عقل، علم اور عشق

1035

سیدہ عنبرین عالم
طارق اب 19 سال کا ہوچکا تھا۔ ابّا حجام تھے اور طارق کو 8 سال کی عمر سے کام سکھا رہے تھے۔ اب تو طارق ابّا کی غیر موجودگی میں بھی بڑے اچھے طریقے سے دکان سنبھال لیتا تھا۔ وہیں ایک صاحب روز اخبار پڑھنے آتے تھے، جنہیں طارق اکرام چچا کہتا تھا۔ انہوں نے طارق کو اردو پڑھنا لکھنا بھی سکھا دیا تھا اور روز ایک رکوع قرآن بھی ترجمے کے ساتھ پڑھا دیا کرتے تھے۔ طارق کا تو قرآن میں ایسا دل لگا کہ جب ذرا وقت ملتا قرآن لے کر بیٹھ جاتا، ایک ایک آیت پر غور کرتا کہ آخر میرا رب مجھ سے کیا کہنا چاہتا ہے۔ ساری ساری رات قرآن لے کر بیٹھا رہتا، نہ سونے کا ہوش، نہ کھانے کا ہوش، زیادہ بات چیت کرنا بھی چھوڑ دی، بس اپنے کام سے کام… نہ دوستیاں، نہ ٹی وی، موبائل کا شوق۔ عجیب طرز کا بچہ تھا۔ طارق کے ابا خوش بھی تھے کہ بچہ اتنا نیک نکلا، اور پریشان بھی تھے کہ عام بچوں والی کوئی بات نہیں ہے۔ سوچا کہ شادی کردیں طارق کی، شاید تھوڑا دنیا کی طرف راغب ہو۔ مگر طارق نے صاف منع کردیا، کہا کہ میرے پاس وقت نہیں ہے بیوی بچوں کے لیے۔ بس یہ ایک بات نہ مانی، باقی جو ماں باپ کہہ دیں، حکم سر آنکھوں پر۔
آخر طارق کے ابا نے اکرام چچا سے بات کی کہ آپ اس کو اس رجحان کی طرف لائے ہیں، آپ ہی اس کی اصلاح بھی کریں۔ ایک پورا دن طارق کو چھٹی دی۔ وہ اور اکرام چچا مسجد میں بیٹھ کر باتیں کرنے لگے۔ طارق ہمراہ کچھ بتاشے، چنے وغیرہ لے آیا۔ اکرام چچا پہلے تو اِدھر اُدھر کی باتیں کرتے رہے، پھر پوچھا ’’بیٹا تمہارے ابا بتا رہے تھے کہ تم رات کو سوتے بھی نہیں ہو، قرآن پڑھتے رہتے ہو، شادی سے بھی انکار کردیا ہے، کیا وجہ ہے؟‘‘
طارق مسکرایا ’’ابا نے آپ سے کہا ہے مجھ سے بات کرنے کے لیے؟‘‘ وہ سمجھ گیا تھا۔ ’’چچا! آپ خود کہہ رہے ہیں کہ میں ساری رات قرآن پڑھتا ہوں، فجر پڑھ کر سوتا ہوں، ابا دس بجے اٹھا دیتے ہیں، پھر سارا دن کام، رات کو 9 بجے دکان بند ہوتی ہے، پھر گھر کے بھی کام ہوتے ہیں، رات ایک بج جاتا ہے، کیا فائدہ کسی لڑکی کی زندگی برباد کرکے! مجھے تو رب کو راضی کرنا ہے، مجھے دنیاوی چیزوں سے کچھ لینا دینا نہیں، پھر ابھی میری عمر بھی شادی کی نہیں ہے‘‘۔ اس نے بتایا۔
’’میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا تو یہ حکم نہیں ہے، وہ سوتے بھی تھے، رات کو عبادت بھی کرتے تھے، وہ جہاد بھی کرتے تھے اور شادیاں بھی کرتے تھے۔ ہمارا دین رہبانیت نہیں سکھاتا۔ یہ دینِِ فطرت ہے۔ تم جاگ کر اپنی ذہنی صلاحیتیں متاثر کررہے ہو۔ نیند اللہ کا نظام ہے، ذہنی اور جسمانی آرام کے لیے فطرت سے مت لڑو‘‘۔ چچا نے سمجھایا۔
طارق کے چہرے پر وہی دائمی مسکراہٹ تھی۔ ’’چچا میں جب صحابہ کرامؓ کے واقعات پڑھتا تھا کہ وہ رات رات بھر جاگ کر عبادت کرتے تھے، تو سوچتا تھا کہ ایسے کیسے ممکن ہے؟ پھر میں نے دیکھا کہ لڑکے ساری ساری رات موبائل پر پیکیج لے کر بات کرتے ہیں، نیٹ چلاتے ہیں، تب مجھے سمجھ میں آیا کہ اصل چیز عشق ہے، جذبہ ہے۔ جس سے عشق ہو اُس کے لیے ساری قربانیاں دی جا سکتی ہیں۔ صحابہ کرامؓ کو میرے اللہ سے اس قدر عشق تھا کہ اللہ کے سوا اُن کو کسی چیز کی ضرورت نہیں تھی۔ ساری، ساری رات جاگ کر، پیٹ پر باندھ کر بھی وہ جنگ کے میدانوں میں اپنی سے دگنی، تگنی طاقتوں کو شکست دے دیتے تھے۔ روحانی قوت زیادہ ہو تو طبعی ضروریات صفر ہوجاتی ہیں۔ لڑکے تو شیطانی کاموں کے لیے رات رات بھر جاگتے ہیں، پھر مجھ پر آپ کو کیا اعتراض ہے؟‘‘ اس نے نرمی سے پوچھا۔
چچا نے طارق کے سر پر ہاتھ رکھا۔ ’’ماشاء اللہ تم بہت اچھے بچے ہو، اللہ مزید نیک ہدایت دے۔ بیٹا ابھی تم بتدریج آگے بڑھ رہے ہو، تمہارا دل لگ رہا ہے، مزا آرہا ہے۔ مگر یہ کیفیت ہمیشہ نہیں رہے گی، میں یہ نہیں کہتا کہ تمہارے ایمان میں کمی ہوجائے گی، لیکن شوق اور جذبہ اتنا نہیں رہے گا، اس نکتے پر آکر عشق کو اگر عمل کی طرف نہ موڑا جائے تو عشق ادھورا رہ جاتا ہے۔ صحابہ کرامؓ نے جہاد سے عشق کو قائم رکھا‘‘۔ انہوں نے کہا۔
’’پھر صوفی حضرات کو آپ کس درجے میں رکھیں گے، وہ عشق بھی کرتے ہیں، امن بھی چاہتے ہیں‘‘۔ طارق نے پوچھا۔
’’بیٹا اکیلا عشق گمراہی ہے، چاہے وہ عشق میرے رب کی جناب میں سرنگوں ہی کیوں نہ ہو۔ صرف وہ عشق درست ہے جس پر عقل اور علم کے پہرے ہوں۔ اب جیسے تم سمجھتے ہو کہ صوفیہ امن چاہتے ہیں، جب کہ صحابہؓ جہاد کرتے تھے، تمہارے اندر عقل اور علم کی کمی ہے، ورنہ تمہیں پتا چلتا کہ صوفیہ وہی ہیں جو شیطان کے خلاف تلوار اٹھائیں۔ دنیا میں امن اُس وقت تک قائم نہیں ہوسکتا جب تک شیطانی قوتوں کے خلاف جہاد نہ کیا جائے۔ کیا میرے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے پیار، محبت سے تبلیغ کا راستہ نہیں اپنایا؟ مگر پورا عرب ان پر چڑھ دوڑا، ان کو ان کی دعوت سمیت ختم کردینے کا ارادہ تھا، پھر اللہ کے حکم سے جہاد شروع کیا گیا‘‘۔ اکرام چچا نے کہا۔
’’یعنی اگر جہاد غلط چیز ہوتی تو میرے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس میں ملوث نہ ہوتے۔ پھر آج کل جہاد کو اس قدر برا کیوں سمجھا جاتا ہے؟ صرف وہ علما، مولوی اور صوفیہ قابلِ قبول ہیں جو جہاد کی بات نہ کریں۔ کیا ہم اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے راستے سے منحرف ہوچکے ہیں، یا جہاد ہر مسلمان پر فرض نہیں ہے؟‘‘ طارق نے اکرام چچا سے پوچھا۔
چچا اکرام مسکرانے لگے۔ ’’بیٹا جہاد اپنی ذات میں کوئی چیز نہیں ہے، جہاد کے لغوی معنی کوشش کے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ مسلمان کا جہاد سے کیا تعلق ہے؟ بیٹا! فرض کرو تمہاری جو بال کاٹنے کی دکان ہے، وہاں کوئی اور شخص گھس آئے، وہاں کوئی اور کاروبار شروع کردے، تم پر ظلم کرے، دکان میں اپنی مرضی چلائے، تمہارے ابا کے خلاف نازیبا بولے، غلط کارروائیوں سے تمہارے ابا کو زچ کرے تو تم کیا کرو گے؟‘‘ انہوں نے پوچھا۔
’’ظاہر ہے میں کوشش کروں گا کہ دکان پھر سے میرے ابا کے کنٹرول میں آجائے‘‘۔ طارق نے جواب دیا۔
’’بس بیٹا! یہی ساری بات ہے۔ یہ جو ہماری دنیا ہے اسے میرے اللہ نے بنایا ہے، اس پر اللہ کے قانون کے مطابق جئیں گے تو دنیا بھی سلامت، ہم بھی سلامت، آخرت بھی محفوظ… ورنہ تباہی۔ اب ہوا یہ کہ شیطان نے کچھ گمراہ انسانوں کے ذریعے دنیا کو غلط قوانین اور بری عادات میں پھنسا دیا۔ اب ہم چوں کہ اپنے رب کے قرابت دار بندے ہیں تو ہمارا فرض ہے کہ ہم دنیا پر اللہ کا کنٹرول بحال کرنے کی کوشش کریں، کیوں کہ اللہ ہمارا اپنا ہے، اس کے فائدے میں ہمارا فائدہ ہے۔ شیطان غیر ہے، دشمن ہے، اور وہ دنیا پر کنٹرول کا قانونی حق نہیں رکھتا، اس لیے وہ ہارے گا، اس کا ساتھ دینے والے بھی ہاریں گے‘‘۔ چچا نے سمجھایا۔
’’ہاں، اور اپنے اللہ کی حکمرانی بحال کرنے کی کوشش ہم کریں گے تو اسے جہاد فی سبیل اللہ کہا جائے گا، اور چوں کہ یہ جہاد شیطان کے خلاف ہے تو شیطانی قوتوں کو تو برا لگے گا، اس لیے آج کا ہر بکا ہوا عالم اور صوفی جہاد کے خلاف ہے۔ جو کام میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے، اسے آج گالی بنادیا گیا ہے‘‘۔ طارق نے کہا۔چچا اکرام نے اثبات میں سر ہلایا۔ ’’ہاں بیٹا! کچھ تو شیطانی قوتوں کی شرارت ہے اور کچھ ناسمجھ مسلمانوں کے غلط طریقہ اختیار کرنے کی وجہ سے جہاد بدنام ہوا۔ بہرحال اسلام یہ نہیں ہے کہ ساری رات نفل پڑھو، سارا دن وظیفے اور اذکار میں مصروف رہو لیکن اپنے اللہ کی حکمرانی قائم کرنے کی کچھ کوشش نہ کرو۔ میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی غارِِ حرا میں فکر و ذکر میں مصروف رہتے، لیکن جب اللہ کا حکم آگیا تو ان کی ساری توجہ دنیا پر اللہ کی حکمرانی قائم کرنے پر تھی۔ پہلے دل بدلے، پھر دنیا کے نقشے تبدیل ہوگئے۔ آج ہم اس لیے ناکام ہیں کہ ہم دین کے نام پر صرف اپنے حلیے بدلتے ہیں اور دل کالے ہی رہتے ہیں‘‘۔ انہوں نے کہا۔
طارق گہری سوچ میں ڈوبا ہوا تھا۔ ’’دل بدلنے کا مطلب ہے کہ دل کا مکین بدل جائے۔ اگر دل میں پہلے مال و عیال کی محبت جاگزیں تھی، تو اب مکمل سکونت رب کائنات کی ہوگئی۔ یہی ہوا تھا صحابہ کرامؓ کے ساتھ۔ اب یہ دل کا کھیل تو عشق ہے۔ آپ کہتے ہیں عشق پر علم و عقل کی نگہبانی لازمی ہے۔ یہ تو سراسر ذہنی اور دماغی کیفیت ہے، دماغ کا عشق سے کیا لینا دینا! دل کہتا ہے کہ اپنے رب کے عشق میں بغیر تلوار خالی پیٹ میدانِ بدر میں کود جائو، دماغ کہتا ہے کہ یہ عمل تو حماقت ہوگی‘‘۔ اس نے انتہائی اہم سوال کیا۔
چچا اکرام نے ستائشی نظروں سے طارق کو دیکھا۔ ’’کیا تمہیں معلوم ہے کہ عقل کیا ہے؟ بیٹا ایک پائو گوشت کے لوتھڑے کو دماغ کہتے ہیں، وہی تمہاری کھوپڑی میں ہے، وہی میری کھوپڑی میں… پھر کیا وجہ ہے کہ تم جیسے ہیئر اسٹائل بناتے ہو، وہ میں نہیں بنا سکتا، اور جو قرآن کی تشریح میں کرسکتا ہوں، وہ تم نہیں کرسکتے۔ یہی گوشت کا لوتھڑا آئن اسٹائن کی کھوپڑی میں کرامات دکھاتا ہے، آخر کیا وجہ ہے؟‘‘ انہوں نے پوچھا۔
طارق کچھ دیر سوچتا رہا۔ ’’دماغ کی مادی و روحانی حیثیت الگ ہے، ہر ایک کے دماغ کو کوئی طاقت کنٹرول کررہی ہے، اسی ایک پائوگوشت کے لوتھڑے میں کسی کو سرجری میں ماہر کردیا جاتا ہے اور کسی کے دماغ کو صرف اتنی طاقت دی جاتی ہے کہ وہ خربوزے بیچ سکے۔ کسی کا کوئی اختیار نہیں۔ میرے دماغ کو کون سی اور کتنی صلاحیت دی جائے گی، یہ فیصلہ میں نہیں کرسکتا، کوئی بھی نہیں کرسکتا۔ ہم نیکی کا فیصلہ بھی اپنے دماغ سے کرتے ہیں اور بدی کا بھی۔ کوئی ہے جو ہمارے دماغ میں خیال ڈالتا ہے‘‘۔ اس نے آخرکار جواب دیا۔
’’بالکل درست‘‘۔ چچا اکرام نے کہا۔ ’’دو طاقتیں ہیں جو ہمارے دماغ کو کنٹرول کرتی ہیں۔ کچھ خیال اللہ کی طرف سے ہوتے ہیں اور کچھ خیال شیطان کی طرف سے۔ اب دل فیصلہ کرتا ہے کہ کون سے خیال پر عمل کرنا ہے۔ اگر دل میں عشقِ الٰہی ہو تو درست فیصلہ ہوتا ہے۔ اگر دل میں شیطانی خواہشات متمکن ہوں تو شیطانی فیصلہ ہوتا ہے۔ اسی فیصلے کی بنیاد پر روزِ جزا ہمارا حساب ہوگا۔ یہ ہے دل کا دماغ سے تعلق۔ اگر عشقِ الٰہی میں ڈوبا ہوا شخص ہو تو اُس کے دماغ میں شیطانی خیال آتا ہی نہیں۔ جو اللہ کے محبوب ہوتے ہیں، وہ اللہ کے نور سے دیکھتے ہیں، ان کی ذہانت و فراست کا کوئی مقابلہ نہیں۔ اسی طرح جو لوگ شیطان کے انتہائی قریب ہوتے ہیں، وہ شیطانی دماغ کے حامل ہوتے ہیں، اتنے ذہین کہ انسان کی تباہی کے لیے ایٹم بم بنانے کا خیال ڈالنے کے لیے بھی شیطان انہی کو چنتا ہے۔ یہ ہے عشق اور عقل کا تعلق‘‘۔ انہوں نے بات مکمل کی۔
طارق کے چہرے پر اب پریشانی نہیں تھی۔ ’’میں سمجھ گیا، جو صحابہؓ بدر میں بغیر ہتھیار خالی پیٹ کود پڑے انہوں نے بھی عقل سے کام لیا۔ اصل میں انہوں نے اپنی جان کے بدلے جنت خرید لی، اپنے نفس کے بدلے جہنم سے نجات حاصل کرلی۔ یہ بہت سمجھ داری کا فیصلہ تھا۔ بے وقوف تو وہ لوگ تھے، جو چند ٹکے کی دنیاوی خواہشات کے بدلے اپنی ہزاروں سال کی ابدی زندگی برباد کربیٹھے‘‘۔ اس نے کہا۔
’’نہیں بیٹا!‘‘ اکرام چچا نے نفی میں سر ہلایا۔ ’’یوں تو ان کے عشق کو داغ دار نہ کرو، یعنی انہوں نے جو کیا وہ صرف جنت حاصل کرنے کے لیے کیا؟ انہیں اپنے رب سے عشق تھا ہی نہیں؟ بیٹا ایک روز حضرت رابعہ بصریؒ ایک ہاتھ میں چراغ اور دوسرے ہاتھ میں پانی کی بالٹی لے کر نکلیں، لوگوں نے پوچھا کہاں چلیں؟ انہوں نے فرمایا: چراغ سے جنت کو آگ لگا دوں گی اور پانی سے جہنم کو بجھا دوں گی تاکہ لوگ صرف میرے رب کے عشق میں نیک اعمال کریں، صرف رب کا عشق ہی ان کی زندگی کا ایندھن ہو، نہ کہ جنت کی طلب یا دوزخ کا ڈر‘‘۔ انہوں نے کہا۔’’مگر قرآن میں تو جگہ جگہ انسانوں کو نیک اعمال کی طرف راغب کرنے کے لیے جنت اور جہنم کا استعمال ہوا‘‘۔ طارق بولا۔
’’بیٹا! یوں تو انسان پہلے اونٹ پر سفر کرتا تھا، کیا تم اب بھی اونٹ اور گھوڑے استعمال کرتے ہو؟ بیٹا! جس طرح مادّی دنیا میں ترقی ہوتی ہے، اسی طرح روحانی دنیا میں بھی ترقی ہوتی ہے۔ اگر چھوٹے بچے کو چاکلیٹ کا لالچ دے کر یا سزا کا ڈر دے کر، امتحان میں محنت پر راضی کیا جاتا ہے تو انسانی تخلیق کے ابتدائی مرحلوں میں یہی طریقۂ کار انسان کو نیک اعمال کی طرف راغب کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ مگر اب تو انسانی امتحان کا اختتام ہے، اب اللہ انسان سے ذہنی و روحانی بلوغت کا مظاہرہ چاہتا ہے۔ اب لالچ اور سزا سے راستی کا راستہ زبردستی مسلط نہیں کیا جاسکتا۔ اب جو ہوتا، وہ عشق کی بنیاد پر ہوگا۔ بلکہ آج سے پندرہ سو سال پہلے بھی صحابہ کرامؓ نے جو کچھ کیا وہ عشق کے سبب تھا، نہ کہ جنت کی طلب میں۔ یہ تو شرک جیسا معاملہ ہوجائے گا‘‘۔ اکرام چچا نے سمجھایا۔
’’پھر بدر میں عقل کہاں ہے، صرف عقل اور بے پناہ عشق… نہ لالچ، نہ ڈر۔ عقل کیا ہے؟‘‘ طارق نے پوچھا۔اکرام چچا مسکرانے لگے۔ ’’ایک بات بتائو، اگر تمہارے ابا کی دکان پر کوئی اور زبردستی قبضہ کرلے تو تم اپنے ابا کی محبت میں اُس سے وہ دکان واپس لینا چاہو گے، اس میں تمہارا کیا فائدہ؟‘‘ انہوں نے پوچھا۔
طارق نے مسکرا کر کہا ’’چچا میرا ہی تو فائدہ ہے، دکان میری بھی تو ہے کیوں کہ میں ابا کا بیٹا ہوں۔‘‘
’’بالکل صحیح‘‘۔ اکرام چچا نے قہقہہ لگایا ’’بہت سمجھ دار ہوگیا ہے ہمارا طارق… بیٹا! ہم جو بھی کام اپنے رب کے عشق میں کرتے ہیں، اسی میں ہمارا فائدہ ہوتا ہے، کیوں کہ ہم اپنے اللہ کے نائب ہیں، اللہ کی ہر چیز دراصل ہماری ہے۔ اگر ہم دریائوں میں گٹر کا پانی ملائیں گے تو اللہ کا نقصان نہیں، بلکہ ہمارا نقصان ہے۔ ہم اللہ کی زمین کو برباد کریں گے تو ہمارا نقصان ہے۔ بلکہ تم اللہ کا کوئی بھی ایک حکم لے لو، اس حکم کو نہ مان کر دیکھو، آخر میں تمہیں پتا لگے گا کہ اللہ کا نہیں بلکہ تمہارا اپنا نقصان ہوا ہے۔ اس لیے وہ چند صحابہ کرامؓ جو بدر میں لڑ رہے تھے، وہ تمام انسانیت کو بچانے کے لیے شیطان سے برسرپیکار تھے، وہ اپنی نیابت بچا رہے تھے۔ عشقِ الٰہی میں سارا معرکہ تھا، مگر فائدہ اوّل وآخر انسانیت کو ہوا، یہ تھی عقل‘‘۔ انہوں نے کہا۔
’’اور علم کیا ہے؟ میرا خیال ہے کہ علم یہ ہے کہ مجھے بھی بال کاٹنے کا ہنر آتا ہو، تو ہی میں ابا کی دکان چلا سکتا ہوں، نیابت کا حق ادا کرسکتا ہوں، ورنہ میں ناکام ہوجائوں گا‘‘۔ طارق نے ایک بات کہی۔
’’ہاں بیٹا! علم جو اللہ نے ہمیں سکھایا، جو کائنات چلانے کا اللہ کا طریقہ کار ہے، وہ تمہیں معلوم ہونا چاہیے۔ جو قوانین اللہ نے بنائے، وہ معلوم ہوں اور ان پر عمل ہو۔ اور علم کا واحد منبع صرف میرے اللہ کی ذات ہے۔ تم دیکھ رہے ہو سائنس اپنی انتہائوں کو چھو رہی ہے، مگر انسان تباہ و برباد ہے، کیوں کہ اس علم کا عشق سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ علم، عقل اور عشق ساتھ چاہیے‘‘۔ اکرام چچا بولے۔
’’علم تو درحقیقت وہ ہے جو میرے رب نے نازل کیا، باقی سب تو کفر ہے‘‘۔ طارق نے خیال ظاہر کیا۔
’’نہیں بیٹا، جو اللہ کی کتاب ہے وہ تو آئین ہے، تربیت ہے، عشق کی کنجی ہے۔ اور علم وہ ہے جس کی بنیاد پر فرشتوں نے آدم کو سجدہ کیا۔ ہم اپنے رب کے نائب ہیں، میرا اللہ خالق ہے، خالق کے نائب کو تخلیق کے راز معلوم ہونے چاہئیں، ورنہ ہم مغلوب ہوجائیں گے اور شیطان فاتح ہوگا۔ اسی لیے مومن کو کائنات تسخیر کرنے کا حکم دیا گیا۔ مومن کائنات تسخیر کرے گا تو عشق میں ڈوب کر کرے گا۔ عشق میں ڈوبا ہوگا تو میرا اللہ رہنمائی کرے گا۔ پھر یہ علم کسی طرح بھی انسان یا زمین یا کائنات کے لیے نقصان دہ نہ ہوگا‘‘۔ اکرام چچا نے تفصیل سے سمجھایا۔
’’اچھا اکرام چچا‘‘۔ طارق مسکرایا۔ ’’اب آپ کو بھی میرے عشق میں عقل، علم اور عمل نظر آئیں گے۔ اللہ نے چاہا تو وقت نکال کر جتنی کتابیں پڑھ سکا، پڑھوں گا اور عشق پھیلائوں گا‘‘۔ وہ بولا۔
’’شاباش! اللہ تمہیں نیک ہدایت دے اور دنیا و آخرت کی کامیابی سے نوازے‘‘۔ اکرام چچا نے دعا دی۔

حصہ