بارش، پیٹرول، شوبز اور سوشل میڈیا

643

ملکی و سماجی معاملات پر عوام کی گہری نظر اور شمولیت کے ساتھ یہ ہفتہ بھی سوشل میڈیا پر مختلف موضوعات کے ساتھ زیر بحث رہا۔سینیٹ الیکشن کی وجہ سے اور ملک بھر خصوصاً کراچی و سندھ میں مون سون بارشوں کے اثرات و نتائج بھی سماجی میڈیا پر خوب زیر بحث رہے ۔جہاں سندھ کا اہم ڈویژن تھرپارکر مون سون برسات سے لہلہا اٹھا اور نئی زندگی نے کروٹ لی وہاں حیدرآباد و کراچی میں معصوم بچوں سمیت کوئی23افراد کی ہلاکت بارشوں کے آفٹر ایفیکٹس کے طور پر ہوئیں جن میں کرنٹ لگنے سے ہلاکتیں بھی شامل ہیں ۔ کے الیکڑک نے کہاکہ ہم نے پہلے ہی الرٹ اور احتیاطی تدابیر جاری کی تھیں، لیکن بچے تو بچے ہیں ، بارش بھی انجوائے نہ کریں تو کیا کریں۔ سوال یہ تھا کہ آپ کروڑوں ، اربوں روپے کما کر کیا خرچ کر رہے ہیں ؟ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق جنوبی ایشیا میں مون سون بارشوں میں 600 کے قریب ہلاکتیں اور سیکڑوں نقل مکانی و فصلیں تباہ ہوئی۔ سوشل میڈیا پر حکومتی کار کردگی کا پہلے سے زیادہ پول کھولا گیا ، البتہ سماجی میڈیا کی اہمیت سمجھنے والے سیاست دانوں نے بھی اپنی ٹیموں کا بھر پور استعمال کیا اور اپنی کار کردگی بھی سماجی میڈیا پر پھیلاتے رہے۔ گورنر سندھ اور میئر کراچی وسیم اختر نے تباہی کا اثر زائل کرنے اور موسم کی انجوائے منٹ محسوس کرانے کے لیے مشہور کیفے پیالہ پر ساتھ چائے پی ۔ اس ایونٹ نے سوشل میڈیا پر خوب بحث چھیڑی لوگوں نے ان تصاویر کے ساتھ جس میں شہر کے مختلف علاقے زیر آب اور مدد سے محروم تھے دوسری جانب میئر اور گورنر چائے کے مزے لے رہے تھے اُسے اپنے اپنے پارٹی تعلق کی مناسبت سے خوب نشانہ بنایا اور سراہا۔تحریک انصاف کے سپورٹرز اسے عوامی نمائندوں کا عوام کے درمیان ہونا قرار دیتے رہے جبکہ پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی اس پر ذمہ داریوں سے غفلت کے تناظر میں تنقید کرتے نظر آئے ۔طارق رحمٰن تصویر پر تبصرہ لکھتے ہیں کہ ’’تصویر میں پی ٹی آئی کے فیشل زدہ گورنر عمران اسماعیل اور متحدہ کے بدنام زمانہ مئیر بارش میں کراچی کی تباہی کے دوران گرما گرم چائے پراٹھے سے لطف اندوز ہو رہے ہیں ۔دوسری تصویر ڈوبتے ہوئے کراچی کی ہے جس میں جماعت اسلامی کے بینر میں کراچی کو عزت دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ باقی تصاویر میں ان دونوں کے ہاتھوں کراچی کی جو عزت افزائی ہو رہی ہے اس کی ایک جھلک ہے۔عمران اسماعیل ہوں یا وسیم اختر انکو کیا لعنت ملامت کرنی مجھے شکوہ تو سٹاک ہوم سنڈروم کی بیماری میں مبتلاء اہل کراچی سے ہے۔ اس نفسیاتی بیماری میں مبتلا مریض کو اپنی بیماری سے ہی محبت ہوجاتی ہے۔الیکشن کے وقت نہ تحریک انصاف نے اپنا کوئی کارنامہ پیش کیا تھا نہ کوئی وعدہ وعید کیا تھا ۔رہ گئی متحدہ تو اس نے تو ان اہل کراچی کو نو سو جوتے بھی مارے ہیں اور نو سو پیاز بھی کھلائے ہیں ۔اب اگر لوگ ان کو ووٹ دیتے ہیں تو قصور تو ان ووٹرز کا ہے۔کراچی والے متحدہ کے ہاتھوں ذلیل ہونے کا عالمی ریکارڈ رکھتے ہیں۔تو بھئی پیارے کراچی والو۔ہور چوپو۔۔ کریلے بو کر آموں کی فصل تو نہیں حاصل ہوسکتی۔اب بلبلانے کی کیا ضرورت ہے۔یادش بخیر ۔وہ بھی کیا دن تھے جب پروفیسر عبدالغفور احمد۔ شاہ احمد نورانی۔ عبدالستار افغانی جیسے لوگ کراچی کی نمائندگی کرتے تھے کراچی میں پانی کی سپلائی کیلیے K1 K 2 اور K3 جیسے منصوبے بنا کرتے تھے۔ بارش سے پہلے نالوں کی صفائی اور بارش کے بعد جراثیم کش دوائیوں کا چھڑکاؤ ہوا کرتا تھا۔ لیکن پاکستان کے سب سے تعلیم یافتہ شہر کو اور بزعم خود سب سے باشعور لوگوں کو ایسی اول جلول سہولیات کی سرے سے کوئی ضرورت ہی نہیں ہے۔‘‘
سندھ حکومت ، خصوصاً وزیر بلدیات سعید غنی بھی اپنی ٹیم کے ساتھ میدان عمل میں نظر آتے رہے ۔لمحہ لمحہ اپنی کار کردگی کے ساتھ ساتھ پاکستان کے دیگر صوبوں سمیت دنیا بھر میں جہاں بھی بارش کے پانی نے مسائل کھڑے کیے اُسے وہ عوام کی توجہ میں لاتے رہے کہ بارش کے بعد پانی جمع ہونا عام سی بات ہے ۔ فیض اللہ خان اس حوالے سے اپنی یادداشت لکھتے ہیں کہ ’2008 میں ہونے والی بارش میری یاداشت کے مطابق یوں بدترین تھی کہ ہلاکتوں کی تعداد سو سے اوپر پہنچ چکی تھی بیشتر افراد کرنٹ لگنے یا ہورڈنگز گرنے کے سبب جان سے گئے۔ خدا کا شکر ہے کہ اسکے بعد عدالت نے ان دیو ہیکل بورڈز کی تنصیب کا سخت نوٹس لیا .بتدریج ہماری جان چھوٹی مگر کرنٹ کے مسئلے کا حل نہ نکل سکا شاید اسکی وجہ کے الیکٹرک کا ایم کیو ایم پیپلزپارٹی کو نوازنا ہو .ایک بڑی حقیقی وجہ شہریوں کی بد احتیاطی بھی ہے 2۔ سال کے فرق سے ہونے والی بارشوں میں وہی علاقے زیادہ تباہی کا نشانہ بنے جو آج بھی بنے ہیں ۔کچی آبادیاں ،نالوں پہ پکی تعمیرات ،نیم دلی سے بنائے گئے ڈیم ،سرکاری اداروں کی رشوت ستانی کے عوض خاموشی سیاسی مفادات ، ان سب نے ملکر شہر کو کہیں کا نہ چھوڑا ۔جب گزشتہ بارش میں سیاسی ضرورت تھی تو عزت ماآب عارف علوی تین فٹ پانی میں تیرہ فٹ طویل کشتی لیکر اتر گئے آج راوی انکے نصیب میں چین لکھتا ہے تو بیوی بچوں کیساتھ اسلام آباد کے مہنگے علاقے میں ٹریفک بند کراکے روٹیاں توڑ رہے ہیں۔کراچی کی حالت پہ اب افسوس بھی نہیں ہوتا بے حسی سی ہے جو قلب و ذھن کو جکڑ چکی کراچی میں جہاں رہائش ہے وہاں اور قریبی مرکزی سڑک بارش کے پانی سے مکمل صاف ہے البتہ بتی ایسے ہی غائب ہے جیسا کہ تحریک انصاف کے نمائندے۔ پچھلے پندرہ دن یہاں سے کافی دور کوٹلی بالا مانسہرہ میں گزارے جہاں چوبیس میں سے پچیس گھنٹے بارش رہتی ہے پانی تو چلیں اس واسطے نہیں رکتاکہ پہاڑی علاقہ ہے لیکن لائٹ اس طوفانی بارش میں بھی سنگ رہتی یا زیادہ سے ذیادہ کچھ خاص وقت کے لیے روٹھ جاتی پھر آجاتی یہاں کے تو دکھڑے ہی اور ہیں۔ جس ٹرین سے واپسی تھی اسے پیر کی صبح دس بجے پہنچنا تھا رات نو بجے کینٹ اسٹیشن پہنچی واش روم میں پانی تھا نہ کوئی تسلی دینے والا۔ عورتیں بچے بزرگ رلتے رہے لیکن کسی کو کیا فرق پڑتا ہے۔ خیر کہنے کا مقصد بس اتنا سا ہے کہ اگلے برس اور اس سے اگلے برس جب بھی بارش ہوئی معاملہ یونہی رہے گا کیونکہ یہ ملک ستر سال سے نازک صورتحال سے گزر رہا ہے ، آئندہ کے ستر بھی ایسے ہی گزریں گے۔‘‘ یہ تو تھا برسات کا حال ، اب ایک نظر ہماری شو بز انڈسٹری پر بھی کیوںکہ پاکستانی شو بز انڈسٹری ( لاکھوں کروڑوں سماجی میڈیا فالورز سے بھری پڑی ہے )ان کی وجہ سے مستقل کسی نہ کسی شکل میں سوشل میڈیا پریہ سب زیر بحث آتی رہی ہے ۔ اس ضمن میں کبھی صبا قمرتصاویر کا معاملہ ہو، مہوش حیات ایوارڈ ہو، نیلم منیر یا اروہ فرحان کی تصاویر ہوں، لکس ایوارڈ میں اقرا کی منگنی ہو، مرید عباس قتل کیس، کبھی علی ظفر میشا شفیع کیس، تو کبھی محسن عباس فاطمہ سہیل اور اب فردوس جمال و ماہرہ خان۔ ان کے ساتھ ہی ہمارے اسٹار کرکٹر حسن علی اور بھارتی فلائیٹ انجینئر شمیعہ آرزو اور عماد وسیم کی شادی کا معاملہ بھی خوب مبارک بادوں ،تبصروں اور تجزیوں سے بھرارہا۔
ہوا یہ کہ مثبت موضوعات سے پاک ، لغو تفریح اور لا یعنی گفتگو سے بھرپور اے آر وائی چینل کے ایک مارننگ شو میں ملک کے معروف سینئر اداکار فردوس جمال نے ماہرہ خان کے حوالے سے اپناتبصرہ پیشگی معذرت کرتے ہوئے یوں کیا کہ ’’وہ اوسط درجہ کی ماڈل ہیں ، وہ اچھی اداکارہ یا ہیروئن نہیں ہیں ۔ ان کی عمر بھی زیادہ ہے ، اس عمر میں ہیروئن کے کردار کے بجائے ماں کے کردار ادا کرنے چاہیے ‘‘۔یہ مشورہ یا تبصرہ ماہرہ خان سے زیادہ اُن کے ٹوئٹر پر2ملین فالوورز پر بجلی بن کر گرا۔پہلے تو کئی ہم خیال اداکار جن میں شان، فہد مصطفیٰ ، مرزا گوہر ، علی کاظمی، طوبیٰ صدیقی، میرا سیٹھی، ماور ا، نادیہ حسین، عینی خالد، ہمایوں سعید،ژائلہ سرحدی اور خود اس شو کے میزبان فیصل قریشی نے بھی حیرت ، شاکڈ، غیر ضروری ہونے کا اظہار کیا۔ماہرہ نے سوشل سائٹ انسٹا گرام پر اپنے ہاتھ سے لکھی تحریر کے ذریعے سینیئر اداکار کی تنقید کا جواب دیااور اپنے حمایتیوں کا شکریہ ادا کیا۔انہوں نے سینئر اداکار کی تنقید کے جواب میں اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے لکھا کہ نفرت سے بھری اس دنیا میں پیار کا انتخاب کریں۔ لوگوں کی رائے کو برداشت کرنا سیکھیں اور اپنی لڑائی اس مائنڈ سیٹ کے خلاف لڑیں جو کامیاب عورت کو ایک ڈراؤنی سوچ سمجھتا ہے۔ دوسری جانب فردوس جمال کے بیٹے سمیت ان کے دیگر چاہنے والے بھی فردوس جمال کے دفاع میں پیش پیش رہے۔ان کے بیٹے کے مطابق فردوس جمال کے اس بیان کے بعد سے اْن کو عورت مخالف بھی کہا گیا۔اْن کے بیٹے نے ان تمام باتوں کا جواب دیتے ہوئے لکھا کہ ’’اگر وہ عورت مخالف ہوتے تو وہ اسی پروگرام میں دیگر اداکاراؤں بشمول ثانیہ سعید ، صبا قمر اور مہو ش حیات کو نہ سراہتے۔‘‘اس کے علاوہ دیگر دلچسپ کمنٹس کچھ یوں تھے ۔’’فردوس جمال جیسے سینئیر آرٹسٹ کو پورا حق حاصل ہے کہ وہ اپنے شعبے سے تعلق رکھنے والے کسی جونیئر کے کام یا صلاحیت پر تنقید کرسکے۔ ان کی رائے کا احترام کریں۔ اپنے آرٹسٹوں کی قدر کرنا سیکھیں۔ آپ ان کی عزت نہیں کریں گے تو کوئی نہیں کرے گا۔‘‘ایک اور مبصر حقائق پر سے پردہ اٹھاتے ہوئے لکھتے ہیں ’’ویسے آنجہانی اداکار محمد علی صاحب 55 سال کی عمر میں بھی 40 سال کی والدہ کو آکر خبر سنایا کرتے تھے ” ماں، دیکھ ماں تیرا بیٹا آج میٹرک پاس کر آیا”۔غلام محی الدین 60 سال کی عمر تک ہیرو آتے رھے جبکہ انہیں دادا کے رول کرنا چاہیے تھے۔فردوس جمال کی ذاتی رنجش لگ رہی ماہرہ کے خلاف۔‘‘ اس ایشو کو مزید تیزرنگ دیتے ہوئے یہ بھی لکھا گیاکہ ’’فردوس جمال نے جو بھی کہا وہ ٹھیک ہے لیکن یہ #MeToo والی انٹیاں جینے ہی نہیں دے رہیں۔‘‘ اب یہ ’می ٹو ‘والی انٹیاں کون ہیں ؟ یہ الگ بحث ہے۔ایک خاتون نے اس تناظر میں اہم بات یہ لکھی کہ ’’سلیبرٹیز کو بات کرتے وقت معاشرے کے حالات اور اثرات پر بھی نظر رکھنی چاہئیے۔ نہیں پسند تو خاموش رہیں۔‘‘اب آپ اندازہ کر لیں کہ اس طرح یہ موضوع ٹوئٹر تاپ ٹرینڈ کی فہرست میں جگہ بنانے میں کامیاب رہا۔
اس کے علاوہ اس ہفتہ کے کچھ دلچسپ ٹرینڈ یہ رہے ، جنہیں دیکھ کر آپ فوراً اندازہ کر لیں گے کہ ان کے پیچھے کیا سوچ کار فرما رہی۔ ’’شہید زندہ ہے ۔ بھٹو زندہ عوام افسردہ۔ RentADiesel۔ سینٹ چیئرمین ۔اپوزیشن بن آرام ۔پاکستان کی جیت ۔پٹواری کون ہوتے ہیں ۔پیٹرول پرائس۔ ڈیزل کا مذہب کارڈ نا منظور‘‘۔ سینیٹ چیئرمین کے حوالے سے اپوزیشن کی جانب سے حکومت کودھچکا پہنچانے کی تحریک ناکام رہی۔ ویسے بھی جن قوتوں نے سنجرانی صاحب کو اس مقام پر پہنچایا تھا وہ کیسے ان کا جاناگوارا کر لیتی ۔ ویسے مقابلہ صرف 3ووٹوں کی کمی کی وجہ سے متاثر ہوا، جن میں سے دو ووٹ جماعت اسلامی کے تھے جسے انہوں نے بہت پہلے ہی استعمال کرنے سے منع کر دیا تھا۔مریم نواز نے ٹوئیٹ میں لکھا کہ ’65 ووٹ والے ہار گئے 36ووٹ والے جیت گئے‘‘۔ اسی طرح ’’ بیکری والوں نے پٹواریوں کی خریدی ہوئی مٹھائیاں واپس لینے سے انکار کر دیا۔پٹواریوں کے ترلے منتیں جاری ۔ہمیشہ فیصلے سے پہلے مٹھائی بانٹنے والوں کا احتجاج۔اسی طرح پیٹرولیم مصنوعات پر بھی سخت رد عمل آیا ۔’’پاکستان کی تاریخ میں مہنگا ترین ڈالر اور مہنگا ترین پیٹرول ہے آج کل۔ پچھلے 60 سالوں کو گند صاف کردیا کپتان نے۔‘‘اسی طرح ایک اور ناقد نے ماضی سے مقابلہ کرتے ہوئے لکھاکہ ’’وہ چور تھے گیس 103روپے مل رہی تھی اب ہمیں 123روپے مل رہی ہے ۔پیٹرول 65کا مل رہا تھا اب 113روپے کا مل رہا ہے وہ چور تھے۔مہنگائی نہیں تھی بجلی سستی تھی وہ چور تھے صنعت کار ،سرمایا کار ،مزدور ،کسان سب خوش تھے وہ چور تھے۔عوام کتنی سمجھ دار ہے دیکھ لیں۔‘‘ اسی طرح اس ہفتہ مولانا فضل الرحمٰن کے خلاف بھی خاصے ٹرینڈ بنے گو کہ ان کی ٹیم نے بھی اپنے ملین مارچ و دیگر سیاسی سرگرمیوں کے تناظر میں ٹرینڈ بنائے تاہم پی ٹی آئی کی جانب سے مہم زیادہ بھرپور اور جوابی تھی۔

حصہ