی۔
ڈاکٹر قریشی اپنی کتاب’’ علما سیاسی میدان میں‘‘صفحہ 352پر مولا نا مودودیؒ کے بارے میں لکھتے ہیں:
اُنھوں نے متحدہ قومیت کے تصور کی اس لیے مخالفت کی کہ ان کو یقین تھا کہ اگر مسلمان ہندوستانی قومیت میں ضم ہو گئے تو وہ اسلام سے دور چلے جائیں گے۔ان کو مسلمانوں سے زیادہ اسلام سے دلچسپی تھی۔ان کا کہنا تھا کہ مسلمان اس لیے مسلمان نہیں ہیں کہ وہ کسی قومی گروہ سے تعلق رکھتے ہیں۔بلکہ اس وجہ سے مسلمان ہیں کہ وہ اسلام پر ایمان رکھتے ہیں۔اس لیے مولانا مودودیؒ اسلام سے وفاداری کو قوم سے وفاداری پر ترجیح دیتے تھے اور اسی وفاداری کو تقویت پُہنچا نا چاہتے تھے اوریہ کام وہی لوگ کر سکتے تھے جو اسلام پر خلوص ِقلب کے ساتھ ایمان رکھتے ہوں اور صرف زبان سے اسلام،اسلام نہ کرتے ہوں۔مولانا نے مسلم لیگ کی مخالفت نہیں کی،لیکن ان کا یہ خیال ضرور تھاکہ مسلم لیگ کی صفوں میں بھانت بھانت کے لوگوں کو بھر لیا گیا ہے،کیمونسٹ،سیکولرازم کے حامی ،مسلمان قوم پرست،اسلام پر یقین رکھنے والے،باعمل مسلمان اور بے عمل مسلمان یہ سب مسلم لیگ میں شامل تھے۔ان کا کہنا تھا کہ اس قسم کی جماعت جس میں اس قسم کے مختلف الخیال لوگ ہوں آخر کس طرح اسلام کا احیا کر سکتی ہے‘‘۔
مولانا مودودیؒکے سامنے دو نہایت اہم ،نازک اور غور طلب سوال تھے۔پہلا سوال یہ تھاکہ اگر مسلمان تقسیم ملک کے لیے اپنا پورا زور لگا دینے کے بعد خدا نخواستہ اس کی کوشیش میں ناکام ہو جائیں تو اس قومی شکست کے اثرات و نتائج سے اسلام ،اسلامی تہذیب ا ور مسلمانوں کی اسلامی انفرادیت کو بچانے کی کیا شکل ہوگی۔؟دوسرا سوال یہ تھااگر ملک تقسیم ہواتو ہندوستان کے بڑے حصے میں جو کروڑوں مسلمان رہ جائیں گے ان کے اندر اسلام کی شمع روشن رکھنے اور اس کے نور کو پھیلانے کی کیا صورت ہو گی؟اور پاکستانی تحریک کی رہنمائی جس قسم کے لیڈر کر رہے ہیں اگر انھی کی رہنمائی میں پاکستان قائم ہوا تو اس کو ٹرکی کی طرح ایک لادینی ریاست بننے سے بچانے اور ایک حقیقی اسلامی ریاست بنانے کے لیے کیا تدبیر کی جاسکتی ہے۔؟مولانا کے نزدیک یہ دو سوال اس قدر اہم تھے کہ اس برعظیم میں اسلام کے مستقبل کا انحصار انھی کے صحیح حل پر موقوف تھا۔مولانا نے انہی خدشات کے پیش نظر قیام پاکستان سے پہلے ہی ان تمام لوگوں کو اکٹھا کیا جو جماعت اسلامی کی دعوت سے متاثر ہو چکے تھے چناچہ اگست ۴۱ میں جماعت اسلامی کی بنا ڈال دی گئی جس کا مقصد اسی وقت سے ایک ایسے منظم اور تربیت یافتہ گروہ کی تیاری تھا جو اس بر عظیم میں اسلام کے غلبے کے لیے کام کرنے کے قابل ہو ۔اگر خدانخواستہ مسلمان تقسیمِ ملک کی جدوجہد میں ناکام ہو جائیں تو یہ گروہ اس ناکامی کے خوفناک نتائج کا مقابلہ کرنے کے لیے موجود رہے اور اگر ملک تقسیم ہوجائے تو ہندوستان اور پاکستان دونوں میں یہ گروہ اسلام کا علم بلند کرنے کے لیے تیار رہے۔(جماعت اسلامی کا مقصد تاریخ اور لائحہ عمل۔صفحہ:25)۔
انہی خدشات کے پیش ِ نظرمولانا نے پاکستان بننے سے پہلے ہی جماعت اسلامی بنا دی۔جس جماعت کا مقصد فرد کی تربیت سے ایک معاشرے کی تربیت کرنا ہے۔مولانا مودودیؒمومنانہ صفات اور صالحانہ کردار پر مبنی ایک ایسا گروہ تیار کرنا چاہتے تھے ۔جو نہ صرف ملک پاکستان کی بلکہ ساری دنیا کی سیاست، معیشت ،مالیات ،علوم و آداب اور عدل و انصاف کی باگیں اپنے ہاتھ میں لے سکے۔مولانا مودودیؒ ایک اعلیٰ درجے کے انسان تھے ان کے بارے میں یہ کہنا کے انہوں نے اپنے مخالفین کو گالیاں دیں یا غیر معیاری الفاظ استعمال کیے ،ایک ایسا الزام ہے جس کا آج تک کبھی کوئی ثبوت نہیں پیش کر سکا۔مولانا مودودیؒ کی مسلم لیگ سے لاکھ مخالفت سہی لیکن ان کی ذات سے تمام اختلافات کے باوجود اگر تقویت پہنچی تو مسلم لیگ اور تحریک پاکستان کو پہنچی ۔پاکستان کی تعمیر کے کام میںان پر اتنا ہی اعتماد کیا جا سکتا ہے ۔جتنا قائد اعظم اور دوسرے بانیانِ پاکستان پر کیا جا سکتا ہے۔پاکستان کا تحفظ نظریہ پاکستان کے تحفظ سے وابستہ ہے۔اس دو قومی نظریے کے تحفظ کے لیے کسی رہنما نے مولانا مودودیؒکے برابر جدوجہد نہیں کی اوراس حقیقت کو قیامت تک کوئی نہیں جھٹلا سکتا۔
پاکستان بننے کے اتنے سال بعد بھی پاکستان ایک اسلامی ریا ست نہیں بن سکا ۔آج پاکستان میں اسلامی نظام نافذ نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان میں ہر نعمت موجود ہونے کے باوجود ہر طرف ایک گھٹن کی فضا ہے۔کسی بھی معا شرے کی تعمیر و ترقی میں والدین ،اساتذہ اور علماء کا اہم کردار ہوتا ہے ۔عصر حاضر میں افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کے ہمارے اساتذہ اور علماء دونوں ملک میںاسلامی نظام نافذ کرنے کے لیے نہ تو قوم کی تربیت کر رہے ہیں نہ کوشیش۔آج مولانا مودودیؒ کی جدو جہد کو سامنے لانے کا مقصد یہی تھا۔کہ یہ سب عظیم لوگ تو اپنا کام کر کے چلے گئے ۔اب اس ملک میں اسلامی نظام نا فذ کرنے کا ذمہ دار کون ہے۔اس نظام کو نافذ کرنے کے لیے ہم سب کو کوشیش کرنی چاہیے ہم سب جس جگہ جس حیثیت میں بھی ہیں ۔ہمیں ہمیشہ اپنے دین اور ملک پاکستان کے لیے مخلص ہونا چاہیے۔

حصہ